دیر نہیں لگتی
کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں۔‘‘
(ابو دائود، دارمی، ،معارف الحدیث جلد نمبر1 صفحہ نمبر 121)
۔۔۔۔۔
’’ارے کاٹ کھانے کو کاہے دوڑ پڑے ہو۔ ذرا سا راستہ ہی تو پوچھا ہے۔‘‘ بڑی بی نے جھنجھلا کے کہا۔
ایک تو چلچلاتی دھوپ، پیاس سے حلق خشک ہوا جا رہا تھا اور اوپر سے اماں جی کو پتا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ نوفل کئی بار بتا چکا تھا ۔ مگر اماں جی ہر بات دوبارہ سے شروع کرتی تھیں۔
’’ہاں تو گلی کے کونے سے مڑ جائیں، مگر کونا تو ہر گلی کا ہوتا ہے، کون سی گلی کا کونا…؟‘‘ بڑی اماں نے کہا۔
ان کے پوپلے منہ پر بڑی جان دار سی مسکراہٹ تھی۔
پتا نہیں کیوں میں نے پوچھ لیا: ’’بڑی اماں آپ کو گرمی نہیں لگ رہی؟‘‘
’’گرمی؟‘‘ انھوں نے چونک کے پوچھا۔ ’’بھلا گرمی کسے نہیں لگتی؟‘‘
’’آپ تو مزے سے کھڑی ہیں دھوپ میں ، یہاں آ جائیں…!‘‘ میں نے دکان کے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ جیسے منتظر ہی تھیں۔ فوراًدکان کے چبوترے پر چڑھ کے اند رآ گئیں۔ میں نے کولر سے نکال کے ٹھنڈا پانی پلایا۔ انھوں نے جلدی جلدی دو گلاس پانی پی لیا اور ہونٹوں کو پونچھتے ہوئے مسکرا کے بولیں۔
’’تم دونوں بھائی ہو…؟‘‘ انھوں نے نوفل کی طرف اشارہ کیا۔ جو کائونٹر کے دوسری طرف منہ بنا کے بیٹھا ہوا تھا۔
’’کیا بات ہے تم اپنے بھائی کو سمجھاتے نہیں؟‘‘ انھوں نے کہا۔
’’کیا…؟‘‘ میں نے جان بوجھ کر انجان ہونے کا مظاہرہ کیا۔
’’یہی کہ ہر وقت مرچیں نا چبایا کرے۔ نرمی سے بولا کرے…؟‘‘ انھوں نے مسکرا کے کہا۔
یوں لگتا تھا کہ مسلسل مسکرانا ان کی عادت ہے۔
میں نے کہا: ’’بڑی اماں چھوٹا ہے، سمجھ جائے گا۔‘‘
وہ بولیں: ’’بیٹا بیج جوان ہو کر درخت نہیں بنتا، اپنی ننھی سی حالت سے ہی تناور درخت کا روپ دھارتا ہے۔ بچے کے نخرے اور مزاج کو شروع ہی سے تراشا خراشا نہ جائے تو آگے بہت مشکل ہوتی ہے…!‘‘
میں نے کہا: ’’شاید آپ کو میرے بھائی کی بات ناگوار گزری ہے۔ میں معافی مانگتا ہوں اس کی طرف سے…!‘‘
’’ارے نہیں بیٹا…!‘‘ انھوں نے جلدی سے کہا: ’’میں بالکل ناراض نہیں ہوں، اصل میں مجھے تمھارے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر اپنے بیٹے کا بچپن لڑکپن یاد آ گیا…!‘‘ ان کے انداز میں افسردگی آ گئی۔
میں نے کنکھیوں سے نوفل کی طرف دیکھا۔ وہ بظاہر دوسری طرف دیکھ رہا تھا مگر اس کے کان ہماری طرف ہی لگے ہوئے تھے۔
’’آپ کے بیٹے اب کہاں ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کیا بتائوں…!‘‘ وہ ایک گہری سانس لے کر بولیں: ’’اسی کے لئے ماری ماری پھر رہی ہوں۔ دعا کرو کہ مل جائے…!‘‘ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں نے کہا: ’’بڑی اماں، میں تو آپ سے بہت چھوٹا ہوں۔ مجھے تو خود آپ کی دعا کی ضرورت ہے!‘‘
’’نہیں بیٹا! معصوم بچے اور وہ لوگ جو بغیر کسی غرض کے کسی پریشان حال کے لئے دعا کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کی دعا ضرور قبول کرتا ہے…!‘‘
’’جی بڑی اماں…!‘‘ میں نے سر جھکا کے کہا۔ اسی وقت کاکا چائے والا گزرا۔ میں نے اسے تین چائے لانے کا اشارہ کیا۔
بڑی اماں اٹھنے لگیںتو میں نے کہا ’’چند منٹ اور بیٹھ جائیں۔ تھوڑا سا سکون لے لیں…!‘‘
وہ اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئیں اور چاروں طرف دیکھنے لگیں۔ ہماری کپڑوں کی دکان ہے۔ نوفل برادرز کلاتھ ہائوس۔
ابھی وہ جائزہ لے ہی رہی تھیں کہ کاکا چائے لے آیا۔ میں نے انھیں ایک کپ میں چائے انڈیل کے دی اور ساتھ ہی دراز میں سے بسکٹ کا پیکٹ نکال کے رکھا۔
’’اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ انھوں نے کہا۔
’’چائے ہی تو ہے…!‘‘ میں نے ہنس کر کہا اور نوفل کی طرف ایک کپ بڑھا دیا۔ ’ ’ بسکٹ لو گے…؟‘‘
’’نہیں…!‘‘ اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔
بڑی اماں نے چائے پی۔ بسکٹ کھایا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ’’جیتے رہو بیٹا۔ خوش رہو۔ اور ہاں میر ے لئے دعا ضرور کرنا!‘‘ وہ دکان کے چبوترے سے نیچے اتر گئیں۔ انھوں نے ایک نظر نوفل پر ڈالی پھر مجھے دیکھا اور مسکرا کے آگے بڑھ گئیں۔
اللہ ہی جانے بڑی اماں کو کیا تکلیف کیا دکھ تھا۔
ان کے جاتے ہی نوفل نے کہا: ’’کیا ہے جو آپ ہر ایک کو دکان پر بلا لیتے ہیں…؟‘‘ اس کے انداز میں ناگواری تھی۔
’’تو کیا ہوا…؟ ذرا سی چائے بسکٹ سے ہمیں کیا کمی آ گئی۔ شاید تم نے محسوس نہیں کیا کہ وہ بہت پریشان تھیں۔ اللہ جانے ان کے بیٹے کے ساتھ کیا ماجرا ہوا ہے…؟‘‘
’’بس آپ تو خدا ئی فوج دار بنے رہتے ہیں…!‘‘ نوفل نے چڑ کے کہا۔ میں چپ ہو گیا۔ نوفل سب سے چھوٹا تھا۔ اس لئے لاڈلا تھا اور اسی لاڈ کی وجہ سے تلخ مزاج تھا۔
اسی وقت ایک خاتون اندر آئیں اور آتے ہی بولیں: ’’وہ رنگ آ گیا کیا؟‘‘
نوفل نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وہ خاتون پچھلے ہفتے بھی کپڑوں کے کئی تھکان کھلوا کے دیکھ گئی تھیں۔ مگر کوئی انھیں پسند نہیں آیا تھا۔ آخر میں انھوں نے ایک ایسے رنگ کی فرمائش کی جو ہمارے پاس نہیں تھا۔
’’اچھا اتنی بڑی دکان اور رنگ ایک بھی ڈھنگ کا نہیں…!‘‘
’’باجی آپ کوئی اور دکان دیکھ لیں اور ہاں پہلے اپنا رنگ پوچھ لینا۔ بلاوجہ کپڑے کے تھا ن پر تھان نہ کھلوا دینا…!‘‘ نوفل نے چڑ کے کہا اور تھان لپیٹنے لگا۔
’’ارے واہ تم تو لڑنے کھڑے ہو گئے ، ہماری مرضی ہے لیں نہ لیں…!‘‘ وہ بھی غصے سے بولیں اور پیر پٹخ کے جانے لگیں۔
میں نے کہا: ’’باجی اگلے ہفتے پتہ کر لیں۔ مل جائے گا…!‘‘
’’اچھا…!‘‘ وہ ناگواری سے نوفل کو دیکھتے ہوئے نکل گئیں۔
یہ وہی خاتون تھیں۔
’’ہاں ، باجی رنگ آ گیا ہے…!‘‘ میں نے نوفل سے پہلے انھیں جواب دیا۔
’’اچھا…!‘‘ وہ خوش ہو گئیں۔ ’’ذرا دکھانا تو…!‘‘
میں نے تھان نکالا۔ انھوں نے فوراً ہی کہا: ’’ہاں اسی کی مجھے تلاش تھی۔ اس میں سے دو سوٹ نکال دو…!‘‘
میں اچھا کہہ کے دو سوٹ کاٹنے لگا کہ دو اور عورتیں آ گئیں۔
’’ارے جمیلہ تم یہاں ہو…!‘‘
’’ہاں…‘‘ انھوں نے کہا: ’’یہاں مل گیا…!‘‘
’’رنگ بھی اچھا ہے کپڑا بھی…!‘‘ نئی آنے والی عورتوں نے کپڑا دیکھتے ہوئے کہا۔ ہمیں بھی دو دو سوٹ اسی میں سے نکال دیں…!‘‘
اس کے بعد ان تینوں نے مزید دو، دو سوٹ مختلف رنگوں کے خریدے۔ میں نے اس دوران ان کے لئے کولڈ ڈرنگ منگوا لی۔
جمیلہ باجی نے بڑی بے تکلفی سے کہا: ’’یہ تو بہت اچھا کیا۔ میرا دل بھی چاہ رہا تھا ٹھنڈا پینے کو…!‘‘
’’کوئی بات نہیں باجی۔ گرمی بھی تو بہت ہے…!‘‘ میں نے سوٹ الگ الگ شاپرز میں رکھتے ہوئے کہا۔
تقریباً گیارہ ہزار چھ سو روپے کا بل بنا۔
’’دراصل ہم لوگ پچھلے ہی مہینے یہاں شفٹ ہوئے ہیں۔ اس لئے مارکیٹ کا زیادہ معلوم نہیں۔یہاں کوئی اچھا درزی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’آپ یہاں سے سیدھے جا کر دائیں مڑ جائیں۔ سامنے ہی شہزادی ٹیلرز ہیں، ان سے کہہ دیجئے گا کہ نوفل والوں نے بھیجا ہے۔‘‘
’’شکریہ بھائی…!‘‘ وہ سب شکریہ ادا کرکے باہر چلی گئیں۔
میں نے نوفل سے کہا۔
’’دیکھی میٹھی بات کی برکت، اگر وہ چلی جاتیں تو کتنا نقصان ہوتا…!‘‘
’’بس آپ ان ٹکے ٹکے کے گاہکوں کی خوشامد کرتے رہیں…!‘‘ نوفل نے خاصی بدتمیزی سے جواب دیا۔ ’’مجھ سے نہیں ہوتی ان جیسوں کی چاپلوسی…!‘‘
مجھے غصہ آ گیا۔ ’’اس میں خوشامد یا چاپلوسی کی کیا بات اور یہ تم نے ٹکے ٹکے کے گاہک کا لفظ کیوں بولا۔ یہ ہماری روزی کا سبب ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوسروں سے حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا ہے…!‘‘
’’اچھا تو آپ پیش آئیں ناں حسن اخلاق سے، میں نے کب منع کیا ہے؟‘‘ نوفل نے کہا اور کائونٹر سے کود کے باہر نکل آیا اور دکان کے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔
ساتھ والے رشید صاحب اس وقت چھڑکائو کر رہے تھے۔ نوفل اچانک جو دکان سے باہر نکلا تو چند چھینٹے اس کے کپڑوں پر بھی پڑ گئے۔
’’کیا بات ہے چاچا نظر نہیں آتا…؟‘‘ اس نے غصے سے کہا۔
’’ارے تم اچانک آ گئے اس لئے ایسا ہو گیا…!‘‘ انھوں نے پائپ کا رخ نیچے کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے تو سوچا تمھاری دکان کے آگے بھی چھڑکائو کر دوں۔ گرمی زیادہ ہے۔‘‘
’’بس جی ہمیںضرورت نہیں۔ پانی ہمارے نلکے میں بھی آتا ہے…!‘‘ نوفل نے غصے سے کہا۔
’’اچھا بھئی!‘‘ رشید صاحب خاموش ہو گئے۔
ذرا سی بات میں بھڑک جانا نوفل کی پرانی عادت تھی۔ اس وقت سامنے سے وہی خاتون گزریں میں نے انھیں پہچان لیا۔
’’بڑی اماں…!‘‘ میں نے انھیں پکارا۔
وہ رک گئیں۔ مجھے دیکھا اور پھر فوراً ہی پہچان گئیں۔ ’’کیا حال ہے بیٹا؟‘‘
’’آ جائیں پانی پی لیں!‘‘
’’اچھا بیٹا!‘‘ وہ دکان کے اند رآ گئیں۔ میں نے انھیں پانی پلایا۔ اور چائے منگوائی۔
’’تم کتنے اچھے لڑکے ہو…!‘‘ انھوں نے کہا۔ اور نوفل کی طرف دیکھا جو حسبِ معمول روٹھا بیٹھا تھا۔
اسی اثناء میں رشید صاحب نے دکان میں جھانکا اور مجھے ان خاتون کے ساتھ مصروف پا کے چلے گئے۔
اتنی دیر میں چائے آ گئی۔ اور بڑی اماں چائے پی کے چلی گئیں۔ ان کے دکان سے نکلتے ہی رشید صاحب اندر آ گئے۔ انھوں نے آتے ہی پوچھا۔
’’یہ رشیدہ آپا کیا کر رہی تھیں تمھاری دکان میں…؟‘‘
’’رشیدہ آپا، کون رشیدہ آپا؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ارے یہی اماں جو ابھی ابھی اٹھ کے گئی ہیں۔ ہمارے محلے میں رہتی ہیں۔ بڑی درد ناک کہانی ہے ان کی…!‘‘
’’آپ جانتے ہیں ان بڑی اماں کو؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔ اور ساتھ ہی میرا تجسس جاگ اٹھا۔ ’’کیا معاملہ ہے ان کے ساتھ۔ پچھلی بار اپنے کسی بیٹے کا ذکر کر رہی تھیں وہ…!‘‘
’’میں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ان کا ایک بیٹا ہے۔ سچ مانو تو یہی کہوں کہ بالکل اپنے نوفل جیسا۔ دماغی مریض ہے بے چارہ … گھر سے بھاگ جاتا ہے…!‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ میں نے دلچسپی اور افسوس سے پوچھا۔
’’بڑی منت مرادوں سے پیدا ہوا۔ بڑھاپے کی اولاد، ویسے ہی نازوں پال ہوتی ہے۔ لاڈ پیار نے بدتمیز اور خودسر بنا دیا۔لات، جوتا، گالم گلوچ، غصہ، بد اخلاقی پوچھو تو انتہا کی تھی۔ بچپن میں تو خیر سب نظر انداز کر دیتے ہیں مگر بڑے ہوتے کی باتیں کون سنتا ہے بھلا۔ سب ہی دو روٹی کھاتے اور پانی پیتے ہیں۔ سب ہی کو غصہ آتا ہے۔ ایک دن دوستوں میں معمولی سی بات پر تکرار ہو گئی۔ ایک نے دوسرے کو ڈانٹا، لڑا، پھر نہال نے گالیاں دینا شروع کردیں۔ بات جب ماں باپ تک پہنچی تو اس کے دوست کو بھی غصہ آ گیا۔ اس نے زمیں سے پتھر اٹھا کے نہال کے سر پر مارا۔ زوردار چوٹ لگی، سر پھٹ گیا، خون بھل بھل بہنے لگا۔ ان لڑکوں نے جو نہال کی یہ حالت دیکھی تو گھر والوں کو اطلاع دی۔ ہاسپٹل پہنچایا گیا۔ خیر جان تو بڑی مشکل سے بچ گئی۔ کئی دن بے ہوش رہا۔ پھر ہوش آیا تو دماغی دورے پڑنے لگے۔
کئی برس ہو گئے ہیں۔ بے چاری پریشان پھرتی رہتی ہیں۔ پچھلے برس شوہر کا بھی انتقال ہو گیا۔ تو ساری ذمہ داری ان کے سر پر آ پڑی۔ مگر مجال ہے جو ذرا شکوہ کریں۔ مسکراتی ہیں، ہنستی ہیں، کہتی ہیں۔اب اگر مالک نے ذمہ داری ڈال دی ہے تو نبھانا تو پڑے گا…!‘‘ رشید صاحب چپ ہو گئے۔
مجھے اماں کی داستان پر بڑا ترس آیا۔ اور دکھ بھی ہوا۔
رشید صاحب بولے: ’’دیکھو زبان کی تیزی مزاج کا اکھڑ پن کتنا برا دن دکھاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔ مگر ہمیں تو دل آزاری سے فرصت ہی نہیں…!‘‘ رشید صاحب بولے۔
’’چلو بھئی دکان پر چلیں…!‘‘وہ اٹھ گئے۔
نوفل نے کہا: ’’رشید چاچا بیٹھیں۔ میں کولڈ ڈرنک لے کر آتا ہوں، پی کر جایئے گا…!‘‘
’’ارے میں کون سا مہمان ہوں…!‘‘ وہ ہنسے۔ ’’برابر میں تو دکان ہے…!‘‘
’’مگر آپ نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں مجھے احساس ہو گیا ہے کہ بدزبانی اور تلخ کلامی کتنی بڑی مصیبت ہے…!‘‘ نوفل نے کہا اور تیزی سے دکان سے باہر چلا گیا۔ کولڈ ڈرنک لینے کے لئے۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر ہم دونوں کی ہی ہنسی نکل گئی۔
واقعی نصیحت آئے تو دیر نہیں لگتی…!
٭…٭
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے