دودھ کا پیالہ
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے اور فرمایا:’’رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آ پ کو ﷲ پاک کا جو حکم ہوا ہو۔ اس کو کر گزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ﷲ کی !قسم ہم آپ کو بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہتے۔ جیسے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کے رب قتال کریں اور ہم آپ کے ساتھ قتال کریں گے۔ دائیں سے بائیں سے، آگے سے اور پیچھے سے۔‘‘ یہ سن کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک روشن ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھوک اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ حال یہ تھا کہ کانوں سے سننے کی طاقت اور آنکھوں سے دیکھنے کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔ یہ حال صرف میرا ہی نہیں تھا بلکہ باقی دو ساتھی بھی اسی حالت میں تھے۔ ہم تینوں ساتھی ایک طرف کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف اس امید سے دیکھ رہے تھے کہ شاید کوئی ہماری حالت کا اندازہ لگا لے اور ہم کو اپنے گھر کھانا کھلانے ساتھ لے جائے مگر کوئی ہماری طرف توجہ نہیں کرتا تھا۔ کوئی ساتھ لے کر بھی کیسے جاتا کہ سب ہی کے حالات ایک سے تھے۔ بھوک سے اب کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔ آخر کار ایک ایک کرکے تمام لوگ جانے لگے۔ ایسے میں ایک صاحب ہم تینوں ساتھیوں کو اپنے ہمراہ لے کر چلے۔ یہ ﷲ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ جو ہمیں اپنے ساتھ لے آئے۔
ﷲ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر ان دنوں تین بکریاں تھیں۔ جن کا دودھ تمام گھر والوں میں تقسیم فرماتے تھے۔ یوں ان تین بکریوں کے دودھ میں ہم تین ساتھیوں کا حصہ بھی شامل ہو گیا اور ہم تینوں ساتھیوں کا اس دودھ پر گزارہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بکریوں کا دودھ نکالا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان دودھ تقسیم کردیتے اور اپنا حصہ اٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت باہر تشریف لے گئے اور دیر تک تشریف نہ لائے۔ تینوں بکریوں کا دودھ نکالا گیا اور سب میں تقسیم کیا گیا اور ہم سب نے اپنے حصہ کا دودھ پی لیا مگر جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات دیر تک تشریف نہ لائے۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی انصاری کے گھر دعوت ہے اور آپ کھانا کھا کر گھر آئیں گے۔ لہٰذا میں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کا دودھ بھی پی لیا مگر دودھ پینے کے بعد خیال آیا کہ اگر یہ خیال غلط ہوا تو بڑی شرمندگی ہوگی۔ میرے دونوں ساتھی اپنے اپنے حصے کا دودھ پی کر سو چکے تھے مگر میری نیند اس خیال کے بعد اڑ چکی تھی اور میں اس فکر میں تھا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر آئیں گے اور اپنے حصے کا دودھ نہ پائیں گے تو میرے لیے بددعا کریں گے۔
اسی دوران پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تو اتنی آواز سے سلام کرتے کہ جاگنے والا سن لے اور سونے والے کی نیند نہ خراب ہو۔ گھر آنے کے بعد پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پینے کے برتن پر نظر ڈالی تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نظر نہ آیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے تو میرے خوف و ہراس کی کوئی انتہا نہ تھی کہ اب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے میں برباد ہوجاؤں گا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خدایا جو مجھے کھلائے تو اسے کھلا اور جو مجھے پلائے تو اسے پلا۔‘‘
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا سن کر میری ہمت کچھ بڑھی اور میں اٹھ کر بکریوں کے پاس گیا کہ شاید ان میں سے کچھ دودھ نکل آئے۔ مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تینوں بکریوں کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ (حالانکہ کچھ دیر پہلے بکریوں کا دودھ نکالا گیا تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے جس برتن میں دودھ نکالنا پسند کرتے تھے۔ میں نے وہ برتن لیا اور اس میں اتنا دودھ نکالا کہ اس کے اوپر جھاگ آگیا (یعنی پیالا بھر گیا)۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ پیالا پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا اور پھر مجھے دیا۔ میں نے اس میں سے پیا میں نے پھر وہ پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پھر نوش فرمایا پھر مجھے دے دیا۔ میں نے دوبارہ پیا ۔چونکہ مجھے ان باتوں کی امید نہیں تھی۔ اس لیے مجھے بے حد خوشی ہوئی اور خوشی سے ہنسنے لگا اور ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ’’مقداد یہ کیا ہے؟‘‘
جو کچھ اس سے پہلے ہوا تھا۔ وہ تمام واقعہ میں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا۔ یہ سن کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ (خلاف عادت بکریوں سے دودھ مل جانا تو) صرف ﷲ کے فضل و کرم سے ہوا ہے۔ اگر تم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی اٹھا لیتے تو وہ بھی اس رحمت میں شریک ہوجاتے۔
میں نے عرض کیا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔ جب آپ نے دودھ پی لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ مجھے مل گیا تو مجھے کسی کی پروا نہیں کہ کسی کو ملے یا نہ ملے۔‘‘ یہ ان صاحب کا اظہار محبت صرف اس لیے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تبرک انہیں ملا تھا۔ جس کی ان کو اتنی خوشی تھی۔
یہ سارا واقعہ مشہور صحابی اور شہسوار رسول حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے۔ جو مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ مشہور تھے۔ کیونکہ انہوں نے اسود بن عبدالبعوث زہری کی گود میں پرورش پائی اور اسود زہری سے بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ شروع ہی میں اسلام لے آئے تھے۔ آپ ان چھ اصحاب میں سے تھے۔ جنہوں نے مکہ میں اپنا اسلام ظاہر کیا اور یہ اسلام میں سبقت حاصل کرنے والوں اور اولین مہاجرین میں شامل تھے ۔یہ ان لوگوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے دو ہجرتیں کیں۔ ایک حبشہ کی۔ دوسری مدینہ کی۔ روایت کرنے والوں نے ان کی بیٹی کی زبانی حضرت مقداد کا یہ حلیہ شریف بیان کیا ہے۔ فرماتی ہیں : ’’میرے والد حضرت مقداد رضی اللہ عنہ گندمی رنگ، طویل قد، گھنے بالوں والے۔ بڑی آنکھوں والے بھرے ہوئے ابرو پتلی اور سیدھی ناک والے تھے۔ اپنی ڈاڑھی کو منہدی لگاتے تھے۔ جو نہ زیادہ بڑی تھیں نہ زیادہ چھوٹی۔ بارعب اور عظمت و جلال والے تھے۔
حضرت مقداد علم کے محافظ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے محافظ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ بیالیس احادیث کے راوی ہیں۔ آپ نہایت سادہ مزاج اور صاف گو تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت کرتے تھے۔ جس کا ایک واقعہ اوپر بیان کیا ہے۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باری باری حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور اس کے بعد حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا تو حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے۔ اپنی راے کو ان مشہور الفاظ میں بیان کیا جو تاریخ کے سنہری حروف بن گئے۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے اور فرمایا:’’رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آ پ کو ﷲ پاک کا جو حکم ہوا ہو۔ اس کو کر گزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ﷲ کی !قسم ہم آپ کو بنی اسرائیل کی طرح نہیں کہتے۔ جیسے انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ اور آپ کے رب قتال کریں اور ہم آپ کے ساتھ قتال کریں گے۔ دائیں سے بائیں سے، آگے سے اور پیچھے سے۔‘‘ یہ سن کر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک روشن ہوگیا۔
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے جواب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد خوشی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو دعاے خیر دی۔ جہاد سے آپ کو خاص لگاؤ تھا اور جہاد آپ کی طبیعت کا حصہ بن گیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی عمر بڑی ہو گئی اور بال سارے سفید ہو گئے۔ مگر ان کی ہمت ہمیشہ بہادری اور جہاد کے لیے بلند رہی۔ آپ اکثر یہ شعر پڑھتے تھے۔ ’’میں مشہور جانباز اور شہسوار ہوں۔ ہر جگہ میں نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرنے والا ہوں۔‘‘
ایک روایت یہ ہے کہ ابوراشد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ جو رسول اﷲ کے شہسوار تھے۔ حمص میں غزوہ کا ارادہ رکھتے تھے اور بوڑھے تھے لیکن ہمت بہت بلند تھی۔ پلکیں آنکھوں پر گر چکی تھیں۔ میں نے کہا:’’ اب تو آپ معذور ہیں۔ اب آپ پر جہاد فرض نہیں ہے۔‘‘ فرمایا؛’’ مجھے سورہ توبہ کی یہ آیت بیٹھنے نہیں دیتی: ’’ہر حال میں جوانی، بڑھاپا، پیدل، سوار، فراخی، تنگی، طاقت، صحت، کمزوری اور بیماری میں جہاد کے لیے نکلو۔‘‘
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آپ کا شمار مشہور تیر اندازوں میں ہوتا ہے اور فتح مکہ میں حضرت زبیر بن عوام دائیں اور حضرت مقداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے۔
آپ خوشامدانہ تعریف سے بہت نفرت کرتے تھے اور اسی طرح کسی شخص کے متعلق اچھی یا بری راے قائم کرنے میں بھی بہت احتیاط کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک تابعی نے ان کے پاس آکر کہا: ’’مبارک ہیں آپ کی آنکھیں۔ جنہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ کاش میں بھی اس زمانہ میں ہوتا۔‘‘
حضرت مقداد ان پر سخت غصہ ہوئے: لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’اس میں غصے کی کیا بات تھی۔‘‘
بولے: ’’جن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کو ایمان نہ لانے کے باعث جہنم میں داخل کیا گیا۔ اس شخص کو کیا معلوم کہ وہ اس وقت کس جماعت میں ہوتا۔ تم لوگوں کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ تم نے بغیر آزمائش کے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے فائدہ اٹھایا۔
خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں آپ نے ۷۰ برس کی عمر میں وفات پائی اور آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔
*۔۔۔*