skip to Main Content
کرکٹ میچ بمقابلہ خالہ جی

کرکٹ میچ بمقابلہ خالہ جی

قاسم بن نظر

………………………………………………

لگتا تھا باقی سب بھی خالہ جی کے ساتھ ایک طے شدہ منصوبے میں شریک ہیں

………………………………………………

ہم اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات نکال کر کہانی لکھنے بیٹھے ہی تھے کہ امی کی آواز آئی۔ 
’’ارے بیٹا !آدھا کلو گوشت لے آؤ بھاگ کے۔‘‘ 
اس آواز کے ساتھ ہی ہمارے ذہن سے کہانی کا آئیڈیا رفو چکر ہو گیا۔ ہم کیا لکھنے بیٹھے تھے؟ کوئی نظم، مضمون، فیچر، کہانی، افسانہ یا ناول، ہائے افسوس! ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا ۔ حالانکہ ہم حافظے کو طاقتور بنانے کے لیے بادام بھی خرید لائے تھے مگر بادام کھانا کب یاد رہتا ۔ نتیجتاً نہ ہم طاقتور ہوئے نہ ہی حافظہ بڑھا۔ بہرحال اب ہمیں آدھا کلو گوشت لا کر دینا تھا وہ بھی بھاگ کے۔ دراصل ہماری دور کی خالہ آئی ہوئی تھیں اور گوشت سے کم پر کھانا انہیں منظور نہ تھا۔ انہیں صرف وہی رشتے دار منظور نظر رہتا جس کے دستر خوان پر گوشت لازم و ملزوم ہوتا۔ (بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ صرف گوشت ہی منظور نظر تھا تو بے جانہ ہوگا)۔
خیر ہم گوشت لینے بازار کی طرف نکلے تو دیکھا کہ ہو کا عالم ہے، چار سو سناٹا ہے۔ ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں کرفیو تو نہیں لگا۔ خدانخواستہ ہم ہڑتال کے بارے میں سوچ سکتے تھے مگر ہم کچھ زیادہ ہی دور اندیش واقع ہوئے تھے۔ مگر ہمیں اپنے ہی جیسا ذی روح نظر آیا جو ہماری ہی طرح کسی ہنگامی حالت کے پیش نظر باہر نکلا ہوا تھا۔ ہم نے اس سے موجودہ صورتحال کا پس منظر پوچھا تو اس نے جو کچھ کہا اس سے ہمارے اوسان خطا ہوتے چلے گئے۔ یعنی آج میچ ہے اور ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں۔ ہم نے ایک بار پھر اپنی یادداشت پر لعنت ملامت کی۔ ہم الٹے قدموں گھر واپس بھاگے اور ہانپتے کانپتے امی کو بازار بند ہونے کا عندیہ دیا اور اس سلسلے میں سائنسی معاشی اور سماجی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ مقصود یہ تھا کہ خالہ جان دال روٹی پر راضی ہوجائیں۔ ان کے سامنے یہ قرارداد پیش کی گئی تو انہوں نے حکم دیا۔
’’ارے میاں تم ذرا ہوش کے ناخن لو۔ اب تو چکن کیوبز کا زمانہ ہے۔ لگتا ہے ابھی تک آزما کر نہیں دیکھے۔ آج آزما کر دیکھ لو تو’’گھر کی مرغی دال برابر ‘‘کا مقولہ تم پر صادق آجائے گا۔‘‘
چار رونا چار ہم بھولے میاں کے گھر کیوبز خریدنے گئے۔ یہ گتھی ہم آج تک نہیں سلجھا پائے کہ ان کے گھر میں دکان تھی یا دکان میں گھر تھا۔ یا گھر اور دکان دونوں کا ایک دوسرے میں انضمام تھا۔ بہرحال دکان تو بند تھی ہم نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ میچ کی وجہ سے اور ہماری آمد کی وجہ سے ان کے تیور کچھ اچھے معلوم نہیں ہو رہے تھے۔
’’کیا ہے؟‘‘
ان کے پوچھنے کا انداز بتا رہا تھا کہ ہماری بے وقت کی آمدانہیں بری لگی ہے۔ وہ تو ہمارے اچھے بھلے تعلقات تھے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا ورنہ میچ کے دوران داخلی امور پر (وہ بھی زبردستی اور بے موقع) گرما گرم بحث بھی چھڑ سکتی تھی۔ ہم بھی مطمئن تھے کہ گھر جا کر دل لگا کر میچ دیکھیں گے۔ 
مگر جب ہم گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ ٹی وی لاؤنج پر قبضہ گروپ کا قبضہ ہے۔ اس قبضہ گروپ میں بھائی جان اور ان کے چند دوست شامل تھے۔
قبضہ گروپ کی خاصیت یہ تھی کہ کرنا دھرنا تو کچھ نہیں ہوتا تھا سوائے لمبی چوڑی پلاننگز کے ۔ بس ایک جگہ بیٹھ جاتے اور اس وقت تک وہیں قبضہ جمائے رکھتے جب تک کوئی غیر فطری واقعہ علی الاعلان رونما نہ ہوجائے۔ میچ والے دن بھی ان کے ٹس سے مس ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
چنانچہ ہم نے اپنا خاندانی ریڈیو دریافت کیا۔ یہ شاید ایجاد ہی ایسے کڑے وقتوں کے لیے ہوا تھا۔ مارکونی زندہ باد!! اگرچہ ہم آنکھوں دیکھا حال دیکھ تو نہیں سکتے تھے مگر سن تو سکتے تھے۔ کل کلاں کو ہمارے کسی دوست نے میچ کے بارے میں کچھ پوچھ لیا۔ ہماری بھی کوئی ناک ہے جسے کٹنے سے بچانا بھی ہمارا اہم فریضہ ہے۔ مگر جب ریڈیو آن کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا تو گلا ہی بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے کل پرزے ڈھیلے ہیں اور جملہ تکنیکی خرابیوں سے مزین ہے۔ ہم نے اس کی پیٹھ پر چند کرارے ہاتھ رسید کرنے کا وہی روایتی طریقہ آزمایا جو ہمیں راہِ راست پر لانے کے لیے ہماری پیٹھ پر آزمایا جاتا تھا۔ مگر لیجئے! نہ تو ہم سدھرے نہ ریڈیو۔ لہٰذا ہم نے اس طبع آزمائی کے بعد جس میں تکلیف ہماری انگلیوں کو ہی ہوئی ریڈیو کو اسٹور روم میں اسی طرح حفاظت سے رکھ دیا جس طرح عجائب گھر میں نوادرات رکھے ہوتے ہیں۔ 
خیر جناب!کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور قبضہ گروپ کے قبضے کا ٹی وی لاؤنج سے خاتمہ ہو گیا۔
ابھی ہم نے ٹی وی آن کرنے کا لائحہ عمل ہی طے کیا تھا کہ بجوسر پر نازل ہوگئیں اور حسب عادت ڈانٹ ڈپٹ کر کہا۔
’’ ارے بے وقوف! سویاں تو لیتے آتے۔ میٹھے میں کیا بنے گا؟‘‘
بجو کی خوبی یہ تھی کہ یہ صرف اپنے سے بڑوں، بزرگوں اور ہم عمر لوگوں سے سیدھے منہ بات کرنا پسند کرتی تھیں۔ اپنے سے کم عمر کے لوگوں سے بات کرنا انہیں پسند نہ تھا۔ البتہ حکم دینا انہیں اچھا لگتا تھا۔
ہم نے گھبرا کر کہا، ’’بجو! میٹھے میں چائے بنا لیجئے گا مگر چینی ڈالنا مت بھولئے گا۔‘‘
’’چائے تم اپنی شادی میں بنانا اور براتیوں کو ڈونگے بھر بھر کے پلانا۔ جاؤ جا کر فٹا فٹ سویاں لے کر آؤ۔‘‘
لگتا تھا ہم سے زیادہ بجو پر خالہ جان کی آمد کا گہرا اثر ہوا تھاکیونکہ اب ان کے ٹائم کا زیادہ تر حصہ باورچی خانے کی نذر ہورہا تھا (جبکہ ہمارا میچ سرد خانے کی نذر ہو رہا تھا)۔
خالہ جان کی بے وقت آمد سے ہمارے چہرے پر کیا تاثرات درج تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے ہم ایک بار پھر بھولے میاں کے دروازے پر جا پہنچے۔ آج ہمارے تعلقات خراب ہونے کا دن تھا۔ ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے ایک بار جب بھولے میاں نے ہمیں دیکھا تو دو کی چار سنانی شروع کر دیں۔
’’بھلے مانس! (وہ ہمیں بن مانس کہنا چاہ رہا تھا) دکان بند کرنے کا مقصد کیا ہوا جو تم ہر گھڑی دو گھڑی بعد آٹپکتے ہو) بولو کیا بات ہے؟‘‘
’’جی وہ فٹا فٹ سویاں دے دیں۔‘‘
’’فٹا فٹ سویاں؟ یہ سویوں کی کوئی نئی کمپنی کھلی ہے۔‘‘ بھولے میاں بھی بالکل بھولے تھے۔ ہم جتنی جلدی چاہ رہے تھے وہ اتنی ہی دیر کررہے تھے۔ ہم میچ سے’’ میچ‘‘ نہیں ہو پا رہے تھے۔بہر حال ہم سویاں لے کر گھر پہنچے۔
پھر جو ٹی وی آن کیا تو معلوم ہوا کہ اسٹیڈیم کی فلڈ لائٹس بجھ جانے کے باعث میچ عارضی طور پر روک دیا گیا کیونکہ

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

بالاخر ہماری دعاؤں کا اثر تھا کہ جلد ہی فلڈ لائٹس روشن ہوگئیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے ٹیوٹر صاحب بھی علم کے چراغ روشن کرنے ہمارے گھر آگئے۔ ان کو توکرکٹ سے کچھ دلچسپی نہ تھی جس کا اظہار وہ یہ کہہ کر پہلے کبھی کسی زمانے میں کر چکے تھے کہ ’’ مجھے تو یہی نہیں پتہ کہ LBWکیا ہوتا ہے مجھے تو صرف BMWسے دلچسپی ہے۔‘‘ (جھوٹ اور مبالغے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے)۔
خیر وہ ہمیں گھنٹہ بھر دل لگا کر پڑھاتے رہے جبکہ ہمارا دل تو میچ میں لگا ہوا تھا ۔ وہ علم کے چراغ کیا روشن کرکے گئے کہ گھر کے چراغ بجھ گئے کیونکہ لائٹ چلی گئی تھی۔
کئی گھنٹے بعد جب لائٹ آئی تو خالہ جان نے ہمیں بلا لیا اور بلامقصد اور بلاوجہ ہماری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے شروع کر دیئے۔ انہیں نے ہمیں اس منہ کے ساتھ مسور کی دال کھلانے پر اتنا بھینچ بھینچ کر (اور کپڑے کھینچ کھینچ کر) پیار کیا کہ ہمیں یوں لگا کہ ہماری کھال اور کپڑے دونوں ، تار تار ہو جائیں گے۔
اور جب ہم فالتو کا پیار سمیٹتے ہوئے ٹی وی دیکھنے گئے تو معلوم ہوا کہ میچ ختم ہو چکا ہے۔ پھر ہم کہانی لکھنے بیٹھ گئے۔ کیا لکھیں؟ کیا لکھیں؟ مگر کہانی توبن گئی تھی۔ لیکن میچ کے چکر میں کچھ بہت ضروری کام رہ بھی گئے تھے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top