آؤ مرنے کے لیے چلیں
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ملک شام میں رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان بہت سی لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں یرموک کی لڑائی سب سے بڑی اور سخت تھی۔ اس میں مسلمانوں کی کل تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ تھی جبکہ ان کے مقابلے میں رومیوں کی تعداد دو لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ تھی اور ان کے پاس سامان جنگ بھی بہت زیادہ تھا لیکن مسلمانوں نے اللہ کے بھروسے پر رومیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور مردانہ وارلڑتے ہوئے ان کے ہزاروں آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا مگر ان کی تعداد کم ہونے میں نہیں آتی تھی اور وہ تازہ دم فوجی دستے میدان میں لے آتے تھے۔ یہ لڑائی کئی دن تک جاری رہی۔ کبھی رومی مسلمانوں کو پیچھے دھکیل دیتے تھے اور کبھی مسلمان رومیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ ایک دن رومیوں نے اسلامی فوج پر اس زور کا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم ڈگمگا گئے اور وہ تیزی سے پیچھے ہٹنے لگے۔ اس طرح فوج کی ساری صفیں ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اسلامی فوج کے جس حصے پر دشمن ز بردست دباؤ ڈال رہا تھا اس کے افسر حضرت عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اسلام کے مشہور دشمن ابو جہل کے بیٹے تھے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے مسلمانوں کے خلاف کئی لڑائیوں میں حصہ لے چکے تھے لیکن جب رسول پاک ﷺ نے ۸ ہجری میں مکہ فتح کیا تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور رسول پاک ﷺ نے ان کی ساری خطائیں معاف فرما دیں۔ اس کے بعد وہ ایسے پکے اور سچے مسلمان بنے کہ ہر وقت اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ رومیوں کے خلاف جہاد شروع ہوا تو وہ شام جانے والے اسلامی لشکر میں شامل ہو گئے اور رومیوں سے ہونے والی ہرلڑائی میں جان ہتھیلی پر رکھ کرلڑے۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے انہیں فوج کے ایک دستے کا افسر بنادیا تھا۔ یرموک کی لڑائی میں جس وقت انہوں نے دیکھا کہ رومیوں کا دباؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور مسلمان بے ترتیبی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو ان کو سخت جوش آیا۔ انہوں نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایااور رومیوں کو للکار کر کہا:
”رومیو! میں کسی زمانے میں (اسلام قبول کرنے سے پہلے) خود رسول اللہ ﷺ سے لڑ چکا ہوں، کیا آج تمہارے مقابلے میں میرا قدم پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔“
پھر اپنی فوج کی طرف دیکھا اور پکارے۔”آؤ کون میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرتا ہے؟“
ان کی آواز پر چارسو مجاہد آگے بڑھے اور ان کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی۔ ان میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے بھی شامل تھے۔ پھران جانبازوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے کے سامنے نہایت بے جگری سے لڑنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ایک ایک شہید ہو گیا یا سخت زخمی ہو کر لڑ نے کے قابل نہ ر ہالیکن رومیوں کا منہ بھی پھر گیا اوروہ پیچھے ہٹ گئے۔
حضرت عکرمہ اور ان کے دونوں بیٹے زخموں سے چور چور ہو گئے تھے۔ حضرت خالد بن ولید انہیں دیکھنے آئے اور ان کے سروں کو اپنی ران اور پنڈلی پر رکھ لیا، پھر ان کے چہروں سے خون پونچھا اور حلق میں پانی ٹپکا یالیکن کچھ دیر بعد تینوں نے دم توڑ دیا اور شہادت کا درجہ پا کر جنت میں پہنچ گئے۔
ایسے ہی جانبازوں کی بہادری کا نتیجہ تھا کہ رومیوں نے ہرلڑائی میں مسلمانوں سے شکست کھائی اور آخر کار سارے شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔