کینڈی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
اس بچے کا نام تو فہد تھا لیکن گھر کے تمام لوگ اسے کینڈی یعنی ”شکر“ کہتے تھے۔ کینڈی کا نام اس لئے پڑا کہ فہد کو میٹھی چیزیں کھانے کا بڑا شوق تھا بلکہ شوق کا لفظ کہنا کافی نہیں ہے۔ اسے تو میٹھی چیزیں کھانے کا بڑا جنون تھا۔ اس کی عمر پانچ سال تھی لیکن اتنی چھوٹی سی عمر میں اس کے تقریباً سارے دانت خراب ہو چکے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کے منہ میں دن رات ٹافیاں، میٹھی گولیاں یا چیونگم رہتی تھی۔ رات کو بھی وہ منہ میں ٹافی دبائے ہوئے سوجاتا اور اس کی امی بڑی مشکل سے اس کے منہ سے ٹافی نکال کر پھینک دیتیں۔ اتنی زیادہ ٹافیاں اور چیونگم کھاتے رہنے کی وجہ سے اکثر اس کا گلا بھی خراب رہتا تھا لیکن میٹھا کھانے کی عادت اتنی پرانی ہو چکی تھی کہ اب اس کا چھوٹنا بہت ہی مشکل تھا۔
قصور گھر والوں کا بھی تھا۔ جب فہد دو سال کا تھا، اس وقت سے اس کے گھر والوں نے اسے ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دینا شروع کر دی تھیں۔ فہد کی شکل و صورت پیاری تھی، کھلی کھلی رنگت پر اس کے گھونگھریالے بال خوب سجتے تھے۔ پھر اس کی بڑی بڑی معصوم سی آنکھیں جو دیکھتا اسے پیار سے گود میں اٹھا لیتا اور کسی دکان کی طرف چل دیتا۔ فہد صاحب جب گھر لوٹتے تو ان کے دونوں ہاتھوں میں وہ ٹافیاں ہوتیں جو دکان سے واپس آتے آتے کھانے سے بچ جاتی ہیں۔ باقی دو تین ٹافیاں فہد صاحب راستے میں ہڑپ کر جاتے تھے۔
رفتہ رفتہ نوبت یہ آگئی کہ فہد کو جو نہی کوئی گود میں اٹھاتا، اس کے یہ پوچھنے سے پہلے ہی کہ ”فہد ٹافی کھاؤ گے؟“ فہد صاحب بول اٹھتے۔”ٹافی…اوں ٹافی“ لوگوں کو اس کا”ٹافی…اوں ٹافی“ بولنے کا انداز اتنا اچھا لگتا کہ گود میں اٹھانے والا فوراًہی اسے یا تو دکان لے جاتا یا اپنی جیب سے ٹافیاں نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ اب فہد صاحب ایسے فرد سے بات بھی نہیں کرتے تھے جو ان کے لئے ٹافی
نہ لایا ہوتا۔ فہد پانچ سال کا ہوا تو اس کے سارے دانتوں میں کیڑا لگ چکا تھا، اس کی میٹھی چیزیں کھانے کی خواہش تھی کہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔ منہ میں ٹافیاں ہوتیں یا چیونگم یا بسکٹ، گھر میں کوئی میٹھی ڈش پکتی تو فہد صاحب صفائی کے نمبر لے کر اٹھتے۔ جس روز ان کے گھر میں کوئی میٹھی چیز نہ پکتی تو فہد باورچی خانے میں جاکر چینی ہی پھانک لیتا تھا۔
ایک دو پہر بڑی گرمی پڑرہی تھی، گھر میں صرف فہد،امی اور باجی تھیں، امی اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں۔ باجی، ڈرائنگ روم میں اخبار پڑھتے پڑھتے کرسی پر اونگھ گئی تھیں۔ ابو دفتر گئے ہوئے تھے اور بھیا کالج سے ابھی واپس نہ آئے تھے۔ فہد کو امی ڈانٹ ڈپٹ کر سونے کے لئے لٹا گئی تھیں لیکن اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کوئی میٹھی چیز کھانے کو مل جائے۔وہ کچھ دیر تو چپ چاپ لیٹا رہا، پھر بڑی خاموشی سے بستر سے اتر آیا۔ امی سورہی تھیں۔ فہد پہلے تو باور چی خانے میں گیا، اس نے چینی کا ڈبہ کھول کر چینی پھانکی لیکن اسے کچھ خاص لطف نہ آیا، اس لئے کہ چینی تو وہ روز ہی پھانکتا رہتا تھا۔ وہاں سے نکل کر وہ ٹی وی لاؤنج میں گیا اور فریج کھولا،اس میں چند
انڈوں، بھنڈی کے سالن، تھوڑے سے چاولوں اور دو چار ٹماٹروں کے سوا کچھ نہ تھا۔
”اونہہ“ فہد نے غصے سے سوچا۔”امی اس فریج میں کوئی میٹھی چیز نہیں رکھ سکتی تھیں؟“
اس نے فریج بند کردیا، اچانک اس کی نظر ڈائننگ ٹیبل پر رکھی ایک بوتل پر پڑی، اس بوتل میں بہت ساری گولیاں بھری ہوئی تھیں۔ فہد نے بوتل کھول لی۔ لال رنگ کی ایک گولی نکال کر اس نے منہ میں رکھی لی۔ ”ہو ں… بڑی میٹھی ہے۔ امی خود تو میٹھی میٹھی گولیاں کھاتی ہیں اور مجھے نہیں دیتی ہیں۔“ اس نے میٹھی گولی چوستے ہوئے سوچا۔ اس نے بوتل سے چار پانچ گولیاں نکال کر منہ میں ڈال لیں۔
”یہ کیا!“ اچانک فہد کو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے اس کے منہ میں کریلے کے ٹکڑے ڈال دیے ہوں۔ ایک بار اس نے غلطی سے کریلے کا سالن چکھ لیا تھا تو س کا منہ بالکل اسی طرح کڑوا ہو گیا تھا۔ اس نے منہ میں موجودہ تمام گولیاں وہیں لاؤنج میں تھوک دیں اور پانی پینے کے لئے باورچی خانے میں بھاگا۔ پانی سے اچھی طرح کلی کرنے اور پانی کے دو گلاس پینے کے بعد وہ پھر لاؤنج میں آیا۔ منہ ابھی تک کڑوا کڑوا ہو رہا تھا، اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اسے ایک چھوٹی میز پر ایک اور بڑی بوتل نظر آئی جس میں بہت سی گولیاں بھری ہوئی تھیں۔ یہ گولیاں دیکھنے میں بالکل اسی طرح کی میٹھی گولیوں کی طرح لگ رہی تھیں، جیسی وہ اکثر دکان سے لا کر کھاتا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے بوتل کھول کر ایک گول نکالی اور منہ میں ڈال لی۔ اسے ڈر تھا کہ یہ گولی بھی کڑوی نہ ہو لیکن گولی ذرا بھی کڑوی نہ تھی، بڑی میٹھی تھی۔ فہد نے بوتل سے چھ سات گولیاں نکال کر منہ میں رکھ لیں۔ تھوڑی دیر میں وہ بوتل کی آدھی گولیاں کھا چکا تھا۔ یہ گولیاں بہت مزیدار تھیں۔ گولیوں کے ساتھ انصاف کرنے کے بعد فہد چپکے سے اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا، تھوڑی دیر میں اسے نیند آگئی۔
فہد کی آنکھ کھلی تو اسے پیٹ میں سخت درد محسوس ہو رہا تھا بلکہ شاید اسی درد کی وجہ سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ پریشان ہو کر بستر سے اترا اور اس وقت اسے شدید متلی محسوس ہوئی۔ اس نے بستر کے پاس ہی الٹی کر دی۔ امی باورچی خانے میں تھیں۔ باجی سامنے بیٹھی کپڑوں پر استری کر رہی تھیں۔ وہ چونک کر اٹھیں اور چلا ئیں:
”امی کینڈی نے الٹی کر دی ہے۔“
”کینڈی“ نڈھال سا ہو کر وہیں بیٹھ گیا تھا، پھر اس نے ایک اور الٹی کردی، الٹی میں خون کے ٹکڑے بھی تھے۔
”امی، خون، الٹی میں خون……“باجی پھر چلا ئیں۔
”کیا؟“ امی باورچی خانے سے بھاگی آئیں۔ ”ہائے اللہ اسے کیا ہوا؟“
فہد اس دوران ایک اور الٹی کر چکا تھا اور منہ کھول کر لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔
”رضیہ! ڈاکٹر کو فون کرو۔“ امی چیخ کر بولیں۔
باجی فون کی طرف لپکیں۔ ان کے ایک کزن انور بھائی ڈاکٹر تھے۔ اتفاق سے وہ گھر پر مل گئے۔ فون سنتے ہی وہ اپنا بکس اٹھائے دوڑے چلے آئے۔ فہد کا معائنہ کرتے ہی وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے جلدی جلدی فون پر ایمبولینس سینٹر کے نمبر ملائے، تین منٹ بعد ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنائی۔ انور بھائی نے فہد کو اٹھایا اور باہر بھاگے۔ امی اور باجی بھی ان کے پیچھے پیچھے تھیں، وہ دونوں سسکیاں لے کر رو رہی تھیں۔
ہسپتال میں ڈاکٹروں نے فہد کو کئی انجکشن دیے۔ ہر آدھے گھنٹے بعد وہ فہد کا معائنہ کر رہے تھے۔ شروع میں تو فہد اسی انداز سے الٹیاں کرتا رہا۔ آہستہ آہستہ الٹیوں میں کمی آگئی۔ فہد کے ابو اور بھیا کو بھی اطلاع مل گئی تھی، وہ ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔
وہ رات فہد کے تمام گھر والوں نے جاگ کر دعائیں کرتے ہوئے گزاری۔
اگلے دن فہد کے ابو آفس نہیں گئے، بھیانے بھی کالج سے چھٹی کی۔ دوپہر دو بجے بڑے ڈاکٹر صاحب وارڈ سے نکلے۔ انہوں نے ڈیوٹی ڈاکٹر سے انگریزی میں کچھ کہا اور چلے گئے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر مسکراتا ہوا آیا۔ اس نے فہد کے ابو سے کہا۔”مبارک ہوصاحب،آپ کا بچہ اب خطرے سے باہر ہے۔“
”شکر ہے خدا کا۔“ فہد کے ابو نے اطمینان کا سانس لیا۔
”مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے، آئیے میرے کمرے میں۔“ ڈاکٹر فہد کے ابو کو لے گیا۔
۔۔۔۔۔
میں پوچھتا ہوں کہ یہ وٹامن کی گولیاں اور آئرن کی گولیاں کس نے رکھی تھیں میز پر۔“ گھر پہنچنے کے بعد ابو گرج رہے تھے۔ سامنے فہد کی امی،باجی اور بھیا سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ”آپ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی حماقت تھی، چھوٹا بچہ ہے، میٹھی چیز کھانے کا شوقین۔ اس نے پہلے تو وٹامن کی گولیاں کھائیں، ان پر شکر چڑھی ہوتی ہے۔ وہ شکر منہ میں جا کر کھل گئی تو گولی کڑوی لگی، اس نے تھوک دی۔ مگریہ آئرن کی گولیاں تو ہوتی ہی خوش ذائقہ ہیں، یہ اس نے ڈھیر ساری کھالیں۔ ڈاکٹر صاحب بتارہے تھے کہ اگر ذرا دیر ہو جاتی تو جان بچانا بہت مشکل تھا، میں پوچھتا ہوں کہ یہ گولیاں یہاں کس نے رکھی تھیں؟“
”میں نے ابو۔“ باجی کا جھکا ہوا سر اور بھی جھک گیا۔
ابو کچھ دیر باجی کے جھکے ہوئے سر کو دیکھتے رہے، انہوں نے بھی سرجھکا لیا۔
کمرے میں گہرا سناٹا طاری ہو گیا، پھر اسی خاموشی میں سے ابو کی آواز ابھری۔
”بچوں کا ہم پر حق ہے کہ ہم ان کو غلط کاموں سے اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے محفوظ رکھیں۔ ہم نے ایک تو محبت میں آکر اپنے بچے کو میٹھی چیزوں کا دیوانہ بنا دیا۔ دوسری زیادتی یہ کی کہ دوا کی بوتلیں بے پروائی سے میز پر رکھ چھوڑیں۔ فہد کے ساتھ اس غفلت کے ہم سب ذمہ دارہیں۔“