بیگم شیر کی توبہ
رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر کی نقل مکانی نے بیگم شیر کو توبہ کرنے پر مجبور کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیر نے آنکھیں کھول کر ایک انگڑائی لی اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ گھڑی پر اس کی نظر پڑی تو احساس ہوا کہ نو بج چکے ہیں۔
”لاحول ولاقوة۔“ شیر نے برا سا منھ بنا کر کہا۔
”کم بخت یہ بھی کوئی زندگی ہے، وقت پر اٹھو اور دفتر چلے جاﺅ اور ناشتے میں کیا ملے گا؟ ابلے ہوئے انڈے! آخ تھو….“
اس کے بعد وہ اس سنہری زمانے کو یاد کرنے لگا، جب وہ سب بارہ بجے اٹھتے اور ایک ہرن مار کر اس کا تازہ گوشت ہڑپ کرجاتے۔ اس کے بعد قیلولہ، شام کو دریا پر پانی پی کر جنگل کی سیر کو نکل گئے۔ ہاتھی سے علیک سلیک کی۔ بھیڑیے کو پچکارا، بندر کو دھمکایا اور سیٹیاں بجاتے گھر آگئے۔ واپسی پر بیگم شیر کا شکار کیا ہوا زیبرا یا بارہ سنگھا کھالیا اور کبھی کبھی تو ماسٹر شیر یعنی منے میاں بھی ایک آدھ خرگوش مار لاتے۔
اس زندگی میں واحد خامی یہ تھی کہ کبھی کبھی شکار نہ ملتا تو بیگم شیر خفا ہوجاتیں اور میکے جانے کی دھمکی دے دیتیں۔ اس پر شیر صاحب خوب دھاڑتے اور گرجتے، لیکن اس کا بھی ایک فائدہ ہوتا اور وہ یہ کہ سارے جنگل کے جانور مارے دہشت کے اپنے اپنے ٹھکانوں میں جا دبکتے کہ بادشاہ سلامت غصے میں ہیں۔ یہاں تک کہ پڑوس میں مسز ریچھ بھی لڑائی جھگڑا ختم کرکے بیگم شیر سے دوستی کرلیتیں اور ننھے شیر کے لیے دو دن قبل ادھار دیے گئے شہد کی واپسی کا تقاضا بھی نہ کرتیں۔
اتنے میں بیگم شیر کمرے میں داخل ہوئیں اور غصے سے بولیں۔
”آج دفتر نہیں جاﺅ گے؟ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہو۔ یہ عادتیں اب بھول جاﺅ۔ وہ دن گئے کہ شیر خان ہرن مارا کرتے تھے۔“
شیر اپنے خیالات سے چونکا تو بیگم شیر کہہ رہی تھیں۔
”منے کے اسکول کی فیس دینی ہے۔ مجھے پارٹی میں جانے کے لیے نئی ساڑھی خریدنی ہے اور ڈرائیور بھی تنخواہ مانگ رہا ہے۔ تین ہزار رپوں کی ضرورت ہے۔“
”بیگم تمھیں علم تو ہے کہ آج کل کاروبار مندا جارہا ہے۔ بس اگلے مہینے تک یہ سارے خرچ اٹھا رکھو۔“ شیر نے جواب دیا۔
”اگلے مہینے تک؟ اور اگلے ہفتے مسز چیتا کی پارٹی میں وہی پرانا سوٹ پہنوں؟ اور لوگ کیا کہیں گے کہ شیر کی بیوی اور ایک ہی سوٹ ہر بار پہن کر چلی آتی ہے۔ یاد ہے ابھی پچھلے ہفتے ہاتھی کی سالگرہ میں بھی میں نے یہی کپڑے پہنے تھے۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ لعنت ہے ایسی زندگی پر۔“
”بھئی میں نے کہا نا کہ مجبوری ہے۔“ شیر نے بے زاری سے جواب دیا اور اس کے بعد شیر اور بیگم شیر میں ایسی لڑائی ہوئی کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے سارے پرندے اڑگئے۔ سانپ بل میں گھس گئے۔ بندر درختوں پر چڑھ گئے اور مگرمچھ نے غڑاپ کرکے سر پانی میں ڈالا اور دریا کی تہ میں جا کر دم لیا۔
اور دو دن بعد جب کہ شیر کاروباری دورے پر ہانگ کانگ گیا ہوا تھا۔ بیگم شیر نے ادھر ادھر سے ڈھیر سارا رپیہ لے کر خرچ کردیا۔ دراصل بیگم شیر بے حد فضول خرچ اور بے وقوف تھیں۔ انھیں ہر وقت یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کسی طرح ہمسایوں پر اپنی دولت کا رعب جمایا جائے۔ ادھر ان کے پڑوسی ان کی حماقتوں اور فضول خرچیوں پر خوب ہنستے تھے، لیکن بیگم شیر کو پارٹیوں میں جانے، نت نئے کپڑے سلوانے اور مہنگے ریستورانوں میں جانے سے کب فرصت تھی۔
ایک بار وہ شیر سے ضد کرکے ایک ایسے ریستوران میں گئی تھیں۔ جہاں انسانوں کا گوشت ملتا تھا۔ حالاں کہ شیر نے لاکھ کہا کہ لاﺅ ابھی ایک آدمی مار لاتا ہوں لیکن بیگم شیر کا کہنا تھا کہ آدمیوں کا شکار کرکے کھانا جنگلی پن ہے، انھیں تو چھری کانٹوں سے کھانا چاہیے۔
ان سارے چونچلوں اور عیش کے باوجود وہ کبھی اللہ کا شکر ادا نہ کرتیں۔ اکثر انھیں یہی کہتے سنا گیا کہ ”بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔“
اپنے دونوں بچوں کو انھوں نے انگریزی اسکول میں داخل کروادیا تھا۔ ان کا بس چلتا تو بچوں کو پڑھنے انگلستان بھیج دیتیں۔ بچوں کے کپڑے اور کھلونے تک انگلستان اور ہانگ کانگ سے آتے، کھانا ہمیشہ مہنگا اور ڈھیر سارا پکواتیں، چاہے بعد میں پھینکنا پڑے۔
شام کو روزانہ سیر و تفریح پر جانا لازمی تھا، بلکہ وہ تو بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑوں پر لے جانے کا پروگرام بنا رہی تھیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ اگر جنگل میں کوئی سینما کھل جائے تو کتنا لطف آئے، مگر اس کے باوجود وہ ہر وقت کسی نہ کسی چیز کی کمی کا رونا روتی اور شکایت کرتی ہی نظر آتیں۔ کسی نے کبھی انھیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔
ہانگ کانگ سے واپسی پر شیر کو اتنے بڑے قرض کی اطلاع ملی تو اس کا دل چاہا کہ دھاڑیں مار مار کر روئے، لیکن یہ اسے ایک شیر کی شان کے خلاف نظر آیا۔ کوئی راستہ نہ پاکر وہ دادا الو کے پاس گیا۔ دادا الو جنگل کے ایک ویران کونے میں پرانے درخت کی سب سے اونچی شاخ پر رہا کرتے تھے۔ جانوروں میں مشہور تھا کہ ان کی عمر ایک سو پانچ سال ہے۔ وہ جنگل کے سب سے عقل مند جانور تصور کیے جاتے تھے اور جنگل کے تمام جانور ان سے مشورہ لینے کے لیے آیا کرتے تھے۔
دادا اُلو سے ملتے ہی گھر آکر شیر نے اعلان کیا کہ ہم گھر چھوڑ کر جارہے ہیں۔ کاروبار میں بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے گھر، دفتر، کار ہر چیز فروخت کرنا پڑے گی۔
بیگم شیر یہ سن کر دھک سے رہ گئیں۔ ان کے لیے گھر چھوڑ کر پرانی زندگی اختیار کرنا بہت مشکل تھا، لیکن مرتا کیا نہ کرتا، مجبوراً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر روتی پیٹتی جنگل کو چلیں۔
اگلی صبح آنکھ کھلنے پر انھوں نے نوکر کو آواز دی کہ ناشتہ بناﺅ، لیکن نوکر بھلا اب کہاں؟ پھر ناشتے کا خیال آیا تو انڈے، پراٹھے، دودھ، مکھن اور پھلوں کی جگہ لومڑی کا باسی گوشت نظر آیا۔ شام کو چائے اور سموسوں کے بجائے دریا کا پانی ملتا۔ اب بیگم شیر کو احساس ہوا کہ جو زندگی وہ پہلے گزار رہی تھیں وہ بہت بہتر تھی لیکن اب پچھتانے سے کیا ہوسکتا تھا۔
بہرحال انھوں نے خود میں تبدیلی پیدا کی اور اپنے بچوں کو بھی ہر وقت خدا کا شکر ادا کرنے کی تلقین کرنے لگیں۔ شیر نے یہ دیکھا تو اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ وہ بھاگا بھاگا دادا اُلو کے پاس گیا۔ دادا اُلو مسکرائے اور بولے۔
”اپنی بیگم کو سمجھادینا کہ اگر تم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کروگے تو وہ اپنی نعمتیں چھین لے گا۔ جاﺅ اور اپنے گھر میں ہنسی خوشی رہو۔“
جب شیر نے بیگم کو اصل بات بتائی کہ اس نے صرف دادا اُلو کے کہنے پر سبق دینے کے لیے گھر چھوڑا تھا تو بیگم شیر خوشی سے پھولی نہ سمائیں۔ جلد ہی وہ اپنے گھر چلے گئے۔ اب بیگم شیر نے فضول خرچی چھوڑ دی ہے اور ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتی ہیں۔
بچو! آپ کو بھی چاہیے کہ ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں۔