چندا ماموں
ڈاکٹر سارہ الیاس
۔۔۔۔۔
مُنّے میاں کسی نہ کسی طرح چاند پر پہنچنا چاہتے تھے اور آپ جانتے ہیں وہ چاند پر پہنچنے کی بھلا کیا ترکیب نکال رہے تھے ؟
۔۔۔۔۔
منے میاں کو چاند بہت ہی پیارا لگتا تھا ۔
اَمّی بتاتی ہیں ابھی اپنی گردن تک نہیں سنبھال سکتے تھے جب ٹکُرْ ٹکُرْ چاند کو تکا کرتے اور روتے روتے تب تک چپ نہ ہوتے تھے جب تک اُنھیں
چندا ماموں دُور کے
نہ سنایا جاتا۔
خیر تب تو بچے تھے اور بچے ہر چمکتی چیز کو پسند کرتے ہی ہیں، مگر اللہ جانے کیا بات تھی کہ بڑے ہو کر بھی وہ چاند کے سحر سے نہ نکل پائے۔
ارے ہمارے جتنے بڑے نہیں آپ جتنے بڑے۔ بیٹھے چاند کو دیکھ رہے ہیں۔ بہن بھائی، دوست سب کھیلوں میں مگن ہیں۔ یہ میاں بیٹھے چاند دیکھ رہے ہیں۔ چلو، اپنا پنا شوق ہوتا ہے، یہاں تک تو خیر تھی مگر اب ہوتا کیا کہ اُستاد صاحب نے بچوں کو گھر کا کام (ہوم ورک) دیا کہ ’’میرے بہترین دوست‘‘ پر مضمون لکھ لائیں تو مُنّے میاں کا مضمون کچھ یوں شروع ہو رہا تھا:
’’یوں تو میرے کئی دوست ہیں، مگر میرا بہترین دوست چاند ہے۔‘‘
قائد اعظم پر مضمون لکھنے کی باری آئی تو لکھتے ہیں:
’’سکے کے ایک طرف قائد اعظم کی تصویر ہوتی ہے اور دوسری طرف چاند کی!‘‘اور آگے جادوئی کہانیوں سے سیکھا اَلم غَلم چاند کے بارے میں درج کر آتے۔
چھوٹے بھیّا کو فضول خرچی سے بچنے کی ترغیب دینے کو خط لکھنے کا کہا گیا تو مُنّے میاں کے قلم نے کچھ ایسے گل کھلائے:
’’پیارے بھائی! ہم نے وعدہ کیا تھا کہ پائی پائی جوڑ کر رکھیں گے، پھر ایک راکٹ کی ٹکٹ کٹوا کر چاند پر جائیں گے، یہ جو تم نے اُلٹی سیدھی چیزیں کھانے پر پیسے لگانے شروع کر دیے ہیں تو ہمارے بچپن کے خواب کا کیا ہوگا…؟‘‘
شروع شروع میں تو سب مذاق ہی سمجھتے رہے، پھر اَمی بابا نے اُنھیں سمجھایا۔مگر وہ بھلا کہاں سمجھ پارہے تھے۔
جس دن اُنھوں نے علامہ اقبال پر مضمون میں یہ لکھا کہ علامہ اقبال کا شاہین آسمان پر اُڑتا ہے اور اسی آسمان میں چاند نکلتا ہے تو اُستاد جی نے گن کر پانچ ڈنڈے اُن کے ہاتھوں پر برسائے، مگر مُنّے میاں کہاں سدھرنے والے تھے۔ رات کو چھت پر کھڑے ہو کر چاند کو سُنا رہے تھے کہ کیسے اُنھیں چاند کے تذکرے پر ڈنڈے پڑے۔
بڑے بھیا نیچے صحن میں چکر کاٹ کر کل کا سبق یاد کر رہے تھے، اُنھوں نے سنا تو پہلے اپنی ہنسی کو دبایا پھر اوپر جا کر منّے میاں سے سارا ماجرا سنا۔
’’منے! بھئی تمھیں کیسے سمجھاؤں۔ دیکھو، تمھیں چاند تارے اچھے لگتے ہیں، اُن کے پاس جانا چاہتے ہو… ہیں ناں؟‘‘
’’ہوں…‘‘
’’تو یوں ہر مضمون کا، کان پکڑ کر چاند تک لے جانے سے کیا تم چاند پر پہنچ جاؤگے…؟‘‘
’’نہیں…‘‘
’’پھر؟… چاند پر کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘
’’کیسے بھلا؟‘‘
’’ارے بدھو! بتاؤ تو چاند پر کون گیا تھا؟‘‘
’’نہیں معلوم۔‘‘
’’اچھا! کوئی طریقہ تم نے سوچا ہو؟‘‘
’’میں نے سوچا ہے کہ روز چاند سے باتیں کروں گا۔ کسی دن اللہ میاں چاندنی کی سیڑھی بنائیں گے اور میں اُس پر چڑھ کر چاند پر پہنچ جاؤں گا۔‘‘
بھیا کا دل چاہا، اپنا سر پیٹ لیں۔ ’’یہ چاند چڑھائے گا یا چاند پر جائے گا…!‘‘ اُنھوں نے سوچا ، مگر کیا کرتے بڑے تھے۔ سر پر چوٹ لگانے کا خیال دل سے نکال کر اسے سمجھانے لگے۔
’’ہاں! یہ بھی ایک طریقہ ہے، مگر…‘‘
’’مگر کیا بھیا…!‘‘
مُنّے میاں کے کان کھڑے ہو گئے تھے۔
’’مگر اس میں یہ خامی ہے کہ تم خود کچھ نہیں کر سکتے سوائے انتظار کے… اور پتا ہے ناں اللہ میاں بھی محنت کا صلہ دیتے ہیں۔ ایسے نہیں کہ بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو اور چاند پر چڑھ جاؤ۔‘‘
اُس دن منے میاں کے دل کو بھیا کی بات لگ گئی۔
اُنھوں نے اچھا پڑھنا شروع کیا، خاص طور پر سائنس۔ اب اُنھیں پتا چل گیا تھا کہ نیل آرم اسٹرانگ سب سے پہلے چاند پر پہنچا تھا۔ اب وہ چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا سے ملنے نہیں، اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھنے جانا چاہتے تھے۔
خیر اب کیا لمبی کہانی سنائیں آپ کو، بس یہ بتا دیتے ہیں کہ پچھلے دنوں خلائی ادارے ناسا نے بچوں میں ایک مقابلہ کروایا تھا، اُس میں آپ کے مُنّے میاں نے بھی ایک راکٹ کا ماڈل بنا کر بھیجا تھا، جو کم ایندھن استعمال کرکے زیادہ دیر خلا میں رہ سکتا تھا۔
اُن لوگوں کو مُنّے میاں کا یہ آئیڈیا اتنا پسند آیا کہ اُنھیں نہ صرف پہلا انعام ملا بلکہ اُن کانام محفوظ کر لیا گیا ہے۔ چاند پر جب اَگلا مشن بھیجا جائے گا، تب ننھے میاں بھی تین اور بچوں کے ہمراہ چاند کے مہمان بنیں گے۔
ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وظیفے پر اُنھیں آسٹرونومی پڑھنے کا موقع بھی ملے گا اور کیا جانے مستقبل میں وہ ایسا راکٹ بنا بھی دیں کہ اُن کے ساتھ ساتھ ہم اور آپ بھی چندا ماموں کے پاس جا کر ملاقات کرسکیں۔
٭…٭