ڈاکٹر واجبی
ناول: The Story of Doctor Dolittle
مصنف: Hugh Lofting
مترجم: معراج
۔۔۔۔۔
بہت دن گزرے۔ جب ہمارے اور آپ کے دادا ننھے منے بچے تھے۔ بُستان پور میں ایک ڈاکٹر رہتا تھا۔ اس کا نام تھا ’واجبی‘۔ وہ اپنے پیشے میں بہت ماہر تھا۔ بستان پور کے سب چھوٹے بڑے اور امیر و غریب اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ جب کبھی وہ کسی گلی کوچے سے گزرتا لوگ آداب عرض کرتے۔ ہر کو ئی کہتا، دیکھو وہ جارہے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ یہ بہت سمجھ دار اور قابل ڈاکٹر ہیں ۔اور تو اور گلی کے کتے بلیاں تک ڈاکٹر کے پیچھے پیچھے ادب سے چلتیں۔ پہاڑی پر رہنے والے کوے بھی کا کا کا۔ کائیں کائیں کر کے آداب بجا لاتے اور بہت دیر تک اس کے سر پر منڈلاتے رہتے تھے۔
ڈاکٹر واجبی جس مکان میں رہتا تھا، وہ بہت چھوٹا سا تھا، ہاں البتہ اس کا باغیچہ بہت بڑا تھا۔ اس میں پتھر کی کرسیاں اور میزیں پڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر کی بہن سائرہ گھر کی دیکھ بھال کرتی تھی، لیکن باغیچے کی دیکھ بھال ڈاکٹر واجبی خود کرتا تھا۔
ڈاکٹر وا جبی جانوروں کا بہت شوقین تھا۔ اس نے بہت سے جانور پال رکھے تھے۔ تالاب میں طرح طرح کی رنگین مچھلیاں تھیں۔ باورچی خانے میں خرگوش پالے ہوئے تھے۔ پیانو کے اندر سفید چوہوں کا گھر بنا رکھا تھا۔ کپڑوں کی الماری میں گلہری کا گھر وندا تھا۔ تہ خانے پر سیہہ نے قبضہ جمار کھا تھا۔ ان کے علاوہ گھر میں ایک گائے اور اس کا بچھڑا، ایک پچیس سالہ لنگڑاگھوڑ،چوزے، کبوتر، دو بھیڑیں اور بہت سے دوسرے جانور بھی تھے، لیکن اس کے دل پسند جانور قین قین بطخ، ڈبو کتا، مرزا تو تا بیگ اور ٹو ٹو اُلو تھے۔
ڈاکٹر واجبی کی بہن سائرہ دن بھر بڑ بڑاتی رہتی کہ ان جانوروں نے گھر کا ستیا ناس کر دیا ہے، گھر کا ہے کو ہے، اچھا خاصا چڑیا گھر نظر آتا ہے۔ جدھر دیکھو، کوئی نہ کوئی جانور بیٹھا ہوا نظر آجائے گا۔
ایک دن ایک بڑھیا جوڑوں کے درد کی دوا لینے کے لیے آئی، وہ صوفے پر بیٹھ گئی، لیکن وہاں سیہہ پہلے سے سو رہا تھا۔ بڑھیا نے ڈر کر چیخ ماری اور دوڑتی ہوئی باہر چلی گئی۔ پھر اس نے کبھی ڈاکٹر واجبی کے مطب کا رخ نہیں کیا۔ وہ اب اپنے علاج کے لیے دس بارہ میل دور قصبہ طرب شاہ جاتی ہے۔
یہ رنگ ڈھنگ سائرہ کو کہاں گوارا تھے؟ وہ ڈاکٹر کو سمجھانے لگی کہ ایک اچھے ڈاکٹر کے یہ طور طریقے نہیں ہوا کرتے۔ اگر گھر بھانت بھانت کے جانوروں سے بھرا ہوا ہو تو مریض یہاں کیوں آنے لگے؟ تمھارے ان چہیتے جانوروں نے چوتھا مریض ڈرا کر بھگا دیا ہے۔ خان صاحب اور بی بی فضیلہ تو کہہ رہے تھے کہ وہ اب تمھارے مطب کے پاس سے بھی نہ گزریں گے۔ ادھر تم روز بہ روز غریب ہوتے جا رہے ہو۔ اگر تمھارا یہی حال رہا تو شہر کے معزز آدمیوں میں سے کوئی بھی تم سے علاج نہ کروائے گا۔
ڈاکٹر واجبی بہت اطمینان سے بولا ۔’’ شہر کے معزز آدمیوں سے میرے پالتو جانور بہترہیں۔‘‘
’’تم بالکل پاگل ہو گئے ہو ۔‘‘ سائرہ پاؤں پٹختی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔
دن یوں ہی گزرتے گئے۔ جانوروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور مریض کم ہوتے چلے گئے۔ آخر اس کا ایک ہی مریض رہ گیا۔ یہ مریض چڑیا گھر میں ملازم رہ چکا تھا۔ یہ خود بھی بہت غریب آدمی تھا۔ سال میں صرف عید بقر عید پر بیمار پڑتا تھا، کیوں کہ اس دن بہت زیادہ کھانا کھانے کی وجہ سے بد ہضمی کا شکار ہو جاتا تھا۔
آخر گھر کے سامان کی فروخت کی نوبت آپہنچی۔ پہلے پیانو بکا، چو ہوں کے لیے اب میز کی دراز میں گھر بنا دیا گیا۔ پھر ڈاکٹر کے سوٹ بکے۔ ہوتے ہوتے ڈاکٹر کے پاس، مکان اور صرف کپڑے باقی رہ گئے۔ ڈاکٹر واجبی جب کبھی گلی کوچوں سے گزرتا تو لوگ افسوس سے ہاتھ ملتے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے کہ وہ دیکھو ڈاکٹر واجبی چلا جا رہا ہے، کبھی یہ مانا ہوا قابل ڈاکٹر تھا۔ مگر اب اس کے پاس تن ڈھانپنے کے کپڑوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ کتے، بلیاں اور بچے اب بھی ڈاکٹر کے پیچھے بھاگتے ہیں اور کوے اب بھی کا کا کا۔ کائیں کائیں کر کے آداب بجا لاتے ہیں، کیوں کہ انسان کی عظمت اس کے شان دار کپڑوں میں نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور نیک اعمال میں پوشیدہ ہے۔
جانوروں کی بولی
ایک دن یوں ہوا کہ ڈاکٹر واجبی اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا اپنے ایک دوست سے باتیں کر رہا گاتھا۔دوست نے کہا۔’’ ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کا علاج کرنا بند کر دیجیے اور پورے طور سے جانوروں کے ڈاکٹر کی بن جائیے، کیوں کہ آپ جانوروں کے بارے میں بہت معلومات رکھتے ہیں۔ آپ نے جو کتاب بلیوں کے بارے میں لکھی ہے ،وہ واقعی لاجواب ہے۔ اسے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ بلیوں کی ایک ایک بات سے واقف ہیں۔ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ آپ جانوروں کے ڈاکٹر بن جائیے۔‘‘
ڈاکٹر کے دوست کے جانے کے بعد مرزا تو تا بیگ بولا:’’ ڈاکٹر صاحب، آپ اپنے دوست کا مشورہ مان لیجیے۔ ان بے مروت انسانوں کا علاج کرنا ترک کر دیجیے اور ان کے بجائے مظلوم اور بے زبان جانوروں کی طرف توجہ دیجیے۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے کہا۔’’دنیا میں بے شمار مویشیوں کے ڈاکٹر ہیں ۔‘‘
مرزا تو تا بات کاٹ کر بولا۔’’ ہاں ہیں تو سہی، لیکن ان میں سے ایک بھی کام کا نہیں ہے۔ وہ جانوروں کا دکھ درد نہیں سمجھتے اور نہ ان کی نفسیات سے آگاہ ہیں۔ سنیے ڈاکٹر صاحب، میں آپ کو بالکل انوکھی بات سُناتا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جانور بھی آپس میں گفت گو کر سکتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ میں صرف یہ جانتا ہوں کہ تو تے ہم انسانوں کی طرح بول سکتے ہیں۔ کسی حد تک کوے اور چند خاص قسم کی چڑیاں بھی انسان کی نقل اُتار سکتی ہیں۔‘‘
توتا بولا۔’’ ہم دو طرح سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ ایک تو انسانی بولی میں اور دوسری پرندوں کی بولی میں۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ تو تا بسکٹ کھا رہا ہے تو آپ فوراً سمجھ جائیں گے لیکن اگر میں یوں کہوں کہ ٹاٹا ٹائیں۔ ٹی ٹیں ٹیں۔ ٹائیں ٹاٹاں۔ تو آپ کیا سمجھے؟‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ اس کا کیا مطلب ہوا؟ ‘‘
مرزا کو تا بولا۔’’ اس کا مطلب ہے کہ تو تا بسکٹ کھا رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا ۔’’ یہ بات میرے لیے بالکل نئی ہے، لیکن یہ ہے بہت دل چسپ اور حیرت انگیز۔‘‘
ڈاکٹر فوراً درواز سے ایک کاپی اور پنسل نکال کر لایا اور بولا۔’’ اب تم مجھے پرندوں کی بولی کی ،اب ج د، سکھاؤ، لیکن ذرا آہستہ آہستہ بولنا ۔‘‘
وہ پہلا دن تھا کہ ڈاکٹر واجبی کو یہ بات معلوم ہوئی کہ جانوروں کی بھی بولی ہوتی ہے۔ باہر دھواں دھار بارش ہو رہی تھی، کمرے کے اندر ڈاکٹر اور مرزا کو تا بیٹھے ہوئے تھے۔ تو تا اسے پرندوں کی بولی سکھا رہا تھا۔سہ پہر کے وقت ڈبو کمرے میں آیا تو توتا بولا۔’’ دیکھیے۔ آپ سے باتیں کر رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر بولا۔ ’’یہ توصرف اپنا کان کھجا رہا ہے۔‘‘
مرزا توتا بولا۔’’ جانور ہمیشہ اپنے منھ سے ہی نہیں بولتے، وہ بات کرتے وقت اپنے کان، منھ ،ناک، پنجوں اور دُم سے بھی کام لے سکتے ہیں۔ اب دیکھئے ،کتا اپنا ناک سکوڑ رہا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر واجبی نے پوچھا۔’’ اب وہ کیا کہتا ہے؟‘‘
مرزا تو تا بولا۔’’ وہ اب یہ کہہ رہا ہے کہ کیا آپ کو پتا ہے کہ بارش رک گئی ہے؟ وہ آپ سے سوال کر رہا ہے۔ کتے جب کبھی کوئی بات پوچھتے ہیں تو اپنی ناک سکوڑتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر نے مرزا تو تا کی مدد سے جانوروں کی بولیاں سیکھنی شروع کر دیں اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ اتنا ماہر ہو گیا کہ نہ صرف جانوروں کی بولیاں سمجھنے لگا بلکہ ان کی زبان میں باتیں بھی کرنے لگا۔ تب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ انسانوں کا علاج معالجہ چھوڑ کر مستقل طور پر جانوروں کا ڈاکٹر بن جائے گا۔
عینک والا گھوڑا
جب لوگوں کو ڈاکٹر واجبی کے اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ اپنے اپنے جانور ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے لانے لگے۔
ایک دن ایک گھوڑا علاج کے لیے اس کے پاس لایا گیا۔ بے زبان جانور ڈاکٹر سے مل کر بے حد خوش ہوا۔ ڈاکٹر پہلا انسان تھا جو گھوڑوں کی بولی میں بات چیت کر سکتا تھا۔
گھوڑے نے کہا ۔’’ ڈاکٹر صاحب آج کل مویشیوں کے ڈاکٹر بالکل کچھ نہیں جانتے ۔پہاڑی کا ڈنگر ڈاکٹر چھے ہفتے سے کبھی میرے حلقے میں پچکاری ڈالتا ہے، کبھی کانوں میں دوا ٹپکا تاہے۔ حال آنکہ میری دائیں آنکھ کم زور ہو گئی ہے اور مجھے چشمے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب، جب آپ انسان چشمہ پہن سکتے ہیں تو ہم حیوان کیوں نہیں پہن سکتے؟ اب وہ بے وقوف ڈاکٹر مجھے لمبی لمبی گولیاں، کیپسول اور مکسچر دیتا رہا۔ میں اسے سمجھاتا رہا کہ مجھے چشمے کی ضرورت ہے، لیکن اس کی سمجھ میں نہ آسکا ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے پوچھا۔’’ تمھیں کس قسم کا چشمہ چاہیے؟
گھوڑے نے کہا۔’’ سبز رنگ کا۔ بالکل ایسا ہی جیسا کہ آپ کا ہے۔ جب میں دھوپ میں کام کرتا ہوں تو دھوپ برداشت نہیں ہوتی اور میری آنکھیں دکھنے لگتی ہیں۔‘‘
گھوڑے نے پھر کہا۔’’ ڈاکٹر صاحب، مصیبت یہ ہے کہ ہر کوئی ڈنگر ڈاکٹر بن جاتا ہے، کیوں کہ ہم جانور کوئی شکایت تو کر ہی نہیں سکتے۔ اب میرے مالک کا لڑکا بھی اس بات کا دعوے دارہے کہ وہ گھوڑوں کی رگ رگ سے واقف ہے۔ حال آنکہ وہ بالکل جاہل لٹھ ہے اور جانوروں سے اُسے ذرا بھی واقفیت نہیں ہے۔ اس نے پچھلے ہفتے مجھے اَلسی کا تیل پلانے کی کوشش کی۔‘‘
’’ پھر کیا ہوا؟ کیا تم نے السی کا تیل پی لیا؟‘‘ ڈاکٹر نے بے تابی سے پوچھا۔
گھوڑا بولا۔’’ تو بہ کیجیے صاحب ،پہلے تو میں نے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب اس کی عقل میں نہ آیا تو میں نے ایک لات جھاڑ دی۔ وہ بے وقوف فٹ بال کی طرح اُچھل کو تالاب میں جا گرا۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے پریشان ہو کر پوچھا۔’’ اسے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘
گھوڑا مسکرا کر بولا۔’’ چوٹ تو زیادہ نہیں آئی۔ البتہ اس کی ایک پسلی ٹوٹ گئی ہے، کندھا اُتر گیا ہے اور پاؤں میں موچ آگئی ہے۔ پہاڑی والا ڈنگر ڈاکٹر اس کا علاج کر رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر افسوس سے بولا۔’’ چچ چچ چچ۔ بے چارا، غریب۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی اسے تاریک کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک چارٹ لٹکا ہوا تھا جس پر الٹے سیدھے اور ترچھے نعل بنے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے گھوڑے کے منھ پر ایک فریم باندھ دیا، پھر اس فریم میں مختلف عد سے رکھ رکھ کر گھوڑے سے چارٹ پڑھوایا۔ آخر اس نے گھوڑے کے لیے نمبر تجویز کر دیا۔
گھوڑے نے پوچھا ۔’’ میری عینک کب تک تیار ہو جائے گی؟‘‘
ڈاکٹر نے کہا۔’’ اگلے ہفتے تک۔ اچھا، خدا حافظ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے گھوڑے کے لیے عینک بنادی۔ وہ گھوڑا اندھا ہونے سے بچ گیا۔ اب وہ عینک لگائے ہوئے پھرتا ہے۔ وہ دنیا کا پہلا جانور ہے جس نے عینک پہنی۔ جلد ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ بھانت بھانت کے جانور ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آنے لگے۔ اب بستان پور میں ایسے جانوروں کی کمی نہیں جو عینکیں لگائے گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر وا جبی کے پاس بے شمار جانور علاج کے لیے آنے لگے۔ جب کسی جانور کو یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر واجبی ان کی بولی سمجھ اور بول سکتا ہے تو وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے کہ انھیں کہاں درد ہور ہاہے اور اب وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اور ڈاکٹر کے لیے ان کا علاج کرنے میں بھی سہولت ہوجاتی۔ جب کوئی مریض شفایا ب ہو کر واپس جاتا تو وہ اپنے دوستوں سے ذکر کرتا کہ بڑے باغیچے کے سامنے والے گھر میں ایک ڈاکٹر ہے جو واقعی ڈاکٹر ہے، جب کبھی کوئی جانور بیمار ہوتا چاہے وہ گھوڑاہو، بھینس گائے ہو، اود بلاؤ یا چمگادڑ ہو۔ وہ علاج کے لیے ڈاکٹر واجبی کے گھر کا رخ کرتا۔ ڈاکٹر کا گھر بھی بھانت بھانت کے جانوروں سے بھرا رہتا۔ جانور اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ ڈاکر نے ہر قسم کے جانوروں کے لیے علاحدہ علاحدہ کمرے مخصوص کر دیے۔ سامنے کے دروازے پر ’’گھوڑے‘‘ لکھ دیا۔ پچھلے دروازے پر’’ گائے‘‘ باورچی خانے پر ’’بھیڑ اور بکریاں‘‘ بیٹھک کے دروازے پر ’’مرغ اور دوسرے پرندے‘‘ ۔ یہاں تک کہ چوہوں کے لیے بھی ایک نالی بنی ہوئی تھی۔ سب جانور قطاروں میں بہت خاموشی سے بیٹھ جاتے اور صبر و سکون کے ساتھ اپنی باری آنے کا انتظار کرتے رہتے ۔چند سال کے عرصے میں دور و نزدیک ہر طرف ڈاکٹر واجبی کی شہرت پھیل گئی۔ پرندے دور دور تک یہ اطلاع پہنچا کر آتے کہ پہاڑی کے نزدیک ایک ایسا ڈاکٹر ہے جو جانوروں کی بولی بول اور سمجھ سکتا ہے۔ ہوتے تے دنیا بھر کے جانوروں میں ڈاکٹر واجبی کی شہرت پھیل گئی۔
تمہاری عمر کیا ہو گی؟
ایک دو پہر ڈاکٹر واجبی مطالعہ کر رہا تھا، مرزا تو تا کھڑکی میں بیٹھا باہر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے ایک قہقہہ لگایا۔ ڈاکٹر واجبی نے پوچھا ۔’’ مرزا کیا بات ہے؟‘‘
تو تے نے کہا ۔’’میں سوچ رہا تھا۔‘‘
ڈاکٹر نے پوچھا ۔’’وہ کیا؟‘‘
مرزا توتا بولا۔’’ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ انسان بھی کتنے احمق ہوتے ہیں اور اپنے آپ کودنیا کی عقل مند ترین مخلوق سمجھتے ہیں اور یہ سلسلہ ہزاروں سال سے یوں ہی چلا آرہا ہے۔ انسانوں کو جانوروں کی بولی بس اس حد تک آتی ہے کہ جب کتادُم ہلاتا ہے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ کتا خوش ہے، اور جب وہ غراتا ہے تو ناراض ہے۔ جب لوگ جانوروں کو بے زبان کہتے ہیں تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ ایک پہاڑی تو تا میرا دوست تھا۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور ہندی زبانوں کا ماہر تھا۔ ایک پروفیسر نے اسے خرید لیا، لیکن پہاڑی تو تا زیادہ عرصے پروفیسر کے پاس نہیں ٹھیرا۔ پروفیسر غلط سلط عربی بولتا تھا اور تو تا یہ برداشت نہیں کر سکا۔ ایک پہاڑی کوا کوئی آواز نکالے بغیر سات طریقے سے ’’السلام علیکم‘‘ کہہ سکتا تھا۔ پرندے انسانوں سے زیادہ موسمی حالات جانتے ہیں۔ پرندوں کے مقابلے میں انسانوں کی جغرافیائی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘‘
ڈاکٹر واجبھی مسکرا کر بولا۔’’ تم بہت عقل مند اور جہاں دیدہ ہو۔ بھلا تمہاری عمر کیا ہو گی؟میں نے سُنا ہے کہ توتے اور ہاتھی بہت طویل عمریں پاتے ہیں۔‘‘
تو تا قہقہہ لگا کر بولا۔’’ آپ نے بالکل ٹھیک سُنا ہے۔ مجھے اپنی عمر کا خود بھی اندازہ نہیں۔ جب میں ہندستان میں آیا تو یہاں جنگ آزادی لڑی جارہی تھی۔ خدا کی پناہ کیسا خوف ناک نظارہ تھا۔ بے چارے مسلمانوں پر جو مظالم توڑے گئے اُس کی یاد سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شہنشاہ ہند بہادر شاہ کو جب اس کے پوتوں کے سرطشتری میں رکھ کر پیش کیے گئے تومیں روشن دان سے دیکھ رہا تھا۔ اس باہمت شہنشاہ نے کہا ۔’’مجھے تیمور کی اولاد سے یہی امید تھی۔‘‘ یہ کہہ کر تو تا خاموش ہو گیا۔ خود ڈاکٹر وا جبی پر بھی رقت طاری ہو گئی۔
چیچوبندر اور معصوم مگر مچھ
اب ڈاکٹر واجبی پھر کچھ کمانے لگا۔ اس کی بہن سائرہ نے نئے کپڑے سلوائے اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔
کچھ جانور جو علاج کی غرض سے آتے وہ اتنے بیمار اور کم زور ہوتے کہ وہ ڈاکٹر واجبی کے گھر ہفتہ دس دن تک پڑے رہتے۔ جب وہ ذرا ٹھیک ہو جاتے تو باغیچے میں کرسیوں پر بیٹھ جاتے۔ اکثر یوں ہوتا کہ جب یہ مریض ٹھیک ہو جاتے تب بھی وہاں ٹھیرے رہتے، کیوں کہ ڈاکٹر انھیں اتنا پسند آتا کہ وہ اسے دل و جان سے چاہنے لگتے۔ ڈاکٹر وا جبی بھی ایسا نیک دل تھا کہ ان کے رہنے کا برا نہ مانتا۔ یوں اس کے پالتو جانوروں کی تعداد روز بہ روز بڑھتی ہی چلی گئی۔
ایک دن جب ڈاکٹر اپنے باغیچے میں بیٹھا پائپ پی رہا تھا۔ ایک مداری اپنے بندر کو علاج کے لیے لایا۔ ڈاکٹر نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ بندر کے گلے میں پڑا ہوا پٹا بہت تنگ ہے۔ بندر بہت ناخوش ہے۔ ڈاکٹر نے مداری سے وہ بندر لے لیا، اس کے ہاتھ پر ایک ر پیار کھ کر کہا۔’’جاؤ میاں۔‘‘
بندر والا جز بز ہو کر بولا۔’’ میں بندر بیچنے کے لیے نہیں لایا ہوں۔ سیدھی طرح میرا بندر مجھے واپس لوٹا دو۔‘‘
ڈاکٹر واجبی جھنجھلا کر بولا ۔’’تم چُپ چاپ چلے جاؤ ،ور نہ میں تمہاری وہ پٹائی کروں گا کہ تم بھاگتے نظر آؤ گے ۔‘‘
بندر والے نے ذرا اکٹر فوں دکھائی ہی تھی کہ بندر اس پر جھپٹا۔ بندر والا ایسا بھا گا کہ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔
گھر کے جانوروں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔ سب جانور اس کے آنے پر بے حد خوش ہوئے۔ جانوروں نے اس بندر کا نام ’’چیچو‘‘ رکھا۔ اس کا مطلب جانوروں کی بولی میں ہے ’’ادرک‘‘ یعنی بندر کیا جانے ادرک کا مزہ۔
کچھ دنوں بعد بستان پور میں ایک سرکس آیا۔ سرکس میں ایک مگر مچھ تھا۔ اس کے دانت میں شدید درد ہو رہا تھا۔ وہ رات کے وقت سرکس سے نکل بھاگا اور سیدھا ڈاکٹر واجبی کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر نے دوا لگائی اور مگر مچھ کے دانت کا درد دور ہو گیا۔ جب مگر مچھ نے یہ صاف ستھرا گھر دیکھا تو اسے یہ جگہ بہت پسند آئی۔ اس نے ڈاکٹر سے کہا۔’’ اگر آپ اجازت دیں تو میں مچھلیوں کے تالاب میں بسیرا کر لوں؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں مچھلیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا۔‘‘
ڈاکٹر و ا جبی نے اجازت دے دی۔ مگر مچھ بھی وہاں رہنے لگا۔ جب سرکس والے مگر مچھ کو ڈھونڈتے ہوئے ڈاکٹر واجبی کے گھر پہنچے تو مگر مچھ منھ پھاڑ کر ان کی طرف لپکا۔ وہ وہاں سے بد حو اس ہو کر بھاگے۔ مگر مجھ بھی ڈاکٹر کے گھر میں رہنے لگا، لیکن اس نے کسی کو نہ ستایا نہ تنگ کیا۔ وہ مرغی کے چوزوں کی طرح معصوم اور بے ضرر بنا رہا۔
مگر مچھ کی موجودگی سے عورتیں اور بچے ڈرنے لگے۔ کسانوں کو بھی مگر مچھ پر کوئی بھروسا نہیں تھا۔ آخر ڈاکٹر نے مجبور ہو کر مگر مچھ سے کہا کہ تم واپس سرکس میں چلے جاؤ۔
مگر مچھ کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔ اس نے بہت عاجزی سے درخواست کی کہ اسے وہاں رہنے کی اجازت دی جائے۔ ڈاکٹر کا دل پسیج گیا۔ اس نے مگر مچھ کو رہنے کی اجازت دے دی۔
ڈاکٹر واجبی کی بہن کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ سخت ناراض ہوئی۔ اس نے کہا ۔’’واجبی، تم اس منحوس کو فوراً یہاں سے دفعان کردو۔ اب کسان اور بوڑھی عورتیں یہاں آنے سے گھبرانے لگی ہیں۔ جب ہمارے دن پھرنے لگے تھے تو یہ منحوس آن ٹپکا۔ اب ہماری مکمل تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس گھر میں یا تو یہ گھڑیال رہے گا یا پھر میں۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے ہنس کر کہا ۔’’ او ہو بہن، تمھیں تو گھڑیاں اور مگر مچھ کا فرق بھی معلوم نہیں۔پیاری بہن، یہ مگر مچھ ہے۔‘‘
سائرہ جھنجھلا کر بولی۔’’ میں اس موذی کو گھر سے نکال کر رہوں گی ۔‘‘
ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ اس نے وعدہ کیا ہے کہ کسی کو گزند نہیں پہنچائے گا۔ یہ واپس سرکس میں جانا نہیں چاہتا۔ ادھر میری مالی حالت بھی ایسی نہیں ہے کہ میں اسے افریقہ میں( جہاں سے یہ آیا ہے) واپس بھیج سکوں ۔ یہ غریب اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ اس نے اب تک بہت شرافت کا ثبوت دیا ہے، اس لیے میری پیاری بہن، تم کو ئی گڑ بڑ نہ کرو۔‘‘
سائرہ بھنا کر بولی۔’’ ارے گڑ بڑ میں کر رہی ہوں یا تمہارا یہ چہیتا مگر مچھ؟ میں صاف صاف کہے دیتی ہوں کہ اگر تم نے اسے گھر سے نکال باہرنہ کیا تو میں خود گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی اور کسی نیک مرد سے شادی کر لوں گی ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی قہقہہ لگا کر بولا۔’’ بالکل ٹھیک بالکل ٹھیک۔ جاؤ شادی کرو، اپنا گھر بساؤ۔ لیکن خدا کے لیے اس مگر مچھ کو گھر سے نکالنے کی بات زبان پر نہ لاؤ۔ مجھے بہت کوفت ہوتی ہے۔‘‘
سائرہ نے اپنا سامان باندھا اور گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ ڈاکٹر وا جبی اپنے جانوروں سمیت اکیلا رہ گیا۔
جب اتنے بہت سے کھانے والے ہوں اور کمانے والا کوئی ہاتھ نہ ہو تو کیا حشر ہو گا؟ نہ قسائی کا بِل ادا کرنے کو پیسے رہے اور نہ دودھ والے کا۔ سب لوگوں نے ڈاکٹر واجبی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ ہر روز کہتا۔’’رُپیا پیسا سب فساد کی جڑ ہے۔ اگر دنیا میں رپیا ایجاد نہ ہوتا تو سب لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے۔ جب تک ہم ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں رپے پیسے کی ہمیں کوئی نہ فکر ہے اور نہ پروا ۔‘‘
رفتہ رفتہ جانوروں کو بھی فکر ہونے لگی۔ ایک دن جب ڈاکٹر واجبی سو رہا تھا، جانور سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ ٹو ٹو اُ لو حساب کتاب کا ماہر تھا، اس نے بتایا کہ اتنی تھوڑی سی رقم باقی رہ گئی ہے کہ مشکل سے ایک ہفتے کا گزارا ہو سکے گا۔ توتے نے تجویز پیش کی ۔’’میرے خیال میں ہمیں گھر کا سارا کام کاج خود ہی کرنا چاہیے۔ اتنا تو ہم ڈاکٹر کے لیے کر سکتے ہیں۔ آخر ہماری ہی وجہ سے وہ بالکل تنہائی اور غربت کی زندگی گزار رہا ہے۔ ‘‘
آخر یہ فیصلہ ہوا کہ چیچو کھانا پکائے گا، کتا فرش صاف کرے گا، بی قیں قیں جھاڑ پونچھ کرے گی، الو گھر کا حساب کتاب سنبھالے گا، دنبہ کھیتی باڑی کرے گا ،مرزاتو تا بیگ کپڑے دھوئے گا۔
شروع شروع میں انھیں کام کرنا بے حد مشکل معلوم ہوا۔ آخر وہ عادی ہو گئے اور انھیں گھر کا کام کرنے میں لطف آنے لگا۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ اتنی عمدگی سے کام کاج کرنے لگے کہ ڈاکٹر واجبی بھی مان گیا اور اسے کہنا پڑا کہ اس سے پہلے اس کا گھر بھی اتنا صاف ستھرا نہیں رہا تھا۔ کچھ دنوں تک حالات یوں ہی چلتے رہے، لیکن رُپے پیسے کے بغیر گزارا کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ چناں چہ جانوروں نے ایک سبزیوں، پھولوں اور پھلوں کا اسٹال لگایا، لیکن اب بھی ان کی اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی کہ وہ سب کا بِل چکا سکتے۔ ایک دن تو تا بیگ نے آکر اطلاع دی کہ اب مچھلی والا ہمیں مچھلی اُدھار نہیں دے گا۔
ڈاکٹر وا جبی نے کہا۔’’ کوئی فکر نہیں، ابھی مُرغیاں انڈے دے رہی ہیں۔ گائے دودھ دے رہی ہے، باغیچے میں بہت کافی سبزی موجود ہے، ابھی سردیاں دور ہیں، فکر اور پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔‘‘
لیکن بد قسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ سردی وقت سے پہلے پڑنے لگی اور برف باری ہونے لگی۔ زیادہ تر سبزی تو وہ کھا چکے تھے، باقی ماندہ سبزی پر برف نے چادر چڑھا دی اور جانور اب سچ مچ فاقے کرنے لگے۔
ابابیل کا پیغام اور افریقہ کو روانگی
دسمبر کی ایک سرد رات تھی، سب جانور آتش دان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر واجبی انھیں جانوروں کی بولی میں ایک دل چسپ کہانی سنا رہا تھا۔ اچانک ٹوٹو الو بولا۔’’ شش! ذراسننا باہر کیسا شور ہو رہا ہے۔‘‘
سب لوگ کان لگا کر سننے لگے۔ جلد ہی انھوں نے باہر کسی کے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنی۔ دروازہ بہت زور سے کھلا اور چیچو اندر داخل ہوا۔ اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور منہ پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اس نے کہا۔’’ ڈاکٹر واجبی، مجھے ابھی ابھی اپنے خالہ زاد بھائی کا پیغام موصول ہوا ہے۔ افریقہ میں بیماری پھیلی ہوئی ہے اور بندر سینکڑوں کی تعداد میں مر رہے ہیں۔ انھوں نے آپ کی شہرت سنی ہے۔ چناں چہ انھوں نے درخواست کی ہے کہ آپ جلد افریقہ پہنچئے اور انھیں اس مصیبت سے نجات دلائیے ۔‘‘
’’یہ پیغام کون لایا ہے؟‘‘ ڈاکٹر واجبی نے اپنی عینک ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا۔
چیچو نے کہا۔’’ ایک ابابیل یہ پیغام لائی ہے۔ وہ ابھی تک باہر الگنی پر بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
ڈاکٹر پریشان ہو کر بولا۔ ’’اسے فوراً اندر لے آؤ۔ ورنہ وہ سردی میں ٹھٹھر کر مر جائے گی۔ چھے ہفتے پہلے سب ابابیلیں جنوب کی طرف پرواز کر چکی ہیں۔‘‘
ابابیل اندر لائی گئی۔ وہ بھوک پیاس سے نڈھال ہو رہی تھی اور سردی سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ پہلے پہل تو وہ کچھ سہمی سہمی سی رہی۔ کچھ دیر بعد جب اس کا جسم کچھ گرم ہو گیا تو وہ کارنس پر بیٹھ گئی اور باتیں کرنے لگی۔ جب وہ خاموش ہوئی تو ڈاکٹر واجبی نے کہا ۔’’مجھے افریقہ جا کر بے حد خوشی ہوتی، لیکن مشکل یہ ہے کہ میرے پاس ٹکٹ خرید نے کے لئے معقول رقم موجود نہیں ہے۔ چیچو، ذراوہ رپوں کی صندوقچی مجھے دینا۔‘‘
چیچو نے الماری کے اوپر چڑھ کر صندوقچی اُتاری۔ ڈاکٹر نے صندوقچی کھول کر دیکھی۔ وہ بالکل خالی تھی اور اس میں ایک پیسا تک نہیں تھا۔ ڈاکٹر پریشانی سے سر کھجا کر بولا۔’’میرا خیال تھا کہ اس میں ایک دو رپے موجود ہوں گے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں کل صبح بندرگاہ پر جاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ کسی سے کشتی اُدھار مانگ لوں۔ ایک ملاح میرا جاننے والا ہے۔ میرے علاج سے اس کا بچہ صحت یاب ہو گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے بادبانی جہاز دینے پر رضا مند ہو جائے ۔‘‘
اگلے دن صبح سویرے ڈاکٹر واجبی ساحل پر پہنچا۔ جب وہ واپس لوٹا تو اس نے یہ خوش خبری سنائی کہ کام بن گیا ہے اور ملاح اپنا جہاز ہمیں دینے پر رضا مند ہو گیا ہے۔ اس اطلاع پر مرزا توتا، مگر مچھ اور چیچو بے حد خوش ہوئے، کیوں کہ بہت مدت کے بعد وہ اپنے وطن کو واپس جا رہے تھے۔
’’میں صرف قیں قیں، نوٹو اور ایک دو اور جانوروں کو ساتھ لے جاؤں گا، باقی جانوروں کو اپنے اپنے گھر واپس جانا ہو گا۔ سردیاں شروع ہو چکی ہیں اور یہ موسم ان کے سونے میں گزر جائے گا۔ ویسے بھی افریقہ جانا ان کے لیے مناسب نہیں رہے گا۔‘‘ ڈاکٹر واجبی نے کہا۔
مرزا تو تا جو بہت سیر و سیاحت کر چکا تھا، ڈاکٹر کو بتانے لگا کہ سفر میں کس کس چیز کی ضرورت پیش آئے گی۔ اس نے کہا’’ اپنے ساتھ خوراک کا کافی ذخیرہ رکھیے، ڈبوں میں بند خشک گوشت ،تازہ اور صاف پانی پینے کے لیے اور ایک لنگر۔‘‘
ڈاکٹر نے پوچھا۔’’ وہ کس لیے؟‘‘
تو تا بولا۔’’ لنگر کے بغیر آپ کشتی روک نہیں سکتے۔ اس کے علاوہ ایک لمبا سا رسا بھی چا ہیے۔ سمندری سفر میں اس کی بھی ضرورت پیش آتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے کہا ۔’’پھر وہی رپے کی کمی کا مسئلہ ہے، میں جا کر پنساری سے پوچھتا ہوں۔ شاید وہ مجھے اُدھار دے دے۔‘‘
ڈاکٹر نے ملاح کو پنساری کے پاس بھیجا۔ خوش قسمتی سے وہ اُدھار دینے پر رضا مند ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ملاح ضرورت کی تمام چیزیں ان کے لیے خرید کرلے آیا۔ باقی جانور اپنا بوریا بستر سمیٹ کر اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ ڈاکٹر واجبی نے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کیے۔ سامنے کے دروازے میں تالا لگا کر چابیاں لنگڑے گھوڑے کے سپرد کیں۔ اس کے لیے اصطبل میں کافی مقدار میں بھوسا اور خشک گھاس رکھ دی تا کہ سردی کے موسم میں اس کا گزارا ہو جائے۔ پھر ڈاکٹر واجبی اپنا سامان ساحل سمندر پر لے گیا اور اس چھوٹے سے بحری جہاز میں رکھنے لگا۔
ڈاکٹر واجبی کو خدا حافظ کہنے کے لیے ملاح اور ڈاکٹر کا دوست ساحل پر موجود تھے۔ جہاز چلنے لگا تو ان دونوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہا۔ ڈاکٹر نے بھی ان کے جواب میںہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہی۔
دو پہر کا وقت خوش گپیوں میں گزر گیا۔ شام کے وقت بی بطخ کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔ ڈبو اور قیں قیں بستر تلاش کرنے لگے۔ مرزا تو تا انھیں ایک الماری کے پاس لے جا کر بولا۔’’یہاں آرام فرما ئیے۔‘‘
’’اوئی یہ کیسا پلنگ ہے؟‘‘قیں قیں حیران ہو کر بولی۔
مرزا تو تا ہنس کر بولا۔’’ محترمہ بحری جہازوں میں اسی طرح کے پلنگ ہوتے ہیں۔ اب آپ ایک خانے میں دبک کر خواب خرگوش کے مزے لوٹیے۔‘‘
قیں قیں جھنجھلا کر بولی۔’’ اس نگوڑے بستر کو دیکھ کر میری نیند اُڑ گئی ہے۔ اب میں او پر جا کر سمندر کا نظارہ کروں گی ۔‘‘
وہ تینوں عرشے پر پہنچے۔ وہاں ڈاکٹر واجبی ملاحوں کی طرح زور زور سے گا رہا تھا:
ھیّا ھیّا۔ ہو۔ھیّا ھیّا
ھیّا ھیّا۔ ہو۔ھیّا ھیّا
وہ بھی ڈاکٹر کے ساتھ آواز ملا کر گانے لگے:
ھیّا ھیّا۔ ہو۔ھیّا ھیّا
ھیّا ھیّا۔ ہو۔ھیّا ھیّا
جہاز کی تباہی
سفر چھے ہفتے تک جاری رہا۔ ابابیل ان کی رہنمائی کرنے کے لیے جہاز کے آگے آگے اڑتی رہی۔ رات کے وقت وہ ایک چھوٹی سی لالٹین اپنی چونچ میں پکڑ لیتی تا کہ جہاز اندھیرے میں ادھر اُدھر نہ بھٹک جائے۔ جوں جوں وہ افریقہ کے نزدیک ہوتے گئے موسم گرم ہوتا گیا۔ مرزا تو تا، چیچو بندر اور مگر مچھ تو اس گرم موسم سے بے حد لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ٹوٹو الو اور ڈبو کتا اس موسم کو سخت نا پسند کر رہے تھے۔ وہ دن بھر کسی سایہ دار جگہ میں چھپے ہوئے آرام کرتے رہے۔ بی بطخ کو جب گرمی لگتی وہ سمندر میں ڈبکی لگا کر جسم ٹھنڈا کرلیتی۔
جب جہاز خط اُستوا کے نزدیک پہنچا تو کچھ اُڑنے والی مچھلیاں ان کے پاس پہنچیں۔ انھوں نے پوچھا ۔’’کیا ڈاکٹر واجبی صاحب اس جہاز میں تشریف رکھتے ہیں؟ ‘‘جب انھیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر واجبی موجود ہیں تو مچھلیوں کو بے حد مسرت ہوئی۔ انھوں نے کہا۔’’ افریقہ کے بندر بہت بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘
مرزا تو تا نے پوچھا ۔’’ ابھی ساحل کتنی دُور ہے؟‘‘
مچھلیوں نے کہا۔’’ صرف پچپن میل۔‘‘
اگلی شام جب سورج غروب ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ چیچو، ذرا مجھے دور بین دینا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا سفر اب ختم ہونے کے قریب ہے۔ جلد ہی افریقہ کا ساحل نظر آنے لگے گا ۔‘‘
آدھے گھنٹے بعد ہی انھیں اُفق پر سیاہ دھبے سے نظر آنے لگے۔ پھر تیز ہوائیں چلنے لگیں، اونچی اونچی لہریں اُٹھنے لگیں اور گرج چمک کے ساتھ طوفان آگیا۔ ایک دفعہ تو جہاز اس بُری طرح ڈگمگایا کہ وہ سب لڑھک کر ایک کونے میں جا گرے۔ پھر ایک دھما کا ہوا، جہاز رُک گیا اور ایک طرف کو جھک گیا۔ ڈاکٹر واجبی نے گھبرا کر پوچھا۔’’یہ کیا ہوا؟‘‘
مرزا تو تا بولا۔’’ میرا خیال ہے کہ جہاز خشکی پر چڑھ گیا ہے۔ آپ ذرا بطخ سے کہیے کہ وہ باہر نکل کر حالات کا جائزہ لے ۔‘‘
بی بطخ نے فوراً سمندر میں غوطہ مارا، کچھ دیر بعد جب وہ باہر نکلی تو اس نے خبردی کہ جہاز ایک چٹان سے ٹکرا گیا ہے۔ اس کی تہ میں ایک بڑا سا سوراخ ہو گیا ہے اور پانی بہت تیزی سے جہاز میں داخل ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز سمندر میں غرق ہو جائے گا۔
تو تا بولا۔’’ رسا کہاں ہے؟ میں نے کہا تھا نا کہ وہ ہمارے کام آئے گا۔ بی بطخ، تم کہاں ہو؟ ارے ادھر آؤ بھئی۔ لو، رسے کا یہ سرا سنبھا لو۔ ہاں اب تم اُڑتی ہوئی کنارے تک جاؤ اور ناریل کے تنے سے اسے باندھ دو۔ اس رسے کا ایک سرا میں مستول سے باندھ ر ہا ہوں۔ جو لوگ تیر نا نہیں جانتے وہ رسے کو پکڑ کر لٹک جائیں اور کنارے کی طرف کھسکنا شروع کر دیں۔‘‘
اس بد نصیب جہاز کے مسافر حفاظت کے ساتھ کنارے تک پہنچنے میں کام یاب ہو گئے۔ کچھ تیرتے ہوئے گئے، کچھ اُڑتے ہوئے اور کچھ اس پل پر لٹک لٹک کر کنارے تک پہنچے۔ ڈبو ڈاکٹر واجبی کا صندوق اور دواؤں کا تھیلا لے آیا تھا۔
جہاز اب بالکل ناکارہ ہو چکا تھا۔ اس کی تہ میں جو سوراخ تھا اُس سے پانی جہاز میں بھر رہا تھا۔ ایک اونچی لہر نے جہاز کو اچھال کر اس بری طرح پٹخا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی ایک غار میں چھپ کر طوفان کے گزر جانے کا انتظار کرتے رہے۔
سلطان سنکی سے ملاقات اور گرفتاری
اگلے دن طوفان تھما تو سب لوگ سمندر کے ساحل پر پہنچے۔ مرزا تو تا بولا:
’’ شکر ہے کہ ایک سو تریسٹھ سال تک بستی بستی، نگر نگر گھوم پھر کر میں اپنے وطن واپس آگیا ہوں۔ اتنے عرصے میں کچھ بھی تو نہیں بدلا، وہی ناریل کے درخت ،و ہی سرخ مٹی، وہی کالی کالی چیونٹیاں، سچ ہے کہ وطن سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
خوشی کے مارے مرزا تو تا بیگ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ڈاکٹر واجبی کو اچانک خیال آیا کہ اس کا ہیٹ غائب ہے، کیوں کہ یہ طوفانی ہوا میں اُڑ کر سمندر میں جا گرا تھا۔ بی بطخ ہیٹ کو ڈھونڈنے نکلی۔ آخر اس نے اسے پالیا۔ یہ ایک کشتی کی طرح پانی میں تیر رہا تھا۔ جب بطخ نے اسے اپنی چونچ میں پکڑا تو اس کی نظر ایک سفید چوہے پر پڑی جو بہت ڈرا سہما ہوا اس میں بیٹھا تھا۔
بطخ نے پوچھا۔’’ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمھیں کہا گیا تھا کہ تم بستان پور میں ہی ٹھیرو گے۔‘‘
چوہا بولا۔’’ میں اکیلار ہنا نہیں چاہتا تھا، اس لیے میں چپکے سے سامان میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ جب جہاز ڈوبنے لگا تو میں بہت خوف زدہ ہوا، کیوں کہ مجھے تیر نا کچھ معمولی ساہی آتا ہے۔ کافی دیر تک میں تیرتا رہا، لیکن جب ہمت جواب دے گئی تو میں ڈبکیاں کھانے لگا۔ خوش قسمتی سے یہ ہیٹ تیرتا ہوا میرے قریب پہنچ گیا۔ میں اُچک کہ اس میں سوار ہو گیا۔ میں اس چھوٹی سی عمر میں مرنا نہیں چاہتا ۔‘‘
بی بطخ ہیٹ کو اپنی چونچ میں پکڑ کر تیرتی ہوئی کنارے پر پہنچی۔ سب جانوروں نے چوہے کی مزاج پرسی کی۔
اچانک چیچو کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہا۔’’ چپ، خاموش، کوئی اس طرف چلا آرہا ہے۔ ‘‘
وہ سب خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد درختوں کے پیچھے سے ایک کالا بھجنگ حبشی نکلا۔ اس نے پوچھا۔’’ تم لوگ یہاں کیا کرتے پھر رہے ہو؟‘‘
ڈاکٹر نے کہا۔’’میرا نام ڈاکٹرواجبی ہے۔ مجھے یہ پیغام ملا تھا کہ میں افریقہ آؤں اور بیمار بندروں کا علاج کروں۔‘‘
حبشی نے کہا۔’’ سب سے پہلے آپ کو بادشاہ کے دربار میں حاضری دینی ہوگی۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے پوچھا ۔’’تمہارے بادشاہ کا نام کیا ہے؟‘‘
حبشی بولا۔’’ یہ سلطنت ِجو یگان ہے۔ سلطان سنکی اس تمام علاقے کا بادشاہ ہے۔ اس کا یہ حکم ہے کہ تمام اجنبی اس کے حضور میں پیش کیے جائیں۔ اب آپ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیے ۔‘‘
کچھ دور گھنے جنگل میں چلنے کے بعد وہ ایک کھلے میدان میں پہنچ گئے۔ میدان کے بالکل درمیان میں مٹی کا بنا ہوا ایک بڑا سا گھر تھا۔ یہی سلطان سنکی کا محل تھا، سلطان سنکی، ملکہ ارمانہ اور شہزادہ بمپُو کے ساتھ رہتا تھا۔ شہزادہ بمپو مچھلی کا شکار کرنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ ملکہ ارمانہ اور سلطان سنکی محل کے صدر دروازے کے سامنے ایک چھتری کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے۔
جب ڈاکٹر وا جبی کو سلطان سنکی کی خدمت میں پیش کیا گیا تو سلطان نے ڈاکٹر واجبی کے افریقہ آنے کی وجہ پوچھی۔ ڈاکٹر نے مختصر طور پر اس سے افریقہ آنے کی وجہ بیان کی۔ سلطان سنکی نے کہا۔’’ تمھیں میری مملکت سے نہیں گزرنا چاہیے تھا۔ بہت دن گزرے ایک سفید فام نے اس سرزمین پر قدم رکھا۔ میں اس سے بہت ہی مہربانی سے پیش آیا۔ اس نے میری زمین میں کھدائی کر کے سونا نکالا۔ بے شمار ہاتھی مار کر ان کے دانت نکال لیے پھر وہ چوری چھپے یہ سب مال اسباب لے کر فرار ہو گیا۔ جاتے ہوئے اس نے شکریے کا ایک لفظ تک ادا نہیں کیا۔ تب سے میں نے یہ قسم کھائی ہے کہ کوئی غیر ملکی میرے ملک میں قدم نہیں رکھے گا۔‘‘
پھر بادشاہ اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوا۔’’ ڈاکٹر واجبی کو اس کے جانوروں سمیت لے جاؤ اور قید خانے میں ڈال دو۔‘‘
چھے حبشی ڈاکٹر اور اس کے جانوروں کو کھینچتے ہوئے لے گئے اور انھیں ایک پتھر کے بنے ہوئے قید خانے میں ڈال دیا۔
تہ خانے میں صرف ایک کھڑکی تھی۔ اس میں لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ سب جانور قید خانے میں گھبرا گئے۔ بی بطخ تو رونے لگی، چیچو کو بہت غصہ آیا۔ وہ بولا۔’’ اپنی ریں ریں بند کرو ورنہ میں ایسا ہاتھ ماروں گا کہ تمہارا بھیجا نکل جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے پوچھا ۔’’مرزا توتا بیگ کہاں ہے؟ وہ مجھے نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘
مگر مچھ نے کہا۔’’شاید وہ ہمیں دغا دے گیا ہے۔ جوں ہی اس نے اپنے دوستوں کو مصیبت میں گرفتار ہوتے ہوئے دیکھا، وہ چپکے سے فرار ہو گیا۔‘‘
چیچو بگڑ کر بولا۔’’ تو تا چشم کہیں کا۔ میں اس کی فطرت سے خوب واقف ہوں۔‘‘
مرزا تو تا بیگ قہقہہ لگا کر بولا۔’’اجی حضرت، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں یہاں ہوں۔ ڈاکٹر واجبی صاحب کی کوٹ کی جیب میں! دراصل مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ بادشاہ مجھے پنجرے میں قید نہ کر دے، جس وقت بادشاہ ڈاکٹر صاحب سے گفت گو میں مصروف تھا، میں ان کی جیب میں گھس گیا۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا ۔’’ خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہاری جان بچ گئی ورنہ میں اس کوٹ پربیٹھنے ہی والا تھا۔‘‘
مرزا تو تا بیگ نے کہا۔’’ اب ذرا غور سے میری بات سُنیے۔ آج رات میں ان سلاخوں سے باہر نکل جاؤں گا اور اُڑتا ہوا محل میں پہنچوں گا۔ پھر میں کوئی ایسی ترکیب کروں گا کہ سلطان سنکی تمہیں رہا کرنے پر مجبور ہو جائے ۔‘‘
بی بطخ بولی۔’’چہ پدی چہ پدی کا شوربا، آخر تم کیا کر لوگے؟‘‘
تو تا جھنجھلا کر بولا۔’’ بی بطخ، تم اپنی چونچ بند ہی رکھو، تمہارے دماغ میں یہ بات نہیں آ سکتی کہ میرا ڈیڑھ سو سال کا تجربہ ہے۔ میں انسانوں کی بولی بول سکتا ہوں۔ میں ان حبشیوں کی رگ رگ سے واقف ہوں ۔‘‘
اس رات جب بادشاہ اور سب لوگ سورہے تھے۔ تو تا چپکے سے جیل خانے کی سلاخوں سے باہر نکل گیا۔ وہ ایک روشن دان کے ذریعہ سے محل میں داخل ہو گیا۔ وہ دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھتا ہوا بالائی منزل میں داخل ہوا۔ ایک کمرے میں سلطان سنکی بستر پر پڑا ہوا خراٹے لے رہا تھا۔ ملکہ کسی دعوت میں گئی ہوئی تھی۔ تو تا چپکے سے ایک پلنگ کے نیچے گھس گیا۔ پھر وہ آہستہ سے کھانسا۔ سلطان کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے پوچھا۔’’ ارما نہ تم دعوت سے واپس آگئی ہو؟‘‘
تو تا بیگ پھر مردانہ آواز میں کھا نسا۔ سلطان یک لخت اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے پوچھا۔’’ تم کون ہو؟‘‘
’’میں ڈاکٹر واجبی ہوں۔‘‘
سلطان سنکی نے پوچھا ۔’’تم میرے کمرے میں کیا کرتے پھر رہے ہو؟ اور تم چھپے ہوئے کہاں ہو؟ مجھے تو نظر نہیں آتے۔‘‘
توتے نے قہقہہ مارا۔ سلطان تیز لہجے میں بولا۔’’ یہ مذاق بند کرو اور سیدھی طرح میرے سامنے آکر بات کرو۔‘‘
تو تا بہت گھمبیر لہجے میں بولا۔’’ بے وقوف بادشاہ، تجھے معلوم نہیں کہ ڈاکٹر وا جبی کون ہے؟ کان کھول کر سن لے کہ اس دنیا کا سب سے عظیم اور طاقت ور انسان ہوں۔ دنیا کے سب علوم میری گھٹی میں پڑے ہیں۔ میں پوشیدہ قوتوں کا مالک ہوں۔ جن بھوت پریت میرے قبضے میں ہیں۔ میں تجھے خبر دار کرنے آیا ہوں کہ اگر تم نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو آزاد نہ کیا تو میں ایسا منتر پڑھوں گا کہ تو اور تیری سب رعایا بیمار ہو جائے گی، کیوں کہ جس طرح میں لوگوں کو صحت یاب کر سکتا ہوں، اُسی طرح صرف انگلی کے اشارے سے انھیں بیمار بھی کر سکتا ہوں۔ تو اپنے سپاہیوں کو حکم دے کہ وہ فوراً مجھے اور میرے ساتھیوں کو قید خانے سے رہا کر دیں ورنہ یاد رکھ کہ تیری شامت آجائے گی۔‘‘
سلطان سنکی کا بہت برا حال تھا۔ وہ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس نے کہا۔’’ میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ خدا کے لیے آپ میری خطا معاف کر دیجیے۔ میرے اور میری رعایا کے حال پر رحم کیجیے۔‘‘
سلطان سنکی چھلانگ مار کر بستر سے نیچے اترا اور دوڑتا ہوا قید خانے کی طرف چلا گیا۔
ادھر مرزا تو تا بیگ پلنگ کے نیچے سے نکلا اور سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر اُسی روشن دان کی راہ سے باہر نکل گیا۔ ملکہ ارمانہ، جو اس وقت دعوت سے واپس آرہی تھی اس نے تو تے کو محل سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ لیا۔ جب سلطان سنکی واپس آیا تو اس نے سارا قصہ ملکہ ارمانہ کو سنایا، ملکہ فوراً سمجھ گئی کہ یہ سب تو تے کی چالا کی ہے۔ جب اس نے یہ بات سلطان سنکی کو بتائی تو وہ بے حد پچھتایا۔ سلطان سنکی اسی وقت قید خانے واپس پہنچا لیکن اسے دیر ہو گئی تھی۔ قید خانے کا دروازہ کھلا ہوا تھا، کمرہ خالی پڑا تھا اور ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی آزاد ہو چکے تھے۔
رہائی اور تلاش
ملکہ ارمانہ نے زندگی میں پہلے کبھی سلطان کو اتنے غیظ و غضب کے عالم میں نہ دیکھا تھا۔ سلطان سنکی غصے سے دانت پیستا، ہر ایک پر گالیوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا، جو چیز سامنے نظر آتی اُسے زمین پر پٹخ دیتا۔ وہ رات کا لباس پہنے ہوئے ہی فوجی چھاؤنی میں چلا گیا۔ وہاں اس نے ہر ایک فوجی کو جگا دیا۔ انھیں حکم دیا کہ وہ جنگل میں پھیل جائیں اور ڈاکٹر واجبی کو پکڑ لائیں۔ پھر اس نے اپنے نو کروں، خانساماں، دھوبی، مالی، نائی اور شہزادہ بمپو کے اُستاد کے اُستاد کو بھی جنگل میں بھیج دیا۔ ملکہ ارمانہ جو رات کی دعوت سے تھکی ہاری واپس لوٹی تھی، اسے بھی جنگل میں جاکر ڈاکٹر واجبی کو تلاش کرنے کا حکم دے دیا۔
اس دوران ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی جنگل میں دوڑتے رہے تاکہ وہ جلد از جلد بندروں کے علاقے میں پہنچ جائیں۔ بی قیں قیں کی ٹانگیں بہت چھوٹی چھوٹی سی تھیں۔ وہ جلد ہی تھک گئی۔ ڈاکٹر نے اسے اُٹھا کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔
سلطان سنکی کا خیال تھا کہ اس کی فوج آسانی سے ڈاکٹر واجبی کو تلاش کرلے گی، کیوںکہ ڈاکٹر جنگل میں بھٹکتا رہے گا اور راستہ تلاش نہ کر سکے گا، لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی،کیوں کہ چیچو اس جنگل کے چپے چپے سے واقف تھا۔ وہ ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھیوںکو جنگل کے ایسے خطے میں لے گیا جہاں کسی انسان کا گزر نہیں ہوا تھا۔ اس نے انھیں ایک کھوکھلے درخت کے تنے میں چھپا دیا۔
چیچونے کہا۔’’ ہمیں یہاں کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ جب سلطان سنکی کے فوجی واپس چلے جائیں گے تب ہم یہاں سے نکلیں گے اور اپنا سفر جاری کریں گے۔‘‘
و ہ سب رات بھر وہاں ٹھیرے رہے۔ سلطان سنکی کے سپاہیوں اور نو کر چا کروں نے ان کی تلاش میں جنگل کا کونا کو نا چھان مارا ۔کئی بار وہ ان کے بالکل قریب سے گزر گئے، لیکن کسی کو ان کے چھپنے کی جگہ معلوم نہ ہو سکی۔ آخر جب دن نکل آیا اور گھنے درختوں کے پتوں میں سے چھن چھن کر روشنی آنے لگی، تب ملکہ ارمانہ نے کہا۔’’ اب بھگوڑے قیدیوں کی تلاش بے کار ہے۔ تم سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا کر آرام کرو۔‘‘
جب چیچو نے دیکھا کہ میدان صاف ہے۔ اس نے ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھیوں کو اس پناہ گاہ سے نکلنے کا اشارہ کیا۔ ایک بار پھر وہ بندروں کی سرزمین کی طرف چل پڑے۔ راستہ بہت طویل تھا۔ وہ بار بار تھک کر بیٹھ جاتے۔ خاص طور پر بی قیں قیں کا تو براحال تھا۔ جب وہ تھکن سے نڈھال ہو جاتی تو چیچو اسے ناریل کا دودھ پلاتا۔ بی بطخ یہ پی کر تازہ دم ہو جاتی۔
انھیں کھانے پینے کے سامان کی کمی نہیں تھی ۔چیچو اور تو تا بیگ جنگل میں اُگنے والے ہر پھل اور سبزی سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ کون سا پھل کہاں کہاں مل سکتا ہے۔
مرزا توتا کھجوریں، انجیر، ناریل توڑ توڑ کر لاتا۔ چیچو ان کا عرق نکال کر شربت بناتا۔ سب جانور مزے لے لے کر یہ مشروب پیتے۔ رات کے وقت ناریل کی شاخوں کا خیمہ بناتے، اس میں گھاس کا بستر لگاتے، پھر سب جانور اور ڈاکٹر صاحب مزے کی نیند سوتے۔ رفتہ رفتہ وہ سفر کے عادی ہو گئے۔ وہ لمبے سے لمبا فاصلہ بھی ہنسی خوشی طے کرنے لگے اور انھیں بالکل بھی تھکاوٹ محسوس نہ ہوتی۔ خاص طور پر رات کے وقت جب وہ آرام کرنے کے لیے خیمہ بناتے تو ڈاکٹر واجبی آگ سلگا کر کھانا پکاتا۔ سب لوگ کھانا کھا کر فارغ ہوتے تو پھر ناچ گانے کی محفل جمتی۔مرزا تو تا بیگ کوئی گیت الا پنا شروع کر دیتا۔ بی بطخ، ڈبو اور ڈاکٹر واجبی اس کی تال پر تالیاں بجاتے اور چیچو تھرک تھرک کرنا چنے لگتا۔ کبھی سب لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے اور چیچو انہیں حیرت انگیر قصے سناتا۔ یہ قصے کہانیاں ان وقتوں کے ہوتے تھے جب طوفان نوح آیا تھا۔ انسان غاروں میں رہتا تھا۔ کبھی چیچو انسانوں کی آمد سے پہلے دنیا میںبسنے والے ڈینوساروں کی باتیں سُنانے بیٹھ جاتا۔ یہ باتیں ایسی حیرت انگیز اور دل چسپ ہو تیں کہ جب چیچو خاموش ہوتا، تب انھیں پتا چلتا کہ بہت رات بیت چکی ہے۔ آگ کبھی کی بجھ چکی ہوتی تھی۔ سب جانور لکڑیاں اکٹھی کر کے لاتے اور پھر دوبارہ آگ سلگائے۔
ادھر سلطان سنکی کی سنیے۔ جب اس کی فوج اور نوکر چاکر ڈاکٹر واجبی کو تلاش کرنے میں نا کام ہو کر واپس لوٹے تو سلطان سنکی بے حد خفا ہوا، اس نے حکم دیا کہ سب لوگ ڈاکٹر واجبی کو تلاش کرنے کے لیے دوبارہ جنگل میں جائیں اور اس وقت تک تلاش جاری رکھیں جب تک ڈاکٹر کو زندہ یا مردہ ہماری خدمت میں پیش نہ کر دیا جائے۔ ڈاکٹر واجبی ان سب باتوں سے بے خبر تھا۔ وہ اپنے آپ کو بالکل محفوظ سمجھ رہا تھا۔ حالاں آنکہ دشمن اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ ایک دن چیچو نے ایک اُونچے درخت پر چڑھ کر دیکھا۔ جب وہ نیچے اترا تو اس نے اطلاع دی کہ وہ بندروں کے ملک کے بالکل نزدیک پہنچ گئے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں وہاں پہنچ جائیں گے۔
اسی شام انھوں نے دیکھا کہ چیچو کا خالہ زاد بھائی بہت سے بندروں سمیت درختوں پر بیٹھے ہیں۔ یہ سب بندر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ جب ان بندروں نے ڈاکٹروا جبی کو دیکھا تو خوشی سے نعرے لگانے لگے ۔کچھ بندروں نے ڈاکٹر کا سامان اُٹھا لیا۔ ایک موٹے تگڑے بندر نے بی بطخ کو سر پر بٹھا لیا اور ٹھمک ٹھمک چلنے لگا۔ دو تین بندر بہت تیز رفتاری سے اپنے قبیلے والوں کو ڈاکٹر واجبی کے آنے کی خبر دینے چلے گئے۔
سلطان سنکی کے جو آدمی ڈاکٹر واجبی کا پیچھا کر رہے تھے۔ انھوں نے بندروں کا شور و غل سنا توسمجھ گئے کہ ڈاکٹر کہاں ہے۔ وہ تیزی سے ڈاکٹر کا پیچھا کرنے لگے۔ ایک بندر نے سپاہیوں کو دور سے آتے دیکھ لیا۔ اس نے فوراً ڈاکٹر واجبی کو اطلاع دی۔ ڈاکٹر نے کہا۔’’ جتنی تیزی سے ممکن ہو سکے، دوڑ لگاؤ۔‘‘
سب جانور پوری تیزی سے دوڑنے لگے۔ سلطان سنکی کے آدمی بھی ان کے پیچھے دوڑنے لگے۔ ایک جگہ ڈاکٹر واجبی کا پاؤں پھسل گیا۔ وہ گر پڑا اور کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ عین اس وقت جب سلطان سنکی کے فوجی اسے پکڑنے والے تھے، فوجیوں کا کپتان ایک کانٹوں والی جھاڑی میں جا گرا۔ کپتان کے کان چھاج کی طرح لمبے لمبے تھے۔ وہ کانٹوں میں بری طرح اُلجھ گئے۔ سب سپا ہی اسے کانٹوں سے نکالنے میں مصروف ہو گئے۔
جب کپتان جھاڑی سے باہر نکلا تو اس وقت ڈاکٹر واجبی بہت دُور نکل چکا تھا۔چیچو نے پر جوش انداز میں چیخ کر کہا۔’’ اب ہمیں تھوڑی دُور اور چلنا ہو گا، پھر بندروں کا ملک شروع ہو جائے گا۔‘‘
لیکن یہ کیا؟ ان سے چند قدم دور ایک دریا بہ رہا تھا۔
بندروں کا پل
ڈاکٹروا جبی نے پریشان ہو کر کہا۔’’ اُف میرے خدا، ہم یہ دریا کیسے پار کریں گے؟‘‘
بی بطخ سہم کر بولی۔’’ سلطان کے سپاہی بھی قریب آتے جارہے ہیں۔ مجھے تو قید خانے کے خیال سے ہی ہول آرہا ہے۔‘‘ وہ بے چاری پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
موٹا بندر تیزی سے آگے بڑھا اور چٹ چٹر چٹر چٹ چٹ کر کے اپنی زبان میں سب بند روں کو ٹیلے گرام دینے لگا کہ فوراً مدد کو پہنچو اور ہمارے لیے ایک پل تیار کرو۔ سلطان کے سپا ہی ہمارے تعاقب میں آرہے ہیں اور ذرا دیر بعد وہ ہم تک پہنچ جائیں گے۔ پل بناؤ ۔پل بناؤ۔پل۔پل۔پل۔‘‘
اب ڈاکٹر واجبی ہکا بکا ہو کر دیکھنے لگا کہ یہ کیا کرنے والے ہیں؟ نہ کہیں شہتیر ہیں، نہ لوہے کے گر ڈر، آخر پل تیار ہو گا بھی تو کیوں کر؟ لیکن جب ڈاکٹر واجبی نے دریا کی طرف دیکھا تو وہ ہکا بکا رہ گیا۔ سب بندروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے تھے۔ ایک بندر نے اس کنارے پر ایک درخت کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور آخری بندر نے دوسرے کنارے پر اُگے ہوئے درخت کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ یوں گوشت پوست کا جان دارپل تیار ہو چکا تھا۔
موٹے بندر نے چیخ کر کہا۔’’ دیر مت کرو۔ سب لوگ پل پر سے گزر کر دوسرے کنارے پر اتر جائیں، جلدی کریں، جلدی۔‘‘
ڈبو اتنے تنگ راستے سے گزرتے ہوئے ڈر رہا تھا۔ ڈر تو سب ہی کو لگ رہا تھا لیکن سب لوگ خیریت سے دوسرے کنارے پر اتر گئے۔ جب ڈاکٹر واجبی دوسرے کنارے پر اتراتو عین اسی وقت سلطان کے سپاہی وہاں پہنچ گئے۔ موٹے بندر نے درخت کو چھوڑ دیا۔ بندروں کاپل، دریا کے دوسری طرف چلا گیا۔ سلطان سنکی کے سپاہی ہوا میں مکے لہراتے رہ گئے۔ کپتان کا غصے سے بڑا حال تھا۔ وہ بہت دیر تک واہی تباہی بکتا رہا۔
چیچو ڈاکٹر واجبی سے بولا۔’’بہت سے سفید فام لوگ بندروں کا پل دیکھنے کے لیے مہینوں تک جھاڑیوں میں چھپے ہوئے بیٹھے رہتے ہیں، لیکن آج تک کوئی سفید فام پل کی ایک جھلک تک نہ دیکھ سکا۔ ڈاکٹر صاحب، آپ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مشہور و معروف بندروں کا پل دیکھا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اس اطلاع پر بے حد خوش ہوا۔
مغرور شیر
اب ڈاکٹر واجبی بے حد مصروف رہنے لگا۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بندر بیمار تھے۔ ان میں لال منھ والے ببون بھی تھے، کالے منھ والے لنگور بھی، چمپنز ی بھی تھے اور گوریلے بھی۔ چھوٹے بڑے ہر قسم کے بندر شامل تھے۔ روزانہ بیسیوں کی تعداد میں مر رہے تھے۔
ڈاکٹر واجبی نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ بیمار بندروں کو تن درست بندروں سے علاحدہ کیا۔ پھر اس نے چیچو اور اس کے رشتے داروں کی مدد سے ایک جھو نپڑی بنائی۔ اگلے دن اس نے سب صحت مند بندروں کو بیماری سے بچاؤ کے لیے ٹیکا لگایا اور دوائی دی۔ تین روز تک دن رات بندر اس گھاس پھونس کی جھونپڑی میں معائنہ کروانے کے لیے آتے رہے۔ ڈاکٹر واجہی دن رات وہاں بیٹھا رہا۔ وہ ہر بندر کا معائنہ کر کے انھیں بیماری سے بچاؤ کے لیے ٹیکا اور دوا دیتا رہا۔ اس کے بعد اس نے ایک بہت بڑا سا گھر بنانا شروع کیا۔ اس میں بہت سے بستر تھے۔ ڈاکٹر واجبی نے مریضوں کو اس شفا خانے میں رکھا۔
لیکن مریض تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ پھر ان کی تیمار داری کے لیے نرسوں کی ضرورت بھی تو تھی۔ ڈاکٹر واجبی نے جنگل کے سب جانوروں مثلاً شیر، چیتا، لگڑ بگڑ، لومڑ وغیرہ کو پیغام بھیجا کہ وہ اس کام میں ہاتھ بٹائیں۔ شیر پارٹی کا لیڈر بہت ہی مغرور اور اکھڑ مزاج شیر تھا۔ جب وہ ڈاکٹر سے ملنے کے لیے آیا اور اس نے مریضوں سے بھرا ہوا شفا خانہ دیکھا تو وہ بے حد ناراض ہوا۔ اس نے جلے کٹے لہجے میںکہا۔ تمہاری یہ مجال؟ آخر تم نے کیا سمجھ کر مجھے تکلیف دی۔ میں جنگل کا شہنشاہ ہوں، ان ذلیل اور غلیظ بندروں کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں کرتا۔ میری بلا سے وہ زندہ رہیں یا مر جائیں۔ میں تو یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ انہیں دو دو چار چار کر کے ہڑپ کر جاؤں تاکہ نہ مرض باقی رہے نہ مریض۔‘‘
اگر چہ شیر خان کے تیور بہت خراب تھے، لیکن ڈاکٹر واجبی با لکل بھی نہیں گھبرایا۔ اس نے بہت حوصلے کے ساتھ کہا ۔’’عالی جاہ، میں نے آپ کو بندر ہڑپ کرنے کے لیے نہیں طلب کیا ہے۔ آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بندر غلیظ ہوتے ہیں۔ ہر ایک بندر صبح سویرے غسل کرتا ہے۔ اب آپ اپنا فرغل (کوٹ) بھی ملاحظہ فرمائیے۔ بالکل میلا چکٹ ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ نے مہینوں سے پانی کی شکل تک نہیں دیکھی۔ حضور والا، یاد رکھیے کم زور اور بے حیثیت لوگ ذلیل نہیں ہوتے بلکہ ذلیل شخص وہ ہے جو مغرور اور بددماغ ہو۔ آپ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو نہ کیجئے۔ یاد رکھیے وہ دن بھی دور نہیں جب یہ بیماری شیروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ فرض کیجیے کہ اگر جنگل کے سب جانور مرگئے اور صرف آپ زندہ رہے تو کیا آپ خاک پھانکا کریں گے؟ یاد رکھیے کہ مغرور لوگوں کا انجام ہمیشہ ہی برا ہوتا ہے۔‘‘
شیر مسکرا کر بولا۔’’ صرف اُن کا انجام برا ہوتا ہے جنھیں ہم صبح ناشتے میں تناول کریں یا دو پہرکو ہڑپ کریں ۔‘‘
یہ کہہ کر شیر نے حقارت کی نگاہ سے ڈاکٹر واجبی کو دیکھا اور منہ پھیر کر چل دیا۔ ایک انسان سے ایسی بد سلوکی کر کے وہ بہت مسرت محسوس کر رہا تھا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی چیتوں نے بھی مدد دینے سے انکار کر دیا، پھر بھیڑ یے، لومڑی، لگڑ بگڑ، ہر ایک نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ اب ڈاکٹر واجبی بے حد فکر مند ہوا کہ ان ہزاروں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے وہ کس سے امداد کی درخواست کرے۔
جب شیروں کا لیڈر اپنے بھٹ میں داخل ہوا تو اس کی بیگم دوڑی ہوئی اس کے پاس پہنچی۔ پریشانی سے اس کا رنگ فق ہورہا تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے کہا ۔’’ ایک بچے نے رات سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘
شیر نی یہ کہہ کر رونے لگی۔ اس کا رواں رواں پھڑک رہا تھا، کیوں کہ شیرنی خوں خوار ضرور تھی، لیکن اس کے سینے میں بھی ایک ماں کا دل تھا۔ شیر بھی اس اطلاع پر فکر مند سا ہوا۔ اس نے بھٹ میں جا کر بچوں کو دیکھا۔ دو بچے تو چست و چالاک تھے، لیکن تیسرا بچہ نڈھال ہو رہا تھا۔ وہ سر جھکائے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔
شیر نے ہنس ہنس کر شیرنی کو ڈاکٹر واجبی سے ملاقات کا حال سُنایا۔
شیر نی یہ بکواس سُن کر غصے سے بے قابو ہو گئی۔ اس نے چیخ کر کہا۔’’ ارے تمھاری کھوپڑی میں تو بھو سا بھرا ہوا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں اس ڈاکٹر کی شہرت پھیلی ہوئی ہے۔ یہ دنیاکا واحد انسان ہے جو حیوانوں کی بولی سمجھتا ہے۔ تم جیسے اکھڑ اور بد مزاج شخص کو اس کا علم ہی نہیں؟ ہمارا لاڈلا بچہ بیمار ہو رہا ہے۔ تم فور اًجا کر ڈاکٹر سے معافی طلب کرو اور اسے اپنے ساتھ لے کر آؤ ۔‘‘
شیر چُپ چاپ کھڑا رہا۔ تب شیرنی دھاڑ کر بولی۔’’ ارے تمھیں کب عقل آئے گی؟ تم فوراً جاؤ اور ڈاکٹر واجبی سے اپنے غلط رویے کی معافی طلب کرو ۔اپنے ساتھ اپنے چیلے چانٹوں کو بھی لے جانا۔ یہ باؤلا سا لگڑ بگڑ اور یہ بے وقوف بھیڑیا سب تمھاری طرح عقل سے پیدل ہیں۔ انھیں بھی اپنے ساتھ لیتے جانا اور ڈاکٹر واجبی جو کچھ کہے، اس کا حکم چوں چرا کیے بغیر فوراً بجالا نا، شاید ڈاکٹر مہربان ہو کر ہمارے منے کو بھی دیکھ لے۔اب تم فور اًدفعان ہو جاؤ۔‘‘
یہ کہتے ہی شیرنی نے شیر کو غار سے باہر دھکیل دیا۔
شیر پارٹی کا لیڈر شرمندہ شرمندہ سا ڈاکٹر واجبی کے پاس پہنچا۔ اس نے کہا۔’’ میں یہاں سے گزر رہا تھا سوچا کہ آپ کی مزاج پرسی کرتا چلوں۔ کہیے کہیں سے کوئی امدادملی؟‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ نہیں، کوئی مدد کرنے کو آمادہ نہیں ہے۔ میں بے حد فکر مند اور پریشان ہوں ۔‘‘
شیر بے زاری سے بولا۔’’ ہاں جی، آج کل کون کس کا ہاتھ بٹاتا ہے، لیکن آپ جس تن دہی اور ہمدردی سے کام کر رہے ہیں اسے دیکھ کہ میرا دل موم ہو گیا ہے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہوتو بتائیے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ خوش ہو کر بولا۔’’ بس آپ اتنی زحمت کیجیے کہ جنگل کے جانوروں کو میری مدد کرنے کا حکم دے دیجیے۔ آپ کا اثر رسوخ کافی ہے۔ امید ہے کہ وہ آپکا حکم نہیں ٹالیں گے۔‘‘
شیر بولا۔’’بہت بہتر، میں ابھی جنگل کے سب جانوروں سے کہہ دیتا ہوں۔ ہاں، اگر آپ وقت نکال سکیں تو آج شام میرے غریب خانے پر ضرور تشریف لے آئیے۔ میرا لاڈلا پپو بیمار ہو گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی اس غیبی امداد کے مل جانے پر بے حد خوش ہوا۔ جنگل اور میدانوں کے سب جانور ڈاکٹر کی مدد کرنے کے لیے پہنچ گئے۔ اس نے چند ایک ہوشیار جانوروں کو رکھ لیا۔ باقی کو واپس بھیج دیا۔ ڈاکٹر واجبی کی خصوصی توجہ سے بندر جلد صحت یاب ہونے لگے۔ ہفتے دس دن کے اندر آدھے سے زیادہ مریض صحت یاب ہو کر شفا خانے سے رخصت ہو گئے اور اگلے ہفتے کے آخر تک سب بندر صحت یاب ہو گئے۔ جب آخری بندر کو شفا خانے سے چھٹی ملی تو ڈاکٹر واجبی نے سکھ کا سانس لیا۔ وہ اتنا تھک چکا تھا کہ بستر پر لیٹ گیا اور تین دن تک ایسی گہری نیند سوتا رہا کہ اس نے کروٹ تک نہ بدلی۔
بندروں کی کانفرنس
اس دوران چیچو ڈاکٹر واجبی کے خیمے کے باہر پہرہ دیتا رہا۔ جب ڈاکٹر بیدار ہوا تو اس نے کہا کہ اب میں واپس اپنے وطن جانا چاہتا ہوں۔ سب بندر یہ بات سُن کر حیران ہوئے، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اب ڈاکٹر ہمیشہ ہمیشہ ان کے پاس رہے گا۔ اس رات جنگل کے سب بندر اس مسئلے پر بات چیت کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔
چمپنزی قبیلے کا سردار بولا۔’’ آخر یہ نیک دل انسان واپس جانا کیوں چاہتا ہے؟ کیا وہ ہمارے ساتھ رہ کر خوش نہیں ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ گوریلا بولا۔’’ میری تجویز ہے کہ ہم سب اکٹھے ہوکر ڈاکٹر واجبی کے پاس چلیں اور اسے یہاں رہنے پر رضامند کریں۔ اگر ہم اس کے لیے ایک بڑا سا مکان بنادیں، اس کے کھانے کے لیے ہر طرح کا میوہ، سبزیاں اور گوشت مہیا کر دیں، اس کی خدمت گزاری کے لیے بہت سے بندر کمر بستہ رہیں اور اس کی ہر خواہش پوری کر دیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ یہاں سے جانے کا ارادہ ترک کردے گا۔‘‘
تب چیچو تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا۔ سب بندر خاموش ہو گئے اور توجہ سے اس کی بات سننے لگے۔ چیچو نے کہا۔’’ دوستو! میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر واجبی سے یہاں رکنے کی فرمائش کرنا ہے کار ہے، کیوں کہ ان کو اپنے دوستوں کی یاد ستا رہی ہے اور اس کا واپس جانا بے حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے کچھ رپے قرض لیے تھے جن کو ادا کرنا بے حدضروری ہے۔‘‘
اس پر ایک بندر نے پوچھا۔’’ یہ رپے کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘
چیچو نے کہا۔’’انسانوں کی بستی میں رپے کے بغیر تم کوئی چیز نہیں خرید سکتے۔ رپے کے بغیر گزارا کرنا تقریباً نا ممکن ہے ۔‘‘
کئی بندروں نے پوچھا ۔’’کیا رپے کے بغیر کھانے پینے کی چیزیں بھی نہیں مل سکتیں؟ ‘‘
چیچو نے انکار میں سر ہلا کر کہا۔’’ رپے کے بغیر کوئی چیز نہیں مل سکتی۔ جب میں مداری کے پاس تھا تو وہ رپیا کمانے کے لیے مجھے دن بھر اپنے ساتھ کھینچے کھینچے پھرتا۔ گلی کوچوں میں ڈ گڈ گی بجا کر مجمع اکٹھا کرتا اور مجھے نچاتا۔‘‘
بندروں کو یہ بات سُن کر بہت تعجب ہوا۔ ایک بندر بولا۔’’ انسان تو عجیب مخلوق ہے، بھلا کون بے وقوف ان کی دنیا میں رہنا پسند کرے گا؟‘‘
چیچو نے کہا۔’’ جب ہم تمہارے علاج معالجے کے لیے ادھر آرہے تھے تو سمندر کو پار کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی کشتی نہیں تھی، نہ سفر کے دوران کھانے پینے کا سامان تھا۔ ایک رحم دل شخص نے ہمیں بسکٹ، دودھ، ڈبل روٹیاں اُدھار دے دیں۔ ہم نے یہ وعدہ کیا کہ سفر سے واپس آنے کے بعد اس کا قرض چکا دیں گے۔ ہم نے ایک ملاح سے ایک چھوٹا سا جہاز بھی اُدھار مانگ لیا، لیکن بدقسمتی سے یہ جہاز راستے میں ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ ڈاکٹر واجبی کا خیال ہے کہ ہمیں فوراً واپس جا کر جہاز کی قیمت ادا کرنے کا بندوبست کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ جہاز اس ملاح کا کل سرمایہ تھا اور اس کے بغیر وہ فاقوں سے مر جائے گا ۔‘‘
سب بندر زمین پر خاموش ہو کر بیٹھ گئے اور سوچ بچار کرنے لگے، لیکن ان کے ذہن میں نہیں آرہا تھا کہ انہیں اب کیا کرنا چاہیے۔
آخر بڑا ببون اُٹھا۔ اس نے کہا۔’’ ڈاکٹر واجبی نے ہمارے ساتھ جو نیکی کی ہے ہم ہمیشہ اس کے شکر گزار رہیں گے۔ اپنی شکر گزاری کے جذبے کا اظہار کرنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ڈاکٹر صاحب کو کوئی لاجواب سا تحفہ دیں۔‘‘
ایک لنگور نے کہا۔’’ میں آپ کی تائید کرتا ہوں ۔‘‘
پھر تو سب بندر چلانے لگے ۔’’بجا فرمایا، درست فرمایا، ہمیں ڈاکٹر واجبی صاحب کو کوئی عمدہ سا تحفہ دینا چاہیے۔‘‘
کافی دیر تک یہی شور برپا رہا۔ جب یہ شور تھما تو بندر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ تحفہ کیا ہونا چاہیے؟ ایک لنگور بولا۔’’ ڈیڑھ سو درختوں کا ناریل اور سو درختوں کے کیلے۔ میرے خیال میں پھر زندگی بھر ڈاکٹر واجبی کو پھل خریدنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی ۔‘‘
چیچو بولا۔’’ اول تو ان کالے جانا بے حد مشکل ہے، پھر یہ کہ یہ پھل بہت جلد گل سڑ جائیںگے اور کھانے کے قابل نہ رہیں گے۔‘‘
چیچو نے کچھ دیر بعد پھر کہا ۔’’اگر تم اُسے کوئی تحفہ دینا چاہتے ہو تو کوئی نایاب قسم کا جانور دے دو۔ یقین رکھو کہ ڈاکٹر ابھی جانور کو اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھے گا۔ یہ جانور ایسانا یاب ہونا چاہیے جو چڑیا گھروں میں بھی نہ پایا جاتا ہو۔‘‘
کئی بندروں نے پوچھا۔’’ یہ چڑیا گھر کیا ہوتا ہے؟‘‘
چیچو نے کہا۔’’ انسانوں کی بستی میں چڑیا گھر وہ جگہ ہوتی ہے جہاں طرح طرح کے جانوروں کو پنجروں میں بند کر کے رکھا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ آکر انہیں دیکھیں۔‘‘
سب جانور نفرت سے بولے۔’’ یہ انسان تو عجیب وحشی مخلوق ہے، جو بے زبان جانوروں کو صرف اپنی دل لگی اور تفریح کی خاطر قید کر کے رکھتی ہے۔‘‘
گوریلے نے پوچھا۔’’ کیا ان کے پاس اگوانا ہے؟‘‘
چیچو نے کہا۔’’ہاں لندن کے عجائب گھر میں ایک اگوانا موجود ہے!‘‘
لمبے ہاتھوں والے بندر اورنگ اوٹانگ نے پوچھا۔’’ کیا ان کے پاس اوکاپی ہے؟ ‘‘
چیچو نے کہا۔ ’’ہاں ایک او کاپی بلجیم میں ہے اور کچھ عرصے پہلے ایک اوکاپی مصر میں بھی موجود تھی ۔‘‘
ایک بن مانس نے پوچھا۔’’ کیا ان کے پاس دورخا گھوڑا ہے؟‘‘
چیچو بولا۔’’ دنیا کے کسی انسان نے آج تک دور خا گھوڑا نہیں دیکھا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یہ جانور ڈاکٹر واجبی کو تحفے میں دے دیں۔‘‘
انوکھا تحفہ… دو رُخا گھوڑا
آج کل دورُخاگھوڑا نا پید ہے، لیکن ان دنوں ڈاکٹر واجبی کے زمانے میں دنیامیں ایک دورُخا گھوڑا موجود تھا اور وہ بھی افریقہ کے دشوار گزار جنگلوں میں رہتا تھا۔ دورُخے گھوڑے کے دم نہیں تھی بلکہ اس کی جگہ بھی ایک سر تھا۔ یہ جانور فطر تاً بہت ہی شرمیلا اور ڈرپوک تھا اس لیے گھنے جنگلوں میں چھپا رہتا تھا۔
لوگ عام طور پر جانوروں کو پیچھے سے دبے پاؤں آکر پکڑ سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ایسی ترکیب کام یاب نہیں ہو سکتی، کیوں کہ کوئی شکاری چاہے آگے سے آئے یا پیچھے سے ،وہ دو رُخے کی نظر میں رہتا تھا۔ اس کے علاوہ جب ایک سر سو جاتا تو دوسرا سر رکھوالی کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کوئی نہ پکڑ سکا اور چڑیا گھروں میں اس نام کا کوئی جانور دیکھنے میں نہیں آتا، اگرچہ شکاریوں نے لاکھ کوشش کی، لیکن وہ اسے پکڑنے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ اب بندر اس انوکھے جانور کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ جب وہ گھنے جنگل میں پہنچے کو اتفاقیہ طور پر ایک بندر کو دورُخے گھوڑے کا سراغ مل گیا۔ اس نے پاؤں کے نشانات سے اندازہ لگا لیا کہ وہ یہاں قریب ہی ہے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ سب بندروں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس علاقے کو گھیرے میں لے لیا جہاں دورُ خا موجود تھا۔ جب دو رُخے نے انہیں آتے دیکھا تو اس نے بھاگ نکلنا چاہا، لیکن وہ اپنی کوشش میں کام یاب نہ ہو سکا۔ آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اس نے بندروں سے پوچھا ۔’’آخر آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
بندروں نے کہا۔’’ کیا تم انسانوں کی بستی میں جانا پسند کرو گے؟‘‘
دورُخا گھوڑا اپنے دونوں سر ہلا کر بولا۔’’ ہرگز نہیں۔‘‘
بندروں نے اسے سمجھایا کہ ڈاکٹر واجبی بے حد رحم دل انسان ہے۔ وہ جانوروں کا ہمدرد اور غم خوار ہے۔ اگر تم ڈاکٹر کے ساتھ کچھ دن رہنا منظور کر لو تو وہ تمھاری نمائش کرے گا اور اس طرح اُسے جو آمدنی حاصل ہو گی اس سے وہ اپنا قرض چکانے کے قابل ہو جائے گا۔
دورُخا گھوڑا بولا۔’’ مجھے یہ منظور نہیں کہ تماشائی مجھے گھور گھور کر دیکھتے رہیں، کیوں کہ میں ایک بے حد شر میلا جانور ہوں ۔‘‘ یہ کہہ کر دورُخا چیخنے چلانے لگا۔
تین دن تک سب بندر اسے مناتے رہے۔ آخر تیسرے دن دورُخا گھوڑا بولا۔’’ پہلے میںایک نظر ڈاکٹر واجبی کو دیکھ لوں، اس کے بعد میں کچھ کہہ سکوں گا۔‘‘
سب بندر دو رُخے کو ساتھ لے کر ڈاکٹر واجبی کے پاس پہنچے۔
چیچو بہت فخر سے دو رُخے گھوڑے کو ڈاکٹر کے سامنے لے گیا۔ ڈاکٹر گھوڑے کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے پوچھا۔’’ یہ کیا چیز ہے بھئی؟‘‘
تو تا بیگ گھبرا کر بولا۔’’ خدا ہمیں ہر بلاسے محفوظ رکھے۔ یہ تومجھے کچھ اور ہی مخلوق نظرآتی ہے۔‘‘
چیچو بولا۔’’ ڈاکٹر صاحب یہ دورُخا گھوڑا ہے۔ اس نسل کا یہ واحد جانور باقی رہ گیا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ اسے اپنے ساتھ لے جائیے اور اس کی نمائش کیجیے۔ لوگ اسے دیکھنے کے لیے آپ کو منہ مانگی رقم ادا کریں گے۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی بے رخی سے بولا۔’’ مجھے رُپے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
بی بطخ بولی۔’’ رُپے پیسے کی ضرورت کسے نہیں ہوتی ڈاکٹر صاحب؟ شاید آپ بھول گئے کہ ہم نے بستان پور میں کیسے مصیبت کے دن گزارے ہیں؟ ایک ایک پائی جوڑ کر ہم دھوبی، نائی، قسائی کابل ادا کرتے رہے۔ پھر ملاح کا قرض بھی تو چکانا ہے۔ اس کی کشتی کے بدلے آپ کو نئی کشتی بھی تو دینا ہو گی۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بے پروائی سے بولا۔’’ تم اس کی فکر نہ کرو، میں ایک نئی کشتی بنادوں گا۔‘‘
بی قیں قیں جھنجھلاکر بولی۔’’ ہوش کی دوا کیجیے ڈاکٹر صاحب، بھلا رپے پیسے کے بغیر لکڑیاں، کیلیں، قبضے اور دوسر ا سامان کہاں سے آئے گا، پھر اس کے علاوہ ہم لوگ بھی تو آپ کے ساتھ ہیں۔ کیا ہم ہمیشہ اسی طرح تنگی ترشی سے گزارا کرتے رہیں گے؟ میرا خیال تو یہی ہے کہ آپ چیچو کا مشورہ مان لیجیے اور اس انوکھے جانور کو اپنے ساتھ لے چلیے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی سر کھجا کر بولا۔’’کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو ،کیوں بھئی تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا تم ہمارے ساتھ جانا پسند کرو گے؟‘‘
دورُخے گھوڑے نے ڈاکٹر واجبی کا چہرہ دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا کہ اس شخص پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا۔’’ مجھے آپ کے ساتھ جانا منظور ہے، لیکن آپ کو یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ اگر انسانوں کی بستی میں میرا دل گھبرایا تو آپ مجھے واپس بھجوا دیں گے۔‘‘
ڈاکٹر نے فوراً کہا ۔’’ ہاں ہاں، کیوں نہیں؟ یہ میرا تم سے وعدہ رہا۔‘‘
بی بطخ بولی۔’’ ایک بات تو بتاؤ۔ میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ تمہارا صرف ایک منھ گفت گو میں مصروف ہے۔ کیا تم دوسرے منھ سے بول چال نہیں سکتے؟‘‘
دورُخا بولا۔’’ دوسرامنھ عام طور پر جگالی کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اس طرح میں کھانے پینے کے ساتھ ساتھ بات چیت بھی کرتا رہتا ہوں ۔‘‘
جب سب تیاری مکمل ہو چکی تو بندروں نے ڈاکٹر وا جبی کے اعزاز میں ایک تقریب کا انتظام کیا۔ جنگل کے سب جانور اس دعوت میں شریک ہوئے۔ ہر جانور اپنے ساتھ انناس، کیلے، آم، شہد اور کھانے پینے کی چیزیں لے کر آیا۔ جب کھانے پینے کا سلسلہ ختم ہوا تو ڈاکٹر واجبی تقریر کے لیے کھڑا ہوا۔ اس نے کہا:
’’دوستو! میں تقریر کرنے کے فن میں ماہر نہیں ہوں۔ میں جو کچھ کہوں گا اس کا ایک ایک لفظ میرے دل کی گہرائیوں سے نکلے گا۔ سب سے پہلے تو میں آپ لوگوں کو ایسی شان دار دعوت دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ آپ لوگوں سے جدا ہو رہا ہوں، لیکن میں مجبور ہوں، کیوں کہ مجھے انسانوں کی دنیا میں کچھ کام سرانجام دینے ہیں۔ میرے جانے کے بعد دو باتوں پر عمل کرنا۔ ایک تو یہ کہ اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو مکھیوں سے بچا کر رکھنا اور ہر چیز اچھی طرح دھو کر کھانا، دوسرے یہ کہ بارش کے بعد گیلی زمین پر کبھی مت سونا۔ اور…اور…اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ ہمیشہ تن درست رہیں گے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی تقریر ختم کر کے بیٹھ گیا۔ سب بندر بہت دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔
گوریلا بولا۔’’ اس عظیم انسان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہم ایک یاد گار بنائیں گے، تاکہ ہمیں اور آنے والی نسلوں کو یہ ہمیشہ یاد رہے کہ اس عظیم انسان نے ہمارے ساتھ کھانا کھایاتھا۔‘‘
یہ کہہ کر گوریلا ایک بڑا سا پتھر لڑھکاتا ہوا اس جگہ لے آیا جہاں ڈاکٹرو اجبی بیٹھا ہوا تھا۔ گوریلے نے کہا۔’’ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ڈاکٹر واجبی صاحب یہاں بیٹھے تھے۔‘‘
آج تک جنگل کے بالکل درمیان میں ایک بہت بڑا سا پتھر گڑا ہوا ہے۔ جب کوئی بندر وہاں سے گزرتا ہے تو وہاں کچھ دیر کے لیے ضرور ٹھیرتا ہے اور اپنے بچوں کو اس عظیم انسان کے متعلق بتاتا ہے جو ہزاروں مصیبتیں جھیل کر ان کے علاج کے لیے وہاں آیا تھا۔
جب دعوت ختم ہو چکی تو ڈاکٹر واجبی اور اس کے پالتو جانور دریا کی طرف چلے، جنگل کے سب بندروں نے بہت دُور تک ان کا ساتھ دیا۔
افریقہ سے واپسی اور پھر گرفتاری
سب بندر دریا کے کنارے پر ٹھیر گئے اور ڈاکٹر واجبی سے سلام دعا کر کے رخصت ہونے لگے۔ اس میں بہت دیر لگ گئی، کیوں کہ بندر سیکڑوں بلکہ ہزاروں تھے اور ہر ایک ڈاکٹر واجبی سے مصافحہ کرنے کا خواہش مند تھا۔
جب ڈاکٹر اور اس کے پالتو جانور اکیلے رہ گئے تو مرزا تو تا بیگ نے کہا۔’’ ڈاکٹر صاحب ہمیں اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا اور باتیں بھی بہت دبی دبی آواز میں کرنی ہوں گی کیوں کہ ہم پھر جولی گان کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اگر سلطان سنکی کو ہمارے آنے کی سن گن مل گئی تو وہ ہمیں پکڑنے کے لیے پوری فوج بھیج دے گا۔‘‘
ایک دن وہ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے۔ چیچو ناریل کی تلاش میں نکل گیا۔ ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی جو جنگل سے ناواقف تھے، وہ راستہ بھول گئے اور جنگل میں بھٹکنے لگے۔ ادھر چیچو کو جب وہ نظر نہ آئے تو وہ بہت پریشان ہوا۔ وہ اونچے اونچے در ختوں پر چڑھ کر انھیں تلاش کرنے لگا۔ ایک دفعہ چیچو کو ان کی جھلک بھی دکھائی دی پھر اس کے بعد وہ گم ہو گئے۔ ڈاکٹر اور اس کے ساتھی صحیح راستے سے بھٹک کر جنگل میں ایسی جگہ جا نکلے جہاں گھنی جھاڑیاں تھیں اور درختوں سے لٹکی ہوئی بیلوں نے جال سابن دیا تھا۔ ڈاکٹر واجبی نے اپنی جیب سے چاقو نکالا، بیلوں اور جھاڑیوں کو کاٹ کاٹ کر راستہ بنایا۔ کئی دفعہ ڈاکٹر گیلی زمین پر پھسل پھسل کر گرا۔ ایک دفعہ تو اس کی دواؤں کا تھیلا ہاتھ سے چھوٹ کر جھاڑیوں میں جاگرا۔ ان کی مصیبتیں بڑھتی ہی چلی جارہی تھیں اور راستے کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
کئی دن تک یوں ہی بھٹکتے رہنے کے بعد ان کے کپڑے پھٹ کر تار تار ہو گئے۔ ہاتھ اور منھ کیچڑ سے لتھڑ گئے۔ آخر وہ سلطان سنکی کے محل کے پچھواڑے میں جانکلے۔ سپاہیوں نے انھیں گرفتار کر لیا اور سلطان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ مرزا تو تانے بہت عقل مندی دکھائی۔ وہ چپکے سے اُڑ کر درختوں کے جھنڈ میں جا چھپا، اس لیے وہ گرفتار ہونے سے بچ گیا۔
سلطان سنکی نے خوف ناک قہقہہ لگا کر کہا۔’’ ہاہا، ہا، بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی؟ اس دفعہ تم بچ کر نہ جا سکو گے ۔‘‘
پھر سلطان نے کڑک دار لہجے میں کہا۔’’ لے جاؤ ان بد بختوں کو اور جیل خانے میں بند کر دو اور دروازے پر دہرے تالے ڈال دو ۔‘‘
اس صورت حال پر سب جانور بے حد افسردہ ہوئے۔ ڈاکٹر واجبی جھنجھلا کر کہنے لگا۔’’ یہ کیا مصیبت آگئی؟ مجھے ہر قیمت پر بستان پور جانا ہے، ورنہ وہ غریب ملاح سمجھے گا کہ ہم لوگ اس کا جہاز لے کر فرار ہو گئے ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی جیل کے دروازے جھنجھوڑنے لگتا، پھر تھک ہار کر بیٹھ جاتا۔ بی بطخ زور زور سے رونے لگی تو ڈاکٹر نے اسے تسلی دی۔ ادھر مرزا تو تا بیگ درختوں میں چھپا ہوا بیٹھا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو رہائی دلانے کی ترکیبیں سوچتا رہا۔ جلد ہی چیچو بھی اُدھر آنکلا۔ جب اسے ڈاکٹر واجبی کے گرفتار ہونے کی اطلاع ملی تو وہ بھی بے حد رنجیدہ ہوا۔ اس نے تلخ لہجے میں کہا۔’’ تم بھی تو جنگل کے چپے چپے سے واقف ہو۔ تم نے رہنمائی کیوں نہیں کی؟‘‘
تو تا بیگ بولا ۔’’ یہ سب کیا دھرا ڈاکٹر صاحب کے کتے کا ہے۔ وہ ایک خرگوش کا پیچھا کرنا ہوا گھنے جنگل میں چلا گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے ہم بھی گھنے جنگل میں پہنچ گئے اور راستہ بھول گئے اور ادھر اُدھر بھٹکنے لگے ۔‘‘
چیچو آواز دبا کر بولا۔’’ چپ خاموش، شہزادہ بمپو اسی طرف چلا آرہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی نظر ہم پر پڑ جائے۔‘‘
شہزادہ بمپو با غیچے میں داخل ہوا۔ اس نے اپنی بغل میں کہانیوں کی کتاب دبا رکھی تھی۔ وہ ایک اُداس دُھن گنگناتا ہوا ادھر آیا اور درخت کے نیچے ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور کتاب کھول کر پریوں کی کہانی پڑھنے لگا۔ تو تا اور چیچو دم سادھے بیٹھے رہے اور غور سے اس کی حرکات دیکھتے رہے۔ شہزادے بمپو نے کتاب رکھ دی اور آہ بھر کر بولا۔’’ کاش کہ میرا رنگ بھی گورا ہوتا۔‘‘ پھر وہ خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔
تو تا بیگ زنانہ آواز میں بولا۔ ’’بمپو، میرے بیٹے، اُداس نہ ہو۔ دنیا میں ایک شخص ایسا ہے جو تمہارے رنگ کو گورا کر سکتا ہے۔‘‘
بمپو نے حیران ہو کر ادھر اُدھر دیکھا۔ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔’’یہ میں کیا سُن رہا ہوں؟ ایسی نرم اور رسیلی آواز تو کسی پری کی ہی ہو سکتی ہے ۔‘‘
تو تا بیگ بولا۔’’ میرے بیٹے، تم ٹھیک ہی سمجھے۔ میں پری ہوں اور میرا نام ہے حو ر بانو۔ میں پریوں کی ملکہ ہوں اور یہاں گلاب کی کلی میں چھپی ہوئی بیٹھی ہوں۔‘‘
بمپو مسرت سے جھوم کر بولا۔’’ اے مہربان ملکہ، خدا کے لیے مجھے اس نیک دل شخص کا پتا بتا دیجیے جو میرے سیاہ رنگ کو سفید کر سکے۔‘‘
تو تا بولا۔’’ تمہارے باپ کے جیل خانے میں ایک زبر دست جادوگر بند ہے۔ اس کا نام ڈاکٹر واجبی ہے۔ وہ بے شمار عجیب و غریب دواؤں سے واقف ہے ۔اس کے علاوہ وہ جادو کر نا بھی جانتا ہے۔ اس نے ہزاروں کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ تمھارے باپ نے کسی غلط فہمی کی بنا پر اسے قید میں ڈال دیا ہے۔ تم اس سے رات کے وقت ملو، لیکن خبر دار کسی کو اس کی خبر نہ ہونے پائے۔ مجھے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکی۔ اچھا اب خدا حافظ۔‘‘
’’ خدا حافظ، نیک دل پری۔‘‘ شہزادہ بمپو مسکرا کر بولا۔
شہزادہ بے تابی سے رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ خوشی کے مارے اس کا دل بلیوں اُچھل رہا تھا۔
شہزادہ گورا ہو گیا
آخر خدا خدا کر کے سورج غروب ہوا۔ تو تا بیگ چپکے سے اُڑ گیا اور سیدھا جیل خانے میں پہنچا۔ اس نے سلاخوں پر دو تین بار چونچ مار کر بی بطخ کو نزدیک بلایا اور کہا۔’’ ذراڈ اکٹر صاحب کو کھڑکی کے پاس بھیج دو۔ میں ان سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
بطخ نے ڈاکٹر واجبی کو جگایا۔ تو تا بیگ آہستہ سے بولا۔’’ آج رات شہزادہ بمپو آپ سے ملنے کے لیے آئے گا۔ آپ کوئی ایسی ترکیب نکالیے کہ اس کا رنگ سفید ہو جائے۔ اس کے صلے میں آپ اپنی آزادی کا پروانہ اور سفر کے لیے جہاز طلب کرنا نہ بھولیے گا۔‘‘
ڈاکٹر بولا۔’’ وہ تو ٹھیک ہے، لیکن کسی کالے آدمی کا رنگ گورا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ انسان کی جلد کپڑے کی طرح نہیں ہوتی کہ اس کو رنگا جا سکے ۔‘‘
تو تا بیگ بے صبری سے بولا۔’’ خدا کے لیے آپ کو ئی ترکیب سوچیے۔ یہ کام آپ کو کرنا ہو گا۔ آپ کے تھیلے میں بے شمار دوائیں ہیں۔ اگر آپ اس کی رنگت تبدیل کر دیں تو وہ آپ کی خاطر جان تک قربان کرنے کو تیار ہو جائے گا۔ آپ کے لیے جیل سے نکلنے کا یہ آخری موقع ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی فکر مند ہو کر سر کھجانے لگا۔’’ میرا خیال ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے ۔خیر، میں ذرا اپنی دواؤں کی صندوقچی کا معائنہ تو کرلوں۔‘‘
یہ کہہ کر ڈاکٹر نے دواؤں کی صندوقچی فرش پر الٹ دی۔ وہ دواؤں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ پھر وہ اپنے آپ سے بولا:
’’ کلورین رنگ کاٹ دیتی ہے، لیکن اس کا اثر بہت تھوڑے عرصے کے لیے ہوتا ہے۔ ہائیڈروجن پر آکسائڈ بالوں کا رنگ بھورا کر دیتی ہے۔ اگر کلورین میں چند دوائیں ملا کر جلد کا رنگ تبدیل کردوں اور پھر جسم پر سفیدے کی تہ جما دوں تو کیسا رہے گا؟‘‘
ابھی وہ ترکیبیں سوچ ہی رہا تھا کہ شہزادہ بمپو جیل خانے میں داخل ہوا۔ اس نے کہا:
’’میں بے حد بد نصیب شخص ہوں۔ کاش میرا رنگ گورا ہوتا اور میرے بال سنہرے گھونگھریالے ہوتے۔ میں نے آپ کے جادو کی شہرت سنی ہے۔ میں آپ کے پاس یہ امید لے کر حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرا رنگ گورا کر دیں گے ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ شہزادے، اگر میں آپ کے بال سنہرے کر دوں تو کیا یہ کافی نہیں رہے گا ۔‘‘
شہزادہ بے صبری سے بولا۔’’ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ کسی طرح میرا رنگ گورا ہو جائے۔‘‘
’’ تم جانتے ہو کہ کسی شہزادے کا رنگ تبدیل کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ کیا یہ کافی رہے گا کہ آپ کا چہرہ گورا ہو جائے ۔‘‘
شہزادہ بولا۔’’ہاں یہی کافی ہے، کیوں کہ میں اپنے جسم پر تو چمک دار ذرہ بکتر پہن لوں گا، ہاتھ دستانوں میں چھپے ہوئے ہوں گے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ میں اپنی سی پوری کوشش کروں گا، لیکن آپ بھی ذرا صبر و تحمل سے کام لیجیے گا۔ ان تھوڑی سی دواؤں کے ساتھ اتنا بڑا کام پورا کرنا کافی مشکل ہے۔ ہو سکتاہے کہ آپ کے چہرے پر دو یا تین بار عمل کروں۔ آپ کے چہرے کی کھال کافی سخت ہے اور رنگ بھی گہرا ہے۔ اس لیے تھوڑی دیر تو لگے گی۔ آپ ذرا مہربانی فرما کر میرے سفر کے لیے ایک جہاز کا بندوبست کر دیجیے۔ راستے میں کھانے پینے کے لیے کافی سامان بھی ہونا چاہیے، لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔ جب میں آپ کی فرمائش پوری کر دوں تو آپ مجھے اور میرے ساتھی جانوروں کو اس قید سے رہائی دلا دیجیے گا۔ کہیے منظور ہے آپ کو؟‘‘
’’ شہزادے بمپونے وعدہ کر لیا۔ وہ سمندر کے ساحل پر جہاز کا بندو بست کرنے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے بتایا کہ سب انتظام ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر وا جی نے بی بطخ سے کہا کہ ذرا ایک ٹب لے آؤ۔ پھر اس نے بہت سی دواؤں کو اس ٹب میں انڈیلا اور بمپو سے کہا۔’’ اپنا چہرہ اس میں ڈبو دو۔‘‘
شہزادہ نیچے جھکا اور اس نے دواؤں میں اپنا چہرہ ڈبو دیا۔ شہزادے بمپونے اتنی دیر تک اپنا چہرہ دواؤں میں ڈبوئے رکھا کہ ڈاکٹر واجبی بھی پریشان ہو گیا اور بے چینی سے کبھی وہ ایک پاؤں پر کھڑا ہو جاتا، کبھی دوسرا بھی زمین پر ٹیک دیتا، کبھی دواؤں کے لیبل پڑھنے لگتا، کبھی شیشیوں کو ہلا ہلا کر دیکھتا۔ آخر کچھ دیر بعد کمرے میں ایک عجیب سی ناگوار بو پھیل گئی۔ بمپو نے ٹب سے منھ باہر نکالا اور ایک لمبا سانس لیا۔ سب جانور حیران ہو کر چیخنے چلانے لگے۔ شہزادے بمپو کا چہرہ دودھ کی طرح سفید ہو چکا تھا۔
ڈاکٹر وا جبی نے بمپو کو آئینہ دکھایا۔ وہ خوشی کے مارے اُچھلنے کودنے لگا۔ ڈاکٹر واجبی نے کہا کہ’’ شور مچانے کی ضرورت نہیں ورنہ چوکی دار ادھر آجائیں گے اور اب خاموشی سے دروازہ کھول دو ۔‘‘ بہو نے درخواست کی۔’’ آپ یہ آئینہ مجھے دے جائیے۔ پورے ملک چولی گان میں ایک بھی آئینہ نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے آئینہ دینے سے انکار کر دیا۔ شہزادے بمپو نے جیب سے چا بیوں کا گچھا نکال کر دونوں تالے کھول دیے۔ ڈاکٹر اپنے جانوروں سمیت دوڑتا ہوا بندرگاہ میں پہنچا۔ شہزادہ بہت دیر تک ہاتھ ہلا ہلا کر انھیں خدا حافظ کہتا رہا۔ چاند کی دھیمی دھیمی روشنی میں اس کا ہاتھی دانت کی طرح سفید چہرہ چمک رہا تھا۔
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ مجھے رہ رہ کر بمپو پر افسوس ہو رہا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ رات بھر کے عرصے میں دواؤں کا یہ عارضی اثر دور ہو جائے گا اور جب شہزادہ بمپو سو کر اُٹھے گا تو اس کا چہرہ ہمیشہ کی طرح سیاہ رنگ کا ہو گا۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے شہزادے کو آئینہ نہیں دیا۔ دواؤں کا یہ مرکب میں نے پہلے کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی دواؤں کا یہ حیرت انگیز اثر دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ آہ بے چارا بمپو۔ میں نے اسے دھوکا دیا، لیکن آخر میں کیا کرتا! آزادی حاصل کرنے کے لیے مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا ۔‘‘
تو تا بیگ بولا۔’’ اسے جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے اُسے دھوکا دیا ہے۔‘‘
بی بطخ پر پھٹ پھٹا کر بولی۔’’ انھوں نے بھی تو ہمیں بے خطا قید خانے میں ڈال دیا تھا۔ ہم نے آخر ان کا کیا بگاڑا تھا۔ اب اگر بمپو کو کوئی دلی صدمہ پہنچتا ہے تو ہماری بلا سے ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا ۔’’ بھئی ایمان کی بات تو یہ ہے کہ اصل میں قصور وار تو اس کا باپ ہے۔ بمپو بے چارہ تو بے قصور ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں نے جو گستاخی کی ہے۔ اس کی معافی طلب کروں اور ہاں کسے معلوم ہے کہ دواؤں کا اثر مستقل ثابت ہو اور شہزادہ ہمیشہ گورا ر ہے۔‘‘
ابابیلوں کی آمد اور سمندری ڈاکو
سب سے پہلے دورُخا گھوڑا جہاز پر سوار ہوا۔ اس کے بعد ڈبو کتا، اُلو، بی بطخ اور پھر ڈاکٹر وا جبی نے جہاز پر قدم رکھا۔ چیچو، تو تا بیگ اور مگر مچھ کنارے پر ہی کھڑے رہے، کیوں کہ افریقہ ان کا گھر تھا، ان کی پیدائش اسی جگہ ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے جہاز پر کھڑے ہو کر ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ تب اسے احساس ہوا کہ بستان پور تک رہنمائی کرنے والا کوئی شخص اس کے ساتھ نہیں۔ دُور دُور تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ ڈاکٹر کے دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔ اچانک انھوں نے ایک عجیب طرح کے شور کی آواز سنی۔ سب جانور متوجہ ہو کر اس آواز کو سننے لگے۔ شور آہستہ آہستہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے موسم خزاں کی ہوا بے شمار پتوں کو اُڑائے لیے چلی جارہی ہے۔ ڈبونے کان کھڑے کیے اور غور سے سننے لگا۔ وہ بھونکنے لگا۔ اس نے کہا۔’’ او ہو، یہ تو ہزاروں بلکہ لاکھوں پرندوں کے پروں کی آواز ہے جو تیزی سے اُڑتے ہوئے ادھر ہی پہلے آرہے ہیں۔‘‘
کچھ دیر بعد چھوٹے چھوٹے پرندوں کا ایک غول گزرا۔ اس کے بعد تو ایک سیلاب سا آگیا۔ پورے آسمان پر پرندے ہی پرندے نظر آنے لگے۔ وہ اتنے سارے تھے کہ انھوں نے چاند کی روشنی بھی روک دی اور سمندر پر تاریکی چھا گئی۔ جب پرندوں کا زور کم ہوا تو چاند پہلے کی طرح چمک دار اور روشن نظر آنے لگا۔ یہ پرندے ساحل کے قریب درختوں پر بیٹھ گئے۔ بہت سے ساحل کی ریت پر ہی بیٹھ کر سستانے لگے۔ کچھ پرندے جہاز کے مستول اور رسیوں پر بیٹھ گئے تھے۔
ڈاکٹر واجبی انھیں دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ ابابیلیں ہیں۔ وہ بولا۔’’مجھے بالکل خبر نہیں تھی کہ ہم اتنے طویل عرصے تک افریقہ میں رہے ہیں اور جب ہم واپس اپنے وطن میں پہنچیں گے تو گرمیوں کا موسم شروع ہو چکے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ مجھے ابابیلیں مل گئیں۔ اب مجھے راستے سے بھٹکنے کا اندیشہ نہیں رہا۔ فوراً لنگر اُٹھا دو، بادبان کھول دو ۔پہلا سفر شروع ہوتا ہے۔‘‘
باد بانی جہاز آہستہ آہستہ چلنے لگا ۔جو جانور وہیں رہ گئے وہ تو تا بیگ، چیچو بندر اور مگر مچھ تھے۔ وہ تینوں بے حد رنجیدہ تھے، کیوں کہ وہ ڈاکٹر واجبی کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ وہ کنارے پر کھڑے بار بار ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہتے رہے، یہاں تک کہ جہاز ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مصیبت نازل ہونے والی ہے
سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ راستے میں ڈاکٹر واجبی کے جہاز کو بار بیری کے پاس سے گزرنا تھا۔ یہ ساحل ایک ویران اور بڑے صحرا کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا تھا۔ یہاں بہت سے چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی تھے۔ اس علاقے میں سمندری ڈاکوؤں نے اپنا اڈہ بنا رکھا تھا۔ جب کوئی جہاز ان ڈاکوؤں کی نظر پڑ جاتا تو یہ اس کا پیچھا کر کے جہاز کو پکڑ لیتے اور مسافروں کی ایک ایک چیز لوٹ لیتے۔ انھیں کسی گم نام جزیرے میں اُتار کر جہاز ڈبو دیتے۔ پھر یہ ڈاکو ان مظلوم اور بے بس مسافروں کو تنگ کر کے اُن سے ان کے عزیزوں اور رشتے داروں کے نام خط لکھوا کر بہت بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ کرتے ۔جو مسافر انھیں رقم فراہم کرنے کا بندوبست نہ کر سکتا، یہ ڈاکو اُسے سمندر میں پھینک دیتے۔
ایک سہانی صبح ڈاکٹر واجبی اور بی بطخ عرشے پر کھڑے تھے۔ بی بطخ نے بہت دور ایک جہاز کے بادبان دیکھے۔ یہ بادبان گہرے سُرخ رنگ کے تھے۔ بی بطخ گھبرا کر بولی۔’’ مجھے یہ بادبان دیکھ کر ہول آرہا ہے۔ خدا خیر کرے، یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم پر کوئی مصیبت نازل ہونے والی ہے۔‘‘
ڈبو جو مستول کے قریب ہی سائے میں سو رہا تھا، زور زور سے بھونکنے لگا۔’’ مجھے بھنے ہوئے گوشت کی خوش بُو آرہی ہے، ران کا چر بیلا گوشت آگ پر بھونا جا رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی گھبرا کر بولا۔’’ یہ ڈبو کو کیا ہوا؟ کیا یہ خواب میں بڑبڑا رہا ہے؟‘‘
بی بطخ بولی ۔’’شاید ڈبو ٹھیک ہی کہتا ہوں کیوں کہ کتے سوتے میں بھی خوش بو سونگھ لیتے ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ لیکن اسے کس چیز کی خوش بو آرہی ہے؟ ہمارے جہاز پر تو گوشت نہیں بھونا جارہا ہے۔ ‘‘
بطخ بولی۔’’ ممکن ہے کہ کوئی اُس جہاز پر گوشت بھون رہا ہو۔ کتے دس دس میل دُور سے چیزوں کی بو سونگھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں آتا تو ڈ بو کو جگا کر پوچھ لیجیے۔‘‘
ڈبو گہری نیند سو رہا تھا۔ وہ پھر بھونکنے لگا۔ اس کا اوپری ہونٹ غصے سے خم کھا گیا اور سفید سفید دانت چمکنے لگے۔ وہ غرانے لگا۔’’ مجھے لٹیرے لوگوں کی بو آرہی ہے۔ خطرہ، خطرہ، جنگ، لٹیرے ایک بہادر پر ٹوٹ پڑے۔ گھبراؤ نہیں، میں تمہاری مدد کروں گا۔ بھوں بھوں بھوں۔‘‘ کتا اس زور سے بھونکا کہ خود اپنی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ وہ حیران ہو کر ادھرادھر دیکھنے لگا۔
بطخ بولی ۔’’اے لو، وہ جہاز تو بہت قریب آپہنچا ہے۔ اس کے سرخ رنگ کے بادبان بھی صاف نظر آرہے ہیں۔ یہ لوگ شاید ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ آخر یہ کون ہو سکتے ہیں؟‘‘
ڈبو بولا۔’’ یہ کوئی اچھے لوگ نظر نہیں آتے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بار بیری کے سمندری ڈاکوہیں۔‘‘
ڈاکٹر بولا۔ ’’ہمیں اپنے جہاز پر اور بادبان لگانے پڑیں گے تاکہ ہمارا جہاز اور تیز چلے۔ ڈبو تم فوراً نیچے جاؤ اور سب بادبان اُٹھا لائو۔‘‘
کتا بھاگتا ہوا نیچے پہنچا۔ وہاں اسے جتنے بادبان نظر آئے وہ سب کھینچتا ہوا اوپرلے آیا۔ سب بادبان باندھنے کے باوجود جہاز کی رفتار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو سکا۔ ادھر سمندری ڈاکوؤں کا جہاز نزدیک آتا جا رہا تھا۔
کتا بولا۔’’ شہزادے نے ہمیں بہت ناکارہ جہاز دیا ہے۔ اوہو، یہ ڈا کو تو بہت ہی نزدیک آپہنچے، میں اُن کی مونچھیں تک دیکھ سکتا ہوں۔ یہ کل چھے ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر نے بطخ سے کہا کہ فوراً ابابیلوں کو یہ اطلاع پہنچا دو کہ ڈاکو ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ہمیں آلیں گے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ابابیلوں نے جب یہ سُنا تو وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔ انھوں نے کہا۔’’ آپ ایک لمبے رسے کو کھول کر باریک باریک دھاگے بنا دیں۔ پھر ان دھاگوں کا ایک سرا جہاز کے اگلے سرے سے باندھ دیں۔‘‘ ڈاکٹر واجبی نے ایسا ہی کیا۔ ابابیلوں نے ان دھاگوں کے دوسرے سرے کو اپنے پنجوں اور چونچوں میں دبا لیا اور جہاز کو کھینچنے لگیں۔
ڈاکٹر واجبی کے جہاز سے ہزار دھا گے بندھے ہوئے تھے اور ہر دھاگے کو دو ہزار ابابیلیں کھینچ رہی تھیں۔ آسمان ابابیلوں کی وجہ سے سیاہ ہو گیا تھا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا۔
ڈاکٹر نے محسوس کیا کہ جہاز بہت تیز رفتاری سے جا رہا ہے، بلکہ اسے یوں محسوس ہوا کہ جہاز بھی ابابیلوں کے ساتھ ساتھ اُڑتا چلا جا رہا ہے۔ جہاز پر سوار سب جانور خوشی سے قہقہے لگانے اور ناچنے لگے۔ سمندری ڈاکوؤں کا جہاز بہت پیچھے رہ گیا۔ آخر کچھ دیر بعد وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
چوہوں نے جہاز کیوں چھوڑا؟
سمندری جہاز کو کھینچنا بہت مشکل کام ہے۔ دو تین گھنٹوں میں ابابیلیں تھک کر چور ہو گئیں۔ انھوں نے ڈاکٹر واجبی کو پیغام بھیجا کہ ’’اب ہم میں اُڑنے کی سکت نہیں ہے اور ہم کچھ دیر آرام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جہاز کو کھینچ کر ایک جزیرے میں لے جاتے ہیں اور اسے سرکنڈوں کے جھنڈ میں چُھپا دیتے ہیں۔‘‘
جلد ہی ابابیلوں نے جہاز کو جزیرے میں پہنچا دیا۔ یہ ایک بہت خوب صورت جزیرہ تھا۔ اس کے درمیان میں ایک سرسبز پہاڑ تھا۔ ابابیلوں نے جہاز کو سرکنڈوں کے جھنڈ میں ایسی جگہ چھپا دیا جہاں سے وہ نظر نہ آسکے۔ جہاز میں پینے کا پانی ختم ہو رہا تھا۔ اس لیے ڈاکٹر واجبی پانی تلاش کرنے کے لیے اُترا، سب جانور تازہ گھاس چرنے اور سیر و تفریح کرنے کے لیے جہاز سے اُتر گئے۔ ڈاکٹر واجبی نے دیکھا کہ سب چو ہے جہاز چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ڈبو ان کے پیچھے لپکا۔ اسے چوہوں کو ستانے میں بہت لطف آتا تھا۔ ڈاکٹر واجبی نے اُسے اس حرکت سے منع کیا۔
ایک بڑا سا چوہا ڈاکٹر سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کھسک کر ڈاکٹر واجبی کے پاس پہنچا۔ اس نے دو تین دفعہ اپنی مونچھوں کو صاف کیا، پھر کھنکار کر بولا:
’’ آداب عرض! عالی جناب، میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی مسکرا کر بولا۔’’ فرمائیے ۔‘‘
چوہا بولا۔’’ آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم چو ہے لوگ ڈوبنے والے جہاز کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ ہاں سُنا تو ایسا ہی ہے۔‘‘
چو ہا بولا ۔’’میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سب چوہے آپ کے جہاز کو چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں، کیوں کہ آپ کا جہاز تھوڑی دیر کا مہمان ہے ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے چونک کر پوچھا ۔’’یہ تمھیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘
چوہا بولا۔’’ہمیں خطرے کا احساس ہو جاتا ہے۔ ہماری دم میں سنسناہٹ ہونے لگتی ہے اور طبیعت میں عجیب طرح کی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ آج صبح چھے بجے کے قریب میں ناشتا کر رہا تھا کہ اچانک میری دم میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ میں نے اپنی خالہ کو حال سنایا۔ اس نے بھی یہی بتایا کہ اس کی دم میں سنسناہٹ ہو رہی ہے۔ تب اُس نے اندازہ لگایا کہ یہ جہاز ڈوبنے والا ہے۔ ڈاکٹر صاحب! آپ ایک بہت نیک دل انسان ہیں۔ ہر ایک کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے ہیں، اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو آنے والے خطرے سے خبردار کر دوں۔ جہاز زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک چلے گا پھر ڈوب جائے گا۔ اچھا خدا حافظ ۔‘‘
ڈاکٹر نے کہا ۔’’تمہاری اس مہربانی کا شکریہ۔ ڈبو، ڈبو تم ادھر آؤ اور چُپ چاپ یہاں لیٹ جاؤ۔ ان چوہوں کو تنگ مت کرنا ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی جزیرے کی سیر کو چلے، کسی نے بالٹی اُٹھا رکھی تھی، کسی نے کٹوری، ہر کوئی پانی کی تلاش میں ادھر اُدھر گھوم رہا تھا۔
ڈاکٹر نے پوچھا ۔’’ پتا نہیں یہ کون سا جزیرہ ہے؟ ویسے یہ جزیرہ ہے بہت خوب صورت اور یہاں پرندے بھی بے شمار ہیں ۔‘‘
بی بطخ بولی۔’’ او ہو، کیا آپ نہیں جانتے کہ یہ کینر ی کا جزیرہ ہے۔ وہ دیکھیے، ادھر کتنے کینزی تو تے چہچہا رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر بولا۔’’ ہاں، ٹھیک ہی کہتی ہو۔ شاید یہ پرندے بتا سکیں کہ ہمیں پانی کہاں سے مل سکتا ہے؟‘‘
جب کینزی توتوں کو ڈاکٹر کے متعلق معلوم ہوا تو وہ خوشی سے چہچہانے لگے۔ وہ ڈاکٹر واجبی کو ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے پر لے گئے اور چراگاہوں اور میدانوں کی سیر کرائی۔ کھانے پینے کی چیزیں اور پھلوں سے لدے ہوئے پودے اور درخت دکھائے۔ دو رُ خا گھوڑا بے حد خوش تھا۔ اسے مدت کے بعد تازہ سبز گھاس کھانے کو ملی تھی ۔تھوڑی دیر بعد وہ سب کھا پی کر گھاس پر لیٹ گئے۔ کینری تو تے انھیں گیت سنانے لگے۔
اتنے میں دو ابابیلیں اُڑتی ہوئی آئیں اور بولیں۔’’ ڈاکٹر، ڈاکٹر، غضب ہو گیا ہے۔ ڈاکوؤں نے آپ کے جہاز پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ جہاز کے گودام میں گھسے ہوئے ہیں اور تلاشی لے رہے ہیں۔ اُن کا جہازہ ذرا فاصلے پر کھڑا ہے۔ اس میں اس وقت کوئی بھی موجود نہیں۔ آپ جلدی چلیں اور اُن کے جہاز پر قبضہ کر لیں۔‘‘
ڈاکٹر واجبی خوش ہو کر بولا۔’’ بہت خوب، بہت عمدہ خیال ہے۔‘‘
اس نے اپنے جانوروں کو آواز دے کر اکٹھا کیا۔ کینری تو توں کو خدا حافظ کہا اور ساحل کی طرف دوڑا۔ جب وہ ساحل پر پہنچ گیا تو اس نے دیکھا کہ ڈاکوؤں کا جہاز سمندر میں کھڑا ہے اور جیسا کہ ابابیلوں نے اطلاع دی تھی، جہاز پر کوئی بھی موجود نہیں تھا، کیوں کہ سب ڈاکو ڈاکٹر واجبی کے جہاز کے گودام میں گھسے ہوئے چیزیں چرانے میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی بہت خاموشی سے ڈاکوؤں کے جہاز میں سوار ہو گئے۔
ڈاکوؤں کے جہاز میں
انھوں نے لنگر اُٹھایا اور بہت آہستگی سے جہاز کو کھاڑی سے باہرلے چلے۔ چپکے چپکے وہ جہاز کو ساحل سے نکال کر سمندر میں لے جا رہے تھے کہ اچانک ڈبو کو زبر دست چھینک آگئی۔ وہ اتنے زور سے چھینکا کہ ڈاکوؤں تک آواز پہنچی۔ وہ دوڑتے ہوئے اوپر آئے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ڈاکٹر واجبی ان کے جہاز کو لے کر فرار ہو ا جا رہا ہے تو وہ جہاز کو کھاڑی کے سرے پر لے گئے اور ناکہ بندی کر دی۔ ڈاکوؤں کے سردار ابو فنا نے ڈاکٹر کو مکا دکھایا اور چیخ کر بولا۔’’ہاہا، تم پکڑے گئے۔ تم میرے جہاز میں فرار ہونا چاہتے تھے، لیکن دوست ابو فنا کر دھوکا دینا آسان کام نہیں ہے۔ اب تم یہ بطخ میرے حوالے کر دو اور یہ گھوڑے جیسا انوکھا جانور بھی مجھے دے دو۔ میں انھیں بھون کر کھاؤں گا اور ہاں، اپنے دوستوں کو خط لکھ کر اشرفیوں کی ایک تھیلی منگوالو۔ ورنہ یاد رکھو کہ میں تمھیں اذیتیں دے دے کر ہلاک کردوں گا۔‘‘
بی بطخ تو رونے لگی۔ ادھر دو رُخا گھوڑا بھی ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اُ لو نے ڈاکٹر واجبی کے کان میں سرگوشی کی ۔’’ ا سے باتوں میں لگائے رکھیے۔ اسے خوش اسلوبی سے سمجھا دیجیے کہ آپ اس کی باتوں پر عمل کریں گے۔ تھوڑی دیر میں ہمارا جہاز ڈوب جائے گا، کیوں کہ چو ہوں کی اطلاع کبھی غلط نہیں ہوتی ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ میں آپ کی ہر بات پر عمل کروں گا لیکن آپ ذرا دیر انتظار کیجیے ۔میں اپنے جانوروں کو لے کر خود ہی حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
کتا بولا۔’’ آپ خواہ مخواہ اِن اُچکوں سے ڈرتے ہیں، انھیں ذرا یہاں آنے تو دیجیے۔ میں ایک ایک کی تکا بوٹی کر دوں گا۔‘‘
ابو فنا نے ڈاکٹر کی بات پر کوئی توجہ نہ دی، وہ جہاز کو آہستہ آہستہ ڈاکٹر کے جہاز کے قریب لانے لگا۔ سب ڈا کو قہقہے پر قہقہے لگا رہے تھے۔ ڈبو کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا۔ وہ اچھل اُچھل کر انھیں برا بھلا کہہ رہا تھا۔ دو رُخا گھوڑا دولتی جھاڑنے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ الو ایک آنکھ بند کیے سوچ رہا تھا کہ کس ڈاکو کے کہاں ٹھونگ مارنی مفید رہے گی۔
اچانک ڈاکوؤں کے جہاز میں کوئی ایسی بات رونما ہوئی کہ ان کے قہقہے رک گئے۔ وہ سراسیمہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ابو فنا خوف زدہ ہو کر بولا۔’’ یہ تختے چر چرانے کی آواز کہاں سے آرہی ہے؟ہُبل کی قسم اس جہاز میں تو پانی آ رہا ہے۔‘‘
دوسرے ڈاکوؤں نے بھی دیکھا۔ واقعی جہاز آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہا تھا۔ ایک ڈاکونے کہا ۔’’اگر یہ پرانا جہاز ڈوبنے والا تھا، تو اس کے چو ہے کہاں گئے؟ میں نے تو کسی چوہے کو جہاز چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا ۔‘‘
ڈبو خوشی سے بھونک بھونک کر بولا۔’’ دوستو! چو ہے اس جہاز میں کہاں رکھے ہیں؟ وہ تودو گھنٹے پہلے ہی جہاز چھوڑ چکے ہیں۔ ہا ہا ہا۔‘‘
وہ ڈا کو کتے کی بولی نہیں سمجھ سکے۔ تھوڑی دیر بعد جہاز کا اگلا حصہ سمندر میں غرق ہونے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ جہاز اپنے پچھلے سرے پر کھڑا ہوا ہے۔ ڈاکو سہارا لینے کے لیے رسیوں، مستولوں اور بادبانوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ سمندر کا پانی ایک گرج دار آواز کے ساتھ جہاز کے اندر داخل ہو گیا اور آخر جہاز ایک گڑگڑا ہٹ کے ساتھ سمندر کی تہ میں چلا گیا۔ تمام ڈاکو سمندر میں غوطے کھانے لگے ۔کچھ ڈاکوؤں نے ساحل کا رخ کیا اور باقی ڈاکو تیرتے ہوئے جہاز کی طرف چلے۔
جوں ہی کوئی ڈاکو جہاز پر چڑھنے کی کوشش کرتا، ڈبو اُسے کاٹنے کے لیے دوڑتا، مجبور اًوہ جہاز کے ساتھ ساتھ تیرنے لگے۔
ابو فنا کی توبہ
اچا نک ایک ڈاکو چلانے لگا۔’’ ارے شارک مچھلیاں آگئیں، جلدی سے جہاز پر سوار ہو جاؤ، ورنہ وہ کھا جائیں گی۔ مدد، مدد۔‘‘
اب ڈاکٹر و ا جبی اور اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ کھاڑی کے آس پاس بہت سی شارک مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ایک بڑی سی شارک نے منھ پانی سے باہر نکالا۔ اس نے ڈاکٹر واجبی سے کہا۔’’ کیا آپ ہی کا نام ڈاکٹر واجبی ہے؟‘‘
ڈاکٹر بولا۔’’ جی ہاں، یہی میرا نام ہے۔‘‘
شارک مچھلی بولی۔’’ ہم ان سمندری ڈاکوؤں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر آپ کو ان کے ہاتھوں کوئی تکلیف پہنچی ہو تو ہمیں بتا دیجیے گا۔ انھیں کھا کر ہمیں بے حد خوشی ہوگی۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ آپ کی مہربانی کا شکریہ۔ میرے خیال میں آپ انھیں نہ کھائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ ابو فنا !ذرا تم میرے قریب آؤ۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
شارک مچھلیوں نے ابو فنا کو دھکیل کر جہاز کے قریب پھینک دیا۔ ڈاکٹر واجبی نے جھک کر کہا۔’’ سنو ابو فنا، تم نے ماضی میں بے حد جرم کیے ہیں اور بہت سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا ہے۔ یہ مچھلیاں میرے ایک اشارے پر تمہاری تکا بوٹی کرنے کو تیار کھڑی ہیں۔ تم جیسے ظالم اور کمینہ فطرت لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، لیکن میں تمھیں ایک موقع اور دیتا ہوں۔ تم اگر اپنے برے کاموں سے توبہ کرو اور نیک نامی کی زندگی بسر کرنے کا عہد کرو تو میں تمہاری جاں بخشی کر سکتا ہوں ۔‘‘
ایک شارک مچھلی نے ابو فنا کی ٹانگ سونگھی۔ وہ گھبرا کر بولا ۔’’ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جیسا تم کہو گے ویسا ہی کروں گا۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ تو سنو، آئندہ تم کسی شخص کو قتل نہیں کرو گے۔ چوری ڈاکے سے بچو گے۔ لوگوں کے جہاز سمندر میں غرق نہیں کرو گے۔ مختصر یہ ہے کہ تم اپنا موجودہ پیشہ چھوڑ دو گے۔‘‘
ابو فنا بولا۔’’ تو پھر میری گزر بسر کیسے ہوگی؟‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’تم اور تمھارے چیلے چانٹے اس جزیرے پر کھیتی باڑی کریں گے۔‘‘
ڈاکوؤں کے سردار کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو گیا۔ وہ نفرت سے بولا ۔’’میں کھیتی باڑی کرنا نہیں چاہتا مجھے ملاحی کا شوق ہے ۔‘‘
ڈاکٹر غصے سے بولا ۔’’ اتنا عرصہ سمندر کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ کیا ابھی تک تمہارادل نہیں بھرا؟ بس میرا یہی فیصلہ ہے کہ اب تم باقی زندگی کسان بن کر گزارو گے۔ بولو تم کیاچاہتے ہو؟ زندگی یا موت؟‘‘
ڈاکوؤں کا سردار ابو فنا بولا۔’’ہمیں کسانوں کی طرح رہنا منظور ہے۔‘‘
ڈاکٹر مسکرا کر بولا ۔’’خوب، بہت خوب۔ ایک بات کان کھول کرسن لو۔ اگر تم نے اپنا وعدہ نہیں نبا ہا اور دوبارہ لوٹ مار شروع کر دی تو کینز ی تو تے مجھے ضرور اطلاع پہنچا دیں گے۔ پھر یاد رکھنا کہ میں تمہیں ایسی سخت سزا دوں گا کہ تم زندگی بھر نہ بھولو گے۔ ابو فنا اب تم جاؤ اور امن پسند کسانوں کی طرح زندگی بسر کرو۔‘‘
ڈاکٹر واجبی شارک مچھلی سے بولا ۔’’اب انہیں راستہ دے دو ۔‘‘
کمرے کے اندر کون ہے؟
ڈاکٹر واجبی نے ایک دفعہ پھر شارک مچھلیوں کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر اور اس کے ساتھی ایک دفعہ پھر سفر پر روانہ ہو گئے۔ اس دفعہ وہ سرخ بادبانوں والے تیز رفتار جہاز میں سوار تھے۔ جب جہاز کھلے سمندر میں پہنچا تو سب جانور جہاز کے نچلے حصے کی سیر کرنے چلے گئے۔ ڈاکٹر واجبی کسی خیال میں گم، عرشے پر ہی کھڑا رہا، شاید وہ سوچ رہا تھا کہ بستان پور واپس پہنچ کر اسے کیا کچھ کر نا ہوگا، اس کا سلسلہ خیال بطخ کی قیں قیں سے ٹوٹ گیا۔ وہ گرتی پڑتی چلی آرہی تھی۔ بطخ بولی۔’’ ڈاکٹر! یہ ڈاکوؤں کا جہاز تو اندر سے بے حد خوب صورت اور سجا ہوا ہے۔ آبنوس کے پلنگ ہیں، ان پر مخمل کے نرم نرم گدے بچھے ہوئے ہیں ۔فرش پر ایرانی قالین ہیں۔ سب بر تن سونے اور چاندی کے ہیں۔ اگر تم ان کا نعمت خانہ دیکھ لو تو حیران رہ جاؤ۔ اس میں کھانے پینے کی بے شمار چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایک کمرہ ایسا ہے جس کے دروازے پر تالا پڑا ہوا ہے۔ ضرور اس میں خزانہ ہو گا۔ ہم سب اسے دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔مہربانی فرما کر آپ اس کا تالا کھول دیجیے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی سیڑھیاں اتر کر جہاز کے نچلے حصے میں گیا۔ اس نے دیکھا کہ واقعی جہاز بہت خوب صورتی سے سجا ہوا ہے۔ سب جانور ایک کمرے کے سامنے جمع تھے۔ ڈاکٹر نے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ کام یاب نہ ہو سکا۔ سب جانور تالے کی چابی تلاش کرنے لگے اور اس تلاش میں بہت سی نئی چیزیں بھی دریافت ہوئیں۔ کشمیری شالیں جو بے حد نفیس بنی ہوئی تھیں اور ان پر سونے کے تاروں سے بیل بوٹے بنے ہوئے تھے ۔عمدہ تمباکو سے بھرے ہوئے مرتبان، روس اور ایران کی چائے، جواہرات سے بنے ہوئے شطرنج کے مہرے۔ آبنوس کی چھڑیاں جن کے دستے سونے کے بنے ہوئے تھے۔ اس قسم کی بے شمار چیزیں دریافت ہوئیں، لیکن صرف چابی ہی نہ مل سکی۔ مایوس ہو کر سب جانور پھر دروازے کے سامنے جمع ہو گئے۔ الو بولا۔’’ شش، سب لوگ خاموش ہو جائیں۔ پھر اس نے کان لگا کر سُنا اور بولا۔’’ ہوں، مجھے تو اندر کوئی آدم زاد معلوم ہوتا ہے۔‘‘
سب دم سادھے کھڑے تھے۔ ڈاکٹر نے کہا۔’’ میاں ٹوٹو، ضرور تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے تو کوئی آواز نہیں سُنائی دیتی۔‘‘
الو ایک آنکھ بند کر کے بولا۔’’ قدرت نے ہم الوؤں کو سننے کی قوت بہت زیادہ عطا فرمائی ہے۔ سرنگ کے اندر بھی اگر کوئی چوہا چل پھر رہا ہو تو چمگادڑیں اس کی آواز اچھی طرح سُن سکتی ہیں۔ ہم اُلوئوں کی سننے کی قوت ان سے بھی زیادہ ہے، یعنی اگر کوئی بلونگڑا اندھیرے میں چھپا بیٹھا ہو تو ہم اس کے پلک جھپکنے کی آواز سُن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کا رنگ کیسا ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی مسکرا کر بولا ۔’’ خوب بہت خوب، تمھاری یہ باتیں سُن کر میری معلومات میں اضافہ ہوا۔ اچھا، ذرا غور سے سُن کر بتاؤ کہ اس کمرے کے اندر کون چھپا بیٹھا ہے؟‘‘
الو کان لگائے غور سے سنتا رہا۔ پھر بولا۔’’ ہوں، یہ کوئی مرد نہیں ہو سکتا۔ یہ کوئی عورت ہے جو اپنا چھوٹا سا ہاتھ اپنے چھوٹے سے چہرے پر پھیر رہی ہے۔ اب اس نے اپنے بالوں پر بھی ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ او ہو، ہو ہو۔ اس کے بال تو مردوں کی طرح چھوٹے چھوٹے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے حیران ہو کر پوچھا۔’’تمھیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘
الو بولا۔’’ لمبے بالوں میں ہاتھ پھیرنے سے اور طرح کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ شش، چپ، سب دم سادھ لیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ خبر دار سب لوگ چُپ چاپ کھڑے رہیں ۔‘‘
الو کان لگا کہ سُننے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک لمبا سا سانس لیا اور بولا۔’’ یہ کوئی لڑکا ہے جو خوف سے تھر تھر کانپ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں۔ اے لو، ایک قطرہ اس کی آستین پر بھی گرا ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے پوچھا۔’’ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ آنسو ہی ہے؟ شاید چھت سے کوئی قطرہ ٹپک کر گرا ہو؟‘‘
الو بولا ۔’’ جناب میں نِرا بودم نہیں ہوں۔ چھت سے گرنے والا قطرہ بہت زور سے گرتا ہے۔آنسو کے گرنے کی آواز دوسری ہوتی ہے ۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ اگر تم ٹھیک کہتے ہو تو ہمیں جلدی کرنا چاہیے۔ پتا نہیں اس غریب لڑکے پر کیا بیتی ہے۔ جلدی سے کلہاڑی ڈھونڈ کر لاؤ۔ میں دروازے کو توڑنا چاہتا ہوں۔‘‘
ملاح کا لڑکا
جلد ہی کلہاڑی بھی مل گئی۔ ڈاکٹر نے دروازے میں کافی بڑا راستہ بنایا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ڈاکٹرنے ماچس کی تیلی جلائی۔ یہ کمرہ بہت ہی چھوٹا سا تھا۔ اس میں نہ کوئی کھڑکی تھی نہ روشن دان۔ اس کی چھت بھی بہت نیچی تھی۔ اس میں ایک اسٹول رکھا ہوا تھا۔ یہ شراب کے پیپوں سے بھرا ہوا تھا۔ کمرے میں شراب کی تیز بو پھیلی ہوئی تھی۔ ایک طاقچے میں شراب پینے کے پیالے اور صراحی رکھی ہوئی تھی۔ کمرے کے درمیان میں، فرش پر ایک سات یا آٹھ سال کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ یہ لڑکا بری طرح رو رہا تھا۔
بی بطخ بولی۔’’شراب کی بو سے میرا سر چکرانے لگا ہے اور متلی بھی محسوس ہو رہی ہے۔ ‘‘
لڑکا اپنے سامنے ایک آدمی کو کھڑا دیکھ کر سہم گیا، لیکن جب اس نے سب جانوروں کو دیکھا جو سوراخ سے جھانک رہے تھے اور ڈاکٹر وا جبی کے چہرے پر شفقت اور نرمی نظر آئی تو اس کی ڈھارس بندھی۔ اس نے رونا بند کر دیا اور بولا:
’’مجھے تو تم ڈاکو نظر نہیں آتے، کیا تم بھی ڈاکو ہو؟‘‘
یہ بات سن کر ڈاکٹر واجبی اپنا قہقہہ ضبط نہ کر سکا۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور دیر تک ہنستا ہی رہا۔ لڑکا بھی اسے دیکھ کر ہنس پڑا اور بولا۔’’مجھے یقین ہے کہ تم ڈاکوؤں کے ساتھی نہیں ہو۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے اسے سب واقعہ مختصر طور سے سُنایا۔ لڑکا بولا۔’’ میری کہانی یوں ہے کہ میں اور میرا چچا صمد و مچھلیاں پکڑنے کے لیے نکلے تھے۔ بدقسمتی سے ہم ان ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گئے۔ انھوں نے ہمیں گرفتار کر لیا اور ہماری کشتی سمندر میں ڈبو دی۔ میرے چچا بہت اچھے ملاح تھے۔ ڈاکوؤں نے انھیں بہت مجبور کیاکہ وہ ان کے گروہ میں شامل ہو جائیں، لیکن میرے چچانے انکار کر دیا۔ انھیں مار دھاڑ اور چوری ڈاکے سے نفرت تھی۔ اس پر ڈاکوؤں کے سردار نے چچا کے منھ پر ایک مکا رسید کیا اور انہیں سمندر میں پھینک دینے کی دھمکی دی۔ پھر انھوں نے مجھے تہ خانے میں بند کر دیا۔ مجھے اوپر عرشے پرلڑائی جھگڑے کی آوازیں سنائی دیں۔ اگلے روز جب مجھے اوپر جانے کا اتفاق ہوا تو میرے چچا جان وہاں موجود نہیں تھے۔ میں نے جب ڈاکوؤں سے ان کے متعلق پوچھا، تو وہ ظالم قہقہے لگانے لگے۔ مجھے یقین ہے کہ انھوں نے چچا صمدو کو سمندر میں پھینک دیا ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ لڑکا پھر رونے لگا۔
ڈاکٹروا جبی نے لڑکے کو بہت تسلی و تشفی دی اور کہا۔’’ بیٹا تم رو رو کر اپنی جان ہلکان نہکرو۔ تم نے اپنے چچا کو سمندر میں ڈوبتے ہوئے تو نہیں دیکھا، پھر تم نے کیسے فرض کر لیا کہ وہ مرچکا ہے؟ بیٹا میرا خیال ہے کہ تمہارا چچا زندہ سلامت ہے اور کہیں چھپا ہوا بیٹھا ہے،لیکن آؤ پہلے ہم کھانے کے کمرے میں چلیں ۔شاید تم نے بہت دیر سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی لڑکے کو ساتھ لے کر کھانے کے کمرے میں پہنچا ۔چیچو گرما گرم چائے بنا لایا۔ ڈاکٹر واجبی نے لڑکے کو مکھن لگے ہوئے توس کھلائے۔ جب وہ چائے پینے میں مشغول تھے، بی بطخ نے ڈاکٹر واجبی کے کان میں آہستہ سے کہا۔’’ مچھلیوں کو سمندر کے چپے چپے کی خبر ہوتی ہے۔ آپ اُن سے دریافت کیجیے کہ کیا انھوں نے اس لڑکے کے چچا کی لاش دیکھی ہے؟‘‘
ڈاکٹر واجبی خوش ہو کر بولا۔ بی قیں قیں، تم نے بالکل ٹھیک مشورہ دیا ۔‘‘
لڑکے نے ڈاکٹروا جبی کو بطخ کی طرح بولتے دیکھا تو وہ بہت حیران ہوا۔ اس نے پوچھا۔’’ آپ یہ کیسی عجیب طرح کی آوازیں نکال رہے تھے؟‘‘
ڈاکٹرنے کہا ۔’’ یہ میری پالتو بطخ ہے، میں اس کی بولی میں باتیں کر رہا تھا۔‘‘
لڑکا حیران ہو کر بولا۔’’ او ہو، مجھے تو یہ آج معلوم ہوا کہ بطخوں کی بھی بولی ہوتی ہے اور وہ بھی باتیں کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب، کیا یہ دوسرے جانور بھی آپ کے پالتو ہیں؟ اور وہ دوسروں والا عجیب سا جانورکیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر واجبی نے لڑکے کے کان میں سرگوشی کی۔’’شش خاموش! یہ دورُخاگھوڑا ہے۔ یہ بہت شر میلا جانور ہے۔ اگر اسے معلوم ہو گیا کہ ہم اسی کے متعلق باتیں کر رہے ہیں تو وہ پریشان ہو جائے گا۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تم اس چھوٹے سے کمرے میں کب سے قید ہو؟‘‘
لڑکا بولا۔’’ میں کافی دیر تک کمرے میں بند رہا ہوں۔ یہ ڈا کو کسی جہاز کو لوٹنے جارہے تھے، اس لیے انھوں نے مجھے اس کمرے میں قید کر دیا۔ جب آپ نے دروازے پر کلہاڑی مار مار کر اُسے توڑا تو مجھے بالکل پتا نہیں تھا کہ دروازے پر کون ہے۔ لیکن آپ کو دیکھ کر پہلی نظر میں ہی میں نے بھانپ لیا کہ یہ شخص ڈاکوؤں کا ساتھی نہیں ہو سکتا۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ مجھے اپنے چچا کا حلیہ تو بتاؤ۔‘‘
لڑکا بولا۔’’ وہ بے حد چاق چوبند شخص تھے۔ ان کے سر کے بال بے حد سرخ ہیں۔ ان کے بازو پر لنگرکا نشان گُدا ہوا ہے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی بولا۔’’ اب ذرا دیر تم ان جانوروں سے دل بہلاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر ڈاکٹر واجبی سیڑھیاں طے کر کے عرشے پر پہنچا اور دیکھنے لگا کہ کوئی مچھلی نظر آجائے۔ اتفاق سے مچھلیوں کا ایک غول اٹکھیلیاں کرتا ہوا وہاں سے گزارا۔ جب انھوں نے ڈاکٹر واجبی کو دیکھا تو وہ ان کی مزاج پرسی کرنے کے لیے ان کے قریب آگئیں۔ ڈاکٹر واجبی نے اُن سے پوچھا ۔’’کیا تم نے سمندر کے اندر کسی سرخ بالوں والے شخص کی لاش دیکھی ہے؟ اس کے بازو پر لنگر کا نشان بھی گدا ہوا ہے۔‘‘
مچھلیاں بولیں۔’’ ہمیں سمندر کے اندر ایک چھوٹی سی کشتی تو ڈوبی ہوئی ضرور ملی لیکن ہم نے کسی آدمی کی لاش بالکل نہیں دیکھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے مچھلیوں سے کہا۔’’ بات دراصل یہ ہے کہ اس شخص کا بھتیجا میرے جہاز میں موجود ہے۔ وہ اپنے چچا کی طرف سے بے حد فکر مند اور پریشان ہے۔ میں آپ کا بہت احسان مند ہوں گا، اگر آپ اس شخص کو تلاش کر دیں یا کم سے کم یہی معلوم ہو جائے کہ وہ زندہ ہے یا ڈوب کر مر چکا ہے۔‘‘
ایک مچھلی بولی۔’’ جناب ہم سنگ ماہی قبیلے کی مچھلیاں ہیں۔ ہمیں سمندر کے چپے چپے کی خبر رہتی ہے۔ ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس لڑکے کا چچا سمندر میں موجود نہیں ہے۔ اس سے زیادہ ہم آپ کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے۔ خدا حافظ۔‘‘ یہ کہہ کر اس مچھلی نے ڈبکی لگائی اور سب مچھلیاں اس کے پیچھے پیچھے چل دیں۔
ڈاکٹر واجبی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا کھانے کے کمرے میں پہنچا اور اس نے یہ خوش خبری لڑکے کو سُنائی۔ وہ زمین پر دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور بولا۔’’ خدایا تیرا شکر ہے۔‘‘
اس خوشی میں سب جانور شریک ہوئے۔ دورُخے گھوڑے نے اس لڑکے کو اپنی کمر پر بٹھا لیا۔ سب جانور کابیوں کوچمچوں سے بجاتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے جلوس کی شکل میں نکلے۔
عقاب بھی ناکام ہو گئے
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ اب تمہارے چچا کو تلاش کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ زندہ ہے اور کہیں چھپا ہوا ہے۔‘‘
بطخ بولی۔’’ آپ کسی عقاب سے کیوں نہیں کہتے؟ کیا پرندے کیا حیوان، ان کی نظر سب سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ وہ آسمان کی بلندی پر پرواز کر رہے ہوں تب بھی زمین پر رینگنے والی ایک چیونٹی تک کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر کو بطخ کی یہ رائے پسند آئی۔ اس نے ابابیلوں کو عقاب کی تلاش میں بھیجا ۔تھوڑی دیر میں کئی قسم کے عقاب شکرے اور باز وہاں اکٹھے ہو گئے۔ ایک عقاب تو بالکل سیاہ رنگ کا تھا۔ دوسرا سنہری رنگ کا تھا۔ ایک گنجا عقاب تھا، ایک تاج دار عقاب، ایک ماہی خور (مچھلیاں کھانے والا) تھا۔ سفید دم والاسمندری عقاب تو بے حد بھاری بھر کم تھا۔ اس کا قدلڑکے کے برابر تھا۔ سب عقاب قطار میں یوں کھڑے تھے کہ جیسے وہ کسی فوج کے جوان ہوں۔ اُن کی گردنیں تنی ہوئی تھیں، سینے باہر کو نکلے ہوئے تھے۔
بی بطخ تو سہم کر شراب کے پیپوں کے درمیان جا گھسی۔ ڈاکٹر نے کہا۔’’ میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ ہمارا ایک آدمی کہیں گم ہو گیا ہے۔ اس کے سر کے بال بالکل سرخ ہیں، ہاتھ پر لنگر کی تصویر گدی ہوئی ہے۔ آپ کی بہت مہربانی ہوگی اگر آپ اسے تلاش کر دیں۔ یہ لڑکا اس شخص کا بھتیجا ہے۔ یہ اپنے چچا کی طرف سے بے حد فکر مند اور پریشان ہے۔‘‘
عقاب زیادہ لمبی چوڑی باتیں نہیں بنایا کرتے۔ انھوں نے اپنی تیز آواز میں کہا۔’’ ڈاکٹر صاحب، آپ اطمینان رکھیے ہم اپنی پوری سی کوشش کریں گے۔‘‘
سب عقاب اُڑ گئے۔ کوئی مشرق کی سمت چلا گیا، کوئی مغرب کی ،کوئی شمال کی طرف تو کوئی جنوب کی طرف۔ انھیں گئے ہوئے خاصی دیر ہو گئی، یہاں تک کہ جب وہ واپس لوٹے تو رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ عقاب بولے۔’’ہم نے سمندر کا چپا چپا تلاش کر لیا ہے۔ ہر ایک جزیرے اور ساحلی مقامات کو اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔ ملک ملک اور شہر شہر چھان مارا ہے، لیکن تمہارے آدمی کا ہمیں کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ہم نے اپنی سی پوری کوشش کر دیکھی۔ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم آپ کی خدمت بجا لانے سے قاصر رہے۔‘‘
یہ کہہ کر عقاب اُڑ گئے۔ بطخ بولی۔’’ عجیب معما ہے۔ لڑکے کا چچا سمندر میں ڈوبا نہیں ہے اور خشکی پر کہیں موجود نہیں ہے۔ آخر وہ کہاں گیا؟‘‘
ڈاکٹر گہرا سانس لے کر بولا۔’’ کاش چیچو یہاں موجود ہوتا۔ وہ یقینالڑکے کے چچا کو ڈھونڈ نکالتا۔ آہ ، میرا چیچو، خدا جانے وہ کس حال میں ہو گا؟‘‘
بطخ بولی۔’’ کاش کہ تو تا بیگ ہی یہاں موجود ہوتا۔ وہ بے حد ذہین اور عقل مند ہے۔ یاد ہے ڈاکٹر صاحب کہ اس نے دو مرتبہ کس طرح ہمیں قید سے رہائی دلوائی تھی۔‘‘
الو ایک آنکھ بند کر کے بولا ۔بھئی نہ تو مجھے سنگ ماہی کی باتوں کا اعتبار ہے اور نہ ان عقابوں کی بکو اس کا۔ کیا وہ آدمی دُھواں بن کر ہوا میں اُڑ گیا ہے یا اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ہے؟‘‘
بطخ بولی۔’’ ارے مجھے تو اس لڑکے کی فکر ستائے جارہی ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی کہ دو دن میں کیامنھ نکل آیا ہے۔‘‘
ڈبو ہنس کر بولا۔’’ بڑی بی، اگر تم ان صاحب زادے کے ہاتھ لگ جاتیں تو وہ تمہیں اس وقت بھون بھان کر کھا رہا ہوتا۔ ہاہاہا۔‘‘
ڈاکٹر نے ڈانٹ کر اسے خاموش کیا۔ ڈیو بولا۔’’ ارے، ابھی تک میں نے تو کچھ کوشش ہی نہیں کی ۔اب ذرا دیکھو میرا کمال۔‘‘
پھر وہ ڈاکٹر واجبی سے بولا۔’’ آپ ذرا اس لڑکے سے اس کے چچا کی کوئی چیز مانگ کر مجھے دیجیے۔‘‘
لڑکے نے ایک بڑا سا سرخ رنگ کا رومال نکال کر ڈاکٹر واجبی کو دیا۔ ڈبو فوراً زور زور سے بھونکنے لگا۔’’ مجھے نسوار کی بو آرہی ہے۔ ذرا لڑکے سے پوچھ کر بتائیے کہ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟‘‘
ڈاکٹر واجبی نے لڑکے سے پوچھا، اس نے تصدیق کی۔’’جی ہاں، میرے چچا جان، نسوار لینے کے عادی تھے۔‘‘
ڈ بو خوش ہو کر بولا۔’’بہت خوب، آپ اس لڑکے سے یہ کہہ دیجیے کہ میں اس کے چچا کو ایک ہفتے کے اندر اندر ڈھونڈ نکالوں گا۔ اب ذرا اُوپر چلیے۔ ذرا دیکھیں تو سہی کہ ہوا کا رخ کیا بتا تا ہے؟‘‘
ڈاکٹر واجبی نے کہا۔’’ لیکن اس وقت تو اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ تم اسے اندھیرے میں کیسے تلاش کر سکو گے؟‘‘
ڈ بو بولا۔’’ ایک نسوار کے عادی شخص کو ڈھونڈنے کے لیے مجھے چراغ اور لیمپ کی ضرورت نہیں۔ نسوار کی بو الگ ہی ہوتی ہے اور کئی میل دور سے ہی ناک میںجھُن جھُنی پیدا کر دیتی ہے۔ آئیے، اب ذرا دیکھیں کہ ہوا کس رخ کی ہے۔ ہوا کے ذریعے سے ہم کئی میل دور تک کی چیزوں کی بو سونگھ کر بتا سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہوا بہت تیز نہ ہو۔ اوہو! یہ تو شمالی ہوا چل رہی ہے۔‘‘
کتے نے اچھی طرح ہوا کو سونگھا۔ وہ بڑبڑانے لگا۔’’ پیاز کی بو، مٹی کے تیل کی بو، صابن کی بو، بر ساتی،بوٹ پالش۔‘‘
بی بطخ جھنجھلا کر بولی۔’’ تم ہمیں احمق بنا رہے ہو۔ اے لو، بھلا ہوا کے ایک جھونکے میں اتنی بے شمار چیزوں کی بو کوئی سونگھ سکتا ہے۔ اُونھ۔‘‘
ڈبو غرا کر بولا۔’’ قیں قیں اگر ڈاکٹر صاحب یہاں موجود نہ ہوتے تو میں تمہارا ٹینٹوا دبا دیتا ۔تم کیا جانو کہ ہم لوگ ایک ہی وقت میں کتنی بے شمار بوئیں سونگھ کر ان چیزوں کے نام گنوا سکتے ہیں۔‘‘
ا لو ہنس کر بولا۔’’ ہو ہو ہو، بھئی یقین تو مجھے بھی نہیں آتا۔ میں نے تو آج تک نہ سُنا ہے اور نہ دیکھا کہ کوئی سمندر کے میں بیچوں بیچ بیٹھ کر کسی کھوئے ہوئے آدمی کی محض بو سونگھ کر اس کا اتا پتابتا دے۔‘‘
اب تو ڈبو کا پارہ چڑھ گیا۔ وہ بھونک بھونک کر کہنے لگا۔’’ تم تو ہو ہی الو یعنی چغد، عقل سے بالکل کورے ۔تمہاری بکو اس سُن کر دل چاہتا ہے کہ تمہاری بھی گردن مروڑ دوں۔‘‘
ڈاکٹر واجبی نے ڈانٹ ڈپٹ کر کے اسے خاموش کیا۔ وہ بولا۔’’ بھلے مانسو، چار دن کی زندگی اگر یوں ہی لڑ بھڑ کر گزار دی، تو جینے کا کیا مزہ رہے گا؟ آؤ، اب نیچے چلتے ہیں۔ پہلے کچھ کھا پی لیں پھر کچھ کام کریں گے اور ہاں ڈبو، تم دو تین بالٹی ٹھنڈے پانی کی ضرور پینا تا کہ تمھارا غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔‘‘
ڈبو کی سراغ رسانی
اگلے دن وہ صبح سویرے بیدار ہو گئے۔ سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ہوا کا رخ اب تبدیل ہو چکا تھا، اب یہ جنوب سے آرہی تھی۔ ڈبو آدھے گھنٹے تک ہوا سونگھتا رہا۔ آخر وہ ڈاکٹر واجبی کے پاس پہنچا اور بولا۔’’ مجھے ابھی تک کوئی کام یابی نہیں ہوئی۔ ہمیں کچھ دیر اور انتظار کرنا ہوگا تاکہ ہوا مشرق سے آنے لگے۔‘‘
اس دن تین بجے کے بعد مشرق سے ہوا چلنے لگی۔ ڈبو نے اب بھی نسوار کی بو محسوس نہیں کی۔ اب لڑکا بھی مایوس ہو کر رونے لگا۔ ڈاکٹروا جبھی بولا۔’’ میاں، حوصلہ رکھو۔ تم نے سنا نہیں کہ جب تک سانس تب تک آس۔‘‘
کتا بولا۔’’ ڈاکٹروا جبی صاحب، آپ لڑکے سے کہہ دیجیے کہ اگر اس کا چچا چین کی پہاڑیوں میں بھی چھپا ہو گا، تب بھی میں اُسے ڈھونڈ نکالوں گا ۔‘‘
وہ تین دن تک انتظار کرتے رہے۔ آخر مغرب سے ہوا چلنی شروع ہوئی۔ جمعہ کا دن تھا اور صبح کا وقت۔ ہلکی سی دھند چھائی ہوئی تھی۔ ڈبو نے ادھر اُدھر سر گھما کر ہوا سونگھی، وہ بڑے جوش کے ساتھ چیختا ہوا سیڑھیاں اتر کر ڈاکٹر کے کمرے کی طرف بھاگا۔’’ ڈاکٹر صاحب میں نے اُسے تلاش کر لیا ہے۔ آپ سنتے ہیںنا؟ اب ذرا جلدی سے اُٹھ جائیے اور سنیے۔ میں نے اس شخص کو معلوم کر لیا ہے۔ مغرب کی ہوا اس کے ساتھ اس کی بولائی ہے۔ اب جلدی سے اوپر آکر جہاز کا رخ مغرب کی سمت موڑ دیجیے۔ جلدی کیجیے ۔‘‘
ڈاکٹر نے جہاز کا رخ مغرب کی طرف کر دیا۔ کتا بولا۔’’ آپ میری ناک کی طرف دیکھتے رہیے۔ جس طرف میری ناک گھوم جائے، ادھر ہی آپ جہاز کا رخ بھی موڑ دیجیے۔ میرا خیال ہے کہ وہ شخص یہاں سے بہت زیادہ دور نہیں ہے ۔‘‘
دن بھر ڈبو جہاز کے اگلے حصے میں کھڑا رہا۔ وہ ہوا سونگھ سونگھ کر اشارے کرتا رہا کہ جہاز کس طرف کو چلانا چاہیے۔ سب جانور حیرت اور تعجب سے اُسے دیکھتے رہے۔ دوپہر کے بعد ڈبونے بلی سے کہا۔’’ ڈاکٹر واجبی کو بلا کر لاؤ۔ میں ان سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
بطخ نے ڈاکٹر وا جبی کو اطلاع دی۔ وہ فوراًڈ بو کے پاس پہنچا۔ ڈ بو نے کہا:
’’مجھے اندیشہ ہے کہ اس لڑکے کا چچا فاقے کر رہا ہے۔ ہمیں جہاز کو بہت تیز چلانا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر وا جبی نے پوچھا۔’’ تمہیں کیسے معلوم ہے کہ وہ فاقے کر رہا ہے؟‘‘
ڈ بو بولا،‘‘ کیوں کہ ادھر سے آنے والی ہوا میں نسوار کے علاوہ کوئی اور بو شامل نہیں ہے۔ اگر صمد و کچھ کھا پکا رہا ہوتا تو اس چیز کی بو ہوا میں ضرور شامل ہوتی۔ بھوک کا احساس مٹانے کے لیے وہ بار بار نسوارلے رہا ہے۔ شاید اس کے پاس پینے کے لیے پانی بھی نہیں ہے۔ ہم اس کے قریب ہوتے جارہے ہیں، کیوں کہ نسوار کی بو تیز ہوتی جارہی ہے۔جہاز کو ذرا اور تیز چلاؤ تا کہ ہم جلدی اس کے پاس پہنچ سکیں۔‘‘
ڈاکٹروا جبی نے کہا۔’’ قیں قیں، تم ذرا ابابیلوں سے کہنا کہ وہ جہاز کو کھینچنا شروع کر دیں۔ ابابیلیں ایک دفعہ پھر جہاز کو کھینچنے لگیں۔ جہاز سمندر کو چیرتا ہوا، تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ سب جانور ڈبو کو دیکھنے کے بجائے اب ادھر اُدھر دیکھنے لگے کہ شاید انھیں کوئی پہاڑی یا جزیرہ نظر آجائے۔ جہاز کئی گھنٹے تک چلتا رہا، لیکن دور دور تک کسی پہاڑی یا جزیرے کا نشان تک نظر نہیں آتا تھا۔ اب جانور بھی تھک ہار کر بیٹھ گئے، لڑکے کا تو پریشانی سے برا حال تھا۔ ڈبو کے چہرے سے بھی پریشانی جھلک رہی تھی۔ آخر دوپہر کے قریب اُلو نے چیخ کر کہا۔’’ ڈبو، ڈبو، مجھے بہت دور کسی بلند پہاڑ کی چوٹی نظر آرہی ہے۔ جہاز کو وہاں لے چلو جہاں آسمان سمندر سے گلے ملتا ہوا نظر آرہا ہے۔ سورج کی کرنوں سے وہاں سنہری جھالر سی بنی ہوئی ہے۔ کیا اب بھی تمہیں اس آدمی کی بو آرہی ہے۔‘‘
ڈبو بولا۔’’ ہاں بہت تیز بو آرہی ہے۔ یقیناآدمی وہیں چھپا ہوا ہے۔‘‘
کچھ دیر بعد پہاڑ نظر آنے لگا۔ یہ ایک سیدھا، سپاٹ اور چٹیل پہاڑ تھا۔ نہ اس پر درخت اُگے ہوئے تھے اور نہ گھاس پھوس۔ اس پر کچھ بھی تو اُگا ہوا نہیں تھا۔ ڈاکٹر وا جبی نے پہاڑی کا چکر کاٹا،لیکن اُسے کوئی نظر نہیں آیا۔ انسان تو کیا وہاں کوئی پرندہ تک نظر نہیں آرہا تھا۔ سب جانور بالکل خاموش کھڑے ہو گئے اور کان لگا کر کسی آواز کو سُننے لگے، لیکن انھیں صرف سمندری لہروں کی آواز سنائی دے سکی۔ ہر ایک جانور نے پوری قوت سے آوازیں دیں، ارے کوئی ہے؟ ہیلو ،ہیلو، کوئی ہے؟ یہاں تک کہ چیخ چیخ کر ان کی آواز بیٹھ گئی۔ بے چارہ لڑکا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ بولا۔’’ مجھے ڈر ہے کہ اب میں کبھی اپنے چچا کی شکل نہ دیکھ سکوں گا۔ میں اپنے گھر والوں کو کیا منھ دکھاؤں گا؟ جب وہ مجھ سے پوچھیں گے کہ چچا کو کہاں چھوڑ آئے، تو انہیں کیا جواب دوں گا۔‘‘
ڈبو ڈاکٹر واجبی سے بولا۔’’ وہ ضرور یہیں کہیں چھپا ہوا بیٹھا ہے۔ مجھے یہیں اس کی بو محسوس ہورہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب، آپ جہاز کو ذرا پہاڑ کے نزدیک لے چلیے۔‘‘
ڈاکٹر واجبی جہاز کو پہاڑ کے قریب لے گیا۔ اس نے ایک جگہ لنگر ڈال دیا۔ پھروہ اور ڈبو پہاڑ پر اُتر گئے۔ ڈبو نے اپنی ناک زمین سے لگا دی اور کچھ سونگھتا ہوا ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ کبھی وہ سونگھتا ہوا دور تک نکل جاتا کبھی وہ واپس لوٹ آتا، کبھی کسی پتھر پر چڑھ جاتا، کبھی کسی گڑھے میں کود جاتا۔ ڈاکٹر واجبی ہر جگہ اس کے پیچھے پیچھے تھا، یہاں تک کہ اس کا سانس پھول گیا۔ آخر ڈبو ایک جگہ رک گیا اور زور زور سے بھونکنے لگا۔ ڈاکٹر واجبی دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ کتا ایک غار میںمنھ ڈال کر کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کتا بولا۔’’ لڑکے کا چچا اسی غار میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے وقوف عقاب اسے ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ مجھ جیسے عالی نسب کتنے ہی کسی آدمی کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘‘
ڈبو کا سینہ فخر سے تن گیا۔ وہ اکڑ کڑ کر ڈاکٹر واجبی کے آگے چلنے لگا۔ یہ غار بہت دور تک چلا گیا تھا اور اس کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ ڈاکٹر واجبی نے راستہ دیکھنے کے لیے ماچس جلائی۔ کچھ دیر بعد تیلی بجھ گئی۔ ڈاکٹر کو دوسری تیلی جلانی پڑی۔ خدا خدا کر کے غار کا راستہ ختم ہوا۔ اب ڈاکٹر وا جبی ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچ گیا ،جہاں ایک آدمی لیٹا ہوا تھا۔ اس نے اپنا سر اپنے بازو پر ٹکا رکھا تھا اور وہ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کے گہرے سرخ رنگ کے بالوں سے پہچان لیا کہ یہی لڑکے کا چچا ہے۔ اس کے قریب ہی ایک ڈبیا پڑی تھی۔ ڈاکٹر واجبی نے ڈبیا اُٹھا کر دیکھی، اس میں تیز قسم کی نسوار تھی۔
غار سے باہر
ڈاکٹر نے بہت آہستگی سے سوئے ہوئے آدمی کو جگایا۔ عین اسی وقت ماچس کی تیلی بجھ گئی، اور گھپ اندھیرا چھا گیا۔ اس آدمی نے یہ سمجھا کہ یہ ابو فنا ہے جو اس کی تلاش کرتے کرتے یہاں آگیا ہے۔ اس نے ڈاکٹر واجبی کو دو تین مکے رسید کیے۔ ڈاکٹر واجبی نے اسے بہت مشکل سے سمجھایا کہ میں تمہارا دوست ہوں اور تمہارے بھتیجے کو ساتھ لے کر تمہیں تلاش کرتا ہوا یہاں آیا ہوں۔
اس آدمی کو اپنے رویے پر بہت افسوس ہوا۔ اس نے ڈاکٹر واجبی سے اپنے قصور کی معافی مانگی۔ خوش قسمتی سے ڈاکٹروا جبی کو کوئی خاص چوٹ نہیں آئی تھی۔
اس نے ڈاکٹر سے اپنی آپ بیتی بیان کی کہ ڈاکو مجھے اپنے گروہ میں شامل کرنا چاہتے تھے ۔جب میں نے انکار کیا تو وہ مجھے اس پٹیل پہاڑ پر چھوڑ کر چلے گئے۔ سردی سے بچنے کے لیے میں غار میں چھپ گیا۔ چار دن سے میں نے کچھ نہیں کھایا پیا ہے۔
ڈبو زور سے بولا۔’’دیکھا، میں نہ کہتا تھا! اب مانتے ہو میری عقل مندی؟ ‘‘
ڈاکٹر واجبی ماچس کی تیلیاں جلا جلا کر اسے راستہ دکھاتا ہوا غار سے باہر لے آیا۔ پھر ڈاکٹر واجبی اُسے جہاز پر لے گیا۔ جانوروں نے جب سُرخ بالوں والے آدمی کو دیکھا تو وہ خوشی سے ناچنے لگے۔ جہاز کے مستول اور عرشے پر بیٹھی ہوئی ہزاروں بلکہ لاکھوں ابابیلیں بھی خوشی سے سیٹیاں بجانے لگیں۔ اتنا شور برپا ہوا کہ کئی کئی میل تک ان کی آواز پہنچی۔ جہاز راں سمجھے کہ سمندر میں طوفان آگیا ہے۔ ڈبو کی خوشی کا تو کہنا ہی کیا، وہ سینہ پھلائے پھلائے ادھر اُدھر مٹر گشت کر رہا تھا۔ بی بطخ اور الو نے ڈبو کو بہت بہت شاباشی دی ۔بطخ بار بار کہتی۔’’ بھیاڈ بو، مجھے معاف کر دینا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ تم اتنے ذہین، ہوشیار اور سمجھ دار ہو۔‘‘
ڈبو خوشی سے بھونک بھونک کر کہتا۔’’ بہن، یہ ذہانت خدا کی دین ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جہاں انسان نا کام ہو جاتے ہیں وہاں ہم کتوں کی ذہانت کام آتی ہے ۔‘‘
ادھر ڈاکٹر واجبی سُرخ بالوں والے مچھیرے کی خاطر مدارت میں مصروف تھا۔ ڈاکٹر واجبی نے اس کے گھر کا پتا پوچھا۔ جب صمد و مچھیرے نے اپنا پتا بتایا تو ڈاکٹر نے ابا بیلوں سے کہا کہ جہاز کو پہلے اس کے گھر کی طرف لے چلو۔
جب وہ اس جزیرے پر پہنچے جس کا پتا ماہی گیر نے بتایا تھا تو انھوں نے دیکھا کہ وہاں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا۔ جس وقت جہاز لنگر انداز ہو رہا تھا، ایک پہاڑی کی چوٹی سے ایک عورت چیختی ہوئی ان کی طرف آئی۔ یہ لڑکے کی ماں تھی جو پچھلے کئی دن سے روزانہ پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر ان کی راہ دیکھتی تھی۔ اس نے آتے ہی اپنے بیٹے کو سینے سے لگا کر اس کی بلائیں لیں۔ جب اس کے لڑکے نے سب حال سُنایا تو وہ ڈاکٹر واجبی کے پاس پہنچی، ان کا شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیں۔ لڑکے نے کہا۔’’ امی جان، ڈبو کی مہربانی بھی یاد رکھیے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو شاید چچا جان ہمیں کبھی نہ مل سکتے ۔‘‘
وہ عورت ڈبو کو پیار کرنے کے لیے لپکی۔ ڈبو گھبرا کر بھاگ نکلا۔ وہ دُور سے بولا۔’’ بی بی مجھے تو ان تکلفا ت سے معاف ہی رکھو۔ اگر تمھیں پیار ہی کرنا ہے تو اس بطخ سے شوق پورا کر لو۔‘‘
ڈاکٹر واجبی تو اسی وقت روانہ ہونا چاہتا تھا، لیکن لڑکے کی ماں اور چچا صمدو نے بہت اصرار کر کے انھیں ٹھیرا لیا۔ ڈاکٹر نے ان کے ساتھ ہفتے اور اتوار کا پورا دن اور پیر کا آدھا دن گزارا۔ لوگوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کی آؤ بھگت کی۔ ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی جہاں جاتے لوگوں کی ایک بھیڑ ان کے گرد اکٹھی ہو جاتی۔ بچے بالے ساحل پر پہنچ کر ڈاکوؤں کا جہاز دیکھتے۔ ان کے بزرگ انہیں بتاتے کہ دیکھو بیٹا، کبھی ڈاکوؤں نے سمندروں پر قبضہ جمارکھا تھا، لیکن سودن چور کے تو ایک دن شاہ کا۔اب وہ دور پار ایک جزیرے میں قیدی کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ برے کام کا برا انجام۔
جب ڈاکٹر واجبی روانہ ہونے لگا تو گاؤں کا بچہ بچہ انھیں رخصت کرنے کے لیے پہنچا۔ ان کا جلوس بھی دیکھنے کے قابل تھا۔ آگے آگے کچھ لوگ ڈھول اور نفیری بجاتے جارہے تھے۔ ان کے پیچھے ڈاکٹر واجبی اور اس کے ساتھی تھے اور ان کے پیچھے گاؤں کے سب لوگ بچے، بوڑھے اور جوان تھے۔ عورتیں کھڑکیوں سے ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہی تھیں۔ ایک جگہ پہنچ کر جلوس رک گیا ۔گائوں کا چودھری آگے بڑھا اور اس نے ایک مختصر سی تقریر کر کے ڈاکٹر واجبی کی مہربانی اور عنایت کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔’’ ڈاکٹر صاحب! ہماری خوش نصیبی ہے کہ آپ نے ہمارے گاؤں میں قیام فرمایا۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں ڈاکوؤں سے نجات دلائی۔ اس شکریے کا اظہار کرنے کے لیے میں ایک حقیر سا تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک ڈبیا کھولی اور ایک بہت خوب صورت اور قیمتی گھڑی ڈاکٹر واجبی کے ہاتھ پر باندھ دی۔ یہ گھڑی سونے کی بنی ہوئی تھی اور اس میں جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ چودھری بولا۔’’ اب میں ایک تحفہ ڈبو کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ڈبو، ذرا سامنے آؤ۔‘‘
’’ ڈبو۔ ڈبو۔‘‘ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں، لیکن ڈبو گاؤں کے آخری سرے پر سب کتوں کو اکٹھا کر کے انہیں اپنا کارنامہ سُنارہا تھا اور سب کتے ہمہ تن گوش بنے اس کی تقریر سن رہے تھے۔ وہ تحفے تحائف لینے کا قائل نہیں تھا۔ گاؤں کے لوگ اسے بہت مشکل سے کھینچ کھینچ کر چودھری کے سامنے لے گئے۔ چودھری نے ایک بڑا سا پارسل کھولا اور اس میں سے خالص سونے کا بنا ہوا پٹا نکالا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے یہ پٹا کتے کے گلے میں پہنا دیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا۔’’ ڈبو کی خدمت میں، جو دنیا کا سب سے عقل مند اور ہوشیار کتا ہے۔‘‘
پھر یہ جلوس ڈاکٹر وا جبی کو رخصت کرنے کے لیے ساحل تک گیا۔ سرخ بالوں والے چچا صمدد، اس کی بہن اور لڑکے نے بار بار ڈاکٹر واجبی کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر واجبی جہاز پر سوار ہوا اور جہاز کا لنگر اُٹھا لیا گیا۔ جہاز آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ سب لوگوں نے ہاتھ ہلا کر الوداع کہی اور جب تک ڈاکٹر کا جہاز ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا وہ ساحل پر کھڑے رہے۔
وطن واپسی
مارچ کا مہینا ختم ہو چکا تھا۔ اپریل کے دن تھے، موسم بہار کا زمانہ تھا۔ انھی دنوں ڈاکٹر واجبی واپس اپنے وطن پہنچا، لیکن وہ سیدھا بستان پور نہیں گیا۔ سب سے پہلے وہ جگہ جگہ گھوما پھرا۔ اس نے اپنے عجیب و غریب جانور دو رُخے گھوڑے کی نمائش کی۔ ایک گاؤں میں میلا مویشیاں لگا ہوا تھا۔ ڈاکٹر وا جبی نے بھی ایک جگہ اپنا تمبو لگا لیا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھ جاتا اور ہر تماشائی سے ٹکٹ کے دام وصول کرتا رہتا۔
بی بطخ دن بھر اُسے کوستی رہتی، کیوں کہ ڈاکٹر واجبی چھوٹے چھوٹے بچوں کو مفت میں اندر جانے دیتا۔ روزانہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ اس عجیب مخلوق کو دیکھنے کے لیے آتے ۔سر کس والے اور چڑیا گھر کا منتظم ڈاکٹر واجبی کے پاس گئے۔ انھوں نے اس عجیب الخلقت جانور کے منھ مانگے دام دینے کی پیش کش کی، لیکن ڈاکٹر واجبی نے ہر بار ان کی پیش کش نامنظور کر دی۔ اس نے جواب میں یہی کہا کہ میں دو رُخے گھوڑے کی آزادی سلب کرنا نہیں چاہتا۔ اسے آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے کا پورا پورا حق ہے۔ جگہ جگہ گھومتے پھرتے رہنا بے شک بہت پر لطف ہوتا ہے، لیکن آخر آدمی سیر و تفریح سے بھی گھبرا جاتا ہے اور پھر آرام کرنا چاہتا ہے۔ یہی کچھ ڈاکٹر و اجبی کے ساتھ بھی ہوا۔ تھوڑے دن میں ہی اس کا دل اکتا گیا اور بستان پور کی یا د بری طرح ستانے لگی۔ اس کے پاس کافی دولت جمع ہو گئی تھی۔ اس نے دورُخے گھوڑے کی نمائش بند کر دی۔
ایک سہانی صبح بستان پور میں ڈاکٹر واجبی دوبارہ داخل ہوا۔ اس بار وہ پہلے کی طرح غریب آدمی نہیں تھا بلکہ امیر کبیر آدمی تھا۔ اس کے مکان کے سامنے والے باغ میں ابابیلوں نے پہلے ہی ڈیرہ جما رکھا تھا۔ لنگڑا گھوڑا اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوا۔ بی بطخ بھی بے حد خوش تھی۔ پورے گھر کی صفائی کرنی تھی۔
جگہ جگہ ڈھیروں کوڑا اور مٹی جمع ہو چکی تھی۔ کمروں میں مکڑیوں نے جالے تان دیے تھے۔ بطخ پھر بھی بے حد خوش تھی اورقیں قیں کرتی پھر رہی تھی۔ ڈ بو تو خوشی سے بالکل پاگل ہی ہو گیا تھا۔ وہ ہر طرف کی زمین سونگھتا پھر رہا تھا۔
ڈاکٹر وا جی اس ملاح کے پاس پہنچا جس نے اسے بادبانی جہاز دیا تھا۔ اس نے ڈاکوئوں کا جہاز اس کے حوالے کیا۔ اس کے علاوہ نقدی بھی دی۔ پھر وہ اس دُکان دار کے پاس گیا جس نے انھیں سفر میں کھانے پینے اور استعمال کی دوسری چیزیں دی تھیں۔ ڈاکٹر نے اسے بھی کافی رقم ادا کی۔ پھر بھی اس کے پاس اتنی رقم بچ رہی تھی کہ اس نے رقم رکھنے کے لیے تین صندوقچیاں خرید لیں۔ ڈاکٹر وا جبی نے کہا۔’’ رُپیا پیسا بھی عجیب شے ہے۔اگر موجود ہو تب بھی مصیبت اور اگر نہ ہو تب بھی مصیبت۔‘‘
الو ایک آنکھ کھول کر بولا ۔’’بجا فرمایا، درست کہا، میرے استاد بوم بیابانی بھی یہی فرماتے تھے۔‘‘
اُدھر افریقہ کے جنگلوں میں بندروں کی مائیں آج بھی اپنے بچوں کو اس نیک دل ڈاکٹر کی کہانیاں سناتی ہیں۔ مرزا توتا بیگ اور چیچو آج بھی ڈاکٹر واجبی کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ کون جانے، ڈاکٹر صاحب اپنا بیگ اور بقچہ اُٹھا کر کب افریقہ کے سفر پر روانہ ہو جائیں۔
Facebook Comments