skip to Main Content

بڑی بہن

ماریہ حجاب

……………………………………

میرا خیال ہے بڑی بہن اسی لیے ہوتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر دوست بن جائے

……………………………………

امی مارکیٹ گئی ہوئی ہیں۔ ابو سو رہے ہیں اور میں اور سعد ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ بھئی آج اتوار ہے۔ کافی دیر سے مجھے پیاس لگ رہی تھی باورچی خانہ میں پانی پینے گئی۔ ابھی میں پانی پی ہی رہی تھی کہ مجھے کچھ گرنے کی آواز آئی۔ میں نے امی ابو کے کمرے میں جھانکا۔ ابو تو سورہے تھے۔ میں بھاگ کر لاؤنج میں آئی۔
’’اف میرے اﷲ! ‘‘ میں فق چہرے کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔ سعد کی شکل بھی رونے والی ہو رہی تھی۔
جی ہاں۔۔۔ ان عالی جاہ نے امی کا پسندیدہ گلدان گرا کر توڑ دیا تھا۔ وہ چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔
’’سعد! تمہیں بھی سکون نہیں ہے۔‘‘ میں نے دانت پیسے۔
’’ اب کیا ہو گا؟‘‘ اس کی شکل بالکل بے چاروں والی ہو رہی تھی۔
’’ مجھے کیا پتہ کیا ہوگا؟‘‘ میری خود کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
’’ پلیز ندا۔۔۔ غلطی ہو گئی کچھ کرو۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
سعد مجھ سے پورے دو سال چھوٹا تھا اور تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ سو دفعہ کہا ہے کہ آپی، اپی، باجی کچھ بھی کہہ لو۔ مگر نام مت لو۔ لیکن یہ مان کر نہیں دیتا۔ مجھے اس کے آنسو دیکھ کر کم اور امی کی شکل یاد کرکے خود بھی رونا آنے لگا۔
’’ جاؤ جلدی سے میرے کمرے سے گوند لے کر آؤ۔‘‘ مجھے اچانک گوند کا خیال آیا۔ میں نے جلدی سے چاروں ٹکڑے قریب قریب رکھے اور گوند لگا کر جوڑنے لگی۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں امی نہ آجائیں یا ابو نہ اٹھ جائیں۔ میں جلدی جلدی گلدان جوڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آخر کار آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد گلدان جڑ گیا۔ لیکن اصل مصیبت تو اس کے بعد آئی۔
’’اف میرے بال۔۔۔ میرے بال‘‘ میں چیخی۔ میرے پیارے لمبے بال دوسری طرف سے گلدان کے ٹکڑوں کے ساتھ چپک گئے تھے۔ میں صبح نہا کر نکلی تھی۔ اس لیے میرے بال کھلے تھے۔ مجھے کام کرتے ہوئے مشکل تو ہو رہی تھی لیکن امی کا اتنا ڈر تھا کہ میں نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ سعد مجھے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے میں دنیا کی سب سے بڑی بے وقوف ہوں۔ میں نے گلدان کو اپنے چپکے ہوئے بالوں سمیت اٹھایا اور غسل خانے کی طرف بھا گئی۔
میں نے شیشے میں اپنے آپ کو ۔۔۔ اپنے بالوں کو اور گلدان کو دیکھا اور پھر۔۔۔ مجھے لگا میں بے ہوش ہو جاؤں گی۔ میں نے اپنے بال کھینچنے کی کوشش کی۔ مگر سوائے تکلیف کے کچھ بھی نہ ہوا۔ سعد بھاگ کر قینچی لے آیا۔ ایسے کاموں میں یہ بہت تیز ہے۔ میں نے قینچی کو دیکھا اور مجھے رونا آنے لگا۔ میں نے گلدان سعد کو پکڑایا اور خود اپنے بال کاٹے۔ ’’کام‘‘ مکمل ہونے پر میں نے دوبارہ آئینے میں شکل دیکھی۔ میں بالکل احمق لگ رہی تھی۔
وہ مصیبت گلدان میرے ہاتھ میں تھا۔ لاک کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی امی کی آواز بھی۔
’’ندا! سعد! کہاں ہو تم لوگ۔‘‘ وہ شاید لاؤنج خالی دیکھ کر حیران تھیں۔ سعد جلدی سے اپنے بستر میں گھس کر سوتا بن گیا۔ میں اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ 
امی نے میرے ہاتھ میں گلدان دیکھا۔ میری حالت دیکھی اور ان کا چہرہ لال ہو گیا۔ 
’’تم فوراً کمرے میں چلی جاؤ اور آج پورے دن تم نے ایک قدم باہر نہیں نکالنا ہے۔‘‘ وہ سمجھیں کہ گلدان میں نے توڑا ہے۔ میں مرے مرے قدموں سے اپنے کمرے میں آگئی۔
میں سوچ رہی تھی کہ یہ کیا ہوا؟ مجھے سزا ملی اور اب کل میں اسکول احمقوں کی طرح جاؤں گی۔ حالانکہ میں نے گلدان توڑا بھی نہیں۔
میں اپنے بستر پر لیٹ گئی اور چادر منہ پر اوڑھ لی۔ میں سوچنے لگی اور پھر مجھے احساس ہوا کہ میں نے یہ جو سب کچھ کیا یہ صرف اپنے بھائی کو ڈانٹ سے بچانے کیلئے کیا۔ ہم بہت لڑتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود میں نے اس کے لیے قربانی دی۔ یہ بہت بڑی قربانی ہے۔ مجھے لگا کہ کوئی میرے بستر کے قریب کھڑا ہے۔ میں نے چادر ہٹا کر دیکھا تو سعد تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’ شکریہ آپی۔‘‘ میرا پیارا چھوٹا بھائی محبت سے مجھ سے لپٹ گیا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
’’میرا خیال ہے بڑی بہن اسی لیے ہوتی ہے۔ وہ آپ کی بالکل دوست بن جاتی ہے جب آپ کو ضرورت ہو۔۔۔‘‘ میں نے بڑی دلچسپی اور توجہ سے سعد کا ’’فلسفہ‘‘ سنا اور مسکرا دی۔

(انگریزی ادب سے ماخوذ)

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top