بے وقوفوں کی بستی
آغا شیدا کاشمیری
۔۔۔۔۔
بے وقوفوں کی یہ بستی آج سے سیکڑوں برس پہلے کوہِ قا ف کے پاس تھی لیکن اب وہاں اس کا نام و نشان تک موجود نہیں۔ بستی کے رہنے والے اپنی جہالت اور بے وقوفی کی وجہ سے ساری دُنیا میں مشہور تھے۔ اچنبھے کی بات یہ تھی کہ انھوں نے اپنی زندگی میں بلی کبھی نہیں دیکھی تھی اور وہ بلی کے نام، اُس کی شکل سے بھی بالکل نا واقف تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بستی چوہوں سے کھچا کھچ بھر گئی۔ جدھر دیکھو چوہے ہی چو ہے۔ ادھر چو ہے، ادھر چو ہے۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا جو ان سے آباد نہ ہو۔ لوگ اس قدر پریشان تھے کہ وہ ہر قیمت پر ان سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اُنھوں نے کئی مرتبہ اکٹھے ہو کر اس بارے میں مشورے بھی کئے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کوئی مناسب ترکیب سمجھے میں نہ آئی۔
ایک دن شام کے وقت ایک مسافر بستی میں داخل ہوا اور سرائے میں رات گزارنے کے لیے چلا گیا۔ مسافرا کیلا نہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک خوب موٹی پلی ہوئی بلی بھی تھی۔ یہ بلی چوہوں کا شکار کرنے میں بڑی ماہر تھی۔ چوہے سرائے میں ہر طرف چھلانگیں لگا رہے تھے۔ بلی پہلے تو ایک لمحے کے لیے ان موٹے تازے چوہوں کو ادھر ادھر گھومتے پھرتے دیکھتی رہی۔ آخر اُس سے رہا نہ گیا اور خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ شست باندھ کر فوراً کودی اور چو ہوں پر دھاوا بول دیا۔ کچھ مارے گئے ،کچھ زخمی ہوئے، کچھ بھاگ کر جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ سرائے میں جتنے لوگ موجود تھے وہ یہ بھگدڑ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور باہر سے لوگوں کو بلا بلا کر بلی دکھانے لگے، جو چوہے کھانے میں مصروف تھی۔ وہ سب اس عجیب و غریب جانور کو بڑے غور اور تعجب سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا:
’’ اگر یہ کار آمد جانور ہمیں مل جائے تو چند ہی دنوں میں چوہوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ‘‘
انھوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد بلی کے مالک کو ایک ہزار روپے کی تھیلی پیش کی اور بلی خرید لی۔ مالک کو اور کیا چاہیے تھا۔ ٹکے کی بلی ایک ہزار روپے میں بیچ کر وہ پھولا نہ سماتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی اس کے دل میں یہ بات بھی بیٹھ گئی کہ بستی کے سارے لوگ بیوقوف ہیں۔ لہٰذا یہاں سے فوراً بھاگ جانا چاہیے۔ چنانچہ اگلے ہی روز وہ صبح سویر ے وہاں سے چل پڑا۔ اُسے خوف تھا کہ کہیں اُنھیں بلی کی اصل حقیقت کا پتا نہ چل جائے اور وہ اس سے اپنا روپیہ واپس نہ لے لیں ۔
اس کے جانے کے بعد بستی والوں کو خیال آیا کہ ہم نے مسافر سے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ اِس جانور کی خوراک کیا ہے۔ اُنھوں نے ایک آدمی اُس کے پیچھے دوڑایا۔ جب مسافر نے دیکھا کہ کوئی شخص اس کا پیچھا کر رہا ہے تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے اپنی رفتار اور بھی تیز کر دی۔ اُس آدمی نے چلا کر کہا:
’’او میاں، او بھائی! ہمیں اس جانور کی خوراک تو بتاتے جاؤ۔ وہ کھاتاکیا ہے؟ ‘‘
مسافر نے جب سُنا کہ وہ خوراک کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو اُس کی جان میں جان آئی۔ وہ مڑا اور وہیں سے گلا پھاڑ کر اُس نے کہا:
’’دُودھ اور روٹی۔‘‘
پیچھا کرنے والا چونکہ بستی کے مورکھوں میں سے تھا لہٰذا وہ دودھ اور روٹی کو بھینس موٹی سمجھا۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔’’ اُف! یہ جانور موٹی بھینس کھاتا ہے۔ اب کیا ہوگا۔ ہم گھی اور دودھ کہاں سے کھائیں گے۔ ہمارے بچے دودھ کے بغیر کیسے جئیں گے۔‘‘ اسی پریشانی میں وہ بستی میں پہنچ گیا۔ جب بستی والوں نے یہ ماجراسنا تو وہ بھی بہت پریشان ہوئے۔ سارے مور کھ مشورہ کرنے لگے کہ موٹی بھینسیں میں تو چند ہی دنوں میں ختم ہو جائیں گی۔ اور پھر وہ پتلی بھینسیں کھانا شروع کر دے گی۔ اور جب وہ بھی ختم ہو جائیں گی تو بکر ے بکریوں کی باری آجائے گی۔جب یہ بھی ختم ہو جائیں گے تو کیا عجب یہ ہمیں ہی کھانا شروع کر دے۔ یہ سن کر عورتوں نے بے تحاشا رونا شروع کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی بچے بھی رونے لگے۔ بچوں کو روتا دیکھ کر مردوں نے بھی دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیا۔ اس زور کا کہرام پڑا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔جب وہ رو رو کر تھک گئے تو ایک بڑے بوڑھے نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’اب رونے دھونے سے کیا فائدہ۔ ہم سمجھ دار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ کوئی حل تلاش کریں۔‘‘
تمام مورکھ پھر سر جوڑ کر بیٹھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کچھ کہتا، کوئی کچھ۔ آخر ایک بہت بڑے عقلمند نے کہا۔’’ سنو!‘‘چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ سب اس کی بات سننے کے لیے بے چین نظر آنے لگے۔ عقلمند نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا ۔’’ اسے زہر دے دیا جائے ۔نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ‘‘چاروں طرف سے واہ وا کے نعرے بلند ہونے لگے۔ اتنے میں مجمع میں سے ایک آدمی اُٹھا۔ اس کے چہرے پر ابھی تک خوف اور پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس نے ایک لمبی اور ٹھنڈی سانس لینے کے بعد کہا۔’’ تم سب لوگ واقعی بے وقوف ہو۔ شاید تم یہ بھول گئے ہو کہ یہ جانور موٹی بھینس کھاتا ہے۔ زہر نہیں کھاتا۔ جس کے منہ کو خون لگا ہو وہ زہر کیسے کھا سکتا ہے؟‘‘ دوسرے ہی لمحے سارے مجمع پر موت کی سی خاموشی چھا گئی اور لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ عورتوں نے رونا شروع کر دیا۔ پھر بچے رونے لگے۔ غرض ساری کی ساری بستی پھر پہلے کی طرح رونے میں مصروف ہو گئی۔ آخر ایک اور عقلمند اُٹھا اور اس نے کہا۔ عورتیں روتی ہیں تو بچے بھی رونا شروع کر دیتے ہیں، بچوں کا رونا ہم سے دیکھا نہیں جاتا اور ہمیں بھی مجبوراً رونا پڑتا ہے۔ اس لیے عورتوں کو گھروں میں بھیج دیا جائے تاکہ ہم لوگ خاموشی سے کوئی سکیم سوچ سکیں ۔‘‘
یہ لوگ بلی سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم بچوں اور عورتوں کو اکیلے گھروں کو بھیج دیں۔ اس خوفناک جانور نے موٹی بھینس کھانے کے بجائے اگر انھیں کھانا شروع کر دیا تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیں گے۔ ہائے کیسی منحوس تھی وہ گھڑی جب مسافر یہاں آیا اور ہم نے اس جانور کو خریدا ۔اس کم بخت سے تو چوہے ہی ہزار درجے بہتر تھے۔ ‘‘
آخر فیصلہ یہ ہوا کہ جب تک بلی کو مارنے کی کوئی معقول تجویز سمجھ میں نہ آجائے بچوں اور عورتوں کو کہیں نہ جانے دیا جائے۔ سب نے اس بات کو پسند کیا اور سوچ بچار کرنے لگے۔ آخر ایک ترکیب ان کی سمجھ میں آہی گئی جس پر سب نے اتفاق کیا اور خوشی سے ناچنے لگے۔ ترکیب یہ تھی کہ بلی اس وقت جس گھر میں ہے اُسے فوراً آگ لگا دی جائے لہٰذا انھوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس گھر کو آگ لگا دی۔ جب شعلے پھیلنے لگے اور بلی نے خطرہ محسوس کیا تو اس نے بڑے اطمینان سے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی اور دوسرے مکان میں چلی گئی۔ جب انھوں نے بلی کو شعلوں میں سے صحیح سلامت نکلتے ہوئے دیکھا، تو وہ مارے خوف کے تھر تھر کا نپنے لگے۔ اور انھوں نے فوراً ہی دوسرے گھر کو بھی آگ لگا دی۔ جب بلی وہاں سے تیسرے گھر میں کو دگئی تو ان کی پریشانی اور غصے میں اور بھی اضافہ ہو گیا اور انھوں نے تیسرے گھر کو بھی جلا کر خاک کر دیا۔
غرض مکانوں کو آگ لگانے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ساری بستی جل کر راکھ کا ڈھیر نہ بن گئی۔ آخر میں لوگوں نے دیکھا کہ بلی اس راستے پر بھاگی جا رہی ہے جس راستے سے صبح اس کا مالک گیا تھا۔ وہ لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس خوشی میں اُنھوں نے ایک جشن منایا اور دیر تک ایک دوسرے پر جلے ہوئے مکانوں کی راکھ ڈالتے رہے۔