skip to Main Content

بے سیل

بینا صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔بے سیل ہونا کسے کہتے ہیں؟ جاننا چاہیں تو صارم کا حال سنیں۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’امی میرا موبائل دیکھا ہے آپ نے؟‘‘ صارم کمرے سے پریشان صورت لیے باہر نکلا۔ 
’’دیکھا تو ہے مگر ہر بار تمھارے ہاتھ میں لٹکا یا جیب میں اٹکا ہوا یا پھر کان سے لپٹا ہوا ہی دیکھا ہے۔‘‘ امی بے زاری سے بولیں۔ 
’’افوہ۔ کہاں چلا گیا؟ صبح تک تو میرے پاس تھا۔ پھر میں نہانے گیا اور موبائل کو چارج پر لگادیا۔ اب موبائل غائب ہے اور چارجر کا تار اکیلا لٹک رہا ہے۔‘‘ صارم نے رونی صورت بنائی۔ 
’’ارے وہیں کہیں ہوگا۔ تم اچھی طرح دیکھو۔ اتنا بدحواس ہونے کی ضرورت نہیں کہ آنکھیں اور کان پھٹ جائیں۔ کان پھٹ گئے اور پھر فون مل بھی گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘ امی نے ٹماٹر کاٹتے ہوئے بے زاری سے کہا۔ 
’’حد ہوگئی امی۔ اگر آپ ایک منٹ کے لیے باہر جائیں اور واپس آئیں تو یہ سارے ٹماٹر غائب ہوں تو کیا آپ پریشان نہیں ہوں گی؟‘‘ صارم بُرا مان گیا۔ 
’’ٹماٹر چارجر پر نہیں لگتے۔ یہ یہیں پڑے رہیں گے۔ انھیں میرے سوا کاٹے گا بھی کون؟‘‘ امی آہ بھرکر بولیں۔ 
’’ارے امی۔۔۔ مجھے لگتا ہے عارض یا علینہ نے چارجر سے موبائل نکال کر چھپا دیا ہوگا مجھے تنگ کرنے کے لیے۔‘‘ صارم کو چھوٹے بہن بھائی کا خیال آگیا۔ ’’عارض ٹیوشن پڑھنے گیا ہے اور علینہ بے چاری ایک سو دو بخار لیے بستر پر لیٹی ہے۔ اس کو تو ابھی دوا دے کر آرہی ہوں۔ اپنی چیزیں خود سنبھال نہیں سکتے اور دوسروں پر الزام دھرتے پھرتے ہو۔ یہ کوئی اچھی بات ہے بھلا۔‘‘ امی نے صارم کو جھڑک دیا۔
’’معاف کردیں امی۔‘‘ عارض نے سر کھجا کے کہا اور وہ پلٹنے لگا تھا کہ امی نے آواز دی۔ ’’موبائل سے فرصت مل ہی گئی ہے تو علینہ کو پوچھ لو۔ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔ پیاس لگ رہی ہے اسے بار بار، اسے پانی پلادینا۔‘‘ امی کی بات سن کر صارم مجبوراً چھوٹی بہن کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ علینہ کو پانی اور اس کا پسندیدہ رسالہ ’’ساتھی‘‘ دے کر کمرے سے باہر نکلا اور اپنے کمرے میں جا کر بستر کی چادر اور تکیہ اُلٹ پلٹ کرنے لگا۔ پردے ہٹا ہٹا کے دیکھا۔ بلی کی طرح بستر کے نیچے گھس گیا مگر موبائل نہ ملنا تھا سو وہ نہ ملا۔
’’صارم کیا کمرے میں گھس کر موبائل کا سوگ منا رہے ہو؟باہر نکلو۔‘‘ امی نے آواز دی۔ صارم گرتا پڑتا باہر آیا۔
’’صارم بیٹا۔ ایک کلو قیمہ، دو کلو آلو اور آدھا کلو دہی لے آنا۔ یہ سب آجائے گا ناں پانچ سو روپے میں؟‘‘ امی نے پانچ سو روپے کا نوٹ بٹوے سے نکال کر صارم کو پکڑایا۔
’’ایک منٹ ٹھہریں۔ ابھی ایک منٹ میں بتاتا ہوں۔‘‘ صارم نے عادت کے مطابق جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل کی مدد چاہی مگر پھر مایوسی سے کہا۔ ’’نہیں امی، میں تو نہیں بتاسکتا۔‘‘ صارم کا جوش ٹھنڈا پڑگیا۔ 
’’کوئی بات نہیں۔ میری انگلیاں گم نہیں ہوئیں، میں بتاتی ہوں۔‘‘ امی مسکرا کر انگلیوں پر گننے لگیں پھر بولیں۔ ’’بیٹا سو روپے اور لگیں گے۔ یہ لو اور بلکہ سو روپے اور لے جاؤ۔ تم اپنے لیے آئس کریم لے آنا۔‘‘ امی نے بیٹے کا اُترا اُترا چہرہ دیکھا تو بے ساختہ انھیں پیار آگیا۔ پیسے جیب میں ڈال کر ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے صارم دروازے کی جانب چلا تھا کہ امی نے پکارا۔ 
’’صارم بیٹا، راستے میں رابعہ خالہ کا گھر پڑے گا۔ ان کی خیریت پوچھتے آنا۔‘‘ ارے امی ان کی خیریت تو میں ابھی۔۔۔‘‘ صارم نے پھر جیب میں ہاتھ مارا اور مایوسی سے بولا۔’’جا کر ہی پوچھنی ہوگی۔‘‘ صارم بڑبڑاتا ہوا سست قدموں سے باہر نکل گیا۔ امی علینہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔ اسے رسالہ پڑھتے دیکھ کر مسکرادیں۔
’’صارم۔۔۔ یہ قیمہ اور دہی رکھ کر کہاں بھاگے جارہے ہو؟ رکو تو سہی، بتاؤ رابعہ خالہ کیسی ہیں؟‘‘ امی نے صارم کو آواز دی۔ امی رابعہ خالہ تو بے چاری بہت کمزور ہوگئی ہیں۔ مجھے تو لگا ہی نہیں کہ وہ رابعہ خالہ ہیں۔ ان کو السر اور شوگر جو ہوگئی ہے امی۔‘‘ صارم حیرت اور افسوس سے بولا۔ ’’السر اور شوگر تو ان کو عرصے سے ہے۔ بس تمھارا موبائل آج گم ہوا ہے تو تمھیں بوڑھی بیمار خالہ کو آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل گیا۔‘‘ امی آہ بھر کر بولیں۔ ’’یہ بتاؤ ہما اور فرحانہ کیسی تھیں؟‘‘ امی سنبھل کر بولیں۔ 
’’ہما اور فرحانہ یہ کون ہیں امی؟ رابعہ خالہ کی تو کوئی بیٹی نہیں۔‘‘ صارم چکرا گیا۔
’’حد ہوگئی ہما اور فرحانہ ان کی بہوئیں ہیں۔ اس سے پہلے کہ تم یہ بھول جاؤ کہ میری بھی کوئی بیٹی ہے کہ نہیں جا کے علینہ کو جوس دے کر آؤ۔ ڈاکٹر نے یرقان کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ میری بچی پہ اللہ رحم کرے۔‘‘ امی نے جوس کا گلاس صارم کو تھمایا۔ ’’یرقان؟ امی یہ یرقان کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ صارم نے پھر جیب میں ہاتھ مارا مگر وہ ننھا سا آلہ گم تھا جو اس کے حساب، انگریزی اور اُردو کا بھرم رکھ لیا کرتا تھا۔ ’’صارم۔۔۔ اب تم پٹو گے میرے ہاتھوں۔۔۔ بہن کی فکر نہیں موبائل کی فکر ہے۔‘‘ امی کو غصہ آگیا۔ صارم جوس کا گلاس تھام کر علینہ کے پاس چلا گیا۔ علینہ بولی۔ ’’بھائی تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جائیں۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘ صارم نے سوچا۔ موبائل تو پتا نہیں کہاں گیا؟ علینہ کو پتا نہیں اُردو کی اتنی مشکل بیماری ہوگئی ہے۔ چلو اسی کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ علینہ سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا۔

*۔۔۔*

’’خوش خبری۔ علینہ کی رپورٹیں ٹھیک آئی ہیں۔ اسے یرقان نہیں ہے۔‘‘ ابو رپورٹیں لیے خوش خوش گھر آئے۔ بیٹی ان کی لاڈلی تھی۔ امی کھل اُٹھیں۔ ’’شکر ہے اللہ کا۔‘‘
’’ امی اسی خوشی میں کچھ اچھا سا کھلادیں۔‘‘ صارم کا چھوٹا بھائی عارض چہک کر بولا۔
’’مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ میری بچی کی رپورٹ صحیح آئے گی۔ میں نے بریانی اور کسٹرڈ بنایا ہے۔‘‘ امی مسکرادیں۔ امی میز پر کھانا لگانے لگیں۔ عارض اور صارم سہارا دے کر علینہ کو بھی لے آئے۔ کھانا کھاتے ہوئے صارم بہت اُداس اور چپ چپ تھا۔ ابو نے صارم کو دیکھا پھر عارض کو۔۔۔
عارض مسکرا کر بولا:’’ابو۔۔۔ بے چارہ، بے بس، بے وقوف، بے کار یہ سب تو سنا تھا لیکن یہ سب ایک بندہ ایک ساتھ ایک ہی وقت میں ہوجاتا ہے۔ اگر وہ ’’بے سیل‘‘ ہوجائے۔‘‘ عارض مزے لے لے کر بولا۔ صارم نے اسے گھورا۔ 
’’بے سیل کیا مطلب؟‘‘ ابو نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’مطلب یہ کہ صارم بھائی کا سیل فون گم ہوگیا ہے جس کے بعد یہ بے سیل، بے چارے، بے وقوف، بے بس اور بے کار ہوچکے ہیں۔‘‘ عارض نے چٹخارے لیے۔ 
’’بُری بات۔ بڑا بھائی ہے۔ مذاق نہیں اڑاؤ۔‘‘ ابو نے ٹوکا۔ ’’بڑے بھائی کا مذاق اُڑانا نہیں چاہیے لیکن بات کچھ عارض کی بھی غلط نہیں۔ واقعی صارم صبح سے بولایا بولایا پھر رہا ہے۔ دو جمع دو کا سیدھا حساب نہیں کرپارہا۔ موبائل کے کیلکولیٹر کا اتنا زیادہ محتاج ہوچکا ہے۔‘‘ امی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’بھئی موبائل گھر پر ہی ہوگا۔ کہاں جاسکتا ہے؟‘‘ صارم کا پھولا ہوا چہرہ دیکھ کر ابو نے اسے تسلی دی۔ ابو۔۔۔ بستر کے نیچے پردوں کے پیچھے، الماری، میز، دراز ہر جگہ تو ڈھونڈلیا۔‘‘ صارم کی آواز بھرا گئی۔ ’’ارے ارے تم تو رونے لگے۔ چلو تم تسلی سے کھانا کھاؤ۔ مل جائے گا موبائل بھی۔‘‘ ابو نے صارم کا کندھا تھپکا۔ 
’’امی آپ نے اتنا زبردست کسٹرڈ بنایا ہے۔ پیلا کسٹرڈ اس پہ ہری اور لال رنگ کی جیلی، چاکلیٹ کے ٹکڑے اور پھر اورنج کلر کے شہد سے میرا نام، میں تصویر کھینچ کر فیس بک پر لگاتا تو میرے دوست جل کر رہ جاتے۔‘‘ صارم ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔ 
’’اور جلے ہوئے دوستوں کا تمھیں کیا کرنا تھا برخوردار؟‘‘ ابو چمچہ پلیٹ میں رکھ کر سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگے۔ ’’وہ ابو۔۔۔ میں میرا مطلب تھا۔ مجھے فکر ہورہی ہے دن تو جیسے تیسے کٹ گیا اب رات کیسے کٹے گی؟‘‘ صارم نے گھبرا کر بات پلٹ دی۔ 
’’ہاں رات بھر موبائل پر میسیج اور چیٹنگ کرکے بڑی خدمت کرتے ہو ناں تم قوم کی، جو آج اتنے بے چین ہورہے ہو؟‘‘ امی کو غصہ آگیا۔ 
’’ویسے بھائی موبائل کا مطلب ہوتا ہے چلتا پھرتا لیکن اگر ’’موبائل‘‘ انسان کو سست اور ڈھیلا ڈھالا بنادے تو وہ موبائل تو نہ ہوا۔‘‘ عارض صورتحال کے مزے لے رہا تھا اور صارم کی نگاہیں اس پر جمی تھیں۔ ’’امی عارض کو دیکھیں، یہی مجرم ہے، مجھے یقین ہے کہ موبائل اسی نے چرایا ہے یا چھپادیا ہے۔ صرف مجھے تنگ کرنے کے لیے۔ صارم ہاتھ کا مکا تان کے عارض کی طرف بڑھا۔ ’’ارے ارے میاں یہاں میں بھی موجود ہوں۔‘‘ ابو نے آنکھیں نکالیں تو دونوں لڑکے دُبک کر بیٹھ گئے۔

*۔۔۔*

دنیا ویران تھی۔ زندگی سنسان تھی۔ اداسیوں نے ہر سو ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ وقت کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ اچانک ایک ایسی آواز صارم کے کانوں میں آئی کہ سوکھے دھانوں میں پانی پڑگیا۔ گدھے کی آواز والی اس کے موبائل کی رنگ ٹون اس کے کانوں میں شہد بن کر اُتر رہی تھی۔ 
’’میرا موبائل، میرا موبائل گھر میں ہی ہے۔ یہیں کہیں بج رہا ہے۔‘‘ وہ دیوانوں کی طرح اُٹھا اور اندھوں کی طرح آواز کی سمت بھاگا۔ امی باورچی خانے میں برتن دھو رہی تھیں۔ ’’امی گدھے کی آواز۔۔۔‘‘ صارم دیوانوں کی طرح بولا۔ 
’’حد ہوگئی، رات کے وقت گدھے کی آواز کہاں سے آگئی؟ دوپہر کو دھوبی کپڑے سمیٹ کے گدھے پہ لاد کے چلا بھی گیا۔ تم کو اب گدھے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔‘‘ امی جھنجھلا کر بولیں۔ ’’کہیں بستر کی میلی چادروں میں تو لپٹ کے موبائل نہیں چلا گیا؟‘‘ صارم کو نئی فکر لاحق ہوئی کہ اتنے میں گدھے کی آواز دوبارہ آئی۔ وہ ابو کے کمرے میں بھاگا جہاں عارض اس کا موبائل تھامے کھڑا تھا اور ابو عارض سے کہہ رہے تھے۔ ’’میرے خیال میں کافی سبق ہوگیا۔ واپس کردو اسے۔‘‘ اتنے میں صارم کمرے میں آگیا۔ 
’’یہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ عارض کی شرارت ہے لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ اس میں امی ابو بھی شامل ہیں۔‘‘ صارم نے خفا ہو کر کہا۔ 
’’نہیں تمھاری امی کو کچھ نہیں معلوم۔ عارض نے ٹیوشن جانے سے پہلے تمھارا موبائل نکال لیا تھا۔ مجھے بعد میں بتایا۔ مجھے اس کی شرارت بے ضرر لگی۔ یہ لو موبائل۔‘‘ ابو نے اسے موبائل تھمادیا اور کہنے لگے۔ ’’مگر یہ ضرور سوچنا کہ آج کتنے عرصے بعد تم نے اپنی امی سے باتیں کی ہیں؟ کتنے زمانوں بعد علینہ کے ساتھ بیٹھ کے ساتھی رسالے کی کہانیاں ڈسکس کی ہیں؟ کتنے دنوں بعد بوڑھی خالہ کے گھر گئے ہو؟ حساب کتاب کے لیے کتنے زمانوں بعد اپنا ذرا سا دماغ استعمال کیا ہے؟ یرقان کی انگریزی دیکھنے کے لیے ڈکشنری کی گرد جھاڑی ہے؟ بولو؟‘‘ ابو کی باتیں صارم کا سر جھکانے کو کافی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ یہ ’’بے سیل دن‘‘ اسے بہت کچھ سکھا گیا ہے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top