انوکھی چوری
عبدالرشید فاروقی
۔۔۔۔۔۔
”ارے…یہ کہانی…“ خرم نے چونکتے ہوئے کہا۔
”کیا ہوا؟“
”یہ دیکھو؟“خرم نے رسالہ نوید کے سامنے کردیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جارہی تھیں۔ نوید نے اس کے ہاتھ سے رسالہ لیا اور دیکھنے لگا۔
”یہ جوکہانی تم دیکھ رہے ہو…یہ میری کہانی ہے۔“
”لیکن اس پر نام جمشید احمد کا لکھا ہواہے۔“نوید نے مسکراکرکہا۔
”ہاں۔اوراسی بات پر تو مجھے حیرت ہورہی ہے۔“
”تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ یہ تمہاری کہانی ہے۔“نوید بولا۔
”میرے پاس ثبوت موجودہے۔“
”ثبوت…“
”ہاں!میں نے جوکہانی لکھی تھی اسے کسی رسالے کو نہیں بھیجاتھا،لیکن میں دیکھ رہاہوں، یہ کہانی بالکل میری کہانی ہے…وہی پلاٹ…وہی واقعات وکردار اورتو اور الفاظ بھی میرے ہیں۔“
”یہ کیسے ممکن ہے۔“نوید حیرا ن تھا۔
”تمہیں یہ سن کر مزید حیرت ہوگی کہ میرے ساتھ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہاہے،میں کافی سوچ و بچار کے بعد کوئی کہانی لکھتا ہوں اور اپنے پاس محفوظ کرلیتاہو ں لیکن میں وہی کہانی جمشید احمد کے نام سے چھپی ہوئی دیکھتاہوں،میں نے بڑی کوشش کی، اس راز کو جان سکوں لیکن میں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا،میری ہرکہانی جمشید کے نام سے چھپ جاتی ہے اور میں منہ دیکھتا رہ جاتاہوں۔“ خرم نے کہا۔
”اوہ…“ نوید کے منہ سے نکلا۔
”نوید!میں بہت پریشان ہوں…“
”ارے!کہیں ایسا تو نہیں، تمہارا کوئی بھائی تمہاری کہانی جمشید احمد کے فرضی نام شائع کروا رہا ہو۔“
”انہیں تو ابھی ٹھیک سے پڑھنا لکھنا بھی نہیں آتا ہے،وہ ایسی حرکت کیسے کرسکتے ہیں؟“
”گھر میں کوئی اورجوایسا کرسکتاہو؟“ نوید نے پوچھا۔
”نہیں…اور ویسے بھی میں الماری کو تالا لگا کر رکھتاہوں، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں کہانی جس طرح رکھتا ہوں،ویسے ہی پڑی ہوئی ملتی ہے۔“
”تمہارا مطلب ہے،کہانی کوکوئی چھیڑتا تک نہیں ہے۔“
”یہی بات ہے۔“
”عجیب…انتہائی عجیب…خیر، گھر چل کر کچھ سوچتے ہیں۔“ نوید نے کہا۔
دونوں گھر پہنچے۔
”لیاقت کافی دیرسے تمہاراانتظار کررہاہے۔“ خرم کو دیکھتے ہی اس کی امی نے کہا۔
دونوں ڈرائنگ روم میں پہنچے تو لیاقت کو موجود پایا۔انہیں دیکھتے ہی وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا:
”گلدستے کا تازہ شمارہ دیکھا…“
”ہاں! یہ رہا…“ خرم نے مسکراتے ہوئے ماہنامہ گلدستہ اس کے سامنے کردیا۔
”جمشید احمد کی کہانی پھر چھپی ہے،کہیں یہ بھی توتمہاری نہیں ہے؟“
”ہاں!یہ بھی میری ہے، میں تمہیں کہانی کا مسودہ لاکر دکھاتاہوں۔“ خرم نے کہا اور اٹھ کر چلاگیا، تھوڑی دیر بعد لوٹا تو اس نے ہاتھ میں کہانی کا مسودہ پکڑاتھا۔اس نے مسودہ لیاقت کو پکڑاتے ہوئے کہا:
”دونوں کہانیوں کا موازنہ کرو…اور بتاؤ…ان میں کیا فرق ہے؟“
کہانیاں پڑھ کر دونوں حیرت سے خرم کا منہ تکنے لگے:
”یہ کیا چکر ہے بھئی؟“
”اللہ جانتا ہے، جمشیداحمد میری کہانیاں کیسے نقل کرلیتا ہے۔“خر م کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔
”نقل کر لیتا ہے،مگرکیسے،وہ تو دوسرے شہرے میں رہتاہے،دونوں شہروں میں ستر کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔“
”اسی بات پر تو مجھے حیرت ہے۔“خرم نے کہا۔
”ایک بات تو بتاؤ؟“ لیاقت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”پوچھو،کیاپوچھنا چاہتے ہو؟“
”تمہارے لکھنے کا وقت کیا ہے؟“
”کیا مطلب!“خرم نے حیرت سے لیاقت کو دیکھا۔
”میرا مطلب ہے کیا تمہارے لکھنے کا کوئی مخصوص وقت ہے۔“
”ہاں ہے…میں دوپہرکو ٹھیک ظہرکی نماز کے بعد لکھنا شروع کردیتا ہوں۔“
”اس بات سے اور کون واقف ہے؟“
”میرے گھروالوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں۔“
”ہوں!تم ایک کام کرو۔“
”کیا؟“
”تم اپنے لکھنے کا وقت تبدیل کردو۔“لیاقت نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اس سے کیا ہوگا۔“
”میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے،میں اس پہلو سے تمہارے مسئلے پرغور کررہاہو ں۔تم اپنے لکھنے کا وقت بدل دو۔ دو ماہ کے بعد مجھے بتا نا، کوئی اہم واقعہ پیش تو نہیں آیا۔“لیاقت نے کہا۔خرم نے اس کی طرف دیکھا اور بولا:
”نہ جانے تمہارے ذہن میں کیا ہے…بہرحال،میں کل سے وقت تبدیل کرلوں گا۔“
اور پھر ٹھیک دوماہ بعد لیاقت،نوید اورخرم ڈرائنگ روم میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔خرم کے چہرے پر حیرت وخوشی کے ملے جلے آثار تھے:
”اب کیا حالات ہیں، کہانیاں اب بھی چوری ہو رہی ہیں یا…“ لیا قت نے مسکراکر کہا۔
”حیرت ہے،میری کہانیوں کی چوری رُک گئی ہے…دوماہ سے جمشید کی کوئی بھی کہانی شائع نہیں ہوئی، یعنی میری کوئی کہانی اس کے نام سے شائع نہیں ہوئی ہے۔“خرم کے چہرے پر حیرت و خوشی کے ملے جلے آثار تھے۔
”اس کے علاو ہ کوئی بات…“
خرم نے چند لمحے سوچا، پھر بولا:
”اس دوران ایک بات ہوئی ہے۔“
”اور وہ یہ کہ تمہیں جمشید احمد کے شہر سے کوئی مسلسل خط لکھ رہا ہے۔“ لیاقت کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”ار ے!تمہیں کیسے علم ہوا،اس بات کوتو میرے گھروالے بھی نہیں جانتے۔“
”خط لکھنے والا تم سے تمہارے لکھنے کا وقت دریافت کرتا تھا،جو تم نے نہیں بتایا۔“
”اوہ…اوہ…تم…یہ بات بھی جانتے ہو۔“خرم کا مارے حیرت کے منہ کھل گیاجبکہ نوید کو بھی حیران تھا۔
”میں جان گیا ہوں، جمشید احمد تمہاری کہانیاں کیسے چراتا رہا ہے۔“لیا قت کا لہجہ پراسرار سا لگ رہا تھا۔
”کیا مطلب!!!“ خرم اور نوید اچھل کر کھڑے ہوگئے۔
”ہا ں!میں اس انوکھی چوری کا راز جا ن گیاہوں۔“
”جلدی بتادو…ورنہ میں مارے حیرت کے مرجاؤں گا۔“خرم نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔
”میں اب تمہیں ایسی بات بتانے لگا ہوں،جسے سن کر تم اچھل پڑوگے۔“
”لگتاہے…آج میرے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔“خرم بولا۔
”جس د ن تمہاری پہلی کہانی چوری ہوئی تھی،اس سے چند دن قبل تمہیں جمشید احمد کے شہر سے ایک خط موصول ہواتھا۔لکھنے والے نے تم سے پوچھا تھا، تم کس وقت لکھتے ہو…“ لیاقت نے کہا۔ اس کے چہرے پرمسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
خرم کی حالت دیکھنے والی تھی۔وہ حیرت سے بت سا بن گیا تھا۔
”اس کا مطلب ہے، لیاقت درست کہہ رہا ہے۔“ نوید ہولے سے مسکرایا۔
”ہاں!مجھے ایک لڑکے کا خط موصول ہوا تھا،دراصل وہ مجھ سے قلمی دوستی کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے جواب لکھ دیا تھا۔اپنے اگلے خط میں اس نے واقعی مجھ سے میرے لکھنے کا وقت دریافت کیا تھا۔“
”لیاقت!تم نے یہ سب کیسے جان لیا؟“ نویدلیاقت کی طرف مڑا۔اس نے چائے کا آخری گھونٹ لیا اور کہنے لگا:
”دراصل اس تمام چکر میں ٹیلی پیتھی کارفرماتھی، جمشید احمد کے چچا اس کام میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔اس کے بے حد اصرارپر اُس کے چچا اس کے لیے تمہاری کہانیاں چرانے لگے۔جمشید احمد تم سے حسد کرتاہے،تمہاری اچھی اچھی کہانیاں پڑھ کر اس کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے تھے۔چنانچہ اس نے تمہاری کہانیاں چوری کرنے کا ایک انوکھا منصوبہ بنایا،فرضی نام سے خط لکھ کر تم سے تمہارے لکھنے کا وقت معلوم کیا،یہ وقت اس نے اپنے چچا کو بتادیا اور پھر اِدھر تم لکھنے بیٹھتے، ادھر جمشید احمدکے انکل کمرے میں تنہا بیٹھ کر، تمہارے ذہن کو پڑھنے لگتے۔ اس طرح تمہارے خیالات،تمہاری کہانیوں کے پلاٹ بلکہ پوری کی پوری کہانیاں ان کے میں ذہن میں منتقل ہوجاتی تھیں،جنہیں لکھ کر وہ جمشیداحمد کے نام سے کسی نہ کسی رسالے کو بھیج دیتے تھے، تم اپنی کہانیوں کی اشاعت پر حیران وپریشان ہوتے رہے، ادھر جمشید احمد خوب خوش ہوتا تھا۔“لیاقت خاموش ہوگیا۔
”اوہ… تویہ ٹیلی پیتھی کی شرارت تھی۔“نوید نے منھ بنا کر کہا۔
اسے منھ بناتے دیکھ کر،لیاقت اور نوید مسکرانے لگے۔
OO