skip to Main Content
بھول و بہار

بھول و بہار

محمد الیاس نواز

یعنی قصۂ سوا چار درویش

کردار: چاردرویش

ایک چوتھائی درویش

باہر سے آنے والا نامعلوم شخص

پس منظر

بہت زمانے پہلے مشہور بزرگ خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی میں بیمار پڑ گئے۔ان کا دل بہلانے کے لئے ان کے خاص شاگرد اور مرید امیر خسرو نے انہیں ایک قصہ سنایا۔یہ چار درویشوں کا قصہ تھا جو بہت مقبول ہوا۔یہی وجہ ہے کہ بعد میں میر امن دہلوی نے اس کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا،جو’’باغ و بہار‘‘کے نام سے مشہورہے۔

آج جب ہم نے ان درویشوں کو بلایا تو نہ صرف یہ چاروں حاضر ہوئے بلکہ اپنے ساتھ ایک چوتھائی(ون فورتھ)درویش اور کو بھی لیتے آئے۔آئیے ان کی سنتے ہیں۔

منظر

رات کا ماحول ہے۔چاردرویش اور پانچواں چوتھائی درویش پرانے بستروں پربیٹھے گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے حقہ پی رہے ہیں۔پانچوں کے سروں پر بڑی پگڑیاں اورجسم پرچوغے ہیں۔درمیان میں ایک چراغ جل رہا ہے جس کی ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔محفل میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔اتنے میں ایک درویش کو چھینک آتی ہے تو سارے چونک پڑتے ہیں،اور اس طرح گفتگو کاآغاز ہوتا ہے۔

(پردہ اٹھتا ہے)

پہلا درویش:’’اے خدا پرست درویشو!تمہیں علم ہے کہ فارغ وقت گزارنا کتنا مشکل کام ہے،اور ویسے بھی شام ہوتے ہی سو جانا کوئی مناسب عمل نہیں۔کیوں نہ ایک دوسرے کوگزرے وقت کی کوئی بات سنائیں۔اس طرح وقت گزاری بھی ہو جائے گی اور لکھنے والے کی بات بھی رہ جائے گی۔‘‘

دوسرا درویش:(پہلے درویش سے مخاطب ہو کر)’’بجا فرمایا تم نے درویش!۔۔۔مگرقصے سنانے کا وقت نہ ہمارے پاس ہے،نہ لکھنے والے کے پاس اور نہ پڑھنے والوں کے پاس۔۔۔لیکن ہم کسی عجیب سرزمین کی کوئی ایک آدھی عجیب بات ضرور ایک دوسرے کو سنا سکتے ہیں۔۔۔کیوں کہ اگرہم نے کچھ بھی نہ سنایا تو لکھنے والے کا منہ لٹک جائے گا۔۔۔تو اے عزیزدرویش!تم ہی ابتدا کرو کہ شمع تو ویسے ہی تمہارے سامنے رکھی ہے۔‘‘

سیر پہلے درویش کی

(پہلا درویش حقے کا کش لے کردھواں چھوڑتا ہے،پھر سامنے رکھے آبخورے سے پانی کا ایک گھونٹ حلق سے اتارتا ہے اور اپنی بات شروع کرتا ہے۔)

’’اے نیک دل درویشو!کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر کہاں تک میں کہوں اور کہاں تک تم سنوگے۔میرا آبائی ملک اورنگی ٹاؤن ہے اور پیشہ کئی پشتوں سے باتیں بنانارہا ہے۔ایک عرصہ ہوا کہ میرا گزر زمین کے ایک عجیب خطے پر ہوا۔یہ خطہ باورچیوں کی سرزمین تھا۔اکثر لوگوں کا پیشہ کھانا پکانا تھا۔یہاں باورچیوں کے لئے بہت بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئی تھیں۔جن میں ماہر باورچی اپنے مددگار باورچیوں کے ساتھ بڑے بڑے کڑاہوں میں کھانا پکاتے۔۔۔چاروں طرف اونچائی پر نصب کر سیوں پر سیکڑوں ملکی اور غیر ملکی انہیں دیکھتے اور سیکھتے۔مگر خدا جانے کہ یہ وہاں کے باورچیوں کی عادت تھی یا بیماری۔۔۔کہ وہ کھانے پکاتے پکاتے بھول جایاکرتے کہ وہ کیا پکا رہے ہیں۔

ایک دن جبکہ میں اس دیس کے ایک مشہور باورچی کے باورچی خانے میں موجود تھا،اس ماہرباورچی نے سیکڑوں لوگوں کے سامنے قورمہ پکانا شروع کیااورعین درمیان میں جبکہ قورمہ آدھا پک چکا تھا، وہ بھول گیا کہ وہ کیا پکا رہا ہے۔۔۔اب اس نے بریانی پکانے کی ترکیب پر عمل شروع کیا اورجب یہ کھانا تیار ہوا توایک نئی قسم کا کھانا’قورمہ بریانی‘ایجاد ہو چکا تھا،جو اس کی بھول کا کمال تھا۔

قورمہ بریانی کو دم پر لگا کر وہ خودابلے چاولوں کا شربت بنانے لگا اور مددگار(helper)باورچی کو آواز لگائی کہ’ دوسرے کڑاہو میں دوکلو گڑ ڈال دو‘۔۔۔وہ یہ بھول چکا تھا کہ اُس کڑاہو میں پالک پک رہا ہے۔۔۔اس طرح گڑ ڈالنے کے بعد ایک نیا کھانا’گڑپالک‘ایجاد ہواجبکہ دوسرا مددگار باورچی ابلے ہوئے جھینگوں پرشہد ڈال کر’جھینگوں کا میٹھا‘ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔۔۔اتنے میں اصل باورچی نے جلیبیوں پر مسالا چھڑک کر’ کراری جلیبیاں‘تیار کیں۔۔۔پھرایک دم ’شاں ںں‘ کی آواز آئی تو پتا چلا کہ چائے کو زیتون کے تیل کا تڑکا لگا کر’تڑکے والی چائے‘ تیار کی گئی ہے۔

عین اس وقت جبکہ یہاں یہ نئی ترکیبیں تخلیق ہو رہی تھیں۔۔۔کوئی دوسرا باورچی دوسری جگہ کریلوں کا مربع،کدوکیک،اروی کاحلوہ ۔۔۔اور تیسرا باورچی کسی تیسری جگہ سویاں گوشت،کھسہ کباب،سیدھی جلیبیاں اور بھنڈی کی جیلی بنا رہاتھا۔۔۔اسی طرح وہ نمکین کھانا بناتے بناتے میٹھے پر آجاتے اور میٹھے سے نمکین پر چلے جاتے۔۔۔اور اسی طرح ہزاروں ترکیبیں ان باورچیوں کی بھول کی ایجاد ہیں۔۔۔اور ان کی بھول ہی کے ذریعے محدود نعمتوں سے لا محدود کھانے اور ذائقے ایجاد ہوئے،جن کی ترکیبیں غیر ملکی دیکھنے والے اپنے اپنے وطن کولے کر گئے اور وہ دنیا بھر میں مشہور ہوئیں۔

اے خداپرست درویشو! ۔۔۔بس میں وہاں سے خدا کا شکر ادا کرتا ہوا وطن کو واپس آیا کہ ہمارے دیس کے باورچیوں کو بھولنے کی عادت نہیں۔۔۔ورنہ یہ تو ہمیں کھانے میں تیزاب اور سیمنٹ،بجری تک ملا کر کھلا دیتے اور وہ بھی بھول ہی بھول میں ۔۔۔‘‘

(پہلا درویش اپنی بات پوری کر کے شمع دوسرے کے سامنے رکھ دیتاہے)

سیر دوسرے درویش کی

(دوسرادرویش تکیے کی ٹیک چھوڑ کر سیدھا بیٹھ گیا اور اپنا قصہ یوں سنانے لگا…)

دوسرا درویش:’’اے نیک دل درویشو!۔۔۔وطن اس ناچیز کا کھارادر ہے اور ہم بے کاری کا کاروبار کرتے ہیں۔مجھے جب اپنی سرزمین سے نکل کر دوسرے خطے دیکھنے کا شوق ہوا تو میں ایک ایسی سرزمین پر پہنچا،جہاں میرے ساتھ قدم قدم پر بہت سے عجیب واقعات پیش آئے۔مگر میں آپ لوگوں کو ان میں سے صرف ایک سناتاہوں۔

ایک دن میں گھوڑے پر سوار اس خطے کی ایک بڑی اور مشہور شاہراہ سے گزر رہا تھاکہ اچانک گھوڑے کا پہیہ نکل گیااور گھوڑا مجھ سمیت دھڑام سے زمین پر آگرا۔۔۔اس سے پہلے کہ گھوڑا زمین پر بہنے لگتا۔۔۔اردگرد شاہراہ پر موجود لوگ بھاگے بھاگے آئے اور گھوڑے کوسنبھالنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے گھوڑے کا گٹھرا باندھ کر میرے حوالے کر دیا۔میں نے گٹھرا لے کر ان کا شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔۔۔‘‘

پہلا درویش:(بات کاٹتے ہوئے)’’مگر گھوڑے کے پہیے کہاں ہوتے ہیں درویش؟۔۔۔اور بہتی تو مائع چیز ہے جبکہ گھوڑا تو ٹھوس ہوتا ہے۔‘‘

دوسرا درویش:(حیرانی سے)’’اچھااااا؟۔۔۔(غائب دماغوں کی طرح سرکھجاتے ہوئے)۔۔۔تو پھر یوں ہوا ہوگا کہ شاید کسی گاڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہوگی۔۔۔اور گھوڑابہتا نہیں توپھر؟۔۔۔شاید بکھر جاتا ہوگا۔۔۔‘‘

تیسرادرویش:’’مگرگاڑی کی توٹانگ نہیں ہوتی اے نیک دل درویش!۔۔۔‘‘

دوسرا درویش:(حیرانی سے)’’ارے پیارے درویشو!۔۔۔تو یہ گاڑی اور ٹانگ کی بات کہاں سے آگئی؟۔۔۔میں تو آپ سے اس شادی کی بات کر رہاتھا جس میں دلہن،دلہا باراتی تھے اور ساری بارات دلہا،دلہن۔۔۔اور دلہا کے گھوڑے کو شاید نیند آگئی تھی۔‘‘

چوتھا درویش:’’ارے عظیم درویش!۔۔۔تم ہمیں کہیں کی سیر کی بات سنا رہے تھے جہاں تم گھوڑے سے گر گئے تھے۔۔۔مگر خیر چھوڑوشادی کی بات ہی سنا دو۔۔۔‘‘

دوسرا درویش:’’ارے درویشو!تم شاید بھول جاتے ہو۔۔۔میں دراصل تم لوگوں کو اپنا خواب سنا رہا تھا کہ جب گھوڑاآسمان سے گرا اور کھجور میں اٹک گیا تھا۔۔۔‘‘

پہلادرویش:’’ارے عزیزدرویش!۔۔۔بات تو ٹانگ اور پہیے کی ہو رہی تھی اور یہ دونوں چیزیں زمین پر چلنے کے لئے ہوتی ہیں۔۔۔یعنی تم زمین کی سیر کی بات کر رہے تھے۔۔۔یہ آسمان درمیان میں کہاں سے آگیا؟‘‘

دوسرادرویش:’’ہاں،ہاں۔۔۔خدا تمہیں سلامت رکھے اچھا یاد دلایا۔۔۔میں اپنی بات کوآگے بڑھاتا ہوں۔۔۔میں زمین اور زمین کے مسائل کی بات کر رہا تھااور یہ کہہ رہا تھا کہ میرے والد کاپیشہ سمندر کے کناروں سے باہر چھلکتے پانی کوو اپس سمندر میں دھکیلنا تھا۔۔۔پھر ایک دن ان کی نوکری ختم ہوگئی اور ہمارا گھر بھی گر گیا تو ہم نہر میں رہنے لگے۔۔۔پھرتھوڑے عرصے بعدحالات کچھ بہتر ہوئے تو ہم نے چھوٹا علاقہ چھوڑ کر دریا میں گھر لے لیا۔۔۔اب کچھ عرصے سے والد صاحب سوچ رہے ہیں کہ سمندر میں منتقل ہو جائیں مگرجب سے سمندر میں رکشے چلنے لگے ہیں سمندری زمینوں کی قیمتیں کافی بڑھ گئی ہیں۔۔۔درویشو!ابھی سے یہ حال ہے توخود ہی سوچو کہ اگر سمندر میں ریل چل پڑی توسمندر آسمان پرنہیں پہنچ جائے گا۔۔۔اور دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ سمندری گدھے سمندری آبادی کو بڑا تنگ کرتے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں گھس آتے ہیں۔‘‘

تیسرا درویش:(مسکراتے ہوئے)’’اوہووو۔۔۔اے سادہ دل درویش!۔۔۔اب ہمیں سمجھ آئی کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔اب آپ ہمیں جو سنائیں گے ،ہم سنتے چلے جائیں گے۔۔۔فرمائیے ،فرمائیے ۔۔۔ارشاد فرمائیے۔‘‘

دوسرا درویش:’’بس اے درویشو!میری بات پوری ہوگئی اور میں جو کہنا چاہتا تھا کہہ چکا۔۔۔دراصل میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں جس خطے کی سیر کو گیا،وہاں کے لوگ بات کرتے کرتے بھول جایا کرتے تھے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں،کس چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور جس چیز کے بارے میں بات کررہے ہیں وہ کیسی ہے اور اس کا کام کیا ہے۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے میں نے آپ کو اپنی گفتگو میں کر کے دکھایا۔۔۔

بس پھرمیں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارے وطن کے لوگ ایسے نہیں ہیں اور وہاں سے بھاگا کہ کہیں میں بھی ویسا ہی نہ ہو جاؤں اور آج آپ کے درمیان بیٹھا ہوں۔‘‘

(دوسرا درویش اپنی بات پوری کر کے شمع تیسرے کے سامنے رکھ دیتاہے)

سیر تیسرے درویش کی

(تیسرا درویش جو بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی حالت میں تھا۔اٹھ بیٹھا اور اپنی پگڑی درست کرتے ہوئے بولا۔)

تیسرا درویش:’’اے خدا پرست درویشو!وطن اس ناچیز کا محمودآباد ہے اور ناکامیوں کا خاندانی کام ہے ہمارا۔

بہت عرصہ پہلے میں گھومتا گھامتا ایک نرالی سرزمین پر جا پہنچا۔اس بھول بھلیّوں والی سرزمین کو آپ بھول پور کہیں یابھول بغداد کا نام دیں ۔۔۔ مگر تھی واقعی عجیب جگہ۔۔۔

چاروں طرف کیاریوں میں بھول۔۔۔پودوں پر بھول کھلے ہوئے۔۔۔ہر طرف بھولوں کی مہک۔۔۔بڑوں کے گلوں میں بھولوں کے ہار تو بچوں کے ہاتھوں میں بھولوں کی ٹوکریاں۔۔۔بچیوں کے ہاتھوں میں بھولوں کے گجرے اور بھولوں کے گل دستے۔۔۔بھولوں کی فصل سے بھول چنتے ملازم۔۔۔اور کمال یہ ہے کہ ایک بھی بھول کمہلایا ہوا نہیں۔۔۔راستوں میں بھول تو عمارتوں پر بھول۔۔۔بس ہرجگہ بھول ہی بھول۔۔۔

ایک دن میں بادشاہ کے بھولوں والے محل میں گیا توبے چارہ بھولا بادشاہ بھولوں جیسامنہ بھلائے اپنی ملکہ بھولن دیوی کے ساتھ بھولوں والے تخت پر بھولوں والا لباس پہنے،اوپر سے بھولوں والی چادر اوڑھے،سر پر بھولوں کا تاج رکھے بیٹھا تھا۔۔۔پھر اس نے ملکہ سے پوچھا کہ ’آج کیا پکایا ہے؟‘‘۔۔۔ملکہ نے منہ کھولا تو بھول جھڑنے لگے۔۔۔اور وہ بولی’بھول گوبھی‘۔۔۔پھر ایک دم محل میں کسی نے بھلجڑی جلائی اور آگے میں بھول گیا۔۔۔

پھر ایک دن مجھے بھولوں والی محفل میں جانے کا موقع ملاتویقین کرو میں’بھولے نہیں سمایا‘۔۔۔ وہاں بھولوں بھرا مشاعرہ چل رہا تھااور ایک شاعر بھولوں بھری غزل سنا رہا تھا۔

پھر چھڑی رات، بات بھولوں کی

رات ہے یا بارات بھولوں کی

بھولوں کے ہار،بھولوں کے گجرے

شام بھولوں کی،رات بھولوں کی

آپ کا ساتھ ،ساتھ بھولوں کا

آپ کی بات،با ت بھولوں کی

کون دیتا ہے جان بھولوں پر

کون کرتا ہے بات بھولوں کی

میرے دل میں سرور صبح بہار

تیری آنکھوں میں رات بھولوں کی

بھول کھلتے رہیں گے دنیا میں

روز نکلے گی بات بھولوں کی

جب مشاعرہ ختم ہوا اور شاعر اپنی نشستوں سے بھولوں والی سیڑھیاں اترے تو میں نے ایک شاعر کو روک کر پوچھا کہ’ خدارا شاعرِ بھول!آپ مجھے یہ بتائیے کہ یہ ماجرا کیا ہے کہ ہر طرف بھول ہی بھول ہیں۔۔۔جواب میں اُس نے ایک شعر میں ساری کہانی بیان کر دی۔کہنے لگا:

دعابہار کی مانگی تو اتنے بھول کھلے

کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانے کو

یہ کہہ کر وہ چلتا بنا اور میں نے بھی فوراً وہاں سے رخت سفر باندھاکہ کہیں میں بھی مقبول درویش کی جگہ مقبھول درویش نہ ہو جاؤں۔۔۔اور آج آپ کے درمیان بیٹھا ہوں۔‘‘

(تیسرا درویش اپنی بات پوری کر کے شمع چوتھے کے سامنے رکھ دیتاہے)

سیر چوتھے درویش کی

(چوتھادرویش اپنے بیٹھنے کا انداز درست کرتے ہوئے دوسروں سے مخاطب ہوا۔)

چوتھا درویش:’’اے درویشو!۔۔۔وطن اس درویش کا کورنگی ہے اور پیشہ کئی پشتوں سے فراغت ہے۔اس ناچیز نے اپنے پیشے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیر و سیاحت کا نام دے کر کافی آوارہ گردی کی۔۔۔ویسے تو خیر مجھ غریب نے کافی ملکوں کی خاک چھانی اور کئی ایک عجیب و غریب چیزیں دیکھیں مگرجو سب سے زیادہ عجیب چیز دیکھی وہ بیان کئے دیتا ہوں۔۔۔

ایک بار میں گھومتا گھامتاایک ایسے خطے میں پہنچا جہاں رہنے والے انسانوں کے جسمانی اعضاء یعنی جسم کے حصے جسم سے الگ ہو جاتے تھے اور دوبارہ جسم سے جڑ بھی جاتے تھے۔۔۔یہی وجہ تھی کہ جب جس کا دل کرتا اپنے جسم کا کوئی حصہ جسم سے الگ کر لیتااور جب دل کرتا دوبارہ جسم سے جوڑ لیتا۔۔۔

ایک بار میں نے دیکھا کہ میاں بیوی سڑک پر تیز تیز چلتے اور تکرار کرتے ہوئے آرہے تھے۔۔۔میاں کہہ رہا تھا۔۔۔’میں نے صبح ہی اپنے دونوں ہاتھ کھول کر تمہارے دستی بستے(Hand Bag)میں رکھے تھے۔۔۔تمہیں ذراسا بھی خیال نہیں ہے،تم اپنا بستہ پتا نہیں کہاں بھول آئی ہو‘۔۔۔بیوی کہہ رہی تھی۔۔۔’آپ نے اگر میرے بستے میں ہاتھ اتار کر رکھے تھے تومجھے بتا تو دیا ہوتا،مجھے بھلا کیسے پتا چلتا کہ میرے بستے میں آپ کے ہاتھ ہیں،میں تو بستہ بے خیالی میں سبزی والے کی دکان پر بھول آئی ہوں‘۔۔۔ابھی میں یہی دیکھ رہا تھا کہ سڑک پر کتا کسی کا پاؤں اٹھائے بھاگا جا رہا تھا۔۔۔اے درویشو!میں حیرانی سے کتے کو دیکھ ہی رہا تھا کہ مسجد سے اعلان سنائی دیاکہ۔۔۔’کوئی صاحب اپنے دونوں ہاتھ مسجد کے وضو خانے پر بھول گئے ہیں،جن صاحب کے ہوں آکر لے جائیں‘۔۔۔اوراگلے ہی دن اعلان ہوا کہ۔۔۔’کسی نو جوان کا منہ بھولے سے محراب میں رہ گیا ہے اور اس کا ساتھی اسے ہاتھ سے پکڑ کر بغیر منہ کے لے گیا ہے۔۔۔نو جوان کے گھر والے امام صاحب سے رابطہ کریں‘۔۔۔پھر ایک دن ایک ایسا آدمی ملا جس کی ایک آنکھ جھپکتی تھی اور دوسری نہیں جھپکتی تھی۔۔۔پتا چلا کہ اس نے اپنی ایک آنکھ دھونے کے لئے نکالی اور پھر کہیں رکھ کر بھول گیاجو پھر نہیں ملی۔۔۔اس کی بیوی کا خیال تھا کہ آنکھ بلی لے گئی۔۔۔اس لئے اس نے پتھر کا ڈھیلا لگوایا ہوا تھا۔۔۔پھر ایک بار یوں ہوا کہ ایک اچھے خاصے کالے رنگ کا لڑکا گورے چٹے بازو لگائے بازار میں چلاآرہا تھا۔۔۔سپاہی کے روک کر پوچھنے پر پتا چلا کہ اس کا گورا والا بھائی پتا نہیں کس خیال میں بھول کر اس کے کالے بازو لگا کر چلا گیا ہے۔۔۔مجبوراً اسے بھائی کے بازو لگا کر گھر سے نکلنا پڑا۔۔۔پھر ایک دن ایک صاحب اپنے دونوں کان پرچون کی دکان پر بھول گئے۔۔۔اسی طرح وہاں کے لوگ اپنے جسم کاکوئی عضو کہیں بھول جاتے توکوئی کہیں۔۔۔

بس اے درویشو!۔۔۔میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارے خطے میں جسم کے اعضاء جسم سے الگ نہیں ہوتے۔۔۔ ورنہ کسی کو گم شدہ اعضاء پڑے ہوئے ملتے تو وہ کوڑیوں کے دام کباڑیوں کو بیچ رہا ہوتا۔۔۔اور کسی غریب کے گم ہوجاتے تواس کے پاس خریدنے کے پیسے نہ ہوتے۔۔۔یہی سوچ کر میں وہاں سے روانہ ہوا اور آج تمہارے درمیان بیٹھا ہوں۔‘‘

(چوتھا درویش اپنی بات پوری کر کے شمع چوتھائی در ویش کے سامنے رکھ دیتاہے)

سیر چوتھائی درویش کی

(چوتھائی درویش اپنا لباس ٹھیک کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتاہے اور ہاتھ باندھ کر چاروں سے مخاطب ہو تاہے۔)

چوتھائی درویش:’’اے عظیم درویشو!۔۔۔مجھ پرآپ لوگوں کا احترام اس لئے لازم ہے کہ آپ سب پورے درویش ہیں اور میں صرف چوتھائی درویش ۔۔۔اس لئے میں احتراماًکھڑا ہو گیا ہوں اوراسی حالت میں اپنی بات سناؤں گا۔۔۔میرا قصہ یوں ہے کہ میں نے آج تک اپنے وطن سے باہر کسی خطے کی سیر ہی نہیں کی۔۔۔ اور اس سیر نہ کرنے میں میری بھول کا بڑا دخل ہے ۔۔۔دراصل میں جب بھی کہیں جانے کی نیت کرتا ہوں تو سالوں تک بھول جاتا ہوں۔۔۔پھر سالوں بعد یاد آتاہے ۔۔۔اور پھر سالوں تک بھولا رہتا ہوں۔۔۔یقین کیجئے درویشو!کہ ابھی آپ لوگوں نے سیر کی باتیں کیں تو مجھے یاد آیا کہ چھ سال پہلے میں نے کسی جگہ کی سیر کرنے کی نیت کی تھی مگر وہ جگہ اب بھی یاد نہیں آرہی۔۔۔بس مجھے میری بھول جانے کی عادت نے مکمل درویش نہ ہونے دیا اور میں چوتھائی درویش ہی رہا۔۔۔

(اچانک چاروں درویش کھڑے ہو کر چوتھائی درویش کو گلے لگانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہی تو سب سے بڑے درویش ہو ۔۔۔ہمیں پتا ہوتا کہ ہمارے اپنے وطن میں اتنے بڑے بڑے بھلکڑ رہتے ہیں تو ہم باہر کیا لینے جاتے۔۔۔ابھی چاروں درویش چو تھائی درویش سے عقیدت کا اظہارکر ہی رہے ہوتے ہیں کہ ایک شخص انتہائی غصے میں اندر داخل ہوتا ہے۔)

نامعلوم:(چیختے ہوئے چوتھائی درویش سے)’’او جمن!۔۔۔او خدا تجھے پوچھے!۔۔۔او زمانے بھرکے بھلکڑ!۔۔۔او تیرے گاہک تیری دکان پر بال کٹوانے کے لئے جمع ہیں اور تو ان بیکار درویشوں کے پاس بیٹھا ہے جن کو نہ دنیاسے کوئی کام ہے، نہ گھر بارکی فکر۔۔۔ ان کاکام تو صرف کہانیاں سنانا ہے ۔۔۔وہ بھی آسمان سے اوپر کی یا زمین سے نیچے کی۔۔۔چل جا اپنی دکان پر!۔۔۔‘‘

چوتھائی درویش:(انتہائی پریشانی کے عالم میں سر پکڑتے ہوئے)’’اوہ ..ہاں۔۔۔میں کہاں ان درویشوں میں پھنس کر بھول گیا کہ میں درویش نہیں ،میں تو حجام ہوں۔۔۔‘‘

(جمن باہر کو بھاگتا ہے جبکہ چاروں درویش اس کو جوتیاں پھینک پھینک کر مارتے ہیں مگر جمن یہ جا وہ جا)

چاروں درویش:(غصے سے)’’لکھنے والے تیرا خانہ خراب ہو۔۔۔لکھنے والے خدا کرے تو لکھنا بھولے۔۔۔لکھنے والے !تجھے ذراشرم نہیں آئی کہ ہم تیرے بلانے پر صدیوں کا سفر کرکے آئے اور تونے ہم درویشوں کے درمیان حجام یعنی نائی لا بٹھایا۔۔۔ خدا تجھ سے پوچھے)

(درویش لکھنے والے کو کوستے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں۔)

پردہ گرتاہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top