بولنے والا درخت
کہانی: The Talking Tree
مصنف:David Mc Robbie
مترجمہ: ماہم احسن
۔۔۔۔۔
زین جنگل میں تھا کیوں کہ اس کو پھل جمع کرنے تھے۔ وہ بہت بھوکا تھا اس لیے وہ وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔اس نے کچھ پھل کھائے اور کچھ جمع کرلیے۔ جب وہ گھر جانے لگا تو اس نے غور کیا کہ درخت کے تنے کے نچلے حصے میں سوراخ ہے۔اس نے اپنا سر اس سوراخ کے اندر ڈالا پھر اوپر دیکھا تو اس کو کھلا آسمان نظر آیا۔ درخت کافی کھوکھلا تھا۔ وہ درخت کے کھوکھلے تنے میں کود گیا۔ درخت کے دوسری طرف بھی سوراخ تھا۔ اس نے وہاں سے باہر کی طرف دیکھا۔
”یہ کتنی اچھی جگہ ہے چھپنے کی۔“ وہ تیز آواز میں بولا:”کوئی بھی مجھے باہر سے یہاں نہیں دیکھ سکتا۔“
اس کی آواز جنگل میں گونج رہی تھی۔ زین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی نئی آواز سننے کے لیے گانا گائے۔ جب وہ گانا گا چکا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جائے لیکن پھر اس نے سُنا کوئی باتیں کرتے ہوئے اس کی طرف آرہا ہے۔ وہ اس آواز کو جانتا تھا۔یہ علی کی آواز تھی۔ وہ دونوں ایک ہی اسکول میں ہونے کے ساتھ ساتھ ہم جماعت بھی تھے۔
”وہ گانے کی آواز یہیں سے آرہی تھی۔“ علی نے کہا۔”لیکن میں نے یہاں کسی کو نہیں دیکھا، کیا تم نے دیکھا عالیان؟“
”نہیں۔“ عالیان نے جواب دیا۔”مجھے نہیں لگتا کہ یہاں جنگل میں کوئی انسان ہو سکتا ہے۔“
ادھر زین ان کی باتوں کے دوران درخت کے اندر چھپا رہا۔ جب وہ دونوں خاموش ہو گئے تو وہ آہستہ مگر بھاری آواز میں بولا:
”علی اور عالیان تم میری زمین پر کیا کر رہے ہو؟“
تھوڑی دیر تک کوئی جواب نہیں آیا پھر علی نے ڈرتے ہوئے پوچھا:”یہ کس نے کہا؟“
”میں بولنے والا درخت ہوں۔“زین نے کہا: ”ہر چیز جو جنگل میں ہے وہ مجھ سے تعلق رکھتی ہے اور جب تک تم یہاں پر ہو تمھیں میرا ہر حکم ماننا ہوگا۔ اگر تم نے میری حکم عدولی کی تو میں تمھارے گھر میں آکر تمھیں پکڑ لوں گا،جب تم سو رہے ہو گے۔ اب جاؤ اور
میرے لیے کچھ کھانے کے لیے لے کر آؤ۔“
”ٹھیک ہے،اے بولنے والے درخت……“
عالیان نے لرزتے ہوئے کہا: ”ہم تمھارے لیے تازہ پھل ڈھونڈ تے ہیں اور ابھی لا کر دیتے ہیں۔“
زین ہنسا اور ان دونوں کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔
علی اور عالیان چند منٹ بعد لوٹ کر آئے تو ان کے ہاتھ تازہ پھلوں سے بھرے ہوئے تھے۔انھوں نے سارے تازہ پھل درخت کے کھو کھلے تنے میں ڈال دیے۔
”یہ بہت اچھا کھانا ہے اے اچھے درخت۔“ عالیان بولا:”ہم امید کرتے ہیں کہ تمھیں پسند آئے گا۔“
”تم دونوں نے بہت اچھا کام کیا۔“ زین نے جواب دیا: ”اب تم دونوں گھر جاؤ لیکن یاد رکھو تم نے میرے اور اس جگہ کے بارے میں اگر کسی کو بھی بتایا تو میں تمھیں مینڈک میں بدل دوں گا۔ تم دونوں روز صبح سویرے اسکول جانے سے پہلے میرے لیے تازہ پھل لاکر دو گے۔ اب جاؤ……!“
جب تک علی اور عالیان چلے نہیں گئے زین نے وہیں انتظار کیا پھر وہ درخت سے نکل گیا۔
وہ بہت خوش تھا۔ اگر علی اور عالیان کو پتا چل گیا کہ بولنے والا درخت کون ہے تو وہ بہت غصہ ہوں گے۔ اس نے سوچا۔”وہ بہت ڈر گئے تھے ڈرپوک ہی ہی ہی……!“ زین بلند آواز سے ہنسنے لگا۔
اگلی صبح کا وقت تھا۔ چڑیاں چہچہارہی تھیں۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ زین جلدی اُٹھ گیا اور کھوکھلے تنے والے درخت کی جانب بڑھنے لگا۔ رات کو بہت تیز بارش ہوئی تھی، جس کی وجہ سے زمین گیلی تھی۔ زین لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا درخت کی طرف جارہا تھا۔ بالآ خر وہ درخت تک پہنچ گیا اور اس کے سوراخ کے اندر داخل ہو گیا۔اب وہ علی اور عالیان کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی چند منٹ گزرے ہوں گے کہ اسے دور سے علی اور عالیان درخت کی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔انھوں نے ایک بڑا سا تھیلا اور ایک جوس کا گلاس اُٹھایا ہوا تھا۔ وہ چیزیں انھوں نے درخت کے سوراخ میں ڈال دیں۔
زین نے بھاری آواز میں کہا:”بہت شکریہ لڑکو، اب تم اسکول جاؤ لیکن کل آنا مت بھولنا۔“
علی اور عالیان چہل قدمی کرتے ہوئے واپس جا رہے تھے کہ اچانک عالیان رُکا۔ اس نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کچھ سوچ کر بولا: ”مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی بولنے والا درخت ہے۔ کیا تم نے وہ نشان نہیں دیکھے جو مٹی پر تھے، وہ کسی انسان کے لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کوئی درخت کے اندر چھپا ہوا ہے اور ہمیں بیوقوف بنا رہا ہے۔“
”نہیں میں نے غور نہیں کیا۔”علی نے کہا: ”لیکن میرا خیال ہے کہ ہم چھپ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کوئی اس راستے سے واپس تو نہیں جا رہا۔“
چند منٹ بعد انھوں نے دیکھا کہ زین گنگناتا ہوا اس راستے سے آرہا ہے اور اس کے ہاتھ میں کھانے سے بھرا ہوا تھیلا اور جوس کا گلاس تھا۔
”اففف……! یہ زین تھا۔“ علی حیرت زدہ رہ گیا۔
”کیا ہم اس پر کودیں اور اس کو ڈرائیں؟“ اس نے عالیان سے پوچھا۔
”ابھی نہیں ……!“ عالیان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا:”میرے پاس اس سے بہتر آئیڈیا ہے۔ آؤ میرے ساتھ……“ عالیان کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔
عالیان بھاگتا ہوا کھو کھلے درخت کے پاس پہنچا۔علی نے اس کی پیروی کی۔ وہ بہت احتیاط سے پیروں کے نشانات کو دیکھتے ہوئے آخر کار درخت کے سوراخ تک پہنچ گئے اور ان کو سمجھ آگیا کہ زین نے ان کو کیسے بیوقوف بنایا۔
دوپہر کے وقت تک اسکول ختم ہو گیا تھا، علی اور عالیان جنگل میں گئے اور دو بڑی اور کچھ چھوٹی لکڑیاں تلاش کیں۔ پھر انھوں نے ان لکڑیوں کو سیڑھی بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے بعد دونوں نے وہ سیڑھی جھاڑیوں میں چھپادی۔
٭……٭……٭
اگلی صبح زین دوبارہ درخت کے سوراخ میں جا کر چھپ گیا اور انتظار کرنے لگا۔ اچانک علی اور عالیان درخت کے پاس بھاگتے ہوئے آئے۔
”صبح بخیر اے اچھے دوست……“علی بولا: ”میں نے تمھارے لیے پھلوں کا جوس خریدا ہے۔ میں درخت کے اوپر چڑھ جاتا ہوں اور تمھارے منھ میں جوس انڈیل دیتا ہوں۔“
”نہیں نہیں! ایسا نہیں کرنا۔“ زین چلایا:”تم اسے سوراخ کے قریب رکھ دو۔“
لیکن علی تیار تھا وہ سیڑھی پر چڑھ کر درخت کے اوپر پہنچ گیا۔ پہلے وہ ہنسا اور پھر اس نے پورا جوس زین کے اوپر انڈیل دیا۔
زین کھانسا اور چیخا۔
وہ چپکنے والا مادہ اس کی ناک اور آنکھوں میں داخل ہو رہا تھا۔ پھر عالیان سیڑھی پر چڑھا اور بولا:”میں تمھارے لیے شہد لایا ہوں۔ کچھ کیڑے مکوڑے اس کے اندر ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ تمھیں نہیں کاٹیں گے۔“
”کوئی میری مدد کرو نہیں۔“زین پھر چیخا۔
لیکن عالیان سیڑھی پر چڑھ چکا تھا۔ اس کے پاس شہد تو نہیں تھا البتہ ایک بڑا مرتبان تھا جو سنہرے تیل سے بھرا ہوا تھا۔ عالیان نے وہ تیل زین کے سر پر انڈیل دیا۔
زین نے بہت کوشش کی کہ وہ اس کو ہٹالے لیکن وہ بہت چکنا تھا۔ زین اب پھلوں کے جوس اورتیل میں ڈوب گیا۔
”چلے جاؤ!“ وہ چیخا۔”اب تم دونوں کو دوبارہ بولنے والے درخت کے پاس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ زین نے شدید غصے سے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہے زین۔“ علی نے شرارت سے کہا:”ہم تمھارا حکم مانیں گے۔“
علی اور عالیان جنگل سے باہر جانے لگے اور وہ دونوں شرارتی ہنسی ہنس رہے تھے۔