لالچی کہیں کا
اعظم طارق کوہستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لالچی کہیں کا۔‘‘ میں بڑبڑایا۔ آج پھر وقاص مجید لالہ کا بھاری بھر کم ٹوکرا اٹھائے گلی میں داخل ہورہا تھا۔’’صرف اور صرف ایک ٹافی کے حصول کے لیے یہ وقاص کا بچہ مجید لالہ کا ٹوکرا اٹھایا کرتا تھا۔ مجید لالہ ۵۵ سے ۶۰ سال کی درمیانی عمر کے ایک سنجیدہ قسم کے بزرگ تھے جو متوسط زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی کمر میں اکثر درد رہتا تھا مگر مجھے صرف شک ہی نہیں بلکہ یہ یقین تھا کہ وقاص کو ان کی کمر سے زیادہ دودھ والی ٹافی عزیز ہے۔
*۔۔۔*
’’یار یہ وقاص کچھ زیادہ لالچی نہیں ہوگیا۔‘‘ اسکول کے وقفے کے دوران صہیب نے کہا تو میں بے اختیار چونک اٹھا۔
’’قسم سے یار۔۔۔ ! میں بھی کل یہی سوچ رہا تھا۔۔۔‘‘ میں نے جذباتی ہوتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’اس کی حرکتیں کچھ زیادہ مشکوک ہوچکی ہیں اور تو اور اب اس نے محلے کے بچوں کو پڑھانا بھی شروع کر دیا۔‘‘
’’اچھا! یہ تو تم نے نئی بات بتائی۔۔۔ میں تو اس کی کلاس والی حرکت کا ذکر کررہا ہوں۔۔۔ صرف اور صرف اساتذہ کی نظروں میں بڑا بننے کے چکر میں وہ ان کے کام بھاگ بھاگ کر کرے گا۔ میں نے دنیا میں بہت لالچی لڑکے دیکھے ہیں مگر اس لڑکے میں بات ہی کچھ اور ہے مجھے کبھی کبھار لگتا ہے یہ صدر کا کوئی خاص آدمی ہے۔ صہیب نے حسب معمول چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔
غرض اس وقت سبھی لڑکے وقاص کے خلاف بھرے پڑے تھے اور ابھی جیسے انہیں اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تھا۔
میں یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ وقاص اور صہیب کی آپس میں تکرار ہوتی رہتی ہے۔ لیکن کم از کم میں اپنی رائے کے بارے میں مضبوط دلائل رکھتا تھا۔
لوگوں کو مدد ہم بھی فراہم کرتے تھے۔ اسکاؤٹ کا ایک عدد پھول ہمارے شانوں پر بھی لگا تھا۔ مگر یوں ہر چیز کے لیے حریصوں کی طرح دوڑنا بہرحال کسی شریف انسان کے طور طریقے نہیں ہوسکتے۔
میں روزانہ تلاوت قرآن بھی کرتا تھا اور شاید ہی کبھی نماز قضا کی ہو۔ اس لیے نیکی کا جذبہ ہمارے اندر بھی ہوتا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ شاید وقاص اپنی لالچی طبیعت کی بنا پر اس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔ وقاص میرا اچھا دوست تھا اور یہ میرے لیے کسی طور پر قابل برداشت نہیں تھا کہ میں اپنے دوست کی اصلاح نہ کروں۔
ہاں! میں اسے منع کروں گا اور اسے کہوں گا: ’میرے پیارے دوست! کسی کا منصب اور مقام کو دیکھتے ہوئے۔۔۔ تمہارا یوں ہرکس و ناکس کی مدد کرتے ہوئے اس کے گلے پڑ جانا مناسب عمل نہیں۔۔۔ ‘
لیکن۔۔۔!
اگر اس نے مجھے کوئی سخت جواب دیا۔۔۔ مثلاً وہ کیا کہے گا۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہ۔۔۔
’تمہیں کیا تکلیف ہے۔۔۔ ہاں مجھے دودھ والی ٹافی پسند ہے۔ ہاں مجھے استاد بن کر رعب ڈالنا اچھا لگتا ہے۔ میں اس لیے بچوں کو پڑھاتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔ اور اگر وہ مجھ سے یہ بھی کہہ دے کہ میں ٹیچروں کی بھاگ بھاگ کر حکم کی تعمیل اس لیے کرتا ہوں کہ میں ان کی نظر میں رہوں۔۔۔ وہ مجھے اچھے نمبر دیں اور میں کم پڑھائی کرتے ہوئے زیادہ نمبر لے سکوں‘۔۔۔ اور پھر اگر وقاص نے قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے ٹھینگا دکھایا تو میرا کیا منہ رہ جائے گا۔‘‘
نہیں۔۔۔ اگر میں اسے کہوں کہ ’میرے دوست تمہارے اس رویے کی وجہ سے لوگ تم سے بدظن ہوجائیں گے۔ لوگ تمہیں بھوکا، لالچی اور نجانے کن کن ناموں سے پکاریں گے اور ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ تمہیں چھوڑ کر ایک دن چلیں جائیں‘۔۔۔
ہاں اب کی بار شاید وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ اسے لگے کہ وہ کچھ غلط کررہا ہے۔ غرض اسی قسم کے خیالات میں الجھا مختلف جملے ذہن میں سوچتا رہا۔۔۔ میں نے اپنے دوست وقاص کو ایک بار اپنے خیالات سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ اسی غرض کے لیے، جمعرات کے دن میں اس کا اسکول میں پہلے پہنچ کر انتظار کرتا رہا۔ مگر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ آج وقاص صاحب اسکول ہی نہیں آئے۔ بھلا ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی آپ کسی کام کو کرنے لگتے ہیں، اس میں خواہ مخواہ رکاوٹ آجاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ رکاوٹیں ہمیں خواہ مخواہ لگتی ہوں گی۔۔۔ لیکن اس میں بھی بہرحال اﷲ کی مصلحت کار فرما ہوتی ہوگی۔
اسکول سے واپسی پر بجائے میں اپنے گھر جانے کے۔۔۔ وقاص کے گھر چل پڑا۔ اسعد کا گھر بھی وقاص کے پڑوس میں تھا۔ اس لیے اسعد کو میں چھٹی کے بعد اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ اسعد میری کلاس میں پڑھتا تھا۔ وہ زیادہ لائق تھا اور نہ نالائق۔۔۔ میری اس سے خاص دوستی بھی نہیں تھی۔ لیکن اب ساتھ چلتے ہوئے سوچنے لگا کہ مجھے اسعد سے بات کرنی چاہیے۔۔۔
’’اچھا اسعد! یہ بتاؤ کہ وقاص کیسا لڑکا ہے۔ ‘‘ میں نے راستہ جلدی کٹنے کی غرض سے پوچھا۔ لیکن جواب میں وہ معنی خیز نظروں سے میری جانب دیکھنے لگا ہو۔ مجھے لگا کہ شاید وہ میری بات اچھی طرح نہیں سمجھا۔
’’میرا مطلب ہے کہ اس کا رویہ تم لوگوں کے ساتھ کیسا ہے؟ مطلب یہ کہ وہ تم لوگوں کی بھی بھاگ بھاگ کر خدمت کرتا ہے۔۔۔ کسی لالچ میں۔‘‘
میں نے لفظ لالچ کو بہت آہستگی سے ادا کیا۔۔۔ اسعد نے اپنی رفتار کم کی۔۔۔ شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
’’وقاص کے بارے میں میرے خیالات اچھے نہیں تھے۔‘‘
’’واؤ۔۔۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ اس کا مطلب تھا کہ وقاص میں واقعی خامی ہے۔ لیکن دوسرے لمحے میں چونک سا گیا۔
’’اسعد تم نے ’’تھے‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اس کا مطلب تم اب اپنے خیالات بدل چکے ہو، وقاص کے بارے میں۔‘‘ یہ الفاظ میں نے بڑی مشکل سے ادا کیے۔ ایک لمحے کے لیے مجھے اپنی امیدوں اور خیالات پر پانی پھرتا ہوا نظر آیا۔
’’جی۔۔۔ تمہیں اس قدر حیرانی کیوں ہو رہی ہے۔ وہ ہمارا کلاس فیلو ہے۔ اسے تو تم جانتے ہو وہ کیسے سب کی خدمت میں پیش پیش ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں دراصل۔۔۔‘‘ میں گڑبڑا سا گیا ۔
’’خیر چھوڑو۔۔۔ جب گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ اس وقت میں صبح سویرے کرکٹ کھیلنے جایا کرتا تھا۔ میں روز ۱۲ بجے گھر آتا اور کھانا کھاتا۔ اس دوران راستے میں میری ملاقات وقاص سے لازماً ہوتی۔ وہ مجھے ایک چاکلیٹ دیتا۔۔۔ وہ کھوپرے والی چاکلیٹ مجھے آج بھی یاد ہے اور اس کا ذائقہ بھی میں کبھی نہیں بھولا۔‘‘اسعد نے کھوئے ہوئے لہجے میں اپنی بات کا تسلسل جاری رکھا۔
’’ان دنوں چاکلیٹ دینا اس کا معمول تھا۔ وہ چاکلیٹ صرف مجھے ہی دیا کرتا تھا۔‘‘ تو تم نے اس چاکلیٹ کی وجہ سے اپنے خیالات بدلے ہیں۔‘‘ میں طنزیہ مسکرایا۔ مگر اسعد نے میری اس بات کی تردید کردی۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔ آگے سنو۔ میرے ابو شام کے وقت کام سے آیا کرتے تھے۔ ایک ماہ گزر گیا۔۔۔ ایک دن میں حسب معمول گھر آیا تو گھر میں کھانا نہیں پکا تھا۔
میں نے امی سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ ’وقاص بیمار تھا۔‘
’’وقاص کی بیماری کا کھانے سے کیا تعلق؟‘‘ میں نے حیران ہو کر امی سے پوچھا تھا۔
’’تمہیں تو اپنے گھر کا ہوش نہیں کہ اگر میں گھر پر نہ ہوں تو گھر کے لیے سبزی کون لائے گا۔ تمہارا وقاص دوست ہی روز ہمارے لیے سبزی لایا کرتا تھا۔ امی کی یہ بات سن کر میں سخت شرمندہ ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید وقاص میرا حقیقی بھائی ہے۔ اس دن سے میں اور وقاص بہت اچھے دوست ہیں۔
’’لیکن کیا تمہاری امی سبزی لانے کے بدلے اسے کچھ دیتی تھیں۔ میرا مطلب؟‘‘ اسعد میری بات سمجھ چکا تھا۔
’’ہاں میری امی روز اسے ایک عدد چاکلیٹ دیا کرتی تھیں۔۔۔ مگر خود دار وقاص وہ چاکلیٹ خود کھانے کے بجائے مجھے ہی دیا کرتا تھا۔‘‘ اسعد نے بات تو ختم کر دی لیکن مجھے اپنے خیالات میں زلزلے سے محسوس ہونے لگے۔ مجھے ایسا لگا کہ اگر اسعد نے وقاص کے بارے میں مزید اپنے خیالات کا اظہار کیا تو میں جو عزم لے کر اس کے گھر جا رہا ہوں وہ بکھر کر ٹوٹ جائے گا۔ اسعد نے مجھ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ میں وقاص سے کیوں ملنا چاہتا ہوں؟ لیکن میں نے اسے ٹال دیا۔
اسعد مجھے وقاص کا گھر دکھا کر خود اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ میں وقاص کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے ہی نکلا تھا کہ اندر سے آنے والی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
’’آپ کے بیٹے کو تو بس موقع چاہیے۔۔۔ وہ آپ سے بھی بڑا لالچی نکلا۔‘‘ لالچی کا لفظ سن کر مجھے اپنے دل میں فرحت بخش احساس ہوا مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے مرتے ہوئے شخص کو آکسیجن ماسک لگا کر اس کی جان بچائی ہو۔ اندر وقاص کی امی وقاص کے ابو سے مخاطب تھیں۔
’’آپ نے تو آفس سے آدھی چھٹی لی ہے وہ تو اسکول بھی نہیں گیا۔ کہہ رہا تھا کہ چاچو اکیلے گھر کی دیوار کی مرمت میں لگے ہوں گے۔ میں چلا جاتا ہوں۔‘‘
’’آخر گھر کی دیوار گری کیسے؟ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔ خیر میں جا کر دیکھتا ہوں۔‘‘
’’اور ہاں۔۔۔ یہ کھانا بھی اپنے لالچی بیٹے اور بھائی، بھابی کے لیے لے جانا۔‘‘
مجھے اچانک یاد آیا کہ وقاص کے چچا کی کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ وقاص سے بہت محبت کرتے تھے۔
’’ہاں۔۔۔ بیگم اﷲ تعالیٰ۔۔۔ ایسے لالچی بیٹے سب کو دیں۔‘‘
میں حقیقتاً حیرت سے اچھلتے اچھلتے رہ گیا تھا۔ ’’کتنے عجیب ماں باپ ہیں۔۔۔ چچ چچ۔۔۔ لالچی بیٹے پر اتنا فخر۔۔۔‘‘
لیکن اندر سے آنے والی آخری آواز نے میری زبان گنگ کر دی۔ دنیا میں لوگوں کو مختلف مواقع پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہوگا لیکن شاید زندگی میں شرمندگی کا یہ میرا وہ موقع تھا جس نے مجھے خود بھی بدل کر لالچی بنادیا۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کے لالچ میں ہمارے بیٹے نے سب کومات دے دی۔ اس نے دنیا کے بجائے آخرت کی لالچ کی ہے جو کہ لالچ کرنے کا حق ہے۔‘‘
*۔۔۔*