skip to Main Content

بھورا پاؤچ

فاطمہ نور صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر وہ کوئی بے جان بیگ تو نہیں، ایک انسان ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

لال چھت والے اسکول کے اردگرد وسیع و عریض میدان پھیلا ہوا تھا۔ ایک جانب بنے مینار پر لگی گھڑیال کی سوئی جب ایک سے قریب ہوئی تو جالی کا بنا بڑا سا دروازرہ کھول دیا گیا۔ باہر جمع بڑی بڑی بسیں آہستہ آہستہ اندر آنے لگیں۔

اسماعیل نے بے چینی سے دوسری منزل کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ مس سلمیٰ تھیں کہ آخری پانچ منٹ میں بھی پورے زور و شور سے پڑھا رہی تھیں۔ اسے اپنی نیلے رنگ کی وین دور سے دکھائی دے رہی تھی جس کی خالی نشستوں پر ابھی کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ اس نے غیر محسوس انداز میں ڈیسک کے نیچے رکھے بیگ کو جانے کے لیے تیار کرلیا اور گردن موڑ کر کلاس کا جائزہ لیا۔ چھوٹا علی سب سے آگے والی قطار میں چشمہ ناک پر ٹکائے، دھیان سے مس سلمیٰ کی خشک باتیں سن رہا تھا۔

ؔ ’’گیم آن ہے۔‘‘ اسماعیل نے زیرِ لب کہا اور بیگ کے اسٹریپ کو مضبوطی سے تھام لیا۔ چند ہی لمحوں بعد گھڑیال کا زوردار گھنٹہ بجا اور سارے ہی لڑکے کسی اسپرنگ کی طرح سیٹوں سے اچھل پڑے۔ کسی کا آدھا بستہ کندھے پر تھا کسی کا پورا، مس سلمیٰ کی لائن بنانے کی ہدایت کو سب ہی نظر انداز کرتے کمرۂ جماعت سے نکل کر نچلی جانب بھاگے۔

’’آج کھڑکی والی سیٹ میری ہے۔‘‘ اسماعیل نے پیچھے دیکھے بغیر نعرہ لگایا اور دھڑ دھڑ کر کے اُترتا ہوا اسکول کی عمارت کے مرکزی دروازے تک پہنچ گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے چھٹی جماعت کا پورا ریلا چلا آرہا تھا ، اب دیکھنا یہ تھا کہ کون مانیٹر سے بچ نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے۔

’’ اسماعیل نوے ڈگری کے اینگل پر۔‘‘ پیچھے کہیں سے اسے اپنے دوست حسن کی آواز سنائی دی، وہ اسے متوقع مانیٹر کی جاے وقوع بتا رہا تھا۔ ا س نے بھاگتے بھاگتے ہی اپنا رخ تبدیل کیا لیکن قسمت۔۔۔ کسی نے اُچک کر اس کا بیگ پیچھے سے پکڑا اور شررر کی آواز کے ساتھ زپ کھلتی چلی گئی، دوسری طرف حسن بھی اس غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہیں تھا، وہ پٹاخ سے اسماعیل کے پیروں کے پاس گرا۔

’’جی؟‘‘ ان کے سروں پر حد سے زیادہ لمبے اور اتنے ہی خوفناک ہیڈ مانیٹر کھڑے تھے۔ ’’کون سی ٹرین نکل رہی ہے آپ کی؟‘‘ دونوں کو انتہائی خشمگین نگاہوں سے گھورا گیا۔

’’وہ۔۔۔ ہماری سیٹ۔۔۔‘‘ حسن منمنایا، اسماعیل نے اس کو زوردار کہنی مارنا چاہی لیکن ہیڈ مانیٹر صاحب سُن چکے تھے۔

’’چلیں کھڑے ہوں یہاں پر۔۔۔ اور جب پوری بس بھر جائے گی، تب اس دروازے سے قدم باہر نکالیے گا۔‘‘ اُنھوں نے ان دونوں کو بستوں کی مدد سے ہی مجمع سے علیحدہ کیا۔ اسی لمحے اسماعیل کو ایک ٹوٹی پھوٹی لائن میں چلتا چھوٹا علی نظر آیا، آس پاس جمع سارے ہی مانیٹر مشفق نظروں سے اس لائن کو دیکھتے انھیں بغیر کچھ کہے باہر جانے دے رہے تھے۔

’’ لو بھئی ہو گئی آج بھی ہماری سیٹ گل۔‘‘حسن نے اپنا سر پیٹا۔

’’ تمھیں پیچھے سے آواز لگانے کی ضرورت کیا تھی۔‘‘ اسماعیل نے اس کے گلے کے گرد اپنا بازو گھمایا اور زور سے دبایا۔

’’اے چھوڑو۔‘‘ حسن نے ہاتھ مارے۔ ’’اپنا غصہ اس پر اُتارنا۔‘‘ اس نے گلا چھڑاتے باہر بس کی جانب اشارہ کیا۔چھوٹا علی کھڑکی کے پاس بیٹھ چکا تھا لیکن وہ لوگ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ دروازے کے پاس سے رش ختم ہونے لگا تو مانیٹر نے اُنھیں بھی باہر جانے کا اشارہ کیا، وہ دونوں مرے مرے قدموں سے چلتے وین کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اسماعیل کے بیگ کی زِپ اب بھی کھلی ہوئی تھی۔

اسکول کی اسٹوڈنٹ کاؤنسل بہت مضبوط تھی۔ تمام اصول و ضوابط طلبہ ہی بناتے تھے، جن کے مطابق بس میں ہر کلا س کے لیے کچھ نشستیں مخصوص تھیں۔ اتفاق سے ان کی وین میں ہفتم۔ ب کے صرف تین ہی لڑکے تھے اور شیشے والی سیٹ ایک۔ اس کا فیصلہ پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر طے پاتا۔ حسن اور اسماعیل آپس میں مک مکا کر لیتے لیکن وہ علی کو کسی قسم کی اہمیت دینے پر تیار نہیں تھے۔ چھٹی میں ا ن کی پوری کوشش ہوتی وہ اس سے پہلے بس میں پہنچ جائیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کی آپس میں کوئی خاص دشمنی تھی لیکن علی ان کی نظر میں کافی بیکار سی شخصیت رکھتا تھا، جس کی نظر کمزور تھی، قد چھوٹا تھا اور ان کی طرح کلاس کے ذہین و فطین لڑکوں میں شامل نہیں تھا۔ وہ آرٹ ٹیچر کو اعلیٰ قسم کے تجریدی نمونے بھی بنا کر نہیں دیتا تھا جس میں اسماعیل اور حسن دونوں ہی نمبر ون تھے اور نہ اس کے پاس نئے نئے پوکیمون کارڈز اور کارٹون کرداروں سے وابستہ اشیا ہوتیں۔ اس لیے کھڑکی والی سیٹ پر صرف ان دونوں کا ہی حق تھا۔

وہ دونوں بے دلی سے آگے والی نشستوں سے ہوتے اپنی سیٹ کے پاس پہنچے۔ حسن پھر بھی آس پاس موجود جاننے والے لڑکوں کے سلام دعا کا جواب دے رہا تھا لیکن اسماعیل کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ ایسے حالات میں اسے علی کے برابر میں بٹھانا کوئی دانش مندی نہیں تھی اس لیے حسن خود ہی درمیان والی نشست پر بیٹھ گیا۔

وین کا انجن کھڑکھڑایا، اسماعیل اپنے بستے کی جانب متوجہ ہوا۔ زپ دوبارہ بند کرنے سے پہلے اس نے کتابوں کے اوپر رکھی اشیا کو ہاتھ لگا کر اچھی طرح اطمینان کیا۔ لنچ کے ڈبے کے ساتھ ساتھ اس کا کالا چمکتا اسٹیل کا پینسل بکس بھی اپنی جگہ پر موجود تھا۔ اس نے زِپ بند کی اور بیٹھ کر وین کی چھت کو گھورنے لگا۔

اسکول سے تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد وین پہلے گھر پر رُکی۔ آگے بیٹھا سلیمان تیزی سے اُٹھا اور اُترنے ہی والا تھا کہ نیچے دیکھ کر رک گیا۔ کنڈیکٹر بھائی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ سلیمان نے جھک کر کوئی چیز اُٹھائی اور ان کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا۔

اسماعیل کا دھیان اس جانب نہیں تھا لیکن حسن نے اسے ٹہوکا دیا۔ ’’وہ دیکھو۔ یہ تمھارا ہے نا؟‘‘ اس نے بس کی اگلی جانب اشارہ کیا۔ کنڈیکٹر بھائی ایک بھورے پاؤچ کو ہوا میں لہرا رہے تھے کہ کس بچے کا ہے؟

’’چھوڑو اختر۔ کل آفس میں جمع کروا دینا۔‘‘ جب کسی نے اٹھ کر اس کی ملکیت ظاہر نہیں کی تو اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھے انکل نے اپنی شلوار کا پائنچہ اوپر کرتے ہوئے کہا اور بریک سے پاؤں ہٹا دیے۔

’’ہاں۔ یہ میرا ہے۔‘‘ اسماعیل نے دوبارہ خلا میں گھورتے ہوئے جواب دیا۔

’’او بھائی تو جا کر لیتے کیوں نہیں۔‘‘ حسن نے حیرت سے اسے دیکھا۔

’’ مجھے ہوا نہیں لگ رہی، میرا سانس بند ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے نقاہت زدہ انداز میں ہاتھ سے اپنے گلے کو چھوا ’’ مستقبل کا ایک عظیم مصور آج اپنی جان اسکول کی وین میں کھو دے گا۔‘‘ ڈرامائی انداز میں آنکھیں بند کر کے اس نے گردن سے خر خر آواز نکالی اور گردن ایک جانب ایسے ڈھلکائی جیسے واقعی بے ہوش ہو گیا ہو۔

حسن نے زوردار جوتا اس کی ٹانگ پر رسید کیا اور خود اُٹھ کر آگے چلا گیا۔ اسماعیل کو درد کے مارے اب مجبوراََ آنکھیں کھولنا پڑیں۔ اس نے کنڈیکٹر بھائی سے بھورا پاؤچ لیا اور واپس سیٹ پر آگیا۔

’’ یاد رکھو۔۔‘‘ حسن نے پاؤچ کو ہاتھ میں گھما گھما کر اچھی طرح دیکھنے کے بعد اسے کھولتے ہوئے کہا۔ ’’جو لڑکا اپنے کلرز کی حفاظت نہیں کر سکتا۔‘‘ ا ب اس نے اندر سے ایک نوکیلی رنگین پینسل نکالی اور اسے پیچھے سے پکڑا۔’’ وہ کبھی ماہر کارٹونسٹ نہیں بن سکتا۔‘‘ اس نے دانش مندانہ انداز میں کہتے ہوئے انتہائی غیر دانش مندانہ حرکت کی۔ ہاتھ کو تیز رفتاری سے گھماتے وہ کسی خنجر کی طرح کلر کو اسماعیل کی آنکھ کے پاس لایا اور بالکل نزدیک پہنچ کر روک دیا۔ اسماعیل نے آنکھ بھی نہیں جھپکی۔ حسن نے ایک لمحے کے لیے اپنے عظیم قول اور خطرناک فعل کے اثر ہونے کا انتظار کیا۔ جب کوئی ردِ عمل نظر نہیں آیا تو خود ہی پیچھے ہو کر سکون سے بیٹھ گیا۔

اسماعیل کھلکھلا کر ہنسا: ’’ تم نے ایسے ہی اتنی محنت کی، اس پرانے پاؤچ میں صرف چھوٹے چھوٹے کلر موجود ہیں جنھیں میں استعمال نہیں کرتا۔ جب میں اُترنے لگتا تو انکل سے لے لیتا۔‘‘

’’ ویسے تو تمھارے اس نئے نویلے پینسل بکس کو کوئی چھو بھی لے تب تو تم کافی جذباتی ہو جاتے ہو۔‘‘ حسن نے منھ بنا کر بھورے پاؤچ میں بھرے سامان کو باہر نکال کرپھیلایا۔

’’ تو وہ پانچ سو روپے کا خریدا گیا فرسٹ ورژن پینسل بکس ہے اور یہ برسوں سے استعمال ہوتا عام سا پاؤچ۔‘‘

’’کتنا پرانا ہے؟‘‘ حسن نے اس کا معائنہ شروع کیا۔

’’پتا نہیں، پہلے بھائی استعمال کرتے تھے اور اس سے پہلے آپا۔‘‘

’’واقعی؟ کافی اچھی حالت میں ہے ایک اسکریچ تک نہیں پڑا۔‘‘

’’ہاں۔‘‘ اسماعیل نے لاپروائی سے کہہ کر نظر اٹھائی تو علی کو مسکراتا پایا۔ وہ شاید ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اسماعیل نے کچھ کہنے کے بجاے قدرے ناپسندیدگی سے اسے گھورا۔ علی نے جلدی سے اپنی گردن موڑ لی۔

’’سنو اسماعیل۔‘‘ حسن اب پاؤچ کو آنکھوں کے نزدیک لے آیا۔ ’’اس پر یہ نام کتنے اچھے فونٹ میں لکھا ہے، ہم اسے اپنے فنِ خطاطی والے پروجیکٹ میں استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

’’کون سا نام؟‘‘ اسماعیل اب متوجہ ہوا۔اس نے حسن کے ہاتھ سے پاؤچ لیا۔ بھوری سطح کی نچلی جانب ایک ننھی سی سنہری پلیٹ آویزاں تھی، انداز واقعی خوب صورت تھا لیکن لکھا کیا تھا اس کے لیے اسماعیل کو غور کرنا پڑا۔

’’اُف میرے خدایا۔‘‘ لکھے گئے حروف اس کی سمجھ میں آنے لگے تو وہ چِلّا اُٹھا۔ حسن اور علی دونوں نے ہی بیک وقت سوالیہ انداز میں اس کی حیرت کو دیکھا، لیکن اسماعیل اُنھیں نظر انداز کرتا بس بار بار اس سنہری پلیٹ کو پڑھ رہا تھا۔

*۔۔۔*

گراؤنڈ میں ہر طرف ہی شور بپا تھا۔ چھوٹے بڑے ہر عمر کے لڑکے مختلف گروہوں کی صورت میں جمع تھے۔ سب ہی کسی نہ کسی سرگرمی میں شریک تھے۔ علی اسماعیل اور حسن کے گھر ایک دوسرے سے نسبتاََ فاصلے پر تھے لیکن یہ علاقے کا واحد میدان تھا جو کافی حد تک سرسبز و شاداب تھا۔ اس لیے شام میں ہر ایک یہیں جمع ہوتا تھا۔

آج کی شام وہ اور ان کے دیگر دوست اسماعیل کا نیا ایجاد کردہ کھیل کھیل رہے تھے۔ علی اندر کی جانب بنے ایک چھوٹے دائرے میں کھڑا تھا۔ باقی تمام لڑکے گھیرا ڈالے ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اس کے گرد تیزی سے گھوم رہے تھے۔ ہر تھوڑی دیر بعد کسی لڑکے کو آگے بڑھ کر علی کے سر پر چپت رسید کرنی ہوتی، جب کہ علی کا کام تیزی سے جھک کر اپنے آپ کو بچانا تھا۔ مار کٹائی کے کھیل ان سب کو ویسے ہی بے انتہا مرغوب تھے۔ آخر کے پندرہ منٹ گزارنے کے لیے اسماعیل کے پیش کردہ اس کھیل کو سب ہی نے ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن سوال یہ تھا کہ اندرونی دائرے میں کون سب سے پہلے کھڑا ہوگا۔ حسبِ معمول علی کو آگے کر دیا گیا۔ ایسا اکثر ہی ہوتا تھا۔ سارے عجیب و غریب کام پہلے علی ہی سے کروائے جاتے اور وہ چپ چاپ کر بھی دیتا۔ کسی نے آج تک اس بات پر زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔

اب بھی جب علی کی مار کھانے کی باری اختتام پذیر ہوئی تو کئی لوگو ں کا کھیلنے کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ یوں گھر واپس جانے کی جلدی میں کسی اور کو اس دائرے میں کھڑا نہیں ہونا پڑا۔

اسماعیل بھی جلدی جلدی پیڈل پر پاؤں مارتا گھر کے قریب پہنچا تو اسے اپنے ابو کی گاڑی گلی کے کونے پر نظر آئی۔ اسے دیکھ کر اُنھوں نے بریک لگائے۔ ’’اسماعیل ہمارے ساتھ چلنا ہے؟‘‘ چاچو نے اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا۔ کوئی سوال کیے بغیر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی سائیکل کونے پر کھڑے گارڈ کے حوالے کر کے پچھلی جانب سوار ہوگیا۔ اسے معلوم تھا وہ کہاں جا رہے ہیں۔ اس کے ابو انجینئر تھے اور اپنے کام کے سلسلے میں اکثر صحرائی علاقوں کا سفر کرتے تھے۔ کچھ دنو ں پہلے ایسے ہی کسی کام کے دوران ان کے پاس موجود بیگ کی سلائیاں نچلی جانب سے کھل گئیں۔ کئی اہم کاغذات گر کر غائب ہوگئے۔ ابو اور ان کی کمپنی کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔آج صبح چاچو نے ناشتے کی میز پر ابو کو مشورہ دیا کہ وہ ایک اعلیٰ قسم کا چمڑے کا بیگ خرید لیں۔ کیونکہ ان کا کام حساس نوعیت کا ہے ،اس لیے دوبارہ ایسا واقعہ پیش آیا تو ان کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ اس وقت وہ بیگ کی خریداری کرنے ہی جارہے تھے۔ گاڑی ایک عالیشان دو منزلہ عمارت کے سامنے جا کر رُکی۔ وہ ایک جانب سے مکمل شیشے کی تھی اور اس کی پیشانی پرالیکٹرونک بورڈ آویزاں تھا جس پر اس دُکان کی اشیا کے اشتہار مسلسل چل رہے تھے۔ اسماعیل اتنی زبردست قسم کی دکان پر پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ اندر کا ماحول اے۔سی کی خنکی لیے خاموش سا تھا، حالانکہ کافی لوگ خریداری کر رہے تھے لیکن عام دکانوں کی نسبت یہاں کوئی زور زور سے بول نہیں رہا تھا۔ اسماعیل کیش کاونٹر کے پاس سے گزرا تو سیلزمین ایک کالے رنگ کے بیلٹ کو انتہائی نفاست سے ٹشو میں لپیٹ کر خوب صورت سے ڈبے میں رکھ رہا تھا۔ پھر اسے گاہک کے حوالے کر دیا گیا۔

’’لو بھلا بیلٹ کو اس قدر پیک کر کے دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ اسماعیل نے د ل ہی دل میں سوچا اور اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔ ہر جانب بڑے بڑے شیشے کے شو کیس تھے۔ ان میں مختلف چمڑے کی اشیا سجی ہوئیں تھیں۔ اسماعیل نے آگے بڑھ کر دیکھا تو لڑکوں کی دلچسپی کا کافی سامان تھا۔ جوتے، بیگ، والٹ، گھڑیاں، بیلٹ، ڈائریاں۔۔۔

’’چاچو وہ کتنے کا ہے؟‘‘ اس نے اوپر کی جانب سجے ایک بٹوے کی جانب اشارہ کیا۔ عید آنے والی تھی اور عیدی کی حفاظت کے لیے ایک بٹوے کی اشد ضرورت تھی۔

چاچو نے سر اُونچا کر کے قیمت کا کارڈ دیکھا اور مسکراے: ’’ تین ہزار پانچ سو نوے۔‘‘

اسماعیل کا منھ کھل گیا: ’’واقعی میں؟‘‘ چاچو مزے سے مسکراتے ابو کے ساتھ ایک طرف جانے لگے تو اس نے آستین پکڑ کر روکا: ’’لیکن اتنی سی چیز اس قدر مہنگی کیوں ہے؟‘‘

’’کیونکہ جب تم پچیس سال کے ہوجاؤ گے۔ تب بھی یہ صحیح سلامت تمھارے پاس موجود ہوگا۔‘‘ اسماعیل نے ناسمجھنے والے انداز میں اُنھیں دیکھا۔

’’ مطلب یہ کمپنی اس قدر اعلیٰ پاے کی اشیا بناتی ہے کہ ان کی برسوں کی گارنٹی ہوتی ہے۔ ان کا کام بے انتہا معیاری اور قیمتی ہوتا ہے۔‘‘

چاچو اور ابو دونوں مختلف بیگز کو جانچنے میں مصروف ہوگئے، اسماعیل اوپر نیچے گھومنے لگا۔ روشنیوں کے ہالوں میں رکھی چیزیں خوب صورت ہوں یا نہیں ان کی قیمت ضرور زیادہ تھی اور لوگ لے بھی رہے تھے۔ شاید چاچو صحیح کہہ رہے تھے۔ اہم بات ان کی شکل نہیں معیار تھا۔ وہ لوگ بھی جب ابو کا بیگ لے کر گھر پہنچے تو دیر تک ابو اور چاچو اس کے فوائد کا ذکر کرتے رہے۔

*۔۔۔*

وین سے اُترتے ہوئے بھورا پاؤچ اس کے ہاتھ میں تھا، حسن کے دریافت کرنے کے باوجود وہ اسے اپنی حیرت کی وجہ نہیں بتا سکا۔

’’بھائی؟‘‘ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ کھانے کے کمرے کی جانب دوڑا۔ حسبِ توقع وہ میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ’’آپ کو یہ پاؤچ کس نے دیا تھا؟‘‘

’’ہم م م۔۔۔ مجھ سے پہلے یہ آپا کا تھا، اُنھیں شاید دادا جان نے دیا تھا لیکن مجھے یاد نہیں۔‘‘

دادا جان؟ ان کا تو کافی سال پہلے انتقال ہو چکا تھا اب وہ کس سے پوچھے۔

’’ امی آپ کو پتا ہے دادا جان کو یہ پاؤچ کہاں سے ملا تھا؟‘‘ اب وہ باورچی خانے میں گھسا۔ وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔ ’’میرے خیال میں یہ ان کے کسی عزیز نے انہیں تحفتاً دیا تھا۔‘‘

’’امی یہ دیکھیں۔‘‘ اس نے جوش سے ان کے ہاتھ میں پاؤچ پکڑایا اور سنہری میٹل کی پلیٹ کی جانب اشارہ کیا۔

’’BANdit؟‘‘ امی نے اس پر لکھے الفاظ پڑھے اور ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

’’امی یہ اسی دکان کا ہے جہاں سے ابو نے اپنا نیا بیگ خریدا ہے۔‘‘

’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے اسماعیل؟ ‘‘ بھائی اس کے پیچھے پیچھے آگئے تھے۔ ’’ یہ تو عام سا پاؤچ ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں ۔ اس پر دُکان کا نام درج ہے اور اس نام کی دنیا بھر میں ایک ہی کمپنی ہے۔‘‘

’’اچھا رکو میں اس کی ویب سائٹ چیک کرتا ہوں۔‘‘ سارہ آپا بھی آگئیں۔ بھائی نے موبائیل کی اسکرین کو انگلی سے کئی دفعہ چھوا۔ اور پھر رُک کر کچھ حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ’’واہ!‘‘ تھوڑی دیر پڑھنے کے بعد وہ مسکراے اور اسکرین کا رخ امی کی جانب کیا۔

’’دو ہزار تین سو اسی۔‘‘ اسکرین پر اسی پاؤچ کی تصویر تھی اور نیچے قیمت درج تھی۔ سبھی نے بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ جسے وہ سب بس فالتو اشیا رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ وہ اس قدر مہنگا نکلا؟‘‘

’’واقعی دیکھو، اتنے سال گزرنے کے باوجود یہ بالکل صحیح حالت میں ہے۔‘‘ رات میں کھانے کے وقت بھی آج کی اہم ترین خبر زیرِ بحث تھی۔ آپا نے اسماعیل کی ساری بے کار چیزیں نکال کر اس پاؤچ کو عقیدت سے میز پر سجا دیا تھا لیکن ابھی منھ بسور کر بولیں۔

’’ اس میں ہمارا کوئی خاص قصور نہیں ہے چاچو، دیکھنے میں تو یہ ایک عام سا بھورا پاؤچ لگتا ہے۔ اگر تھوڑا خوبصورت بھی ہوتا تو ہم اس پر زیادہ غور کر لیتے۔‘‘

’’بات خوبصورت یا عام ہونے کی نہیں۔‘‘ امی نے سنجیدگی سے آپا کو دیکھا: ’’ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اس پاؤچ کی اہمیت کا اندازہ اس کی قیمت معلوم ہونے کے بعد ہوا، جب کہ اتنے سال سے یہ اپنا کام بخوبی نبھا رہا تھا تو ہم نے کبھی غور نہیں کیا۔‘‘

’’ سچ یہ ہے کہ چاہے بے جان اشیا ہوں یا انسان، ہم اکثر انھیں اسی بات پر پرکھتے ہیں کہ وہ ظاہری طور پر کیسے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ ابو نے اپنے سامنے رکھی پلیٹیں سمیٹیں۔’’اصلی اور اعلا پاے کی چیزیں صرف اس لیے نظر انداز کر دی جاتی ہیں کیوں کہ نقلی ان سے زیادہ خوب صورت نظر آتی ہیں۔‘‘

اسماعیل نے اُنھیں ہاتھ دھونے کے لیے اُٹھتا دیکھا، اس کے ذہن میں اسٹیل کے کالے پینسل بکس اور بھورے پاؤچ کی تصویریں اُبھریں اور پھر پتا نہیں کیوں اس کا دھیان ایک دم علی کی جانب چلا گیا۔

*۔۔۔*

انکل ہر گھر کے سامنے رُک کر ہارن بجا رہے تھے۔ کچھ بچے فوراً نکل آتے اور کچھ کے لیے انتظار کرنا پڑتا۔ حسن اور اسماعیل خاموشی سے باہر دیکھ رہے تھے۔ وین کالونی میں بنے باقی گھروں کی نسبت ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے رکی۔ علی دروازے سے نکلتا وین کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہوا۔

’’السلام علیکم!‘‘ سیٹ کے پاس پہنچ کر وہ بستہ زمین پر رکھ ہی رہا تھا کہ اس کے کانوں میں آواز آئی۔ اس نے حیرانی سے سر اٹھایا۔ حسن بھی جمائی لیتے لیتے بیچ میں رُک گیا۔

’’کیسے ہو علی؟‘‘ اسماعیل مسکرایا۔ دونوں نے گھور کر اسے دیکھا۔

’’کیا ہوگیا؟ سلام تو کیا ہے۔‘‘ اسماعیل گڑبڑا گیا۔

’’ ہاں لیکن آج سے پہلے تم نے کبھی علی کو صبح صبح سلام نہیں کیا۔‘‘ حسن نے حیرت کے مارے انتہائی صاف گوئی سے کام لیا۔ اسماعیل نے سیٹ کے نیچے سے اس کی ٹانگ پر ایک زوردار جوتا رسید کیا۔

’’وعلیکم السلام ۔‘‘ علی نے صورتحال دیکھتے ہوئے جلدی سے جواب دیا اور بیٹھ گیا۔

حسن ٹانگ سہلاتا خونخوار انداز میں اسماعیل کی جانب پلٹا، ان دونوں کو ہلکے پھلکے انداز میں آپس میں گھتم گھتا ہوتے دیکھ کر اس بار علی ہنسا تو کسی نے اس کو ایسے نہیں دیکھا جیسے وہ کوئی ایکسٹرا ہو۔ اسماعیل گھر سے سوچ کر آیا تھا، ضروری نہیں جس دن علی کوئی ایسا کام کرے گا جس سے اس کی قابلیت کا اندازہ ہوگا ،جبھی وہ اس کو اہم شخصیت مانے گا۔ آخر وہ کوئی بے جان بیگ تو نہیں، ایک انسان ہے اور دنیا کا ہر انسان آسمان پر چمکتے تمام ستاروں سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

*۔۔۔*

اس تحریر کے مشکل الفاظ

منمنانا: ناک میں بولنا ؍ میٹل: دھات

مشفق: شفقت کرنے والا

تجریدی: سنگ تراشی (ایک فن)

نقاہت زدہ: کمزوری ؍ مرغوب: دل پسند

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top