بھولی ہوئی بات
انور کلیم
۔۔۔۔۔
استری کیے ہوئے کپڑے، پرانے اخبار میں لپیٹ کر گاہک کو دیتے ہوئے حبیب اﷲ اس سے کہنے لگا :
’’ دو تین روز میں ، میں ساتھ والی گلی میں شفٹ ہو رہا ہوں۔ آئندہ کوئی کام ہو تو وہیں ملیے گا۔‘‘
یہ گاہک بھی مستقل آنے والوں میں سے تھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلا کر ان کی بات کی تائید کی۔
حبیب اﷲ اپنے ڈرائی کلیننگ کے تمام کام کو اس موجودہ دکان سے شفٹ کرکے ساتھ والی گلی میں کرائے پر لی گئی نئی دکان میں جا رہا تھا اور گزشتہ کئی روز سے وہ اپنے ہاں آنے والے تمام گاہکوں سے یہی بات کہہ رہا تھا کہ وہ قریبی گلی میں شفٹ ہو رہا ہے۔
وہ کافی عرصے سے ڈرائی کلیننگ کی دکان چلارہا تھا اور اپنی محنت اور ایمانداری کی وجہ سے مشہور تھا۔
’’میرے خیال میں تم اب تک اپنے تمام گاہکوں کو بتا چکے ہو کہ تم ساتھ والی گلی میں شفٹ ہو رہے ہو؟‘‘
قریب ہی بیٹھے ہوئے پرائمری اسکول کے استاد مجیب نے ہنس کر کہا :
’’ہاں … مگر…‘‘ حبیب اﷲ اپنی بات پوری نہ کر سکا۔ کیوں کہ دروازے پر بوڑھی فقیرنی آکر خاموشی سے کھڑی ہو گئی تھی۔
حبیب اﷲ نے باقی کام چھوڑ کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک سکہ نکال کر فقیرنی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
حبیب اﷲ کے چھوٹے بیٹے سہیل نے کتاب سامنے سے ہٹا کر فقیرنی کو ایک نظر دیکھا اور پھر دوبارہ کتا ب پڑھنے لگا۔
حبیب اﷲ کی دوکان پر آنے والے تقریباً تمام ہی فقیر جانتے تھے کہ وہ انہیں خالی ہاتھ جانے نہیں دے گا اس لیے وہ آکر خاموشی سے کھڑے ہوجاتے تھے۔
’’ہاں تو کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘ مجیب صاحب نے پوچھا۔
’’ میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں واقعی اپنے تمام مستقل گاہکوں سے کہہ چکا ہوں کہ میں یہاں سے شفٹ ہو رہا ہوں… مگر بھائی، پتہ نہیں کیا بات ہے جو میرے ذہن میں کھٹک رہی ہے؟‘‘
حبیب اﷲ کے لہجے سے الجھن واضح تھی۔ مجیب صاحب ہنس پڑے۔ پرانے اخبار کو قریب ہی رکھتے ہوئے کہنے لگے ۔’’ایسا ہوتا ہے، دکان یا مکان تبدیل کرتے وقت ذہن میں کئی الجھنیں ہوتی ہیں۔‘‘
’’پریشانی خاص تو نہیں… لیکن میں محسوس کر رہا ہوں کہ میں کوئی بات بھول رہا ہوں۔‘‘ حبیب اﷲ نے کہا۔
مجیب صاحب نے سرگھما کر سہیل کی طرف دیکھا جو کبھی ان کی باتیں سننے لگتا کبھی کتاب پڑھنے لگتا۔
’’ہاں صاحبزادے ، سبق یاد کر لیا؟‘‘ مجیب صاحب نے اس سے پوچھا۔
’’جی جناب!‘‘ سہیل نے فوراً جواب دے دیا۔
مجیب صاحب روزانہ شام کو وہیں دکان میں اسے ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے وہ پھر سہیل کو پڑھانے لگے۔
دوچار دن بعد حبیب اﷲ پرانی دکان سے نئی دکان میں منتقل ہوا۔ مجیب صاحب بھی حسب معمول وہیں آکر بیٹھنے لگے اور سہیل کو وہیں پڑھانے لگے۔ اس نئی دکان میں آکر بھی ایک دن کسی بات پر حبیب اﷲ نے کہا :
’’مجھے اب بھی کبھی الجھن سی ہونے لگتی ہے کہ میں کوئی بات بھول رہا ہوں۔ ‘‘
مجیب صاحب نے ہنس کر کہا۔’’ تم نے خواہ مخواہ یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لی ہے کہ تم کوئی بات بھول رہے ہو۔‘‘
’’نہیں مجھے یقین ہے کہ میں واقعی کوئی بات بھول رہا ہوں۔‘‘
حبیب اﷲ کے چہرے پر الجھن دیکھ کر مجیب صاحب نے ہنس کر کہا:
’’فی الحال تو تم چائے منگوانا بھول رہے ہو۔‘‘
حبیب اﷲ بھی ہنس پڑا، کیوں کہ آج باتوں کی وجہ سے وہ مجیب صاحب کے لیے چائے منگوانا بھول گیا تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ گلی میں نئی دکان میں آکر وہ پڑوس کے ہوٹل سے کچھ دور ہو گیا تھا۔ حبیب اﷲ نے بک پر کچھ لکھنے والے اپنے بیٹے سہیل سے کہا وہ جا کر ہوٹل والے سے چائے لانے کا کہہ آئے۔
سہیل دکان سے چلا گیا مگر جلد ہی جب وہ واپس آیا تو اس کا چہرہ کسی جذبے یا خیال سے دمک رہا تھا۔
’’ابا جان ، آپ کہہ رہے تھے نا کہ آپ کوئی بات بھول رہے ہیں؟‘‘ سہیل کا لہجہ جذباتی تھا۔
’ ہاں۔‘‘ حبیب اﷲ نے کچھ حیران سا ہو کر کہا۔
مجیب صاحب نے بھی حیران ہو کر سہیل کی طرف دیکھا۔’’ میں بتا سکتا ہوں کہ آپ کیا بھول رہے ہیں یا بھول گئے تھے۔‘‘ سہیل نے پرجوش لہجے میں کہا۔
’’اچھا؟… تم بتا سکتے ہو کہ میں کیا بھول چکا ہوں۔‘‘ اس کے والد حبیب اﷲ نے حیرت سے کہا۔ اس کے لہجے میں کچھ بے یقینی بھی تھی۔
’’ ہاں میں بتا سکتا ہوں۔‘‘
’’ تو میاں صاحبزادے، بتا دو۔‘‘ مجیب صاحب نے بے قراری سے پوچھا۔
’’ ابا جان، آپ اپنے ہر گاہک کو بتاتے رہے ہیں نا کہ آپ نئی دکان میں شفٹ ہو رہے ہیں؟‘‘ سہیل نے اپنے والد سے پوچھا۔
’’ ہاں… بالکل ۔‘‘
’’ یہ اپ انہیں اس لیے بتاتے رہے ہیں کہ ان سے آپ کو پیسے ملنے کی امید تھی ۔ ہے نا؟‘‘ سہیل نے انہیں بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں بھئی … وہ میرے گاہک جو ٹھہرے۔‘‘
’’ ابھی جب میں چائے کا کہنے گیا تو …‘‘ سہیل نے اتنا کہہ کر ایک بار پھر غور سے ان کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا:
’’ باہر مجھے ایک فقیر ملا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم لوگوں کی دکان کیوں بند ہے… ابا جان، آپ گاہکوں کو تو بتاتے رہے ہیں کہ ہم دکان شفٹ کر رہے ہیں۔ لیکن اپنے ہاں آنے والے کسی فقیر کو نہیں بتایا…‘‘
سہیل کی بات پوری ہونے سے قبل ہی حبیب اﷲ کے ذہن میں روشنی سی چمکی۔
’’وہ … بالکل ۔‘‘ وہ کچھ شرمندگی ، کچھ اطمینان سے کہنے لگا۔
’’واقعی ، میں اپنے در پر آنے والے فقیروں کو بھول گیا تھا… دنیا میں ملنے والے فائدے کو تو یاد رکھا… آخرت میں فائدہ دینے والوں کو بھول گیا۔‘‘ پھر حبیب اﷲ آگے بڑھا ، اپنے بیٹے سہیل کی پیشانی چوم لی جس نے اسے بھولی ہوئی بات یاد دلا دی تھی۔
٭…٭…٭