کیفے ڈی جٹ
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہیلو، بٹ‘‘ منورجٹ نے اپنے لنگوٹیا یار رشید بٹ کو آواز دی جو بغل میں کاغذوں کا پلندا دبائے تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا۔ ’’کوئی ضروری کام ہے؟‘‘ انور جٹ نے رشید بٹ سے پوچھا۔
’’ہاں‘‘ رشید نے جواب دیا’’ایک سرکاری محکمے میں کلرکوں کی چند آسامیاں خالی ہوئی ہیں،آخ تھو۔ میں نے بھی درخواست دی تھی، آخ تھو۔ آج انٹرویو ہے، آخ تھو۔ وہیں جا رہا ہوں۔ آخ تھو۔‘‘
’’مگر یہ آخ تھو آخ تھو کیوں؟‘‘ انور جٹ نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ مجھے پتا ہے سرکاری نوکری کسی تگڑی سفارش یا بھاری رشوت کے بغیر نہیں ملتی اور میرے پاس نہ سفارش ہے نہ رشوت کے لئے پیسے۔بی اے کرنے کے بعد دو سال سے بے کار پھر رہا ہوں۔‘‘
’’تو پھر مسٹر آخ تھو، فضول وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟ آو، میرے ساتھ چلو۔‘‘
’’مگر کہاں؟‘‘ رشید بٹ نے پوچھا۔
’’میرے ایک رشتے دار، جمیل جٹ، کا مال روڈ پر ریسٹورنٹ ہے، کیفے ڈی جٹ۔ اسے ایک ضروری کام سے گوجرانوالہ جانا ہے۔ شام تک واپس آئے گا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ آج کے دن اس کا ریسٹورنٹ میں سنبھالو ں۔ میں اکیلا سارا کام نہیں کرسکتا۔ تم میرے ساتھ چلو۔ کھانا مفت۔چائے مفت۔ اس کے علاوہ ڈھیر ساری بخششیں یعنی ٹپ۔
جب وہ کیفے ڈی جٹ پہنچے تو کیفے کا مالک جمیل جٹ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ علیک سلیک کے بعد انور جٹ نے جمیل جٹ سے کہا ’’ان سے ملو۔ یہ ہیں میرے دوست رشید بٹ بی اے۔ میں انہیں بھی لے آیا ہوں۔ کام کاج میں میرا ہاتھ بٹائیں گے۔ امید ہے تمہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
’’ارے نہیں‘‘ جمیل جٹ مسکرا کر بولا’’ مْجھے تو خوشی ہوئی، کیوں کہ عبدالرزاق بیرا چھٹی لے گیا ہے۔ خیر، میں شام تک واپس آ جاؤں گا۔ اور ہاں، کل رات میرے بڑے بھائی کا راول پنڈی سے فون آیا تھا۔ وہ آج کسی وقت لاہور آ رہے ہیں۔ ذرا خبطی سے ہیں۔ انہیں سٹنگ روم میں بٹھا دینا اور جب تک میں نہ آؤں، جانے نہ دینا۔ اچھا، خداحافظ۔‘‘
’’چلو، مسٹر بٹ‘‘ انور جب آستینیں چڑھا کر بولا ’’میں کاؤنٹر سنبھالتا ہوں، تم گاہکوں کو سنبھالو۔ وہ دیکھو، ایک گاہک آیا ہے۔ پوچھو، کیا چاہتا ہے۔‘‘
ایک نوجوان بہت تنگ جینز اور شرٹ پہنے، منہ سے سیٹی بجاتا ہوا اندر آیا اور ایک کُرسی پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔ وہ مْسلسل سیٹی بجائے جا رہا تھا۔ رشید بٹ دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور بولا’’سر، یہ شریفوں کا ریسٹورنٹ ہے۔ یہاں اعلیٰ خاندان کی خواتین آتی ہیں۔ یہاں اس قسم کی حرکتیں کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔‘‘
’’آئی سی‘‘ نوجوان نے سیٹی بجا کر کہا ’’دراصل آج میں بہت خوش ہوں۔‘‘
’’کیا میں جناب کی اس خوشی کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ بٹ نے کہا۔
’’میری بیوی واپس آ گئی ہے۔‘‘ نوجوان بولا۔
’’اوہ!‘‘ بٹ اچھل کر بولا ’’محترمہ کہاں تشریف لے گئی تھیں؟‘‘
’’میکے چلی گئی تھی،روٹھ کر‘‘ نوجوان نے کہا۔
’’تو پھر سر249 یہ بین یعنی سیٹی اس کے سامنے بجاتے۔ یہاں کیوں پھونک ضائع کر رہے ہیں؟ ویسے، بائی دی وے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘ بٹ نے پوچھا۔
نوجوان بولا ’’دو شامی کباب، گرماگرم۔ ایک پلیٹ چپس۔ ایک کپ کافی، ملائی والی۔‘‘
اب کیفے میں آہستہ آہستہ گاہک آنے لگے تھے اور بٹ اور جٹ بہت پھرتی دکھا رہے تھے۔
’’آپ کا بل ،سر‘‘بٹ نے ایک گاہک کے سامنے بل رکھتے ہوئے کہا’’35روپے۔‘‘
’’یہ لو 40روپے‘‘گاہک بولا’’5روپے تمہاری ٹِپ۔‘‘
’’اوہ!تھینک یو،سر۔آپ بہت مال دارمعلوم ہوتے ہیں ،ماشاء اللہ‘‘بٹ خوش ہو کر بولا۔
’’ہاں۔ ایسا ہی سمجھ لو‘‘گاہک نے کہا’’میرے ماں باپ آئرن (Iron)اور اسٹیل(Steel)کا کاروبار کرتے ہیں اور میں اس کا م میں اُ ن کا ہاتھ بٹاتا ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘بٹ بولا’’یعنی آپ کی والدہ آئرن یعنی استری کرتی ہیں اور آپ کے والد صاحب اسٹیل(Steal)یعنی چوری کرتے ہیں؟‘‘
’’ہاہاہا!‘‘گاہک قہقہہ لگا کر بولا’’بہت خوش مزاج معلو م ہوتے ہواور پڑھے لکھے بھی۔اگر تم اسی طرح گاہکوں کو ہنساتے رہے تو تمہارا کیفے خوب چلے گا۔ہاہاہا!‘‘
’’ویٹر!‘‘ایک عورت کی آواز آئی۔یہ کوئی انگریز خاتون تھی۔بٹ اس کے پاس گیا اور ادب سے بولا’’یس،میڈم۔‘‘
خاتون بھڑک کر بولی’’ہم میڈم نائیں ہائے۔ابھی ہم نے شاڈی نائیں بنایا۔‘‘
بٹ نے جلدی سے کہا’’اوہ!آئی ایم سوری،مِس۔۔۔‘‘
’’مِس آس بورن‘‘خاتون بولی اور پرس میں سے آئینہ نکال کربال ٹھیک کرنے لگی۔
’’اوکے، مس آس بورن۔فرمائیے،میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘بٹ نے کہا۔
’’ڈیکو‘‘مس آس بورن بولی’’ایک چکن برگر مانگٹا۔ایک کوک مانگٹا۔شوگر نہیں مانگٹا۔کریم بھی نہیں مانگٹا۔اور سنو، تھوڑا گور بھی لاؤ۔‘‘
’’گور۔۔۔۔۔؟‘‘بٹ سر کھجانے لگا’’یہ کون سی ڈش ہے؟‘‘
’’ویل،ٹم کیا بندر کے مافک سر کھجاٹا ہائے؟‘‘مس آس بورن بولی’’گور نہیں جانٹا؟ہم نے پاکسٹان کے ایک ولیج میں کھایا ٹھا۔ہم کو بہوٹ اچّا لگا۔اب پھر کھانا مانگٹا۔‘‘
’’اوکے،مس۔میں Chef(باورچی) سے پوچھتا ہوں کہ یہ ڈش تیار ہے کہ نہیں۔‘‘بٹ بھاگا بھاگا انور جٹ کے پاس گیا اور بولا’’یہ انگریز خاتون گور مانگتی ہے۔یہ کیابلا ہے؟‘‘
’’گور؟‘‘انور بٹ سوچتے ہوئے بولا’’گور تو قبر کو کہتے ہیں۔اب ہم اس کے لئے یہاں قبر کھودیں؟‘‘
’’کہتی ہے،ہم نے پاکستان کے ایک گاؤں میں کھایا تھا‘‘ بٹ نے بتایا۔
’’اوہ!بیڑا غرق۔یہ کہیں گڑ کو تو گور نہیں کہہ رہی؟‘‘جٹ نے ہنس کر کہا’’کہنا،گور ختم ہو گیا ہے۔اب کل بنائیں گے۔‘‘
’’مس، گور ختم ہو گیا ہے۔کل بنائے گا۔‘‘رشید نے مس آسبورن کوبتایا۔
’’کوئی باٹ نائیں‘‘مس آسبورن نے کہا اور پھر کچھ سوچ کر بولی’’ڈیکو،ہم نے تمہیں پہلے کہیں ڈیکا ہے۔ٹم کبھی لنڈن گیا؟‘‘
’’لنڈن؟‘‘رشید بٹ نے کہا’’لندن تو بہت دُور ہے۔میں تو ابھی تک بھائی پھیرونہیں گیا ہوں۔‘‘
’’یہ ٹو بہوٹ بُرا باٹ ہائے‘‘مس آسبورن سر ہلا کر بولی’’ٹم کو اپنے بھائی کے پاس ضرور جانا چاہئے۔‘‘
’’بھائی پھیرو میرا بھائی نہیں ہے‘‘رشید بٹ مسکرا کر بولا ’’یہ لاہور کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔‘‘
تین چار گھنٹے کیفے ڈی جٹ میں خوب گہما گہمی رہی۔ رشید بٹ نے50,60 کے قریب گاہک بھگتائے اور اسے300 روپے بخشیش(ٹپ) ملی۔پھر آہستہ آہستہ گاہکوں کا رش ختم ہو گیااور آخر کار کیفے ڈی جٹ میں صرف بٹ اور جٹ رہ گئے ۔
’’یار جٹ ‘‘بٹ کاؤنٹر کے قریب اسٹول پر بیٹھتے ہوئے بولا ’’کلرکی سے تو یہ کام اچھا ہے ۔300 روپے بخشیش ملی۔یار جٹ ،تم مجھے یہیں نوکر کرا دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے ‘‘جٹ نے کہا ’’اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو میں جمیل جٹ سے بات کروں گا ۔‘‘
ان کی گفتگو جاری تھی کہ کیفے ڈی جٹ کا دروازہ کھلا اور ادھیڑ عمر کا آدمی کاندھے پر تھیلا لٹکائے اندر داخل ہوا ۔
’’جمیل جٹ کا بڑا بھائی !‘‘انور جٹ نے رشید بٹ کے کان میں کہا ’’میں شرط لگاتا ہوں یہ وہی ہے ۔‘‘
’’تمہارا خیال درست ہے ‘‘رشید بٹ بولا ’’چلو ،اس کا استقبال کریں‘‘
’’السلام علیکم ‘‘انور جٹ نے آگے بڑھ کر اس آدمی سے کہا ’’آپ غالباً مسٹر جمیل جٹ سے ملنے آئے ہیں ۔‘‘
’’جی ہاں ،جی ہاں ‘‘آدمی نے تھیلا میز پر رکھتے ہوئے کہا ’’وہ کہاں ہیں؟‘‘
’’گوجرانوالہ گئے ہیں ۔آپ تشریف رکھیے۔بس آتے ہی ہوں گے ۔‘‘
’’میں یہاں تشریف رکھنے نہیں آیا ہوں ‘‘آدمی نے کہا ’’مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں ۔کل آجاؤں گا ۔‘‘یہ کہہ کر وہ جانے لگا۔
بٹ نے اس کو پکڑ لیا اور بولا ’’دیکھئے جناب ،آپ کا جو بھی نام ہو ،آپ کو تھوڑی دیر ،بس تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑے گا ۔آئیے ،سٹنگ روم میں تشریف لائیے ۔‘‘
’’کیا سٹنگ روم میں کوئی پائپ …..‘‘آدمی کچھ کہنا چاہتا تھا کہ انور جٹ اس کی بات کاٹ کر بولا ’’ہاں ہاں ۔آپ شوق سے وہاں پائپ پیجئے ،سگارپیجئے ،سگریٹ پیجئے ، جو چاہے پیجئے ۔ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اس آدمی کو سٹنگ روم میں دھکیلا اور باہر سے دروازہ بند کر کے تالا لگا دیا ۔
اسی وقت کیفے کا دروازہ کھلا اور جمیل جٹ ادھیڑ عمر کے ایک آدمی کے ساتھ اندر آیا ۔جٹ اور بٹ دوڑ کر اس کے پاس گئے۔
رشید بٹ بولا ’’آپ کے بڑے بھائی تشریف لے آئے ہیں ۔ہم نے انہیں سٹنگ روم میں بند کر دیا ہے ۔‘‘
’’میرے بڑے بھائی؟‘‘جمیل جٹ حیرت سے بولا:’’میرے بڑے بھائی تو یہ ہیں ۔‘‘اس نے اس آدمی کی طرف اشارہ کیا جو اس کے ساتھ آیا تھا ۔
’’اگر یہ آپ کے بھائی ہیں تو وہ کون ہے جسے ہم نے سٹنگ روم میں بند کر دیا ہے؟‘‘رشید بٹ نے کہا ۔
اسی لمحے سٹنگ روم میں کے اندر سے دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا ۔جمیل جٹ نے لپک کر دروازہ کھولا تو اندر سے بڑے میاں لڑکھڑا تے ہوئے باہر آئے ۔
’’ارے !‘‘جمیل جٹ زور سے اچھل کر بولا ’’یہ تو پائپ مرمت کرنے والا ہے ۔اسے میں نے بلایا تھا ۔کچن میں پانی کا ایک پائپ لیک کر رہا تھا۔‘‘
’’لا حول ولا قوۃ !‘‘رشید بٹ بولا ’’ارے بڑے میاں ،آپ نے ہمیں بتایا کیوں نہیں ؟‘‘
’’میں تو بتانا چاہتا تھا ‘‘بڑے میاں بولے ’’تم نے مجھے مہلت ہی نہ دی ۔کمرے میں دھکا دے کر دروازہ بند کر دیا ‘‘
ہا ہا ہا !ہو ہو ہو !ہی ی ہی !سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔