چالاک کسان
ڈنمارک کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
ڈنمارک کے ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا جو بہت محنتی اور ہوشیار تھا۔ اس لئے ہر سال بہترین فصلیں اگا تا اور ان کا سودابھی اس ہوشیاری سے کرتا کہ کبھی گھاٹے میں نہ ر ہتا۔ پورے گاؤں میں یہ بات مشہور تھی کہ بھلے د نیا میں کوئی بھی دھوکہ کھا جائے پر ہمارے اس ہیرو کو کبھی کوئی بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ ایک سال جب فصل بونے کا وقت آیا تو کسان نے دیکھا کہ اسکے ایک کھیت کے عین درمیان میں مٹی کا ایک چھوٹا ساٹیلہ ابھر اہوا ہے۔ اور اس پہ گھاس پھونس اور جڑی بوٹیاں لگی ہوئی ہیں۔
”ارے یہ تو کام خراب ہو گیا۔ یہ آلتو فالتو چیز یں تو میری فصل کا ہی ستیاناس کر دیں گی۔ ابھی ان کا خاتمہ کرتا ہوں۔“
یہ کہہ کرو ہ درانتی سے گھاس پھونس اور جڑی بوٹیوں کی کٹائی صفائی کرنے لگا۔ پھر اس نے ٹیلے پہ ہل چلا نا شروع کر دیا۔ ابھی اس نے تھوڑ اساہل ہی چلایا تھا کہ ٹیلہ ایک دم لرزنے لگا اور پھر آہستہ آہستہ او پر کواٹھنے لگا۔ کسان کو دکر نیچے اتر آیا اور حیرت سے دیکھنے لگا کہ کیا ہورہا ہے؟ ٹیلہ اوپر اٹھ رہا تھا اور اسکے نیچے چار سرخ رنگ کے ستون نظر آ رہے تھے۔ اب وہ سمجھ گیا کہ و ہ غلطی سے کسی ٹرول کو چھیڑ بیٹھا
ہے۔ڈنمارک کے لوگ نادیدہ بلاؤں کے لئے ”ٹرول“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ خوفناک بلائیں دن میں سورج کی روشنی سے ڈرکر زیر زمین ہی رہتی ہیں لیکن رات کو اپنے گھروں کی چھتیں او پراٹھا کر باہر نکل آتی ہیں۔
کسان نے بھول چوک سے ایسے ہی کسی ٹرول کے گھر کی چھت پہ ہل چلا کر اسے پریشان کر دیا تھا کہ وہ سورج کی روشنی کی پروا کئے بغیر اپنے گھر کی چھت اونچی کر کے دیکھنے لگا کہ کون گستاخ اسکی چھت کو ہلا رہا ہے۔ کسان نے دیکھا کہ ٹرول اپنے گھر کے عین درمیان میں بیٹھا ہے تا کہ سورج کی کوئی کرن اس پہ نہ پڑ سکے۔ بہت ہی ڈراؤنا تھا ٹرول۔ ایک نہیں اسکے تین تین سر تھے۔ درمیان والے سر پہ کالے بال تھے اور منہ پر بڑی بڑی مونچھیں۔ ناک پکوڑے جیسی اور آنکھیں بالکل سرخ تھیں۔ دوسرے سر اور چہرے کے بال بالکل سفید تھے۔ بڑے بڑے دانت منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ تیسراسر سبز رنگ کا تھا اور جلد مچھلی جیسی تھی۔ ناک لمبی اور نوکدارتھی۔ اس نے ہاتھوں اور پیروں میں ڈھیر سارے کڑے پہن رکھے تھے اور وہ اپنی چھ عد دخوفناک آنکھوں سے کسان کوگھور رہا تھا۔ پھر وہ اپنی کرخت آواز میں چلایا۔
”تم میرے گھر کی بچت پہ کیا کر رہے تھے؟ احمق انسان؟ میراجی چاہ ر ہا ہے کہ تمہیں کچا چبا ڈالوں۔ تم نے مجھ سے ٹکر لے کر بہت غلطی کی ہے۔“
کسان جانتا تھا کہ یہ محض گیڈر بھپکیاں ہیں۔ دن کی روشنی میں یہ بلابا ہر نکل ہی نہیں سکتی۔ لہٰذاوہ قدرے قریب ہوا۔ ا پناہیٹ اتارا اور سر جھکا کر کہنے لگا۔
”مجھے بالکل علم نہ تھا کہ یہ آپکے گھر کی بچت ہے۔ مجھے تو یہ لگا کہ میرے کھیت کی اتنی اچھی زمین خالی پڑی ہے اور اچھی زمین کو خالی چھوڑ نا حماقت ہے۔“
”پھر تم اس کے ساتھ کیا کرنے والے تھے۔“ٹرول نے چلا کر پوچھا۔
”میں اس پہ فصل بونے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس لئے ہل چلا رہاتھا۔“ کسان نے نرمی سے کہا۔
”یہ میرے گھر کی چھت ہے۔“ٹرول چنگھاڑا۔”اس پر اگر کوئی فصل اگا سکتا ہے تو صرف میں۔ اور کوئی نہیں۔“
”بے شک“ کسان نے ادب سے جواب دیا۔ ”یہ صرف آپ کا حق ہے لیکن اسکے لئے آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی۔ پھر یہ دھوپ بھی تو آپ جیسے زیر زمین رہنے والے شریف لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتی۔ تو آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟“
”میں رات کو یہ کام کروں گا۔“ ٹرول نے جواب دیا۔
”ارے ارے! آپ کیوں اتنی مصیبت جھیلیں؟ میں کس لئے ہوں؟“ چالاک کسان نے مناسب موقع دیکھ کر جال پھینکا۔
ٹرول نے یوں ظاہر کیا جیسے غور کر رہا ہو۔ اس کے پاس کہنے کو تین تین سر تھے مگر بھیجا ایک میں بھی نہ تھا۔ کسان نے دوسرا جال پھینکا۔
”آپ اگر میرا احسان نہیں لیتے تو ہم ایک سودا کر لیتے ہیں۔ ہم ہر اس چیز کو بانٹ لیا کریں گے جو آپ کے گھر کی چھت پہ اگے گی۔ جیسے کہ پہلی فصل کا اوپر والا حصہ میرا ہوگا اور نیچے والا آپ کا اور دوسری فصل میں نیچے والا حصہ میرا ہوگا اور اوپر والا آپ کا۔ جبکہ محنت،بیج، پانی سب کچھ میرے ذمے ہو گا۔ آپ کو تو بس حصہ ملے گا۔ کہیے منظور ہے؟“
ٹرول نے جھٹ سے اپنے تینوں سر ہلا دیے۔ حالانکہ اس نے سوچا کسی ایک سے بھی نہ تھا۔ پھر کہنے لگا۔
”دیکھو وعدہ کرو کہ پہلی فصل کا اوپر والا حصہ تم مجھے دو گے۔ ویسے تم تو بہت اچھے پڑوسی ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے خواہ مخواہ تمہیں دھمکیاں دیں۔ خیراب میں سونے جارہا ہوں۔ آئندہ غل غپاڑہ مچا کر مجھے وقت بے وقت جگانے کی کوشش نہ کرنا۔“
کسان نے ٹرول کی بات مان لی اور ٹیلے کی زمین تیار کر کے اس میں گاجر یں بو دیں۔ جب فصل پک کر تیار ہوئی تو معاہدے کے مطابق فصل کا اوپر والا حصہ یعنی پتے ٹرول کے حصے آ گئے اور نیچے والاحصہ یعنی گاجریں کسان کومل گئیں۔
اگلی مروجہ کسان نے ٹیلے پہ گندم لگا دی اور فصل پکنے پہ اوپر والا حصہ یعنی گندم کسان کوملی اور نچلا حصہ یعنی جڑ یں ٹرول کومل گئیں۔ اور یوں چالاک کسان خود ہمیشہ گاجر یں اور گندم حاصل کرتا رہا اور جڑیں اور پتے ٹرول کو ملتے رہے۔ کسان اس معاہدے سے بہت خوش تھا اور خوش تو ٹرول بھی تھا۔ بیچارے کے پاس سوچنے کے لئے دماغ تھا ہی نہیں۔ اپنی دانست میں اسے بیٹھے بیٹھائے فصل مل رہی تھی۔ دونوں پڑوسی ہنسی خوشی زندگی کے دن گزار رہے تھے۔