آؤ روزہ رکھیں
شیخ عبدالحمید عابد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ روزے کو عربی میں صوم یا صیام کہتے ہیں۔ صوم کے معنی رُک جانے کے ہیں۔ جب کوئی مسلمان روزہ رکھتا ہے تو وہ دن بھر کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے۔ لیکن روزہ محض کھانے پینے سے پرہیز کرنے کا نام نہیں، بلکہ روزے دار کے جسم کے تمام اعضا کا روزہ ہوتا ہے، مثلاً آنکھ، کان و زبان ہاتھ پاؤں وغیرہ کا۔ آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ وہ ایسی چیزیں نہ دیکھے جو خراب اور فحش ہیں۔ کان کا روزہ یہ ہے کہ وہ بُری باتیں نہ سُنے۔ ہاتھوں کا روزہ یہ ہے کہ وہ کسی کو تکلیف اور اذیت نہ پہنچائیں۔ پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ وہ غلط راستے کی طرف نہ جائیں اور زبان کا روزہ یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولے اور غیبت نہ کرے۔
روزے کی فضیلت:
رمضان المبارک میں روزے رکھنے کا بڑا ثواب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص خاص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے رمضا المبارک کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بھبک اللہ تعالیٰ کے نزدیک مُشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسری حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود اس کا اجر دوں گا۔ گویا روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان راز ہوتی ہے۔
اسی طرح رمضان شریف کے روزوں کی اور بھی بہت سی فضیلتیں حدیثوں میں آئی ہیں۔
روزے اسلام سے پہلے بھی قوموں پر فرض کئے گئے تھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے جو ہم پر روزے فرض کئے ہیں وہ اور شکل میں ہیں اور جو ہم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ان کی شکل اور تھی۔
روزے کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ پورا ایک مہینہ جب انسان اچھے اور نیک کام کرتا ہے تو اس میں برائیوں سے بچنے کی عادت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے مہینوں میں بھی صالح زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ طبی لحاظ سے بھی روزہ بہت مفید ہے۔ مسلسل ایک مہینے کھانے پینے سے پرہیز کرنے سے بہت سی بیماریاں خودبخود ختم ہوجاتی ہیں۔
سحر اور افطار:
روزہ طلوع آفتاب سے پہلے شروع ہوتا ہے اسے ’’سحر‘‘ کہتے ہیں اور غروبِ آفتاب پر ختم ہوتا ہے اسے ’’افطار‘‘ کہتے ہیں۔ روزے کے لئے نیت کرنا ضروری ہے۔ بغیر نیت کے اگر صبح صادق سے غروب آفتاب تک کچھ بھی نہ کھایا پیا جائے تو یہ روزہ نہیں ہوگا۔
شب قدر:
مہینے کی آخری دس راتوں میں ایک رات ایسی آتی ہے جسے ’’شب قدر‘‘ کہتے ہیں۔ رمضان المبارک کی اس برکتوں والی رات کا ذکر قرآن مجید کی سورت ’’القدر‘‘ میں بھی ہوا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شبِ قدر کیسی بڑی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اس (رات) میں فرشتے اور حضرت جبرئیل ؑ اپنے رب (اللہ) کی طرف سے ہر قسم کے فیصلے لے کر اُترتے ہیں۔ اس رات میں صبح ہونے تک یہ تمام برکتیں جاری رہتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم شب قدر کو رمضان کی 21، 23، 25، 27 اور 29 ویں رات میں تلاش کرو۔ مشہور صحابی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ شبِ قدر رمضان کی ستائیسویں تاریخ میں آتی ہے۔
قرآن مجید میں ہے کہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے، انہی امتحانوں میں سے ایک امتحان روزہ ہے جس کا نتیجہ قیامت کے دن سُنایا جائے گا۔
روزہ کھولنے کی دُعا:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کھولنے کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اے اللہ! تیرے ہی لئے روزہ رکھا تجھی پر میرا ایمان ہے۔ تیرے ہی (جنت کے) وعدے پر میرا مکمل بھروسا ہے اور میں تیرے رزق سے کھا کر روزہ افطار کرتا ہوں‘‘۔
روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے۔:
(1) روزہ دار کے منہ میں کوئی چیز زبردستی ڈالے اور وہ حلق سے نیچے اُتر جائے (2) منہ میں یا ناک میں پانی ڈالتے وقت حلق سے نیچے اُتر جائے۔ (3) کان میں تیل یا دوائی ڈالنا (4) سحری ختم ہونے کے بعد یہ خیال کرکے کہ سحری ابھی ختم نہیں ہوئی کھاتے پیتے رہنا (5) سورج ابھی ڈوبا نہ ہو اور یہ سمجھ لینا کہ سورج ڈوب گیا ہے اور کھا پی لینا (6) دانتوں میں اٹکی ہوئی چیز نکال کر نگل لینا۔
ان صورتوں میں قضا واجب ہے یعنی اگر اس طرح روزہ ٹوٹ جائے تو ایک اور روزہ رکھنا ضروری ہے۔