دادی اّماں
مصنف: جے پاول ریڈر
مترجم: محمد یونس حسرت
۔۔۔۔
ریڈانڈین کون ہیں؟
ریڈ انڈین امریکا کے اصل باشندے ہیں۔بھورے رنگ اور سیاہ بالوں والے یہ لوگ،ہزاروں سال پہلے، براعظم ایشیا سے امریکا گئے تھے، اور انہوں نے وہاں اپنی بستیاں بسائی تھیں۔اس وقت اس ملک میں کوئی انسان نہیں رہتا تھا۔بس چاروں طرف جنگل،بیابان، پہاڑ، جھیلیں اور ندی نالے تھے، جس میں قسم قسم کے جانور پائے جاتے تھے۔
ریڈ انڈین بہت محنتی اور بہادر تھے۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے،جنگلی جانوروں کا شکار کرتے، ان کا گوشت کھاتے، ان کی کھال سے خیمے اور لباس بناتے تھے۔ اس وقت دنیا والوں کو بالکل پتا نہ تھا کہ اس زمین پر امریکا کا کوئی ملک بھی ہے۔آج سے پانچ سو سال پہلے اٹلی کا ایک ملاح’کولمبس‘ وہاں پہنچا تو اس وقت وہاں ریڈ انڈینوں کے کئی قبیلے آباد تھے اور ان لوگوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ تھی۔
کولمبس اصل میں ہندوستان جانے کے لیے سمندری راستے کی تلاش میں تھا۔وہ جب امریکا پہنچا تو سمجھا کہ ہندوستان پہنچ گیا۔ چنانچہ اس نے یہاں کے باشندوں کو انڈین(ہندوستانی) کہا۔بعد میں انہیں ہندوستانیوں سے الگ کرنے کے لیے ریڈانڈین(سرخ ہندوستانی) کہا جانے لگا۔
کولمبس نے واپس آکر یورپ کے لوگوں کو اس نئی دنیا کے بارے میں بتایا تو انگلستان، فرانس، اسپین اور یورپ کے دوسرے ملکوں کے لوگ وہاں جا جا کر آباد ہونے لگے۔یورپ کے یہ لوگ ریڈ انڈینوں کے مقابلے میں بہت ترقی یافتہ تھے۔ انہوں نے نئی نئی مشینیں بنالی تھیں اور ان کے پاس توپیں، بندوقیں اور پستول تھے۔ریڈ انڈین بے چارے صرف تیر کمان، کلہاڑیاں اور بھالے استعمال کرتے تھے جو پتھروں سے بنائے جاتے تھے۔
یورپ سے آئے ہوئے گورے لوگوں نے آہستہ آہستہ ریڈ انڈینوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ریڈانڈین ان کا کئی سال تک مقابلہ کرتے رہے،اور ان جنگوں میں ان کے لاکھوں لوگ مارے گئے۔آخر بچے کھچے ریڈ انڈین جنگلوں اور بنجر علاقوں میں چلے گئے اور گورے لوگوں نے ان کی تمام زرخیز زمینوں پر قبضہ کرلیا۔اب امریکا میں ریڈ انڈینوں کی تعداد چند لاکھ ہے اور وہ امریکا کے سب سے غریب اور پچھڑے ہوئے لوگ ہیں۔
یہ کہانی اسی دوور کی ہے، جب یورپ کے لوگ ریڈ انڈینوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے ان کا صفایاکر رہے تھے،اور ریڈ انڈین جان بچانے کے لیے جنگلوں اور پہاڑوں کی طرف بھاگ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔
میں اور میر بڑی بہن تابوس میلوں چل چکے تھے۔مگر دادی اماں کی ٹوکریوں کی بنائی کے لیے مٹھی بھر جنگلی گھاس بھی جمع نہ کر سکے تھے۔ یہ بات نہیں تھی کہ وادی میں جنگلی گھاس کی کوئی کمی تھی۔ بات صرف یہ تھی کہ دادی اماں جس قسم کی نفیس اور عمدہ ٹوکریاں تیار کرتی تھیں، ان کے لیے جنگلی گھاس کے ایک خاص موٹائی اور لمبائی کے تیلے درکار ہوتے تھے۔ اس لیے انہیں تلاش کرنے میں ہمیں خاصی محنت اور بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔
ہر دسویں پندرہویں دن ہمیں دادی اماں کی ٹوکریوں کے لیے گھاس کے تیلے لانے ہوتے تھے اور ہم دونوں بہنیں انہیں تلاش کرتی ہوئی دور دور تک نکل جاتی تھیں۔ساری وادی کا علاقہ ہمارا دیکھا بھالا تھا۔ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس وادی میں پہاڑیاں کہاں ہیں اور گھاٹیاں کہاں،ندی نالے کہاں ہیں اور درخت اور جھاڑیاں کہاں ہیں۔جنگلی گھاس کہاں زیادہ پائی جاتی ہے اورکہاں کم۔اس لیے ہم دونوں جب بھی گھاس کے تیلے جمع کرنے نکلتے تھے،کچھ نہ کچھ لے کر ہی لوٹتے تھے۔
مگر اس روز میں اور میری بڑی بہن تابوس میلوں چل چکے تھے مگر جنگلی گھاس کے مٹھی بھر تیلے بھی جمع نہ کر سکے تھے۔مجھے اس کا سخت افسوس تھا۔اتنی بھاگ دوڑ اور محنت کے باوجود ہم دونوں بہنیں تقریباً خالی ہاتھ تھیں اورمجھے دادی اماں کے سامنے خالی ہاتھ جانا کسی صورت بھی گوارا نہ تھا۔
میری ماں میری پیدائش کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی اور مجھے دادی اماں ہی نے پالا پوسا تھا۔انہوں نے مجھے اور تابوس کو اپنی محبتوں اور شفقتوں کے سائے میں پروان چڑھانے کے علاوہ ہمیں بہت سی باتیں بتائی تھیں اور بہت سے کام سکھائے تھے۔ انہوں نے ہمیں خشک گھاس کی جڑوں اور تیلوں کو ٹوکریاں بننے کے لیے نرم کرنا اور ان کو خاص قسم کے پودوں اور مٹی سے رنگنا سکھایا تھا۔ انہوں نے ہمیں ہرن کی ٹانگ کی ہڈی سے سوا بنانے اور پھر اس کے ذریعے ٹوکریوں کو سینے کا طریقہ سکھایاتھا۔مگر یہ سب کچھ سیکھنے کے بعد بھی میں دادی اماں جیسی نفیس اور خوب صورت ٹوکریاں تیار نہیں کر سکتی تھی۔بھلا میں، کل کی لڑکی، دادی اماں جیسی مہارت کی مالک کیسے ہو سکتی تھی جو زندگی کی تقریباً 70بہاریں دیکھ چکی تھیں۔اس عمر کوپہنچ کر اگرچہ وہ خاصی کمزور ہو گئی تھیں اور ان کے ہاتھ کانپنے لگے تھے، مگر اس کے باوجود ہمارے یسوما قبیلے میں دادی اماں کی بنائی ہوئی ٹوکریوں کا جواب نہ تھا۔
دادای اماں نے مجھے یسوما قبیلے کے تمام رسم و رواج بتائے تھے۔انہوں نے مجھے وہ گیت سنائے تھے جو اس قبیلے میں شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے موقعوں پر گائے جاتے تھے۔انہوں نے مجھے قبیلے کے مذہبی عقیدوں کی بابت بھی بتایا تھا اور قبیلے کی تاریخی روایات کے بارے میں بھی کئی کہانیاں سنائی تھیں۔دادی اماں کی سنائی ہوئی ان باتوں کے نتیجے میں میرے دل میں اپنے قبیلے یسوما کے بارے میں ایک فخر کا احساس پیدا ہو گیا تھا……مگر ان سب باتوں سے کہیں بڑھ کر دادی اماں نے ہمیں پیار دیا تھا۔ ان کا یہ پیار ہی ہماری زندگی تھا اور انہی کے پیار کی بدولت ہماری زندگی میں رونق تھی۔اسی لیے ہمیں دکھ ہورہا تھا کہ ہم ان کے لیے جنگلی گھاس کے مٹھی بھر تیلے بھی جمع نہ کر سکے تھے۔
ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی تو میں نے اور تابوس نے جنگلی گھاس کی تلاش ترک کردی اور واپس جانے کی ٹھانی۔راستے میں ایک ندی پڑتی تھی۔ہم نے اس ندی کو پار کیا ہی تھا کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی دیں۔میں نے رک کر تابوس کا بازو تھام لیا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کراسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔تابوس کے قدم وہیں رک گئے اورپھر اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں کیوں کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اس نے بھی سن لی تھی۔
یہ گوری چمڑی والے لوگ تھے جو گھوڑوں پر سوار آہستہ آہستہ وادی کی طرف آرہے تھے۔وہ کم از کم پچاس تھے اور انہیں دیکھتے ہی ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ وہ ہماری بستی کی تلاش میں ہیں۔
وادی میں تو برف پگھل چکی تھی مگر اوپر پہاڑیاں ابھی تک جمی ہوئی برف کا سفیدلباس پہنے ہوئے تھیں۔ہمیں معلوم تھا کہ اگر ہم بستی والوں کو وقت پر خبردار کرنے میں کام یاب ہوگئے تو وہ پہاڑیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو بچالیں گے اور گوری چمڑی والے پہاڑوں میں جانے کی بجائے خالی بستی میں لوٹ مار کرکے واپس چلے جائیں گے۔
”جلدی کرو،تنانہ!“میری بہن تابوس نے سرگوشی کی: ”جلدی سے درختوں کی اوٹ میں ہو جاؤ!“
ہم دونوں جلدی سے درختوں کی اوٹ میں ہوگئے تاکہ گورے گھڑ سوار ہمیں نہ دیکھ سکیں۔درختوں کی آڑ لیتے ہوئے جب ہم ان سے کافی فاصلے پر آگئے تو ہم نے بستی کی طرف دوڑ لگادی۔یہاں راستہ ناہموار اور اونچا نیچا تھا۔جگہ جگہ جھاڑیاں تھیں جن کے کانٹے ہماری ٹانگوں، بازوؤں اور چہروں کو زخمی کر رہے تھے۔پھر بارش کی وجہ سے پھسلن بھی ہوگئی تھی۔اس کے باوجود ہم سر پر پاؤں رکھ کر گاؤں کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔
میرا قد چھوٹا اور جسم کسی قدر بھاری تھا،جب کہ میری بہن تابوس لمبی اور دبلی پتلی تھی۔اس لیے میں اس کی طرح تیز نہیں دوڑ سکتی تھی۔وہ بار بار مجھے اور تیز دوڑنے کو کہتی لیکن میرا حال یہ تھا کہ تیز دوڑنے کی وجہ سے میرا سانس پھول گیا تھا۔تابوس کو میری خاطر بار بار رکنا اور کبھی کبھی مجھے گھسیٹ کر آگے بڑھانا پڑتا تھا۔
پھر اچانک ایک جگہ تابوس کے قدم ایک دم رک گئے اور میں اس سے ٹکرا کر دھم سے زمین پر گر پڑی۔قریب تھا کہ میری منہ سے چیخ نکل جاتی کہ تابوس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کی تاکید کی اور پھر کانپتے ہوئے ہاتھ سے سامنے درختوں کی طرف اشارہ کیا۔
میں نے درختوں کی طرف نگاہ کی اور کچھ دیر بعد اس گورے گھڑ سوار کو دیکھ پائی جسے تابوس نے مجھ سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔وہ اپنی چمک دار نیلی آنکھوں سے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا تاکہ اسے ہمارے قبیلے کا ٹھکانا معلوم ہو سکے۔اس کی نظریں اگرچہ اسی طرف تھیں جہاں ہم دونوں بہنیں چھپی ہوئی تھیں مگر جھاڑیوں میں ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں نہیں دیکھ سکا تھا۔
اب ہم نے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا شروع کیا۔پھر جھاڑیوں میں سے نکلے اور بستی کی طرف بھاگے تاکہ جلد سے جلد بستی میں پہنچ کر قبیلے والوں کو خبردار کر دیں۔خوف کی وجہ سے ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہمیں بھاگتے بھاگتے کئی گھنٹے گزر گئے ہیں۔
درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان دوڑتے ہوئے مجھے وہ تمام باتیں یاد آرہی تھیں جو دادی اماں نے گورے لوگوں کے بارے میں بتائی تھیں۔ انہوں نے اس خوف ناک وبا کی کتنی ہی کہانیاں سنائی تھیں جو گورے سپاہی اور سونے کی تلاش میں آنے والے گورے لوگ اس وادی میں لے کر آئے تھے۔صرف اٹھارہ سال پہلے ہی یسوما قبیلے کی ایک تہائی آبادی اس وبا کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں پہنچ گئی تھی۔
دادی اماں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہمارے باپ دادا امن پسند لوگ تھے۔اس وادی کی زمینیں صدیوں سے ان کی تھیں۔پھر یہ گوری چمڑی والے آگئے۔انہوں نے ہماری خوب صورت وادی میں جگہ جگہ گڑھے کھودے، درختوں کو کاٹا اور ان جانوروں کو بے دردی سے ہلاک کیا جن کے گوشت سے ہم اپنا پیٹ بھرتے تھے۔اور پھر وہ ہمارے قبیلے کے لوگوں کو بھی ہلاک کرنے لگے۔گوری چمڑی والوں کی ان زیادتیوں کے جواب میں ہمارے قبیلے کے بہادر جوان چھپ چھپ کر ان پر حملے کرتے تھے،اس لیے گورے شکاری کتوں کی طرح ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔
دوڑتے دوڑتے ہماری سانس بری طرح پھول گئی تھی۔آخر جب بستی دکھائی دی تو ہم نے سکھ کا سانس لیا۔شاید ہمیں زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔شاید ابھی وقت تھا کہ بستی والے خطرے سے خبردار ہو کر اپنے بچاؤ کا کوئی بند وبست کر سکیں۔
”بابا!بابا!“میں زور سے چیخی۔
بابا!اوہ،بابا!“تابوس نے چلا کر کہا۔
ہمارا باپ اس وقت جھونپڑی کے ایک کونے میں بیٹھا نئے تیر تیار کر رہا تھا۔ہماری چیخیں سن کر وہ جلدی سے ہماری طرف آیا اور ہم دونوں کو اپنی باہوں میں لے لیا۔
”کیا بات ہے؟کیابات ہے؟“اس نے گھبرا کر پوچھا۔
ہم دونوں بہنیں پہلے تو خاموش رہیں، پھر ایک ساتھ بولنے لگیں اور گورے لوگوں کے آنے کی بات بتانے لگیں۔
”وہ آرہے ہیں،بابا۔“تابوس کہنے لگی۔”ہوسکتا ہے وہ بستی کے قریب آگئے ہوں۔“
ہمارے باپ نے اطمینان سے ہماری بات سنی اور پھر کہنے لگا:”تم نے بہت اچھا کیا جو آکر بتا دیا۔ہمیں اپنا بچاؤ کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت مل جائے گا۔ہمیں ابھی اس بستی سے جانا ہوگا۔“
میرا باپ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا او ر پھر وہ ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی اور دوسری جھونپڑی سے تیسری کا چکر کاٹتے ہوئے قبیلے والوں سے کہنے لگا کہ جلدی سے ضروری سامان اور خوراک لے کر بستی سے نکل جائیں۔
دادی اماں نے ایک بار بہت پہلے مجھے یہ بات بتائی تھی کہ شاید کبھی ہم لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لئے اس وادی کو چھوڑ کر برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں میں جانا پڑے۔ان پہاڑیوں کی چڑھائی بہت مشکل تھی،مگر ان کے علاوہ چھپنے کی کوئی اور جگہ بھی نہ تھی۔
اب وہ وقت آگیا تھا جس کی بات دادی اماں نے کی تھی۔وہ چھوٹا موٹا سامان باندھتے ہوئے ہمیں یہ کرو،وہ کرو، فلاں چیز لاؤ، وہ چیزاٹھاؤ، کے حکم دے رہی تھیں۔ان کے ہاتھ تیزی سے حرکت کر رہے تھے اور ان کے چہرے پر گھبراہٹ یا پریشانی بالکل نہیں تھی۔
ہمارے باپ نے بستی والوں کو خبردار کر دیا تھا۔ارد گرد کے قبیلوں میں گوری چمڑی والوں کے ہاتھوں ریڈانڈینوں کی بستیوں کے جلنے اور تباہ ہونے کی خبریں پہنچتی رہتی تھیں اور ہمارے قبیلے والے اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی روز ان کی بستی کی باری بھی آسکتی ہے۔چناں چہ ذرا سی دیر میں ساری بستی کے لوگ اپنا سامان باندھ کر تیار ہو چکے تھے۔
ہم دونوں بہنیں دادی اماں کی طرف بڑھیں تاکہ ان سے وہ گٹھڑیاں لے لیں جو انہوں نے ہمارے لیے تیار کی تھیں۔دادی اماں نے ایک ایک گٹھڑی ہماری پیٹھوں سے باندھ دی۔ان میں کمبل کے علاوہ گرم کپڑوں کے دودو جوڑے،جوتوں کا ایک ایک جوڑا اور کچھ کھانے پینے کا سامان تھا۔اس کے بعد وہ بڑے آرام اور اطمینان سے چولہے کے پاس بیٹھ گئیں۔
”چلو، دادی اماں، جلدی چلو۔“میں نے کہا۔”وقت بہت کم ہے۔“
”ہاں، میری بچی۔“دادی اماں نے جواب دیا۔”وقت بہت کم ہے لیکن میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی۔“
”یہ آپ کیا کہ رہی ہیں۔دادی اماں؟“میں نے حیرانی سے کہا۔”سب لوگ جا رہے ہیں۔آپ کیوں نہیں جائیں گی؟“
”نہیں، تنانہ“دادی اماں نے کہا۔”تم جانتی ہو،میری بوڑھی ہڈیوں میں پہاڑی پر چڑھنے کی سکت نہیں ہے۔ تم جاؤ۔میں یہیں اپنے گھر میں رہوں گی۔“
”ایسا نہ کہیں دادی اماں،ایسا نہ کہیں۔“میں نے کہا اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔”آپ کو ہمارے ساتھ جانا ہوگا۔“
”اپنے آنسو پونچھ لو،میری بچی۔“دادی اماں نے کہا۔”تم خاصی عمر کی ہو گئی ہواب۔تمہیں حوصلے سے حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔ تم یسوما قبیلے کے رسم و رواج سے اچھی طرح واقف ہو، اور ہمارے قبیلے کا دستور یہی ہے کہ ایسے موقعوں پر بوڑھے لوگ جوانوں کے ساتھ نہیں جاتے۔انہیں بستی ہی میں چھوڑدیا جاتا ہے۔یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔تم جاؤ۔میں یہیں رہوں گی۔“
میں نے آگے بڑھ کر دادی اماں کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔”دادی اماں،مجھے آپ سے بڑا پیار ہے۔“
”مجھے بھی تم سے بڑا پیار ہے،تنانہ۔“دادی اماں نے بڑے سکون سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”مگر تم ان بوڑھی ہڈیوں کو یہیں رہنے دو اور خود چلی جاؤ۔شاباش!“
”لیکن کیوں؟آخر کیوں دادی اماں؟“میں نے چیخ کر کہا۔”آپ ہمارے ساتھ جانے کے بجائے یہیں رہنے پر ضد کیوں کر رہی ہیں؟آپ کو اس خطرے کا خیال نہیں جو ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے؟وہ گورے لوگ یہاں پہنچنے والے ہیں۔آپ کو……آپ کو بھی مار ڈالیں گے۔“
دادی ا ماں میری بات سن کر چند لمحے خاموش رہیں اور پھر کہنے لگیں۔”سنو،تنانہ!مجھے اس خطرے کا تم سے کہیں زیادہ احساس ہے جو ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔مگر ایسے خطرے کے وقت بڑھاپا جوانی کے پیروں کی زنجیر بن جاتا ہے۔اسی لیے یسوما قبیلے کا دستور ہے کہ جب جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑے تو جو بھاگ سکتے ہوں،وہ بھاگ جائیں،اور جو بھاگ نہیں سکتے،انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔قبیلے کے قانون کو ماننے ہی میں قبیلے والوں کی بھلائی ہے۔میں اپنے فائدے کو قبیلے کے فائدے پر ترجیح نہیں دے سکتی۔تم لوگوں کے ساتھ جا کر تمہارے پیروں کی زنجیر نہیں بن سکتی…میں یہیں رہوں گی…کیا تم نہیں جانتیں کہ قبیلے کی طرف سے تم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟“
”میں جانتی ہوں،دادی اماں۔“میں نے جواب دیا۔مگر میرا گلا رندھ گیا تھا اور آنسو تھے کہ برابر میرے گالوں پر بہے جا رہے تھے۔ میں یسوما قبیلے کے اس دستور اور قانون سے اچھی طرح آگاہ تھی کہ جب قبیلے والے گوروں کے خوف سے ایک جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جاتے ہیں تو بوڑھوں کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔مگر میں نے یہ کبھی سوچا تک نہ تھا کہ ہمیں ایک دن اپنی جان سے پیاری دادی اماں کو بھی پیچھے چھوڑ کر جانا ہوگا۔
”تمہیں حوصلے سے کام لینا چاہیے،میری بچی!“دادی اماں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”جاؤ میرے نام کو بٹا نہ لگاؤ۔“
میں نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے دادی اماں کے چہرے کی طرف دیکھا……ان کی آنکھوں میں خوف کی بجائے اطمینان تھا، سکون تھا اور میرے لیے پیار ہی پیار تھا۔میں نہ جانے کب تک ان کے چہرے کی طرف دیکھتی رہتی کہ انہوں نے میرا کندھا ہلاتے ہوئے کہا۔”بس، اب جاؤ میری بچی۔دیر ہو رہی ہے۔وقت بہت کم ہے۔“
”میں کبھی آپ کے نام کو بٹا نہیں لگاؤں گی، دادی اماں۔“میں نے رندھے ہوئے گلے سے کہا۔”مجھے اپنے فرض کا احساس ہے، اور میں یہ فرض ادا کرنے کی پوری کوشش کروں گی…آپ نے مجھے زندگی کا جو سبق دیا ہے، وہ میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔“
یہ کہتے ہوئے میں ایک بار پھر بے اختیار دادی اماں سے لپٹ گئی۔دادی اماں نے مجھے اپنے سینے سے لگاکر پیار کیا،اور اس وقت مجھے یوں لگا جیسے انہوں نے اپنی ساری بہادری اور حوصلہ مندی میرے سینے میں انڈیل دی ہے۔میں ان کے سینے سے الگ ہوئی اور پھر باہر کی طرف دوڑ لگادی۔تابوس نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا۔”دادی اماں کہاں ہیں؟“
”انہوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔“میں نے جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے گلے میں کوئی چیز اٹکتی ہوئی محسوس ہوئی۔میں نے نظریں اٹھا کر تابوس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں اداس اداس تھیں مگر یہ اداس اداس آنکھیں شاید بات کی تہ تک بھی پہنچ رہی تھیں۔
میں نے کہا۔”تابوس،اگر مجھے بھی دادی اماں کی طرح زندگی کی اتنی ساری بہاریں دیکھنی نصیب ہوں تو وقت آنے پر میں بھی یہی چاہوں گی کہ ان کی طرح دلیری،حوصلہ مندی اور بے خوفی دکھا سکوں۔“
”اور میں بھی۔“تابوس نے آہستہ سے کہا اور پھر ہم خاموشی سے پہاڑی راستے کی طرف چلنے لگے۔