چاچا سڑیل
کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن تو الفت و محبت کا مرکز ہے۔ اور اس آدمی میں کوئی بھلائی نہیں جو دوسروں سے الفت نہیں کرتا اور دوسرے اس سے الفت نہیں کرتے۔‘‘ (مسند احمد، شعب الایمان، بیہقی، معارف الحدیث جلد نمبر 2صفحہ 153)
۔۔۔۔۔
’’کیا بات ہے ۔ شکل کیا دیکھ رہے ہو۔ بقایا دو اور چلتے بنو۔‘‘ چاچا سڑیل نے کہا۔
’’اچھا چاچا…!‘‘ امرود والے نے کہا اور بقایا ساڑھے تین روپے چاچا سڑیل کو پکڑائے اور گھورتا ہوا چلا گیا۔
’’بتائو تو بھلا جب ساڑھے چھ روپے کی چیز لی ہے تو بقایا اٹھنی مارتے ہیں۔ ارے بھیا یہ کوئی اندھیر ہے بھلا؟‘‘
’’کیوں غصہ کر رہے ہو…!‘‘ دادا جان نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے پوچھا۔
’’دادا جی آٹھ آنے مار رہا تھا…!‘‘ چاچا سڑیل نے غصے میں کہا۔
’’یار اب کہاں سکے چلتے ہیں۔ حکومت نے تو چونی، اٹھنی، پائی پیسہ سب بند کر دیا، تم بلا وجہ ہی اس سے الجھ رہے تھے…!‘‘ دادا جان نے سمجھایا۔
’’ایں…؟‘‘ چاچا سڑیل نے نوٹ کے ساتھ دبا ہوا سکہ غور سے دیکھا۔ امرود والا ان کی ڈانٹ سے گھبرا کے پانچ روپے کا سکہ انھیں پکڑا گیا تھا۔ وہ مسکرانے لگے۔
’’اچھا ہے مجھ سے بے ایمانی کر رہا تھا اب ہو گیا نا نقصان…!‘‘ انھوں نے سوچا اور مزے سے کچر کچر امرود چبانے لگے۔
چاچا سڑیل کا نام تو جمیل تھا لیکن مزاج کے ایسے کڑوے کسیلے تھے کہ سب ان کو چاچا سڑیل کہتے تھے۔ اللہ جانے کس دل جلے نے ان کی کسی بات سے چڑ کے انھیں چاچا سڑیل ایسا کہا کہ پھر وہ نام ان کے ساتھ ایسا چپکا کہ کسی کو محمد جمیل یاد ہی نہ رہا۔ وہ نہ صرف سب کے لئے بلکہ اپنے لئے بھی سڑیل چاچا ہو گئے تھے۔
سڑیل چاچا رشتے میں ہمارے دور کے رشتے دار تھے۔ والد کے انتقال کے بعد بھائیوں نے لڑ جھگڑ کے گھر سے نکال دیا۔ ایک تو اکیلے تھے۔ دوسرے مزاج کے تیز۔ ماں تو بچپن میں فوت ہو گئی تھی۔ اور بڑے ہوئے تو والد بھی چل بسے۔
دادا جان نے کہا: ’’بھئی میں جمیل کو لا رہا ہوں گھر۔ مزاج کا تیز ہے۔ مگر دل کا اچھا ہے۔ اس لئے اس کی باتوں کا برا مت ماننا۔ یوں بھی آدمی اکیلا ہو تو ذرا چڑچڑا ہو ہی جاتا ہے…‘‘
’’مگر یہ جمیل ہے کون؟‘‘ ابو نے دادا جان سے پوچھا۔
’’تم نہیں سمجھے…!‘‘ دادا جان ہنسنے لگے۔ ’’ارے بھئی جمیل میاں۔ محمد جمیل عرف چاچا سڑیل…!‘‘
’’اچھا وہ…!‘‘ ابو بھی ہنسنے لگے۔
’’ابا جان سیدھا سیدھا ہی بتا دیتے تو کاہے کو اتنا سسپنس پھیلتا…!‘‘ امی نے ہنس کر کہا۔
اور یوں ہم سب محمد جمیل المعروف چاچا سڑیل کا انتظار کرنے لگے۔
دو چار دن کے بعد چاچا سڑیل ٹین کا ایک ٹرنک لئے، بستر لپیٹے، کھچڑی بال اور چُر مُر سی داڑھی لئے رکشے سے اترے۔
پہلی سڑیل مزاجی کا مظاہرہ انھوں نے رکشے والے کے ساتھ کرائے کی بحث میں کیا۔ پھر اس سے فارغ ہو کر ہم پر نظر ڈالی۔ اور بولے ’’تم لوگ اشفاق چاچا کے پوتے ہو۔‘‘
’’ہاں جی…!‘‘ ہم تینوں نے بیک وقت کہا۔
’’اب یہ کیا کورس شروع کر دیا تم لوگوں نے۔ بھئی کوئی ایک بول دیتا۔‘‘ انھوں نے سڑیل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔
ہم بغیر سلام دعا کے ان کی ڈانٹ پر ہکا بکا انھیں دیکھتے رہ گئے۔
’’اب راستہ بھی دو گے یا ایسے ہونق بنے مجھے دیکھتے رہو گے؟ کیا پہلے کوئی انسان نہیں دیکھا۔‘‘ انھوں نے کہا اور قدم آگے بڑھائے۔
ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچے تھے کہ اندر سے ابو جی نکل آئے۔ ’’آہا۔ تو آپ آ گئے۔ بڑا انتظار کروایا…!‘‘ ابو جی نے بڑے تپاک سے بازو پھیلا کے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
چاچا سڑیل نے کہا ’’کیا بازو پھیلائے چیل کی طرح جھپٹا مارنے چلے آرہے ہو؟ ایک ہاتھ میں ٹرنک پکڑا ہے ایک ہاتھ میں بستر ہے، ہاتھ کیا پھیلائوں؟‘‘
چاچا سڑیل نے بات کچھ اس انداز میں کہی تھی ہم سب ہی مسکرا دیئے حالانکہ ان کی بات سراسر نازیبا تھی۔
ابو جی وہیں رک گئے اور بغیر برا مانے ہم سے بولے: ’’چلو بچو! چاچا کا سامان پکڑ و، کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو…؟‘‘
چاچا سڑیل نے فوراً اپنا سامان نیچے رکھ دیا اور ابو جی سے کہنے لگے: ’’جلدی سے پانی پلائو حلق سوکھا جا رہا ہے…!‘‘
’’چلو اندر چلو ۔ ناشتہ کرو…!‘‘ ابو جی نے انھیں ہاتھ سے پکڑ کے دروازے کا رخ کیا۔ ہم لوگ چاچا سڑیل کا سامان اٹھائے اندر داخل ہو گئے۔
چاچا سڑیل کے لئے بیٹھک کے ساتھ والا کمرہ پہلے ہی تیار کیا ہوا تھا۔
دادا جان صحن میں پڑی کرسی پر بیٹھے ان کے منتظر تھے۔
’’ہاں میاں جمیل آ جائو…!‘‘ انھوں نے کہا۔ دادا جان کے گھٹنوں میں مسلسل درد رہتا تھا اس لئے وہ جلد ی کھڑے نہیں ہو پاتے تھے۔
چاچا سڑیل ان کے پاس جا کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں میں نے پانی کا گلاس انھیں پیش کیا۔
’’اچھا لڑکے تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’ کاشف احمد‘‘ میں نے بتایا۔
’’اور تم…؟‘‘ انھوں نے دوسرے کی طرف دیکھا۔ جو مجھ سے تین برس چھوٹا تھا۔
’’میرا نام واصف ہے!‘‘ اس نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’اور لڑکی تم؟‘‘ انھوں نے پیچھے کھڑی سات سالہ ردا کو دیکھ کر پوچھا۔
’’میرا نام ردا ہے…!‘‘ اس نے بتایا اور جلدی سے واصف کے پیچھے چھپ گئی۔
دادا جان نے کہا: ’’اب اس کو اپنا ہی گھر سمجھو…!‘‘
’’ہاں جی اپنا ہی گھر سمجھنا۔ اب مر کے ہی یہاں سے نکلنا۔ چاہے جوتے پڑیں اف نہ کرنا۔ ارے دادا جی میں کوئی اس گھر میں بیاہ کے آئی ہوں جو آپ ہدایت دے رہے ہیں…!‘‘ چاچا سڑیل نے چمک کے کہا۔
دادا ہنسنے لگے۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ دادا جان کو غصہ نہیں آیا۔ ویسے بھی دادا جان بہت نرم مزاج کے تھے اور تحمل اور برداشت سے ہمیشہ ہی کام لیتے تھے۔ بولے ’’موت اور زندگی تو اللہ میاں کے اختیار میں ہے۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی تکلف سے کام نہ لینا، جیسے احمد ویسے تم…!‘‘
چاچا سڑیل چپ ہی رہے۔
پھر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ان کے کمرے کے ساتھ ہی غسل خانہ تھا۔ تھوڑی دیر میں ناشتا تیار ہو گیا اور ہم سب ان کے کمر ے سے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد چاچا سڑیل غسل کرکے برآمد ہوئے۔ اس مرتبہ انھوں نے سلیقے سے کنگھی وغیرہ کی ہوئی تھی۔ اور آتے وقت کے برعکس قدرے بہتر دکھائی دے رہے تھے۔
ناشتے کے دوران چاچا سڑیل ابو جی، دادا جان اور امی جان سے باتیں کرتے رہے۔ لیکن ان کے اندر خوش مزاجی اور نرمی کا کوئی عنصر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
چاچا سڑیل مزے سے گھر میں رہنے لگے۔ ہم سب ان سے باتیں کرنے کے بڑے شوقین تھے مگر ان کے سڑیل مزاج کے باعث ہماری ہم مزاجی نہ ہو سکی۔
ایک اتوار کے دن چاچا سڑیل کمرے سے باہر نہیں آئے۔ امی جان نے کہا: ’’کاشف ذرا دیکھو تمھارے چاچا کیوں نہیں آئے… اب تک ناشتے کے لئے…!‘‘
’’جی اچھا…!‘‘ میں جواب دے کر چاچا سڑیل کے کمرے کی طرف گیا۔ دروازہ بھڑا ہوا تھا اور چاچا سڑیل بستر پر سیدھے لیٹے چھت کوگھورے جا رہے تھے۔
’’چاچا…!‘‘ میں نے انھیں آواز دی۔
’’کیا ہے؟‘‘ انھوں نے غصے سے مجھے دیکھا۔
’’امی جان ناشتے کے لئے بلا رہی ہیں…!‘‘میں نے کہا۔
’’اچھا…!‘‘ انھوں نے کہا اور اٹھنے لگے۔ مگر چکرا کے بستر پر ہی گر گئے۔
’’کیا ہوا چاچا…!‘‘ میں نے تیز ی سے ان کا بازو پکڑا۔
’’کچھ نہیں…!‘‘ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے اٹھنا چاہا۔
’’ان کا ہاتھ سخت گرم ہو رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’آپ لیٹے رہیں، آپ کو بخار ہے…!‘‘
’’تو کیا ہوا…؟‘‘ وہ چڑ کے بولے۔ ’’چلو جائو مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے، میرا کون ہے؟‘‘
’’میں نے ان کی بات سن کر غور سے ان کی طرف دیکھا۔ پتا نہیں کیوں اس وقت مجھے وہ ایک بڑے آدمی کی بجائے چھوٹے سے ضدی بچے لگے۔
میں چپ چاپ باہر آ گیا۔ امی نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
’’میں نے بتایا۔ ’’چاچا سڑیل کو بہت تیز بخار ہے۔ انھیں چکر آ رہے ہیں، ان سے اٹھا ہی نہیں جا رہا ہے!‘‘
’’اچھا…!‘‘ امی نے کہا۔ ’’وہ سامنے الماری سے بسکٹ اٹھا لائو اور میں چائے بناتی ہوں، جا کے کہو کہ چائے بسکٹ کھا لیں پھر دوا بھی دیتی ہوں۔ خالی پیٹ تو دوا نقصان کرے گی…!‘‘
’’جی بہتر…!‘‘ میں نے جواب دیا اور الماری میں سے بسکٹ کا ڈبہ نکال کر ٹرے میں رکھنے لگا۔
ذرا دیر میں ہی چائے بسکٹ ٹرے میں رکھ کے چاچا سڑیل کے پاس لے گیا۔
انھوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ مگر بولے کچھ نہیں۔ میں نے پانی کا گلاس بھر کے انھیں دیا۔ بخار کی شدت کی وجہ سے انھیں پیاس لگ رہی تھی۔ وہ جلدی سے سارا گلاس پانی پی گئے۔
’’تم کیوں کھڑے ہو؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’آپ ناشتا کر لیں تو برتن لے جائوں گا…!‘‘
’’یوں کہو نا کہ میرے بسکٹ اور چائے کے گھونٹ گننے کھڑے ہو…‘‘ وہ اپنے مخصوص انداز میں بولے۔
مجھے ان کے انداز پر ہنسی آ گئی۔ انھوں نے ناگواری سے میری طرف دیکھا مگر بولے کچھ نہیں۔
میں نے ناشتے کے بعد ٹرے اٹھائی۔ اور جیب سے بخار کی گولی نکال کے انھیں دی۔
’’یہ دو گولیاں کھا لیں…!‘‘ میں نے کہا۔ ’’امی جان نے کہا ہے کہ بخار اتر جائے گا انشاء اللہ…!‘‘
میں کہہ کر باہر آ گیا۔
میں نے امی سے پوچھا: ’’چاچا سڑیل ہر وقت غصے میں کیوں رہتے ہیں‘‘
امی جان نے کہا: ’’بعض اوقات ہم صرف دوسروں سے ہی اچھے کی توقع کرتے ہیں۔ خود اچھا بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ ایک دوسرے سے ناراضگی کی صورت میں نکلتا ہے…!‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے کہا۔ اور اسکول کے لئے تیاری کرنے لگا۔
٭٭٭
رمضان شریف شروع ہو گئے تھے۔ ہم سب بڑے خوش تھے۔ تراویح، نماز، پھر سحری بڑا مزہ آ رہا تھا۔
مگر چاچا سڑیل نہ تو روزے رکھ رہے تھے نہ ہی نماز اور تراویح کی طرف ان کا کوئی دھیان تھا۔
مارے باندھے یا پھر دادا جان سے شرما کر ہی جمعے کو نماز کے لئے چلے جاتے تھے۔
میں نے ایک دن یوں ہی پوچھ لیا: ’’چاچا سڑیل کل تو جمعۃ الوداع ہے۔ کل روزہ رکھ لیں…!‘‘
’’کیوں…؟‘‘ انھوں نے تیوری چڑھا کے پوچھا۔ ’’کل جمعہ ہی تو ہے اور کیا؟‘‘
’’جمعہ تو مبارک دن ہے…!‘‘
’’انھوں نے تڑ سے کہا۔ ’’تمھارے لئے ہو گا۔ جمعے کے دن ہی اماں مریں۔ جمعے کو ہی ابا فوت ہوئے ، جمعے کے دن بھائیوں نے مجھے گھر سے نکالا۔ بتائو بھلا میرے لئے جمعے میں کیا رکھا ہے…!‘‘
میں بھونچکا مارے حیرت کے ان کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ اتنے میں دادا جان اندر داخل ہوئے۔ انھوں نے چھڑی ایک طرف رکھی اور کرسی پر بیٹھے ہوئے بولے۔
’’کیا باتیں ہو رہی ہیں؟‘‘
’’صاحبزادے جمعے کی فضیلت پر وعظ کر رہے ہیں…!‘‘ چاچا سڑیل نے تیکھے لہجے میں کہا۔
’’کیا…؟‘‘ دادا جان نے میری طرف رخ کیا۔ میں نے کہا: ’’چچا سڑیل کہہ رہے تھے کہ …‘‘ یہ کہہ کر میں نے چچا سڑیل کی باتیں دھرا دیں۔
دادا جان اطمینان سے سنتے رہے پھر بولے: ’’میاں جمیل مگر اتنے معاف کرنے والے کی قدرت کا کرشمہ بھی تو دیکھو۔ تم بیمار نہیں ہٹے کٹے ہو، تمھیں ایک چھت ، ایک گھر میسر ہے۔ جو بظاہر تمھارے سگے نہیں ہیں مگر تمھیں پیار کرتے ہیں۔ تمھارے سہارے کو چھین کر بھی اللہ پاک نے تمھیں بے سہارا نہیں رہنے دیا۔ اچھا بھلا یہ بتائو کہ یہ بات میرے دل میں کس نے ڈالی کہ میاں جمیل اکیلے ہیں۔ انھیں اپنے پاس بلانا چاہئے۔ بھلا بتائو…!‘‘
’’اللہ میاں نے…!‘‘ چچا سڑیل آہستہ سے بولے۔
’’تمھاری دنیا کے بارے میں شکایات بجا۔ اللہ پاک سے شکوہ بھی ٹھیک کہ اللہ پاک سے بڑھ کے کوئی اپنا نہیں۔ ہر دکھ کی فریاد اسی سے ہے۔ مگر آج تک اس نے اپنی عبادت کے لئے تمھیں مجبور کیا ہے…؟‘‘
’’نہیں…!‘‘ چچا سڑیل مری مری آواز میں بولے۔
’’دیکھو…!‘‘ دادا جان نے نرمی سے کہا: ’’تم نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے مگر اس کی نعمتیں تم پر بند نہیں ۔ مگر جب تم اللہ کے بندوں سے محبت نہیں کرتے، ان سے الفت نہیں رکھتے تو وہ بھی جواباً ان کے دلوں میں تمھاری محبت نہیں ڈالتا۔ تم نے سنا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :’’مومن تو الفت اور محبت کا مرکز ہے۔ اور اس آدمی میں کوئی بھلائی نہیں۔ جو دوسروں سے الفت نہیں کرتا۔ اور دوسرے اس سے الفت نہیں کرتے…‘‘
دادا جان نے بات ختم کرکے ان کی طرف دیکھا۔
وہ سر جھکائے کچھ سوچ رہے تھے۔
دادا جان مزید کچھ کہے بغیر اٹھے، اپنی چھڑی سنبھالی اور باہر چلے گئے۔
میں کمرے سے باہر جانے لگا ۔
تو چاچا سڑیل نے کہا: ’’بیٹا کاشف…!‘‘
’’جی…؟‘‘ میں نے مڑ کے حیرت سے انھیں دیکھا۔ جب سے وہ آئے تھے ہم سب کو لڑکے کہہ کے ہی مخاطب کرتے تھے۔ اس لئے مجھے بے حد حیرت ہوئی۔
وہ بولے: ’’بیٹا کاشف! سحری کے لئے مجھے بھی اٹھا دینا…!‘‘
’’جی…!‘‘ میں نے حیرت اور خوشی سے انھیں دیکھا۔
’’جی ضرور!‘‘
اور اس رات کی سحری بڑی بارونق تھی۔ چاچا سڑیل سحری کھاتے ہوئے ہنس رہے تھے۔ مسکرا رہے تھے۔
پھر انھوں نے ہمارے ساتھ جا کے فجر کی نماز ادا کی۔ اور پھر واپس آ کے سو گئے۔
جمعۃ الوداع کی نماز ہم نے ایک ساتھ پڑھی۔ اٹھائیسواں روزہ تھا۔ درزی کے ہاں سے سب کے کپڑے سل کے آ گئے تھے۔ ابا جان نے نئے جوتے، چپل، دو جوڑے لئے اور میرے ساتھ چاچا کے کمرے کی طرف چلے۔
جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سو چ رہے تھے۔
ہمیں دیکھ کر چونک کے سیدھے ہو گئے۔
’’یہ کیا؟‘‘ انھوں نے شاپرز ہمارے ہاتھوں میں دیکھ کے پوچھا۔
’’ارے بھئی اس میں جوتے، چپل اور کپڑے ہیں…!‘‘
’’مگر…!‘‘
’’اگر مگر کیا۔ کیا تم میرے بھائی نہیں ہو ؟‘‘ ابو جان نے ناراضگی سے پوچھا۔
پتا نہیں اچانک چاچا سڑیل کو کیا ہوا۔ وہ اچانک اٹھے اور ابو جان سے لپٹ گئے۔ اور ان کے کندھے سے لپٹ کے رونے لگے۔
ابو جان انہیں تھپکتے رہے۔
پھر وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور بولے: ’’مجھے آج لگ رہا ہے کہ میرا کوئی گھر کوئی خاندان ہے…!‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں…!‘‘ ابو جان ہنس کر بولے: ’’ہم تو اسی دن سے سمجھ رہے تھے جس دن سے تم اس گھر میں آئے تھے…!‘‘
’’ہاں میری سمجھ دانی ذرا پرانی ہے اس لئے دیر سے سمجھتی ہے…!‘‘ وہ ہنسنے لگے۔
ان کی آنکھوں میں خوشی اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
یہ بتانے کی کوئی ضرورت تو نہیں کہ اس عید پر ہم بچوں کو سب سے زیادہ عیدی چاچا سڑیل نے ہی دی ہے…!
٭…٭
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے