عقلمند خرگوش
ترکی کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
کسی جنگل میں ایک بوڑھاشیر رہتا تھا۔ جب اسکے مرنے کا وقت قریب آیا تو اس نے جنگل کے تمام جانوروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے جنگل کا انتظام اپنے نو جوان بیٹے کے حوالے کر دیا۔ نیابا دشاہ جوش اور جذبے سے بھر پور تھا۔ اس میں کام کرنے کی بہت لگن اور ہمت تھی۔ اس نے حکومت ہاتھ میں آتے ہی جنگل کا انتظام ایسی خوش اسلوبی سے سنبھالا کہ سب خوش ہو گئے۔ بوڑ ھاشیر بھی بہت مطمئن تھا۔ ایک روز اس نے آنکھیں موند لیں اور ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ اسکے مرنے کے کچھ عرصے بعد ہی نئے بادشاہ نے ایک اجلاس بلوایا اور جنگل کے تمام جانوروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ جنگل کے تمام وسائل صرف جوانوں کے لئے ہونے چاہئیں کیونکہ و ہی اپنی محنت کے بل پر سب کام کرتے ہیں تو جو کام کرتا ہے ہر نعمت کا حقداروہ ہے۔ بوڑھے اپنے وقتوں میں ہر نعمت سے فائدہ اٹھا چکے۔ اب جوان کام کرتے ہیں اور بوڑھے بیکار بیٹھ کر مزے سے کھاتے ہیں۔ اس طرح یہ نو جوانوں کا حق مارتے ہیں۔ میں اس جنگل کا بادشاہ ہوں۔ یہاں میر احکم چلتا ہے۔ میں اپنے راج میں کسی کی حق تلفی نہیں ہونے دوں گا۔ میر احکم ہے کہ ہروہ بوڑ ھا جانور جومحنت کے قابل نہیں وہ کسی نعمت کا بھی مستحق نہیں لہٰذا ہر بوڑ ھے جانورکوموت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔“
نو جوان بادشاہ کا یہ حکم سن کر سب جانور دم بخودرہ گئے مگر بادشاہ کے سامنے بولنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ شیر نے کچھ خونخوار جانوروں کی کمیٹی بنائی اور انہیں حکم دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر جنگل کے تمام بوڑھے جانوروں کو ماردیا جائے۔ چنانچہ اسکے حکم پر چن چن کر بوڑھوں کو ختم کر دیا گیا۔
اس جنگل میں ایک بوڑھاخر گوش بھی رہتا تھا۔ جس کا نام ”کوٹو بے“ تھا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تو ابھی مرنانہیں چاہتا۔ بیٹے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے باپ کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا۔”میرے پیارے ابا! میں بھی آپ کو اس طرح مرتا نہیں دیکھ سکتا،پر بادشاہ اور اسکی طاقتور فوج کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہے؟ آپ ہی مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟“
کوٹو بے کوایک تجویز سو جھ ہی گئی اور اس کے مطابق اسکے بیٹے نے اسے جنگل کے اس گھنے حصے میں جہاں دن کے وقت بھی تاریکی چھائی رہتی تھی ایک بہت پرانے درخت کی گہری کھوہ میں چھپادیا۔ وہ روز رات کو چپکے سے اپنے باپ سے ملنے جاتا اور اسے کچھ نہ کچھ کھانے کوبھی دے آتا۔
ادھر کچھ ہی دنوں میں جنگل سے تمام بوڑھے جانوروں کا خاتمہ ہو گیا۔ نو جوان شیر بہت خوش تھا کیونکہ اسکی سمجھ کے مطابق اب تمام نعمتیں ان کے لئے تھیں جو محنت کرتے تھے۔ ایک روز بادشاہ نے پورے جنگل کا چکر لگایا۔ تمام معاملات دیکھے اور پھر کچھ دیر آرام کر نے کے لئے ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گیا۔ اتفاق سے ادھر سے ایک سانپ گزرا اور شیر کابڑ اسا منہ کھلا دیکھ کر شاید وہ اسے کسی غارکا دہانہ سمجھا اور اس میں گھس گیا۔ ابھی وہ اسکے حلق تک ہی پہنچا تھا تو تکلیف سے شیر کی آنکھ کھل گئی اور وہ خوفناک آواز میں دھاڑ نے لگا۔ سانپ نے گھبرا کر ایک بل کھایا اور و ہیں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔ شیر کی دھاڑیں سن کر بہت سے جانو را کٹھے ہو گئے۔
شیر نے کراہتے ہوئے بتایا کہ ”شاید کوئی سانپ میرے حلق میں گھس گیا ہے۔ جلدی سے میرا پیچھا چھڑاؤ۔ میں تکلیف سے مرا جار ہا ہوں۔“
سب جانو را یک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ وہ سب کم عمر اور نا تجر بے کار تھے۔ انہیں ایسی صورتحال سے پہلے کبھی پالا نہیں پڑا تھا۔ آخر کسی ایک نے ہمت کر کے کہا۔”بادشاہ سلامت! ایسے موقعوں پہ تو بڑوں کا تجربہ اور سوجھ بوجھ ہی کام آتے ہیں۔ ہمیں تو کچھ بھی نہیں معلوم اور افسوس آج کوئی سمجھدار بزرگ ہم میں موجود نہیں جو ایسی صورتحال سے نمٹنے کا مشورہ دے سکے۔“
شیر پہلے تو بہت جھلایا پھر ایک دم مایوس ہوگیا کیونکہ بات اس کی سمجھ میں آچکی تھی۔ پریشان ہوکر بولا:
”اب کیا کیا جائے؟ کچھ تو سوچو۔ کچھ تو عقل لڑاؤ۔“
کوٹو بے کا بیٹا وہاں موجودتھا۔ اس نے فوراً اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور بولا۔”جناب! ابھی ایک بوڑھا جانورموجود ہے۔ ہم چاہیں تو اسکے تجربے اور سمجھ بوجھ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔“
”کون ہے وہ؟ کہاں ہے؟؟ جلد سے جلد اسے یہاں لاؤ۔“ شیر بے تابی سے چلایا۔
”جناب! پہلے اسکی جان بخشی کا وعدہ کر یں۔“
”جا ؤ احمق!اسے لاؤ۔ میں نے اسکی جان بخش دی۔“ شیر تکلیف سے بے حال ہو کر بولا۔
کوڈوبے کا بیٹا بھا گتا ہوا گیا اور اپنے باپ کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
”تم چلو میں آتا ہوں۔“ کوٹو بے نے مسکرا کر کہا۔
کچھ دیر بعد جب وہ آیا تو اس نے ایک چوہا پکڑ رکھا تھا۔ سب حیران تھے کہ وہ کیا کرنے جارہا ہے؟ کوٹو بے نے چو ہے کوشیر کے عین سامنے چھوڑ دیا۔ چوہے کی بو پا کر سانپ نے فوراً اپنی کنڈ لی کھولی، واپس بل کھایا اور باہر نکل کر چوہے کے پیچھے بھاگنے لگا۔ سب یہ نظار ہ دیکھ کر دم بخودرہ گئے۔ شیر کو سانپ سے نجات پا کر نا قابل بیان راحت ملی۔ ساتھ ہی اسے ندامت اور شرمندگی نے گھیر لیا۔ اس نے سر جھکا کر اور ہاتھ جوڑ کر بوڑھے خرگوش سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کسی جانور کو بوڑھاہونے کے جرم میں نہیں مارا جائے گا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ کاروبارحیات چلانے کے لئے صرف جوانوں کی طاقت ہی نہیں بلکہ بوڑھوں کا تجر بہ اور سوجھ بوجھ بھی ضروری ہے۔