ڈنڈے والا قرض دار
شان الحق حقّی
۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کچھ روپیہ قرض لیا۔ مگر ٹھہریے پہلے کچھ قرض پر بات ہو جائے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ قرض مانگنا بری بات ہے۔ ہمارے سر قدرت کی طرف سے اتنے قرضے ہیں کہ ہم اور زیادہ قرضوں کا بار نہیں اٹھا سکتے۔ ان میں پہلا قرضہ تو ماں باپ کا قرضہ ہے، اگر وہ ہماری پرورش نہ کریں تو ہم بڑے کیسے ہوں اور پھر زندہ کیسے رہیں۔ پھر کچھ قرضے اپنے ملک اور قوم کی طرف سے بھی ہمارے ذمّے آتے ہیں۔ کیا آدمی دنیا میں اکیلا رہ سکتا ہے؟ لاکھوں آدمی لاکھ طرح کے کام کرتے ہیں تب ہماری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ کسان، کاریگر، دکان دار، معمار، مزدور، دوست احباب، ہمسائے، عزیز و رشتے دار، حکیم، ڈاکٹر غرض ساری آبادی بلکہ پوری دنیا مل کر زندگی کو ہمارے لیے ممکن اور خوش گوار بناتی ہے۔ شرافت، خود داری اور بھلے مانسی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خود بھی اپنے آپ کو دنیا کے لیے مفید بنائیں۔
ذکر قرضے کا تھا۔ اتنے قرضوں کا بوجھ سر پر ہوتے ہوئے بھی کچھ لوگ قرض لینے سے باز نہیں آتے۔ لیتے ہیں تو واپس کرتے ہوئے دل دکھتا ہے۔ طرح طرح کے حیلے حوالے کرتے ہیں۔ قرض دینے والا عاجز ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ قرض محبت کی قینچی ہے۔ دوستی کی جگہ عداوت کا سبب بن جاتا ہے۔
آج ہم آپ کو ایک ایسی ہی ذات شریف کی کہانی سناتے ہیں۔ جنہوں نے ایک شخص سے قرض لیا اور ادا نہ کیا۔ آخر اس نے ان کے خلاف عدالت میں نالش کر دی۔
قاضی نے دونوں کو بلایا۔ اس شخص نے بڑی ڈھٹائی سے کہا،”مجھے ان کا کچھ دینا نہیں ہے۔“
کوئی رسید پرچہ تو تھا نہیں۔ قاضی نے دونوں کو حلف اٹھانے کو کہا۔ روپیہ دینے والے نے حلف اٹھا کر کہا،”اس شخص پر میرے اتنے روپے قرض ہیں جو اس نے ادا نہیں کیے۔“
اب قرض دار کی باری آئی۔ یہ صاحب ایک موٹا سا عصا یا ڈنڈا اپنے پاس رکھتے تھے اور بڑے بزرگ نظر آتے تھے۔ انہوں نے بھی حلف اٹھا کر کہہ دیا، ”میں ان کا روپیہ ادا کر چکا ہوں اور خود ان کے ہاتھ میں دیا ہے۔“
قاضی صاحب بڑے حیران ہوئے۔ کس کا اعتبار کریں کس کا نہ کریں۔ انصاف کرنے کے لیے ذہانت اور قیافہ شناسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، یعنی لوگوں کے چہرے سے ان کے دل کا حال معلوم کرنا۔ قاضی صاحب تھوڑی دیر سوچ میں رہے۔ پھر انہوں نے قرض دار سے اس کا عصا مانگا۔ دیکھا تو اس کی موٹھ یعنی ہتھے میں ایک پیچ بنا ہوا تھا۔ اسے گھما کر دیکھا تو اس میں سے روپے نکل آئے۔
آپ سمجھ گئے کہ اس آدمی نے کیا چالاکی کی تھی؟ قسم کھاتے وقت اپناعصا دوسرے آدمی کے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا کہ ذرا اسے تھامنا میں حلف اٹھا لوں۔ اس طرح کہنے کو رقم اس کے ہاتھ میں پہنچ گئی مگر ان کی چالاکی کام نہ آئی۔ قاضی نے ان پر بھاری جرمانہ اور ٹھونک دیا۔