داسو
تبت کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
ہوٹو کوٹو ایک خانہ بدوش لڑکا تھا۔ اسے جانوروں سے بہت پیار تھا۔ ایک روز جب وہ جنگل میں کھیل رہا تھا تو اسے ایک چھوٹا سا ملائم کالے بالوں والا کتے کا پلانظر آیا جو اپنی ماں کی لاش کے پاس گم صم بیٹا تھا۔ پتہ نہیں بے چاری کس طرح مر گئی تھی۔ ہوٹوکوٹو کواس پہ بہت ترس آیا اور اس نے اس پلے کو اٹھا کر اپنے لمبے گرم کوٹ میں چھپالیا۔ اپنے خیمے میں پہنچ کر اس نے پلے کو نیم گرم دودھ پلایا۔ کچھ دیر میں ہی اس میں اتنی توانائی آگئی کہ وہ اپنی کپکپاتی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ انکی گول مول چھوٹی سی دم تیزی سے ہلنے لگی۔ اور پھر دونوں کی دوستی ہوگئی۔ ہوٹو نے اس کا نام ”داسو“ر کھ دیا۔ شروع میں اس نے داسوکو دوسروں سے چھپا کر رکھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ایسے کمزور پلے کوکوئی پسند نہیں کرے گا لیکن جب وہ خوب موٹا تازہ اور چست و چالاک ہو گیا تب ہوٹوا سے اپنی ماں کے پاس لے گیا۔
”ایک اور کتا؟“ اسکی ماں نے بیزاری سے کہا۔”پہلے ہی ہمارے پاس کیا کم کتے ہیں؟ تم ایک اور اٹھالائے؟؟ یعنی اب ہمیں اس کا پیٹ بھی بھر نا پڑے گا۔“
اتنے میں ہوٹو کا باپ بھی آ گیا۔ کتے کو دیکھ کر اس نے بھی منہ بنایا۔ لیکن پھر ہوٹو کی رونی صورت دیکھ کراسکے ماں باپ نے اس شرط پہ پلے کور کھنے کی اجازت دی کہ ہوٹو اسے خود بھیڑوں کی نگرانی کی تربیت دے کیونکہ بیکار جانوروں کیلئے خانہ بدوشوں کے پاس کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
داسو تیزی سے بڑا ہور ہا تھا اور ہوٹو اسے بھیڑوں کی نگرانی کی تربیت دے رہا تھا۔ داسو بہت زہین ثابت ہوا۔ وہ تیزی سے ہر بات سیکھ ر ہا تھا۔ جلد ہی وہ بھیڑوں کی نگرانی کے قابل ہو گیا۔ وہ نڈر بھی بہت تھا۔ بھیڑوں کے گلے میں لالہ نامی ایک تند خو بھیڈو تھا جسکے نو کیلے سینگوں سے سبھی ڈرتے تھے اور اسکے سامنے آنے سے گھبراتے تھے۔ پر داسواس سے بالکل نہیں ڈرتا تھا اور اسے گھیر گھار کر بیچ رستے پہ لے آتا تھا۔ خانہ بدوش قبیلے گرمیوں میں تو او پر ہمالیہ کی چوٹیوں پہ جا کرمویشی چراتے تھے مگر سردیاں آتے ہی وہ نیچے اترنے لگتے۔ وہ اپنے ساتھ تبتی نمک اور جڑی بوٹیاں بھی لاتے۔ ہندوستانی سرحدی علاقوں میں جا کروہ یہ نمک، جڑی بوٹیاں اور مال مویشی بیچ کر کپڑے اور خوراک وغیرہ خریدتے۔
اس مرتبہ بھی سردیاں آتے ہی وہ نیچے اترنے کی تیاری کرنے لگے۔ خیمے اترنے لگے۔ سامان سمٹنے لگے۔ بھیڑوں کے گلے اکٹھے کئے جانے لگے۔ زیادہ سامان خچروں پہ لدا۔ کچھ گٹھریو ں میں باندھ کر لوگوں نے پیٹھ پہ لا دلیا۔ اور اترائی کا سفر شروع ہو گیا۔ چٹانوں کے درمیان تنگ گھاٹیوں پر ان قبائل کو کئی کئی دن چلنا پڑتا۔ راستے میں کئی جگہ پر شور ندیاں آ ئیں جنہیں درختوں کے تنوں اور رسوں کے پلوں کے ذریعے پار کیا گیا اور پھر آخر کار بلند و بالا پہاڑوں سے اتر تے یہ لوگ چھوٹے پہاڑوں تک آ پہنچے۔ یہاں پہ گھاٹیاں نسبتاً فراخ تھیں اور بر فیلے راستوں کی بہ نسبت یہاں چلناز یا دہ آسان تھا۔ ایک ہری بھری پہاڑی دیکھ کر قبیلے نے کچھ دن پڑاؤ کا فیصلہ کرلیا۔ تا کہ تازہ دم ہوکر آ گے چلیں کیونکہ ابھی انہیں مزید کافی آگے تک جانا تھا۔ ایک خوبصورت چشمے کے پاس کھلا میدان دیکھ کر وہ لوگ وہاں رک گئے۔ خچروں کی پیٹھوں سے نمک کی بوریاں اتار کر انہیں نیم دائرے میں رکھا گیا۔ اسکے بیچ عارضی خیمے کھڑے کئے گئے۔ جانوروں کو چر نے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔عورتیں کھانا پکانے لگیں۔ دن ڈھلنے لگا تو جانوروں کو ان کے لئے بنائے گئے بڑے خیمے میں بند کر دیا گیا۔ اور حفاظت کے لئے خاردار جھاڑیاں لگادی گئیں۔
اندھیر اہوتے ہی سب سونے کے لئے لیٹ گئے اور جلد ہی گہری نیند سو گئے کہ لمبے سفر نے انہیں خاصا تھکا دیا تھا۔آ دھی رات کے قریب ہوٹو کوٹو کی آنکھ کھل گئی کیونکہ داسوا پنی ٹھنڈی یخ تھوتھنی اسکی گردن سے رگڑ رہا تھا۔
”افوہ داسو!سونے دو مجھے۔“ہوٹو نے اپنی نیند بھری آنکھیں بمشکل کھول کر کہا۔ اس وقت ایک ہرن زور دار آواز میں چیخا اور پھر دور کہیں شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ ہوٹو نے تو پھر آنکھیں موند لیں پر داسو بے چین ہوکر باہر نکل گیا اور مویشیوں کے خیمے میں جا کر بھیڑ بکریوں کے بیچ جا کھڑا ہوا۔ وہ بھی بے چین تھیں اور رکھوالاکتامنہ اٹھائے اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جانوروں کی چھٹی حس کسی خطرے کو سونگھ چکی تھی اور آخر وہ خطرہ چلتے چلتے سر پہ آپہنچا۔ باڑے کی ایک طرف کی حفاظتی جھاڑیاں کڑاک سے ٹوٹیں اور ایک قوی ہیکل شیر نے باڑے میں کود کر ایک میمنے کو منہ میں دبالیا۔ رکھوالا کتا جواس وقت بندھا ہوا تھا اپنار ساتڑا کر کسی طرف کو بھاگ نکلا۔ دوسرے جانوروں کے منہ سے خوفزدہ گھٹی گھٹی آوازیں نکلنے لگیں لیکن بھیڑ بکریاں دہشت کے مارے بالکل خاموش ہو چکی تھیں۔
ہوٹو ابھی پوری طرح نیند میں نہیں گیا تھا اس لئے ایک عجیب ساشورا سکے کانوں سے ٹکرایا تو پھر سے آنکھ کھل گئی۔ اس نے داسوکو آواز دی مگر کوئی جواب نہ آیا تو وہ اٹھ بیٹھا۔ پھر خیمے سے باہر نکل گیا۔ عین اس وقت شیر میمنے کو منہ میں دبائے وہاں سے گزر رہا تھا۔ ہوٹو کودیکھتے ہی اس نے میمنے کو چھوڑا اورغرانے لگا۔ ہوٹو کو جانے کیا ہواوہ شیر کے سامنے کھڑا ہو کر زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ شاید وہ سمجھ رہاتھا کہ اس طرح کرنے سے شیر بھاگ جائے گا۔ پر شیر تو اس پر جھپٹ پڑا۔ ہوٹو زمین پر گرا اور ایک دلدوز چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اسی وقت ایک ملائم سا بدن ڈھال بن کر اس پہ چھا گیا۔ یہ داسوتھا۔ اس نے اپنے تیز نو کیلئے پنجوں اور دانتوں سے شیر کا مقابلہ کیا تو وہ اورغضبناک ہو گیا اور اس نے خوفناک دھاڑ کے ساتھ داسوکو ہوا میں اچھال دیا۔ داسو جیسے ہی زمین پر گر وہ بجلی کی طرح تڑپ کر شیر پہ سوار ہوگیا۔
ہوٹو زمین کے ساتھ چپکا جار ہاتھا اسے پتہ تھا کہ داسو کا چھوٹا ساجسم شیر کے فولادی پنجوں اور آری جیسے دانتوں کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ آخر سب لوگ کیسے سوئے ہوئے ہیں اور کیوں کوئی اسکی مدد کونہیں آ رہا۔ اس نے پریشان ہوکر سوچا اور اسی وقت اسکی ماں کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے شور مچا کر سب کو جگایا اور سب ڈنڈے اور ہتھیار لے کر اسکی مد دکوآ پہنچے۔ ماں نے بھی ایک جلتی ہوئی لکڑی اٹھائی اور شیر پرحملہ آور ہوئی۔ جلتی ہوئی لکڑی اور بے پناہ شور نے شیر کو خوفز دہ کر دیا اور وہ فرار ہو گیا۔ ہوٹو زیادہ زخمی نہیں ہوا تھا۔ شیر کا پنجہ اسکے شانے کو صرف چھو کر چند خراشیں ہی ڈال سکا تھا لیکن دہشت سے وہ بیہوش ہو چکا تھا۔ پر بیچارہ داسو۔ اسکی حالت تو دیکھی نہ جاتی تھی۔ لگتا تھا بس چند گھڑی کا مہمان ہے۔ پڑاؤ کے چاروں طرف الاؤ جلادیئے گئے تا کہ درندہ دوبارہ ادھر کا رخ نہ کرے۔ ہوٹو کے کندھے کی مرہم پٹی کر دی گئی تھی وہ ہوش میں آیا تو اس نے دیکھا کہ داسوا یک طرف پڑاسسک رہا ہے۔
”ماں! تم نے داسو کوایسے ہی چھوڑ ا ہوا ہے؟“ہوٹو چیخا۔
”بیٹا!یہ تو چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ اسکی مرہم پٹی کیا کی جائے؟“ ماں نے تاسف سے کہا۔
”تمہاراداسوتو تم پہ قربان ہو گیا۔“ باپ نے کہا۔
”واقعی آج داسو نہ ہوتا تو شیر ہوٹو کوکھا ہی جاتا۔ ہم سب توایسے غافل سور ہے تھے کہ بمشکل ہی اٹھ پائے۔ خیمے میں موجود باقی لوگوں میں سے کوئی بولا۔
”نہیں میر اداسو مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ ماں اسکی مرہم پٹی کرو۔ ہوٹو کوٹو زور زور سے رونے لگا۔
ماں نے اٹھ کر داسو کی مرہم پٹی کر دی۔ اگلے ایک ہفتے ہوٹو نے داسو کی خدمت میں دن رات ایک کر دیئے۔ اسکی محنت رنگ لائی اور داسوز ند گی پکڑنے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ کھانے پینے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا۔ مگر وہ پہلے جیسا نہ تھا۔ بس ہوٹو کے ساتھ ہردم رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ قبیلے کے لوگ اسے چھیڑ نے کے لئے کہتے۔”تم نے یہ کیا لنگڑ اسا کتا پال رکھا ہے۔ آؤ ہم تمہیں بہترین کتا دیتے ہیں۔ جو چست چالاک ہو گا اور کھائے گا بھی اس کتے سے کم۔“
ہوٹو کوٹو کواتنا غصہ آ جاتا ہے کہ وہ سب کی طبیعت صاف کر دے پر اس سے پہلے اس کا باپ جواب دیتا ہے۔
”بھئی ہمارے داسو پہ تمہارے بہترین کتے قربان۔ اس نے ہمارے ہوٹوکوٹو کی جان بچائی ہے۔ یہ لنگڑا ہے تو کیا؟ کوئی کام نہیں کر سکتا۔ پھر بھی غم نہیں۔ ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے۔“
اور ہوٹو اپنے داسوکو پیار سے سہلانے لگتا ہے۔