skip to Main Content

دین کی روشنی ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’علم کی طلب و تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (شعب الایمان، طبرانی، معارف الحدیث جلد نمبر3 صفحہ نمبر34)
۔۔۔۔۔

جس نے سنا ، دانتوں میں انگلی داب کے رہ گیا۔
اماں نے کہا: ’’اے لو۔ تمھارے دادا جان کو بھلا کیا سوجھی جو اس عمر میں یہ فیصلہ کر بیٹھے…؟‘‘
ابا بولے: ’’بھئی میری تو اتنی ہمت نہیں کہ انھیں کچھ کہہ سکوں۔ میں تو ان کے فیصلے پر خوش ہوں…!‘‘
چھوٹی رِدا نے کہا۔ ’’مجھے تو بڑا مزہ آئے گا کہ جب دادا جان اپنا بستہ لے کے میرے ساتھ جائیں گے…!‘‘
ندیم بولا: ’’اور کیا…دیکھنا ہم اور دادا خوب کھیلیں گے…!‘‘
اسی وقت دروازے پر آہٹ ہوئی اور دادا جان اندر داخل ہوئے۔ اماں نے جلدی سے دوپٹہ سر پر رکھا اور بچوں کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
دادا جان آ کے دالان میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئے۔
ندیم نے جلدی سے پانی کا گلاس طشتری میں رکھ کے پیش کیا۔
دادا جان نے بسم اللہ پڑھ کے تین گھونٹوں میں پانی پیا۔ الحمد للہ کہا اور گلاس واپس ندیم کو دیتے ہوئے بولے: ’’جزاک اللہ خیراً …!‘‘
ندیم نے پوچھا: ’’دادا جان پہلے تو آپ بس شکر الحمد للہ ہی کہتے تھے اب آپ نے یہ کیا کہا۔؟‘‘
دادا جان بولے: ’’جزاک اللہ خیراً ‘‘ کا مطلب ہے کہ اللہ پاک تمھیں اس نیک کام کا اجر دیں…!‘‘
’’آمین…!‘‘ ندیم نے کہا اور ہنسنے لگا۔
دادا جان نے پوچھا: ’’تم کیوں ہنس رہے ہو…؟‘‘
ندیم نے پوچھا: ’’دادا جان کیا آپ سچ مچ ہمارے ساتھ مدرسے جائیں گے؟‘‘
’’ہاں…!‘‘ دادا جان نے اطمینان سے سر ہلایا اور بولے: ’’کیوں مجھے نہیں جانا چاہئے…!‘‘
’’پتا نہیں…!‘‘ ندیم نے سادگی سے کہا۔ ’’مگر مدرسے تو بچے جاتے ہیں آپ تو بڑے بلکہ ابو کے بھی ابا ہیں۔ اتنے بوڑھے…!‘‘ ندیم کہہ کے چپ ہو گیا اور دادا جان کی طرف دیکھنے لگا۔
دادا جان اس کی بات سن کے مسکرائے۔ اور بولے: ’’بھئی مجھے آرڈر ملا تو میں تیار ہو گیا…!‘‘
’’آپ کو کس نے آرڈر دیا…؟‘‘ رِدا نے تعجب سے پوچھا۔ ’’آپ تو ہم سب کو آرڈر کرتے رہتے ہیں…؟‘‘
اس کے بھولپن پر سب ہی ہنس پڑے۔
دادا جان شفقت سے بولے: ’’یہ بھی بتا دیں گے۔ پہلے کچھ مل تو جائے…!‘‘
’’دادا جان بولے اور پھر ابا کی طرف رخ کرکے بولے: ’’ذرا بڑے حرفوں والا نورانی قاعدہ تو صبح لیتے ہوئے آنا…!‘‘
’’جی ابو جی…!‘‘ انھوں نے فوراً کہا۔
اماں چپ رہیں۔

٭٭٭

دا دا جان نے مدرسے جانا شروع کر دیا۔ وہ نورانی قاعدہ بڑی توجہ سے پڑھتے تھے۔ اور خوب مزے سے سر ہلا ہلا کے سبق یاد کرتے۔ ق اور ک، ح اور ھ کے حلق سے صحیح مخارج ادا کرتے۔
دادا جان کے مدرسے آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ بچوں اور دادا جان میں ایک مقابلے کی فضا قائم ہو گئی۔ بچے دادا جان سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے۔ مگر ہار جاتے اور دادا جان فخر سے مسکراتے اور کہتے: ’’بچو…! یہ مت بھولو کہ میں تمھارے ساتھ پڑھ ضرور رہا ہوں، مگر ہوں تو تمھارا دادا…!‘‘
مگر کبھی کبھی وہ ہار بھی جاتے۔
اور ندیم فوراً سمجھ جاتا اور پوچھتا: ’’دادا جان سچ بتائیں آپ اپنا سبق جان بوجھ کے بھولے ہیں نا…!‘‘
دادا جان ندیم کے پھولے پھولے گالوں پر ہلکی سی چپت مارتے ہوئے کہتے: ’’میاں ندیم… کبھی کبھی دوسروں کی خوشی کے لئے بھی ہارنا چاہئے…!‘‘
دادا جان نہ صرف نورانی قاعدہ پڑھ رہے تھے بلکہ نماز فجر کے بعددرس کی کلاس میں شامل ہوتے۔ بخاری شریف کا سبق بھی سنتے، کبھی مولوی صاحب سے دینی مسائل پر گفتگو کرتے، کبھی کسی مسئلے کا حل معلوم کرتے۔
دادا جان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا تھا وہ اکثر اوقات دینی کتب پڑھتے پھر اس میں سے بعض چیزوں پر نشان لگاتے۔ مسجد جا کے مولانا صاحب سے اس کے متعلق پوچھتے۔ مولوی صاحب بڑی توجہ سے، احترام سے انھیں بتاتے۔ وہ تیس بتیس سال کے تھے اور سال بھر پہلے ہی شہر کے معروف دینے مدرسے سے عالم فاضل کی سند لے کر آئے تھے۔

٭٭٭

دن گزرتے رہے۔
اماں کا خیال تھا کہ دادا جان کا شوق کم ہو جائے گا مگر دن بہ دن دادا کے شوق میں اضافہ ہوتا گیا۔
رمضان قریب آ رہا تھا۔ اماں بیٹھی منہ ہی منہ میں کچھ حساب لگا رہی تھیں۔
دادا جان نے پوچھا ’’کیا بڑبڑا رہی ہو بٹیا…؟‘‘
اماں بولیں: ’’میں سوچ رہی تھی۔ رمضان آنے والا ہے۔ زیور پر زکوٰۃ دینی ہے۔ کتنے پیسے ہوں گے…؟‘‘
دادا جان نے کہا: ’’کتنا سونا ہے…؟‘‘
اماں نے کہا: ’’چھ تولے تو میرے زیور ہیں اور چار تولے رضوانہ کے لئے جمع کیا ہے اور اب اس پر تو زکوٰۃ نہیں ہو گی نا…؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اماں بولیں: ’’ابا جی وہ تو رضوانہ کے لئے ہے نا…!‘‘
دادا جان نے نرمی سے کہا: ’’اس پر بھی تمھیں ہی زکوٰۃ دینا ہو گی کیونکہ وہ زیور نا تو رضوانہ کی ملکیت ہے نا وہ استعمال کرتی ہے۔ اور ابھی نابالغ ہے۔ اس کے علاوہ سونا تم نے خریدا ہے تم ہی مالک ہو اس لئے تم ہی زکوٰۃ دو گی…!‘‘
’’جی یہ تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں…!‘‘ اماں نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔

٭٭٭

کچھ دنوں کے بعد خالو رشید جو جگت خالو تھے اور کافی عرصے سے فالج میں مبتلا تھے۔ ان کا انتقال ہو گیا۔
اب غسال کی تلاش شروع ہوئی کہ کوئی آئے تو میت کو غسل دے۔ پھر پتا چلا کہ نمازِ جنازہ کے لئے مولوی صاحب بھی موجود نہیں ہیں۔ وہ شہر گئے ہیں اور دو تین دن بعد لوٹیں گے۔
سب پریشان ہو گئے۔
دادا جان نے اطمینان سے کہا: ’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ میت کو غسل دینا باعث ثواب ہے۔ میں غسل دیتا ہوں میرے ساتھ دو لوگ اور آ جائیں۔‘‘
فوراً ہی ابا کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ ساتھ ماموں جان بھی کھڑے ہو گئے۔
جب تک میت کو غسل دیا جاتا۔ کفن بھی تیار ہو گیا۔
میت تیار ہو گئی تو پھر وہی سوال۔ مولوی صاحب تو ہیں نہیں۔ نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا۔
دادا جان بولے: ’’کیوں پریشان ہو۔ میں پڑھاتا ہوں…!‘‘
’’آپ…؟‘‘ غفور الدین حجام نے کہا۔ ’’دادا جان آپ پڑھائو گے اور وہ بھی نمازِ جنازہ؟‘‘
’’ہاں تو اور کیا…؟‘‘ دادا جان نے کہا۔ اور بولے: ’’سب نمازِ جنازہ کی ترتیب سن لیں…!‘‘ اس کے بعد دادا جان نے نمازِ جنازہ کی ترتیب بتائی۔ سب نے ذہن نشین کی۔ لیکن سب حیران تھے۔
نماز جنازہ کے بعد میت کو دفناکے سب افسوس کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
ہم لوگ بھی گھر آ گئے۔
رات کھانے کے بعد ابا نے دادا جان سے کہا: ’’اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات پوچھوں…؟‘‘
’’ضرور پوچھو…!‘‘ دادا جان نے اطمینان سے کہا۔
’’وہ … وہ میرا مطلب ہے کہ یہ سب، غسل دینا، دفنانا، نماز جنازہ، یہ سب آپ کو کیسے آ گیا…؟‘‘
دادا جان نے ابا کا سوال سنا۔ اور ہم سب کی طرف دیکھا۔
ہم سب منتظر نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
دادا جان نے کہا: ’’تمھیں یاد ہے کہ دو برس پہلے بھائی جان کا انتقال ہوا تھا…؟‘‘
’’جی ہاں… جی ہاں…!‘‘ ہم سب نے بیک وقت کہا۔
’’اس وقت بھی ہماری مسجد کے مولانا صاحب عمرہ کرنے گئے ہوئے تھے۔ اور ہمیں پاس کے گائوں سے غسال اور مولوی صاحب کو نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے بلوانا پڑا تھا۔ جو تین چار گھنٹوں کی تاخیر سے آئے تھے اور ہمیں انتظار کرنا پڑا تھا جبکہ شریعت کا حکم ہے کہ مردے کے دفنانے میں جلدی کرو…!‘‘
’’مجھے اس دن بہت افسوس ہوا۔‘‘ دادا جان نے کہا اور ذرا رکے اور ہماری طرف دیکھ کے بولے: ’’پھر اسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا…!‘‘
’’کیسا فیصلہ…؟‘‘ اماں نے تجسس سے پوچھا۔
’’میں نے ندیم کی اسلامیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک پڑھی : ’’علم کی طلب اور تحصیل ہر مسلمان پر فرض ہے…!‘‘ مجھے لگا کہ جیسے میرے کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے حکم دے رہے ہیں۔شہاب الدین تو علم کیوں نہیں حاصل کرتا۔ کیوں محتاج رہتا ہے۔ غسال اور جنازے کے لئے مولوی کا۔ کیا میں نے ہر چیز تم سب تک پہنچا نہیں دی…؟‘‘
’’بس بچو…! یہ خیال ، یہ احساس اتنا طاقت ور تھا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پڑھوں گا۔ تعلیم صرف میٹرک، بی اے، ڈاکٹر ، پروفیسر بننے کے لئے ہی نہیں ہوتی۔ دین سیکھنے کے لئے بھی ہوتی ہے…!‘‘ دادا جان کہہ کے چپ ہو رہے۔
ہم سب بھی دم بخود ان کی باتیں سن رہے تھے۔
ذرا دیر ٹھہر کے وہ دوبارہ بولے: ’’قرآن شریف میں نے بچپن میں پڑھا تھا۔ مجھے لگا کہ میرا شین قاف درست نہیں۔ چنانچہ میں نے دوبارہ نورانی قاعدے سے پڑھنا شروع کیا۔ اردو مجھے لکھنا پڑھنا آتی تھی۔ اس لئے میں نے روز مرہ زندگی کے مسائل سیکھنے شروع کئے۔ سب سے پہلے میں نے نمازِ جنازہ سیکھی۔ پھر زکوٰۃ کے مسائل وغیرہ۔ اب اللہ کا شکر ہے کہ دین کی روشنی میں مجھے روز مرہ کے معاملات میں کسی کی محتاجی نہیں رہی…!‘‘
دادا جان خاموش ہو گئے۔
اماں نے کہا: ’’ابا جی مجھے معاف کر دیجئے گا کہ اگر میرے کسی لفظ سے دل دکھا ہو…!‘‘
’’بالکل نہیں…!‘‘ دادا جان مسکرائے۔ ’’تم سب میرے بچے ہو۔ اور میں چاہوں گا کہ تم سب بھی دین سیکھو…!‘‘
ابا نے کہا: ’’ابا جی جیسے ہی مولوی صاحب آئیں گے میں بھی ان سے دین سیکھوں گا۔ واقعی علم کی طلب تو ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے…!‘‘
’’آمین…!‘‘ سب نے بلند آواز سے کہا۔

٭…٭

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top