skip to Main Content

درختوں سے پیار کرو

ڈاکٹر رﺅف پاریکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

سجاد اپنے گھر میں رکھے ہوئے پرانے سامان کو الٹ پلٹ رہا تھا کہ اسے ایک آری مل گئی۔ ”اوہو! یہ تو وہی آری ہے جس سے ابو لکڑی کاٹتے ہیں۔ اب میں بھی اس سے لکڑی کاٹوں گا۔“ سجاد دل ہی دل میں کہہ رہا تھا ”لیکن لکڑی آئے گی کہاں سے؟“
اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ گھر میں اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملی جسے وہ کاٹ سکتا۔ تب اسے باغ کا خیال آیا۔ گھر کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا باغ لگا ہوا تھا جس میں درخت، پھول دار پودے اور گھاس اُگی ہوئی تھی۔ باغ کا خیال آتے ہی اسے وہ نیم کا بڑا سا درخت بھی یاد آیا جو باغ میں لگا ہوا تھا۔ ”میں اس آری سے اس درخت کو کاٹوں گا۔“ اس نے سوچا اور آری اٹھا کر چپکے سے باغ میں پہنچ گیا۔
دوپہر کا وقت تھا۔ باغ میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے درخت کے تنے پر آری چلانی شروع کردی۔
”اُف مرگیا! ہائے…. آ آ آ….“ کوئی زور سے چلایا۔
سجاد چونک کر چاروں طرف دیکھنے لگا: ”یہ کس کی آواز تھی؟“ اس نے سوچا۔
”باغ میں تو کوئی نہیں ہے۔ نہیں، نہیں یہ میرا وہم ہے۔ باغ میں کوئی نہیں ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے دوبارہ آری لی اور درخت کے تنے پر چلانے لگا۔ تنے پر کٹنے کا ہلکا سا نشان پڑگیا۔ ساتھ ہی ایک آواز آئی: ”کیا کررہے ہو؟ ہائے اُف!“ یوں لگتا تھا جیسے کوئی تکلیف میں ہو۔
اس بار سجاد ڈر گیا۔ کیوں کہ اسے آواز تو سنائی دے رہی تھی لیکن کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ باغ میں کوئی نہیں تھا۔ تیز ہوا سے پودے اور درخت کی شاخیں ہل رہی تھیں۔” یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ کیا یہ درخت بول رہا ہے؟“ اس نے اپنے آپ سے پوچھا: ”نہیں…. درخت نہیں بول سکتا۔“ یہ سوچ کر اس نے پھر آری درخت کے تنے پر چلانی شروع کی۔ تنے پر پڑا ہوا نشان کچھ اور گہرا ہوگیا۔
”ہائے ہائے مرگیا…. اُف! تم کیوں مجھے کاٹ رہے ہو؟ خدا کے لیے مجھے مت کاٹو۔“ اس بار آواز تیز تھی۔ ساتھ ہی کوئی سسکیاں لے رہا تھا جیسے آہستہ آہستہ رو رہا ہو۔
”تم کون ہو؟ نظر کیوں نہیں آتے؟“ سجاد نے اس بار ہمت کرکے پوچھا۔
”میں…. نیم کا درخت ہوں۔ تمھارے سامنے کھڑا ہوں اور تم مجھے کاٹ رہے ہو۔ آخر کیوں؟ مجھے تکلیف ہورہی ہے۔“ آواز آئی۔ ”مجھے مت کاٹو۔“
”تم بول رہے ہو درخت؟“ سجاد نے پوچھا۔
”ہاں! میں درخت بول رہا ہوں لیکن تم مجھے کیوں کاٹنا چاہتے ہو؟“ آواز آئی۔
”یوں ہی…. کوئی خاص وجہ نہیں۔“ سجاد نے جواب دیا۔ ”میں فارغ بیٹھا تھا اور مجھے آری مل گئی۔ میں نے سوچا کہ کوئی چیز کاٹی جائے اور مجھے تم مل گئے۔“
”کتنی بری بات ہے۔ تم اپنے مزے اور تفریح کے لیے مجھے کاٹ دینا چاہتے ہو۔ میں جو تمھارا دوست ہوں۔ تمھارا بے حد خیال رکھتا ہوں۔ تم سے پیار کرتا ہوں اور میں تمھاری زندگی کے لیے اتنا ضروری ہوں کہ میرے بغیر تم ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ فوراً مرجاﺅگے۔ تم کتنے احسان فراموش اور بے وقوف ہو کہ مجھے کاٹ دینا چاہتے ہو۔“ درخت نے کہا۔
سجاد کو اس کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی اور کہنے لگا۔ ”بھلا یہ کیسی بات کہی تم نے! تم میرے دوست کیوں کر ہوئے؟“ تم میرا خیال کیسے رکھتے ہو اور میں تمھارے بغیر زندہ کیوں نہیں رہ سکتا؟“
درخت ہنسا اور بولا: ”میرے ننھے دوست! تمھیں کچھ نہیں معلوم! لو سنو! میں اور دنیا کے سارے درخت جب سانس لیتے ہیں تو آکسیجن پیدا کرتے ہیں یہی آکسیجن تم سانس کے ساتھ اپنے جسم میں لے جاتے ہو۔ اگر آکسیجن نہ ہوتی تو دنیا کا کوئی انسان زندہ نہ رہ سکتا۔ یہ آکسیجن انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے درخت تیار کرتے ہیں اور آپ انسان جب آکسیجن سانس کے ساتھ باہر خارج کرتے ہیں تو اس کو گندا کردیتے ہیں، وہ زہریلی ہوجاتی ہے اور اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کہتے ہیں لیکن ہم سارے درخت اس زہریلی ہوا یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں اور آپ کے لیے دوبارہ صاف ستھری آکسیجن بنا کر ہوا میں چھوڑ دیتے ہیں۔“
”واقعی! تم تو بہت اچھے ہو۔ مجھے معاف کردو پیارے درخت۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں تمھیں کاٹ کر کتنی بڑی غلطی کررہا ہوں۔“ سجاد نے افسوس سے کہا۔
”یہ تو کچھ بھی نہیں۔“ درخت نے جواب دیا۔ ”میں کئی طرح سے تمھارے کام آتا ہوں۔ گرمیوں میں انسانوں، پرندوں اور جانوروں کے لیے سایہ فراہم کرتا ہوں، انھیں دھوپ اور گرمی سے بچاتا ہوں۔ رنگ برنگے خوب صورت پرندے میری شاخوں پر گھونسلا بناتے ہیں۔ اگر ہم درخت نہ ہوں تو پرندے بے گھر ہوجائیں اور شاید مرجائیں اور ہاں درختوں کے پھل انسان اور پرندے کھاتے ہیں۔ پھل بہت طاقت ور اور صحت کے لیے مفید غذا ہے۔ اگر درخت نہ ہوں تو انسانوں کو پھل بھی نہ ملیں۔“
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔“ سجاد نے کہا۔
”اور سنو! میری لکڑی سے تم مکان، دروازے، کھڑکیاں بناتے ہو۔ طرح طرح کا فرنیچر بناتے ہو۔ میرے پھولوں، پھلوں اور پتوں کے رس، شاخوں اور گودے سے تم طرح طرح کی دوائیں بناتے ہو۔ اگر درخت اور پودے نہ ہوں تو انسانوں کو دوا بھی نہ ملے۔ اس کے علاوہ دنیا میں جتنے رنگ ہیں وہ پودوں اور درختوں کے پھولوں اور پتوں ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ہم نہ ہوتے تو دنیا بے رنگ ہوتی۔“
درخت کہتا رہا اور سجاد سنتا رہا۔ ”اس کے ساتھ ساتھ ہم زمین سے پانی چوس کر فضا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس سے ایک تو ہوا ٹھنڈی رہتی ہے اور دوسرے زمین کو سیم اور تھور نہیں لگتا۔ ہم تیز ہوا، آندھی اور گرد و غبار کو بھی روک لیتے ہیں۔ ہم سیلاب کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ ہماری وجہ سے ہر جگہ خوب صورت اور پرسکون ہوجاتی ہے۔“
درخت خاموش ہوا تو سجاد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ”مجھے معاف کردو پیارے درخت! مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم میرا کتنا خیال رکھتے ہو، میری زندگی کے لیے کتنے ضروری ہو۔“ اس نے درخت سے لپٹتے ہوئے کہا۔ وہ درخت کو چوم رہا تھا۔ درخت مسکرایا اور دھیرے سے بولا: ”مجھے معلوم تھا کہ تم بہت اچھے بچے ہو۔ صرف معصومیت اور میرے بارے میں نہ جاننے کی وجہ سے مجھ پر آری چلارہے ہو۔ اسی لیے میں نے تمھیں معاف کردیا لیکن وعدہ کرو کہ آیندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کروگے۔“
”میں وعدہ کرتا ہوں میرے اچھے درخت! میں کبھی کسی درخت کو نقصان نہیں پہنچاﺅں گا بلکہ ہر ایک سے یہی کہوں گا کہ درخت ہمارے دوست ہیں۔ ان کی حفاظت کرو۔ درختوں سے پیار کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے ہمارے لیے درخت بنائے ہیں اور اپنی زمینوں میں اور گھروں میں درخت لگاﺅ۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top