skip to Main Content

بیٹی کا تحفہ

جاپان کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
”نانی جان! آپ کا یہ ہار بہت خوبصورت ہے۔ اسکے گلابی موتی کتنے چمک دار ہیں۔ پر آپ یہ ہار ہر وقت کیوں پہنتی ہیں؟ ما ماتو اپنے زیور صرف پارٹی میں جاتے ہوئے ہی پہنتی ہیں۔“ کی شی نے اپنی نانی سے پوچھا تو وہ ہنس دیں پھر بولیں۔”کیا تم اس ہار کی کہانی سنو گی؟“
”کہانی؟“ کی شی کی تو بانچھیں کھل گئیں۔ وہ جھٹ سے نانی اماں کے ساتھ گھس کر بیٹھ گئی۔
”مجھے پتہ ہے۔ یہ ہار آپ کو ضرور نا نا نے دیا ہو گا۔“
”نہیں“
”پھر جلدی سے بتائیے کہ یہ تحفہ کس نے آپ کو دیا اور کیوں دیا؟“
”یہ تحفہ مجھے کسی نے نہیں دیا بلکہ میں نے کسی کو دیا تھا۔ اب اگر تم خاموش بیٹھو تو پھرتمہیں سب کچھ پتہ چل جائے گا۔“
”جی!اب میں بالکل چپ رہوں گی۔“ کی شی جلدی سے بولی۔
”یہ اس وقت کی بات ہے۔ جب میں اتنی بڑی تھی، جتنی اب تم ہو۔ ہم دو بہن بھائی تھے۔ امی اکثر بیمار رہتی تھیں تو ابو ہی ہمارا خیال رکھتے تھے۔ امی کو نجانے کیا بیماری تھی۔ وہ زیادہ تر بستر پر ہی رہتیں اور ہر وقت اپنی ڈائری میں کچھ نہ کچھ لکھتی رہتیں۔ کبھی کبھار اٹھ کر پودوں کو پانی دے دیا کرتی یا پھر اپنی بلیوں سے باتیں کرتیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ہم ان کے ساتھ زیادہ بے تکلف نہ تھے۔ جب ہم کچھ بڑے ہوئے تو ہمیں پتہ چلا کہ ہماری امی تو شاعرہ ہیں اور ان کی نظمیں بہت پسند کی جاتی ہیں۔
ہم تھوڑے اور بڑے ہوئے تو ایک روز ہمارے ابو ہمیں تنہا چھوڑ کر اس دنیا سے گزر گئے۔ ہم پہ تو جوگز ری سوگزری۔ ہماری نازک سی ماں ہم سے بھی زیادہ پریشان ہوگئی۔ دن رات رونے کے سوا انہیں اور کچھ کام نہ تھا۔ ہم اپناغم بھول کر امی کو بہلانے کی کوشش کرتے مگر ان پہ کچھ اثر نہ ہوتا۔ بھائی تو اتنا گھبرایا کہ اس نے ایک دوسرے شہر میں جا کر کسی فیکٹری میں ملازمت کر لی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آ تا کہ امی کادل کیسے بہلاؤں۔ ایک رات میں نے خواب میں اپنے ابوکود یکھا۔ وہ مجھے سمجھارہے تھے کہ امی کا دل بہت نازک ہے اور مجھے اب ان کا ہر طرح خیال رکھنا ہے۔ صبح اٹھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اب ابو کی طرح امی کا خیال رکھوں گی۔ میں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ شام کو چھوٹے بچوں کو پڑھا کر پیسے کمانے شروع کر دیئے۔ میں گھر لوٹتی تو امی کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لاتی۔ مگرامی خوش ہونے کے بجائے ابو کو یاد کر کے رونے لگتیں کہ وہ بھی شام کو ایسے ہی ان کے لئے کچھ نہ کچھ لاتے تھے۔ میں پریشان ہو جاتی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آ تا کہ امی کو سوچنا چاہیے کہ میں ایک بچی ہی ہوں۔ میں نے بھی باپ کھویا ہے۔ بھائی گھر کی گھٹن سے گھبرا کر دور چلا گیا ہے۔ مجھے بھی پیار اور تسلی کی ضرورت ہے۔ مگرامی اپنے غم سے باہر نکل کر میری طرف دیکھتی ہی نہیں۔ پھر مجھے اپنا خواب یا دآ تا تومیں پھر سے ماں کا خیال رکھنے لگتی۔ یونہی میں کا لج تک پہنچ گئی۔ بھائی بھی اب و یک اینڈ پہ گھر آ جا تا تھا۔ اسکے آنے سے مجھے بہت خوشی ملتی لیکن ماں اسی طرح گم صم رہتی۔ ہم نے بھی اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا تھا۔
ایک دن میں گھر لوٹی تو ماں ایک نیا لباس پہن کر آ ئینے میں خودکود یکھ رہی تھی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ماں نے اداس آنکھوں سے مجھے اطلاع دی کہ اسکی نظموں کے مجموعے کو ایک بڑا انعام ملا ہے اور اس اعزاز میں ایک تقریب رکھی گئی ہے۔ مجھے خیال آیا کہ ابو ہوتے تو وہ کتنا خوش ہوتے۔ وہ ضرورا می کوکوئی تحفہ دیتے۔ پھر میں نے سوچا کہ ابو کی جگہ میں جو ہوں۔ مجھے ان کے لئے کوئی تحفہ لینا چاہیے۔ پر میرے پاس اتنے پیسے تو نہیں ہوتے کہ میں ان کے لئے تحفہ خرید سکوں۔ دودن میں یہ سوچتی رہی اور پھر مجھے ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ میں نے جیولری کے ایک بڑے اسٹور کے مالک مسٹر”میکی ہارا“ کو خط لکھا اوراس میں لکھ دیا کہ اگر مجھے سچے موتیوں کا ہار میری ماں کو تحفے میں دینے کے لئے دے دیں تو میں اسکی قیمت قسطوں میں ادا کردوں گی۔ اور میں نے انہیں اپنے حالات سے بھی آگاہ کردیا کہ میں اپنی شاعرہ ماں کو یہ تحفہ اپنے باپ کی طرف سے دینا چاہتی ہوں۔
ایک ہفتے کے بعد میرے خط کا جواب آیا تو میں خوشی سے رو پڑی۔مسٹر میکی ہارا نے لکھا تھا کہ سچے موتیوں کا تحفہ محبت بھرے لوگ ہی دوسروں کو دیتے ہیں۔ میں نے تمہارے گھر کے قریب واقع اپنی برانچ کے مینیجر کو خط لکھ دیا ہے۔ تم جب چا ہو وہاں جا کر خریداری کر سکتی۔ میں تو فوراً بازار کی طرف بھاگی۔ گنزا اسٹور پہ ملکی و غیر ملکی خریداروں کی بھیڑ تھی۔ میں نے شوکیس میں جھانکا۔ گلابی موتیوں کا وہ ہار جسے میں آتے جاتے تصور میں اپنی ماں کے پیارے سے گلے کی زینت بنا دیکھتی تھی، اپنی جگہ پہ جگمگارہا تھا۔
میں جلدی سے دکان میں داخل ہوگئی اور مسٹر میکی ہارا کا خط منیجرصاحب کے سامنے رکھ دیا۔ اسے دیکھ کر وہ بولے۔”ہاں ہمیں تمہارے بارے میں بتا دیا گیا تھا۔ تم جوزیور پسند کرو۔ ہم تمہیں دے دیں گے۔“
میں نے اپنے پسند ید ہ ہار کی طرف اشارہ کر دیا۔ منیجر صاحب نے بتایا کہ اسکی قیمت دس ہزار ین ہے مگر مجھے یہ نو ہزار ین میں ملے گا اور میں ہر تین ماہ بعد اسکی قسط ادا کر سکتی ہوں۔ میں نے ان کا شکر یہ ادا کیا اور ہار لے کر چلی آئی۔ جس روز تقریب تھی۔ ماں نے نیا لباس پہنا،وہ آئینے کے سامنے اپنے بال سنوار رہی تھیں تو میں نے آگے بڑھ کر انہیں ہار پہنادیا۔ سچے گلابی موتیوں کی چمک سے میری امی کا چہرہ جگمگا اٹھامگر وہ حیران پریشان تھیں۔
”کاسٹر ا!اتناقیمتی ہار؟“
میں نے مسٹر میکی ہارا کا خط ان کے سامنے رکھا اور خود دوسرے کمرے میں آ گئی۔ ابوکو یاد کر کے میرادل بھر آیا۔ کچھ دیر میں امی اندرآ ئیں۔ انہوں نے مجھے لپٹالیا۔
”مجھے معاف کردو کاسٹرا! میں ہمیشہ اپنے آپ میں ہی گم رہی اور پھر اسکی یاد میں جودنیا سے جاچکا ہے۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اسکی پیاری پیاری نشانیاں میرے پاس موجود ہیں۔ میں نے کبھی تم لوگوں کی طرف دیکھا ہی نہیں اور تم میرے لئے سب کچھ کرتی رہیں جو مجھے تم لوگوں کے لئے کرناچاہیے تھا۔“
میں کیا بتاؤں میری ننھی کی شی! میں کس قدرخوش تھی۔ آج میں نے اس محبت کو پا لیا تھا جس سے میں ہمیشہ سے محروم چلی آرہی تھی۔ پھر ماں کی خاموشی ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گئی۔ ماں بالکل بدل گئی۔ گھر کا رونے دھونے والا ماحول بھی بدل گیا۔ ماں بھائی کو بھی واپس لے آئی۔ اب وہ زندہ تھی تو صرف ہمارے لئے۔ اور میری بچی! جب ماں دنیا سے جانے لگی تو وہ یہ ہار مجھے دے گئی۔ مجھے یہ ہار بہت عزیز ہے۔ کیونکہ میں نے اسکی بدولت اپنی ماں کو پایا تھا۔ اس لئے میں اسے ہر وقت پہنتی ہوں۔“
”اوہ میری پیاری نانی جان! آپ کتنی اچھی ہیں اور یہ ہار آپ پہ بہت سجتا ہے۔“ کی شی نے اپنی بانہیں نانی کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top