skip to Main Content

بل بنام

کلیم چغتائی

…..

اس نے موقع غنیمت جان کر بل بنا کر سلائی مشین پر رکھ دیا

…..

”خالد بیٹا! انڈے لا دو!!“ امی کی آواز خالد کے کانوں سے ٹکرائی، جو بیٹھا ٹی وی دیکھنے میں مگن تھا۔ اس کی پسندیدہ فلم جو آرہی تھی۔
”ہونہہ“ ٹی وی بھی نہیں دیکھنے دیتے یہ لوگ۔“ خالد نے بڑی بیزاری سے سوچا۔ پھر اس کی توجہ ٹی وی کی جانب ہو گئی جہاں ایک کار دوسری کار کا تعاقب کررہی تھی۔
”خالد بیٹے سنا نہیں تم نے۔ انڈے لے آؤ!“ امی کی آواز آئی۔
”بس امی یہ فلم ختم ہوجائے ابھی لاتا ہوں۔“ خالد منمنایا۔
”مگر بیٹے یہ فلم تو بہت دیرتک چلے گی، مجھے انڈے ابھی چاہئیں۔“ امی نے اس کے قریب آکر کہا۔ ”جاؤ بیٹے انڈے لے آؤ۔ پھر فلم دیکھ لینا۔“
”بس یہی تو مصیبت ہے۔ یہ لے آؤ، وہ لے آؤ۔“ خالد بڑبڑاتا ہوا انڈے لینے چلا گیا۔
رات میں اس نے اپنی الماری کھول کر کہانیوں کی ایک کتاب نکال لی۔ ابھی دو ہی صفحے پڑھے تھے کہ امی کی آواز آئی، ”خالد بیٹے ذرا یہ کچرا لے جا کر باہر کوڑا گھر میں پھینک دو۔“
”کسی وقت بھی چین نہیں ہے۔“ خالد نے جھلا کر کہانیوں کی کتاب پھینک دی اور کچرے کی ٹوکری اٹھا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔
خالد کو اپنی امی سے یہی شکایت تھی۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی کام لیے موجود ہیں۔ کبھی آٹا لانا ہے، کبھی چپل موچی کے پاس لے جا کر سلوانی ہے۔ کبھی بجلی کا بل بھرنا ہے تو کبھی امی کے لیے رکشہ لے کر آنا ہے۔
”کام کام، کام۔“ وہ کڑھتے ہوئے سوچتا۔ ”کوئی ایسا دن بھی آئے گا جس دن امی مجھ سے کہہ دیں کہ بیٹے خالد آج تمہیں کوئی کام نہیں کرنا ہے خوب مزے سے ٹی وی دیکھو، کہانیاں پڑھو، کرکٹ کھیلو کوئی روک ٹوک نہیں۔“
مگر پھر وہ آہ بھر کر جی ہی جی میں کہہ اٹھتا۔ ”ہونہہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔؟ایسا اگر کسی دن ہو گیا تو میں سمجھوں گا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں۔“
٭
ہاف ٹائم کی گھنٹی بجی۔ لڑکے شور مچاتے کلاسوں سے نکلے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ بہت سے خوانچے والوں کی طرف لپکے جبکہ کچھ نے آنکھ مچولی کھیلنا شروع کر دی۔ خالد اپنے دوستوں ہاشم اور جاوید کے ساتھ میدان کی طرف نکل گیا۔
”بڑے چپ چپ ہو آج۔“ ہاشم نے خالد کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں مجھے بھی یہی محسوس ہوا تھا۔“ جاوید نے ہاشم کی تائید کی۔
”کچھ نہیں یار بس یوں ہی۔“ خالد گڑبڑا کر بولا۔
”پھر بھی یار کچھ بتاؤ تو۔ ہم تو یاروں کے یار ہیں۔ ہمارے لائق کوئی خدمت!“ جاوید نے لہک کر پوچھا۔
”نہیں یار تم کیا کرو گے خدمت، بات دراصل یہ ہے کہ میں تو گھر کے کام کرتے کرتے تنگ آگیا ہوں۔“ خالد نے آخر دل کی بات بیان کر ہی دی۔
”گھر کا کام یعنی ہوم ورک؟“ ہاشم نے سوال کیا۔
”نہیں، ماسٹر صاحب والا ہوم ورک نہیں، گھر کے کام جو امی مجھے بتاتی رہتی ہیں۔ یہ لے آؤ، وہ لے آؤ، یہ چیز وہاں رکھ دو۔“ خالد نے بتایا۔
”اماں یار اتنی سی بات تھی۔ بھئی سیدھا سادہ حل اس الجھن کا یہ ہے کہ تمہاری امی کو مفت کام کروانے کی عادت پڑ گئی ہے۔ یہ عادت جب ہی چھوٹ سکتی ہے جب تم ان سے کام کا معاوضہ طلب کر لیا کرو۔“ ہاشم نے کہا۔
”معاوضہ؟“ خالد نے حیران ہو کر پوچھا۔
”ہاں بھئی معاوضہ اور کیا۔“ ہاشم بولا ”دن بھر میں وہ تمہیں جتنے بھی کام بتائیں ان کا کوئی ریٹ مقرر کر لو۔ اس ریٹ کے حساب سے پیسے طلب کر لو۔ پیسے بھی ہاتھ آئیں گے اور کام بھی آئندہ کم سے کم کروایا جائے گا۔“
”یار ترکیب تو اچھی ہے۔“ خالد خوش ہو کر بولا۔”آج ہی آزماتا ہوں۔“
”مگر جو آمدنی ہو، اسے خرچ کرتے ہوئے اپنے دوستوں کو مت بھولنا۔“ جاوید نے ہنس کر کہا۔
”نہیں یار ایسا کبھی ہو سکتا ہے؟“ خالد احسان مندی کے لہجے میں بولا۔
اسی وقت ہاف ٹائم ختم ہونے کی گھنٹی بج گئی۔
رات کو خالد نے ایک پرچے پر ان کاموں کی تفصیل درج کی جو دن بھر میں امی نے اس سے کروائے تھے۔ اس نے کام کی نوعیت اور گھر سے فاصلے کا دھیان رکھتے ہوئے ہر کام کے آگے ”مناسب معاوضہ“ لکھ دیا۔ پھر اس نے اپنے ابا کے پرانے کاغذات میں سے ایک بل بک نکالی۔ کئی سال پہلے جب اس کے ابا مکانوں کی تعمیر کے ٹھیکے لیا کرتے تھے تو وہ مختلف کاموں کے سلسلے میں بل بنا کر بھیجا کرتے تھے۔ جس پر کام یا سامان اور اس کا معاوضہ درج ہوتا تھا۔ گلابی رنگ کے بل کے نیچے کاربن کاپی رکھ کر اس نے امی کے نام بل بنا دیا۔ جو کچھ یوں تھا:

خالد کنسٹرکشن کمپنی
بنام امی  تاریخ: ۲جنوری ۱۹۸۶ء
تعداد تفصیل نرخ روپے    رقم روپے
دو بار دودھ لایا ۱ ۲
ایک بار گوشت لایا ۲ ۲
ایک بار مرغیاں کھولیں ۱ ۱
ایک بار مرغیاں بند کیں ۳ ۳
چار بار چھوٹے بھائی کو سنبھالا ۲ ۸
نوٹ: کسی شکایت کی صورت میں منیجر سے رجوع کریں کل میزان ۱۶

بل بنانے کے بعد خالد نے رقم شمار کی تودو سو چالیس روپے بنی۔ خوشی کے مارے اس کی باچھیں کھل گئیں۔دو سو چالیس روپے! اف میرے خدا روزانہ اگردو ڈھائی سو روپے کی آمدنی ہوتی رہی تو مہینے بھر میں میرے پاس چھے سات ہزارروپے ہوجائیں گے۔ پھر تو میں جلد ہی نئی سائیکل خرید لوں گا۔ وہ خیالی پلاؤ پکانے لگا۔پھر اسے خیال آیا۔’یار بل تو امی کے نام ہے کیوں نہ کچھ رعایت کر دوں۔ مگر کتنی؟بیس روپے رعایت ٹھیک رہے گی؟ ابھی پرسوں وہ امی کی دوا لانے میڈیکل اسٹور گیا تھا۔دو سو بیس روپے کی دوا تھی لیکن دکاندار نے دو سو روپے لیے تھے۔ چلو ٹھیک ہے دس فیصد رعایت کر دیتا ہوں۔‘اس نے جلدی سے اپنا موبائل اٹھا کر اس میں کیلکولیٹر آن کیا اوردو سو چالیس کا دس فیصد نکالا۔چوبیس روپے بنے۔یہ حسابی عمل کرتے ہوئے اسے بالکل یاد نہ آیا کہ اسکول میں وہ حساب کے مضمون سے بری طرح چڑتا تھا۔اس نے دو سو چالیس میں سے ”ڈسکاؤنٹ“ کی رقم تفریق کی۔جواب آیا،دو سو سولہ۔اس نے مزید ”فراخ دلی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے امی کے لیے اور رعایت کر دی اور بل میں ”ایک روپیہ رعایت“ بڑھا کر کل رقم دو سو پندرہ روپے لکھ دی۔
چلو اب یہ بل امی کودے دیا جائے۔ امی شاید دوسرے کمرے میں مشین پر سلائی کررہی تھیں۔ خالد نے بل ہاتھ میں اٹھا تو لیا مگر امی کے پاس جا کر بل دیتے ہوئے وہ جھجکنے لگا۔ اسی وقت امی کسی کام سے اٹھیں اور برابر والے کمرے میں چلی گئیں۔ خالد نے موقع غنیمت جانا اور دوڑ کر بل مشین کے برابر رکھ دیا۔ بل پر اس نے قینچی رکھ دی تھی تاکہ ہوا سے اڑ نہ جائے۔ ظاہر ہے امی آتے ہی قینچی اٹھائیں گی تاکہ کپڑا کاٹ سکیں اور پھر بل دیکھ لیں گی۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دوسرے کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے کہانیوں کی ایک کتاب اٹھا لی۔ اس کی نظریں تو کتاب پر تھیں لیکن توجہ امی کی جانب تھی۔ اسے امید تھی کہ امی اسے بلا کر اس پر تھوڑا سا ناراض ہوں گی اور پھر دو سوپندرہ نہیں تو دوسو روپے تو دے ہی دیں گی۔
”لیکن اگر امی کو برا لگ گیا تو؟“ اس کے کانوں میں جیسے کسی نے سرگوشی کی۔
”نہیں کیوں برا لگے گا۔“ اس نے سر جھٹک کر گویا خود کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
پندرہ منٹ گزر گئے، آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پون گھنٹہ گزر گیا۔ خالد ناامید سا ہو گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ امی کی نظر بل پر نہیں پڑی ورنہ وہ اسے بلا کر کچھ تو کہتیں۔ مزید کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد وہ بستر پر لیٹ گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ امی نے اتنی دیر سے اسے ایک کام بھی نہیں کہا تھا۔ حالانکہ عام طور پر اتنے وقت میں امی اسے کسی نہ کسی کام کے لیے کہہ دیتی تھیں اور کچھ نہیں تو دروازے بند کرنے یا یہ دیکھنے کا حکم مل جاتا تھا کہ دروازے بند ہیں یا نہیں۔ تو کیا امی نے بل دیکھ لیا ہے اور وہ اس ڈر سے اس سے کام نہیں کروا رہی ہیں کہ خالد مزید پیسوں کا بل بنا کر دے دے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں اسے نیند آگئی۔
دوسرے دن اسکول کی چھٹی تھی۔ خالد اطمینان سے پڑا سوتا رہا حتیٰ کہ کمرے میں دھوپ پھیل گئی اور اس کی تپش جب خالد کو اپنے چہرے پر محسوس ہوئی تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ گھڑی نو بج کر دس منٹ بجا رہی تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”کمال ہے۔“ اس نے سوچا۔ ”امی تو چھٹی کے دن بھی نہیں بخشتی تھیں اور آج یہ عالم ہے کہ سوانو بجنے کو آئے امی نے اٹھا کر کوئی کام نہیں بتایا۔ ہو نہ ہو امی نے بل دیکھ لیا ہے اور اب وہ زیادہ رقم خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ایں مگر یہ کیا؟ اس کے بستر کے قریب کہانیوں کی وہ کتاب پڑی تھی جو وہ رات کو پڑھ رہا تھا اور کتاب میں سے کوئی گلابی گلابی کاغذ جھانک رہا تھا۔ اس نے بے اختیار کاغذ کتاب میں سے کھینچ لیا۔ یہ اسی طرح کا بل تھا جیسا اس نے امی کے نام بنایا تھا۔ مگر اب تحریر اس کے ہاتھ کی نہیں بلکہ امی کی تھی۔ وہ حیرت اور قدرے خوف کے ساتھ بل کو پڑھنے لگا۔

خالد کنسٹرکشن کمپنی
بنام خالد بیٹا  تاریخ: ۳جنوری ۱۹۸۶ء
تعداد تفصیل نرخ روپے    رقم روپے
کئی بار  تم بیمار پڑے، میں نے رات بھر جاگ کر تمہاری تیمارداری کی کچھ نہیں کچھ نہیں
بلا ناغہ تمہارے لیے کھانا پکایا کچھ نہیں کچھ نہیں
کئی بار تمہارے کپڑے سیئے کچھ نہیں کچھ نہیں
بے شمار بار تمہارے کپڑے دھوئے کچھ نہیں کچھ نہیں
بے شمار بار تمہارے کپڑے استری کیے کچھ نہیں کچھ نہیں
نوٹ: کسی شکایت کی صورت میں منیجر سے رجوع کریں کل میزان کچھ نہیں

بل کو ہاتھ میں لیے خالد بڑی دیر بیٹھا رہا۔ دو الفاظ اس کی نظروں کے سامنے ناچ رہے تھے۔ ”کچھ نہیں“، ”کچھ نہیں“ پھر ان دو الفاظ کی جگہ دوسرے دو الفاظ نے لے لی ”دو سوپندرہ روپے“پھر اسے یوں لگا جیسے بل پر اس کی امی کی تصویر ابھر آئی ہو اسے محسوس ہوا امی بہت روئی ہیں۔ ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور چہرے سے ناراضگی ظاہر ہو رہی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے امی کے ہونٹ ہل رہے ہوں اور وہ کہہ رہی ہوں۔
”بیٹے تمہیں دو سوپندرہ روپے چاہئیں؟ لے لو!“
خالد تڑپ کر بستر سے اٹھا اور تقریباً دوڑتا ہوا دوسرے کمرے میں پہنچا۔ امی اس کے چھوٹے بھائی کو سلانے کی کوشش کررہی تھیں۔ وہ دروازے پر ہی ٹھٹک گیا۔
”امی!“
خالد کے ہونٹوں سے صرف یہی ایک لفظ مشکل سے نکل سکا۔ اس ایک لفظ میں بڑی بے چارگی تھی، ندامت کا احساس تھا۔ امی نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا پھر منے کو تھپکنے میں مصروف ہو گئیں۔
”امی!“ خالد پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ ”امی مجھے معاف کر دیجیے، میں اب کبھی اس طرح نہیں کروں گا۔ مجھے اسکول میں دوستوں نے بہکایا تھا۔ امی مجھ سے بڑی غلطی ہوئی…… امی!“ خالد ہچکیاں لینے لگا۔ اس نے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے۔
اسی وقت کسی کا ہاتھ اسے اپنے سر پر محسوس ہوا۔ یہ امی تھیں ……پھر امی نے اسے کھینچ کر گلے سے لگا لیا۔ امی بھی رو رہی تھیں اور گھٹی گھٹی آواز میں کہہ رہی تھیں۔
”میرے بچے اللہ تجھے ہر شر سے محفوظ رکھے، ہر شر سے…… ہر شر سے۔“
٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top