skip to Main Content

انجانی مُہم

امجد اسلام امجد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفدر،منصور اور ذیشان آپس میں گہرے دوست ہیں۔لاہور جانے کے لئے وہ کراچی اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہوئے۔دورانِ سفر ایک پرسرار شخص جس نے نیلا کوٹ زیب تن کیا ہوا تھا،ان سے باتیں کرنے لگا۔دروانِ گفتگو منصور کے ہاتھ میں ذیشان نے ایک پرچی تھمائی جس پر کوڈورڈ کا ایک جملہ تحریر تھا۔باتھ روم جاکر منصور نے پرچی دیکھی تو اس پر درج تھا کہ ……”ھوبڈ نا ثواگ ہوام یا“……یعنی یہ آدمی ٹھیک نہیں ہے ……منصور ہاتھ دھو کر باتھ روم سے نکلا تواسے شدید حیرت ہوئی کیونکہ نیلے کوٹ والا غائب تھا۔لیکن اس کا کوٹ نشست پر موجود تھا۔معلوم ہوا کہ وہ اپنا کوٹ چھوڑ کر سوٹ کیس لے کر روانہ ہوگیا۔اچانک منصور نے اپنے سامان کو دیکھا تو پتا چلا کہ نیلے کوٹ والا اپنا سوٹ کیس چھوڑ کر ان کا سوٹ کیس لے کر روانہ ہوگیا ہے۔اتنے میں ٹرین کی رفتار کم ہونے لگی۔ٹرین تھوڑی دیر کے لئے اسٹیشن پر رکی اور پھر چل پڑی۔جس علاقے سے ٹرین گزر رہی تھی وہ ملٹری کا علاقہ تھا۔ذیشان نے اپنا شک ظاہر کیا کہ ممکن ہے نیلے کوٹ والا مشتبہ شخص چیکنگ کے خوف سے یہ سوٹ کیس یہاں چھوڑ گیا ہو۔ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ پولیس انسپکٹر سامان کو شک بھری نظروں سے دیکھتا ہوا وہاں آپہنچا۔پولیس انسپکٹر سوٹ کیس اور نیلے کوٹ کو دیکھ کر ٹھٹکا اور تلاشی لینا چاہی۔مگر ذیشان نے انسپکٹر کو ایک کارڈ دیتے ہوئے بتایا کہ و ہ کرنل رحمان کے پرائیوٹ سیکرٹ سروس کے رکن ہیں۔اس پر انسپکٹر مطمئن ہو کر چلا گیا۔ رات کو جب اندھیرا چھاگیا تو کھانا کھانے کے بعد ذیشان، منصور اور صفدر سوٹ کیس لے کر باتھ روم میں گئے اور اپنے پاس پہلے سے موجود ماسٹر چابی کے ذریعے اسے کھولنے کوشش کی۔سوٹ کیس میں سونے کی اینٹیں اور ہیرے جگمگا رہے تھے۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ لاہور پہنچ کر خالو کی مدد سے اس سوٹ کی بابت پولیس کو بتائیں گے۔لاہور پہنچنے کے بعد جب وہ اسٹیشن سے باہر آئے تو ایک ٹیکسی ان کے قریب آکر رکی۔ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ میں آپ کو آپ کی منزل پر چھوڑ دوں گا۔تشریف رکھیں۔ذیشان،منصور اور صفدر ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ٹیکسی چل دی۔تھوڑی دیر بعد ٹیکسی جب شہر کو چھوڑ کر ویرانے کی طرف جانے لگی تو صفدر چلایا ……”یہ کیا حرکت ہے؟“اس ڈرائیور نے اپنے چہرے پر سے سرکے ہوئے ہیٹ کو ہٹا کر دیکھااور ان پر پستول تان لی……تینوں سہم گئے۔یہ تو وہی شخص تھا نیلے کوٹ والا۔ٹیکسی چلتی رہی۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک غیر آباد علاقے میں پہنچ گئے تھے۔انہیں گھنی جھاڑیوں میں ہی ایک عمارت میں لے جایا گیا۔اندر تاریک شیشوں کی عینک چڑھائے ”میگھاری“ نام کا ایک شخص انہیں ملا۔یہ چیف باس کا نائب تھا۔وہاں موجود غنڈے اور میگھاری ان تینوں کو کرنل رحمن کے حوالے سے اچھی طرح جانتا تھا۔ چنانچہ اس کے حکم سے تینوں کو ایک تنگ وتاریک کمرے میں بند کردیا گیا۔مگر رات کو وہ کسی نہ کسی طرح اس عمارت سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔جب وہ اپنے خالو کے گھر پہنچے تو وہاں سے تیز بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔اندر سے آنے والی آوازیں میگھاری،دھاریوال اور ان کے خالو کی تھیں۔ دھاریوال کو اچانک ان کی موجودگی کا احساس ہوگیا۔مگر وہ اس کے آنے سے پہلے ہی گھر سے باہر نکل آئے۔انہوں نے جو دیکھا اس کی ان کو بالکل توقع نہ تھی۔
جمبو اور گیٹو ان کو گھر کے اندر لے گئے۔وہاں ان پر انکشاف ہوا کہ صفدر کے خالو بھی ان بدمعاشوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صفدر کے خالو ……حاجی کمال بیگ نے ایک ٹرانس میٹر پر اپنے باس کو کرنل رحمان کے ارکان کو پکڑ لئے جانے کی اطلاع دی۔ تھوڑی دیر بعد میگھاری ان کو لے کر کسی نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگیا۔اس کے ساتھ تین اور غنڈے بھی تھے۔مگر منصور نے چالاکی سے کام لیا۔ تینوں لڑکوں نے ان بدمعاشوں پر قابو پالیا۔پھر منصور نے ان کے کوارٹر کا پتہ معلوم کیا اور ان کو اس طرف لے چلا۔ابھی ان کے پیدل سفر کا آغاز ہی ہوا تھا کہ انہیں آواز آئی ”اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دو۔“
یہ آواز حاجی کمال بیگ کی تھی جو اسٹین گن لئے ان کی طرف آرہا تھا۔کمال کو دیکھ کر جمبو اور میگھاری کو بہت تعجب ہوا۔اتنے میں انہوں نے دھاریوال کو زخمی حالت میں اپنی طرف آتے دیکھا۔پھر وہ تینوں صفدر،ذیشان اور منصور کو لے کر اپنے بگ باس کے پاس پہنچے۔ باس نے کمال کو ان تینوں کے ساتھ اپنے کمرے میں طلب کیا۔کمرے میں پہنچ کر منصور نے منہ ڈھانپ کر کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص پر حملہ کیا مگر اس کے گرد شیشے کی دیوار سے ٹکرا کر زخمی ہوگیا۔تبھی منصور اور کمال پر چھت سے پانی برسنے لگا۔جس سے منصور ہوش میں آگیا اور کمال کامیک اپ اتر گیا۔جس سے ظاہر ہوا کہ وہ کمال نہیں کرنل رحمن تھے۔یہ دیکھ کر یہاں لڑکوں کو حیرت ہوئی۔بگ باس یعنی ہاکسن ولیم کو یہ بات معلوم تھی کہ کرنل رحمن کمال کے بھیس میں یہاں پہنچ گئے ہیں۔پھر ان تینوں کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا۔کمرے میں تینوں لڑکوں نے کرنل رحمن سے ان تینوں تک پہنچنے کی تفصیلات پوچھیں۔تھوڑی دیر بعد اصلی کمال پولیس سے رہا ہو کر وہاں آپہنچا اور باس کی ہدایت پر ان چاروں کو لے کر ہیڈکوارٹر جاپہنچا۔پھر لفٹ کے ذریعے انہیں اس زمین دوزبستی میں لے جایا گیا جہاں انتہائی بڑی بڑی شخصیتیں اغواء ہونے کے بعد سے قید تھیں۔ان سب کے نام بستی کی ایک اسکرین پر چاروں کے سامنے ظاہر ہورہے تھے۔ان میں ایک نام دیکھ کر وہ سب چیخ اٹھے۔

اسکرین پر کرنل نقوی کا نام روشن تھا جن کے بارے میں اطلاع تھی کہ انہیں حکومت نے گرفتار کر کے انتہائی سخت حفاظت میں رکھا ہے۔دھاریوال نے ان چاروں کو بتایا کہ دراصل قید ہونے والا کرنل نقوی،کرنل نقوی کی ڈمی ہے۔پھر ان چاروں کو خوبصورت کمروں میں قید کر دیا گیا۔جہاں ویڈیو کیمرے اور مائکرو فون نصب تھے۔تھوڑی دیر بعد دھاریوال ان چاروں کو لے کر زمین دوز بازار کی سیر کو نکلا۔ با زار میں بہت سے لوگ مخصوص ٹوکنوں کے ذریعہ خریداری کر رہے تھے۔یہ ٹوکن انہیں منشیات اور اسلحہ ساز فیکٹریوں میں کام کرنے کے عوض ملے تھے۔ان چاروں کو بازار میں موجود کسی بھی شخص سے بات چیت کی اجازت نہ ملی۔ وہ گھومتے گھومتے فیکٹریوں کے قریب پہنچ چکے تھے۔اچانک فیکٹریوں کے سائرن زور سے چیخنے لگے۔دراصل کرنل رحمن دھاریوال کی نظر بچا کر فیکٹری کے اس کمرے میں پہنچ گئے تھے جہاں کمپیوٹر نصب تھے۔تھوڑی دیر بعد فیکٹری سے دھماکے کی آواز آئی۔دھاریوال کے چہرے پر ہوائیاں اڑرہی تھیں۔
افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ذیشان،منصور اور صفدر وہاں سے بھاگ نکلے۔ خوفزدہ ہوکر بھاگنے والے لوگوں کے ہجوم نے دھاریوال کو کچل کر رکھ دیا تھا۔تھوڑی دیر بعد کرنل رحمان بھی ان سے آملے۔ یہ لوگ زمین دوز شہر سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ صفدر کے بتانے پر وہ سب لوگ ایک نیم تاریک طویل سرنگ میں داخل ہوگئے۔سرنگ میں روشنی کاکوئی انتظام نہیں تھا لیکن اندھیرا بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔وہ باتیں کرتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ اس سرنگ کا اختتام ایک بڑے سے دروازے پر ہوا۔کافی تلاش کرنے کے بعد اس دروازے کا میکنیز م ملا اور دروازہ کھول کر وہ لوگ دوسری طرف چلے گئے۔یہ ایک بڑا سا کمرہ تھا جو پہاڑ کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ ایک طرف لوہے کا جنگلہ سا تھا جس کی دوسری طرف نیم مردہ افراد باس سے بغاوت کی سزا بھگت رہے تھے۔ا چانک کمرہ قہقہوں کی آواز سے گونج اٹھا اور یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ کرنل رحمان اصل رحمان نہیں بلکہ ان کی ڈمی ہیں۔لیکن جلد ہی اصل رحمان بھی ان کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور پھر دونوں رحمانوں کی درمیان خطرناک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ڈمی رحمان نے دھوکے سے ان سب کو ایک جنگلے میں قید کردیا جس کا فرش بھی لوہے کا تھا اور اس میں بجلی کا کرنٹ دوڑا دیا۔کمرہ انسانی چیخوں سے گونج رہا تھا کہ اچانک زلزلے نے صورت حال کو اور بھی خطرناک کردیا۔ اس کمرے کی چھت ایک دھماکے سے زمین پر آرہی اور انسان اپنی چیخوں سمیت اس کے نیچے دب گئے۔
ذیشان،صفدر اور منصور کو اپنے تن بدن کا ہوش نہ تھا۔اب تک تو وہ گیند کی مانند لڑھک رہے تھے لیکن جیسے ہی پہاڑ کا ترا شیدہ حصہ اچانک زمین پرآگرا،انہوں نے اپنی آنکھوں سے ڈمی کرنل رحمٰن کو اس دیوار کے تلے دفن ہوتے دیکھا۔اس کے منہ سے نکلنے والی آخری چیخ بڑی بھیانک تھی۔
اب وہ چاروں ایک اندھیری قبر میں قید ہوچکے تھے۔غالباًزلزلے کے باعث اس علاقے میں بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا اور یہی بات ان کی زندگی کی ضمانت بن گئی تھی کیوں کہ اب اس کمرے کے فرش میں کرنٹ نہیں دوڑ رہا تھا۔
کچھ دیر بے سدھ پڑے رہنے کے بعد صفدر نے ہمت کی اور اپنی تمام قوت کو جمع کر کے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔اس نے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا کر اپنے ساتھیوں اور انکل رحمن کو آواز یں بھی دینا شروع کردیں۔ چند ہی لمحوں بعد اسے انکل رحمن کی آواز سنائی دی جو کہہ رہے تھے۔”بیٹا،گھبرانا نہیں،ان شاء اللہ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ضرور مل جائے گا۔“صفدر کو اس وقت انکل کی یہ بات بڑی عجیب سی لگی۔قبر نما اس کمرے کی گھٹن میں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔پھر صفدر کو دھندلی سی روشنی دکھائی دی۔یہ انکل رحمن تھے جو اپنا لائیٹر جلا کر ان تینوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔
صفدر نے انہیں آواز دی۔”میں یہاں ہوں انکل۔“کرنل رحمن تیزی سے اس کی طرف آئے۔انہیں راستے میں ٹھوکر لگی۔وہ بے ہوش پڑے ہوئے منصور سے ٹکرا گئے تھے۔انہوں نے جلدی سے منصور کو اٹھا کر صفدر کے قریب لٹادیا۔اس وقت انہیں،ذیشان کی کراہ سنائی دی۔”اب کیا کریں انکل۔یہاں تو سانس لینا بھی مشکل ہے۔“صفدر نے پریشان ہوکر کہا۔
”گھبراؤ مت بیٹے۔اللہ کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے، اسی کو یا دکرو۔“انکل رحمن نے یہ کہہ کر لائیٹر بجھا دیا اور وہ سب پھر تاریکی کا حصہ بن گئے۔
”انکل!“صفدر نے بے تابی سے کہا۔”ہمیں یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش……“اسی وقت ایک زوردار جھٹکا لگا، صفدر اپنی بات مکمل نہ کر سکا اور لڑکھڑا کر گر پڑا۔زمین ایک بار پھر شدت سے ہلنے لگی تھی۔
”اوہ۔پھر زلزلہ۔!“انکل رحمن کی آواز آئی۔
زمین بری طرح سے لرزنے لگی تھی،پھر ایک پُر شور آواز آئی اور ایسا لگا کہ بہت سے تو دے لڑھک گئے ہیں،اس کے ساتھ ہی انہیں محسوس ہوا کہ تازہ ہوا کا جھونکا اندر کو چلا آیا ہے۔ان کے چاروں طرف اب بھی تاریکی تھی۔
”مبارک ہو بچّو۔“انکل رحمن پر جوش لہجے میں بولے۔”اللہ کا شکر ہے کہ یہ زلزلہ ہماری رہائی کا پیا مبربن کر آیا ہے۔آؤ دیکھو،مجھے سورج کی روشنی نظر آرہی ہے۔
آؤ یہاں سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔“انکل رحمن نے کہا۔وہ چاروں اسی دراڑ کی سمت بڑھنے لگے جس سے روشنی نمودار ہو رہی تھی۔یہ دراڑ خاصی بلندی پر تھی۔انکل رحمن کی تجویز پر منصور نے دراڑ تک پہنچنے کے لئے اوپر چڑھنا شروع کردیا۔وہ کوہ پیمائی کا اچھا تجربہ رکھتا تھا۔ابھرے ہوئے پتھروں پر احتیاط سے قدم جماتے ہوئے وہ دراڑ تک جا پہنچا۔خوش قسمتی سے مٹی بھر بھری تھی۔منصور نے اپنے چاقو کی مدد سے ذرا سی دیر میں اس دراڑ کو ایک چوڑے شگاف میں بدل ڈالا۔ایک ایک کرکے وہ چاروں اس شگاف سے باہر نکل آئے۔
ان سب کے منہ سے حیرت زدہ سی آواز نکلی۔وہ چاروں کسی وادی میں تھے جو خاموشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔اب ان کی سمجھ میں آیا کہ انہیں زیر زمین لے جانے والی لفٹ آدھے گھنٹے تک کیوں سفر کرتی رہی تھی۔

”میرا خیال ہے،ہمیں اب یہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔“انکل رحمن نے کہا۔
”جی نہیں انکل۔میں اپنے وطن کے بدترین دشمن کو ٹھکانے لگائے بغیر نہیں جاؤں گا۔اور پھر ان بے گناہ لوگوں نے کیا قصور کیا ہے جو یہاں قید میں پڑے سسک رہے ہیں۔“یہ منصور کی آواز تھی۔
”بالکل انکل! منصور ٹھیک کہہ رہا ہے۔“صفدر نے کہا۔
”جی ہاں۔انکل میرا بھی یہی خیال ہے۔“ذیشان بولا۔
انکل رحمن نے تینوں بچوں کو محبت سے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور جذبات سے بوجھل آواز میں بولے۔”اللہ تمہیں اور ہمت دے میرے بچّو۔اگر میرے وطن کو تم جیسے ایک ہزار نوجوان مل جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔“وہ چاروں احتیاط سے دیکھتے بھالتے آگے بڑھے۔کچھ دور جا کر پہاڑوں کا سلسلہ دائیں سمت مڑ گیا تھا۔وہ جوں ہی دایاں موڑ مڑے انہیں اچانک ٹھٹک کر رک جانا پڑا۔سامنے ایک بڑا سا ہیلی پیڈ تھاجس پر ایک ہیلی کاپٹر کھڑا تھا۔
اس وقت ایک طرف ایک بوڑھا شخص نمودار ہوا،وہ ذرا لنگڑا کر چل رہا تھا۔اس کی جھریوں بھرے چہرے پر بیزاری تھی،لیکن اس کی آنکھ میں غضب کی چمک تھی۔اس نے ان چاروں کو محض ایک نظر دیکھا، پھر لڑکھڑاتا ہوا،ہیلی کاپٹر میں چڑھنے لگا۔اسی وقت ایک لمبے قد کا سفید فام شخص تیزی سے دوڑتا ہوا آیا اور ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگیا۔
اگلے ہی لمحے منصور دیوانہ وار دوڑتا ہوا ہیلی کاپٹر کے کھلے ہوئے دروازے سے اندر داخل ہوچکا تھا۔اس کا یہ اقدام بے حد خطرناک تھا۔منصور نے ہیلی کاپٹر میں داخل ہوتے ہی سفید فام شخص پر چھلانگ لگا دی جو پائلٹ کی نشست پر بیٹھا کل پرزوں کو حرکت دے رہا تھا۔اسی وقت ذیشان، صفدر اور منصور بھی ہیلی کاپٹر میں گھس آئے۔
منصور نے سفید فام شخص کو پائلٹ کی نشست سے پیچھے کھینچ لیا تھا۔”انکل آپ ہیلی کاپٹر سنبھال لیں۔“صفدر نے بوڑھے شخص کو پکڑ رکھا تھا اور منصور سفید فام شخص کی مرمت کررہا تھا۔ذ یشان بھی اس ”اہم کام“میں ہاتھ بٹا نے لگا!
منصور کی ٹھوکر ہاکسن کے گھٹنے پر پڑی۔ہاکسن کی کراہ بلند ہوئی۔اس نے تڑپ کر کہنی منصور کے پیٹ میں مارنی چاہی لیکن منصورپھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ہاکسن اپنے ہی زورمیں آگے جا کر گرا۔منصور نے اسے پھر اٹھنے کی مہلت نہ دی۔پلک جھپکنے میں اس کی جیب سے ریوالور نکال لیا اور بولا۔”اب آپ اٹھ سکتے ہیں۔“
ہاکسن چپ چاپ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور ریوالور کے اشارے پر ہیلی کاپٹر سے نیچے اتر آیا۔صفدر نے بوڑھے کو نیچے اتارا۔ بوڑھا شخص شاید گونگا تھا۔اس نے اس طرح اتارے جانے پر ”اوں اوں کر کے احتجاج کیا“بہر حال وہ سب آگے بڑھے۔ منصور نے ہاکسن کی کمر سے ریوالور لگا رکھا تھا اور اسے آگے بڑھنے کے لئے کہہ رہا تھا۔بوڑھا لنگڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔ پھر وہ ایک جگہ ٹھو کر کھا کر گرا اور اپنا گھٹنا پکڑ کر بیٹھ گیا۔اس کے بوڑھے چہرے پر اذیت کی لہریں پھیل گئی تھیں۔
”صفدر تم یہیں رکو۔“انکل رحمن نے کہا۔”اس بوڑھے کی نگرانی کرنا۔ہم اندر کا جائزہ لے کر آتے ہیں۔“وہ تینوں ہاکسن کو لے کر آگے بڑھ گئے۔
ہاکسن کی رہنمائی میں وہ سب ایک جگہ پہاڑی کے دامن میں بنے ہوئے نشیبی راستے پر اترنے لگے۔ کچھ آگے جاکر ہاکسن نے ایک خاص جگہ تین بار پیرمارا۔ اس کے ساتھ ہی زمین میں ایک بڑا دروزہ سا کھل گیا جس میں اندرسیڑھیاں جارہی تھیں۔وہ سب نیچے اترنے لگے۔
اندر ایک طویل سی راہداری تھی۔ وہ سب اس میں چل رہے تھے تو ان کے جوتوں سے دھمک پیدا ہورہی تھی۔اچانک ہاکسن زور زور سے کھانسنے لگا اور کھانستے کھانستے دہرا ہوگیا تھا۔ وہ سب اسے دیکھنے کے لئے آگے بڑھے۔ہاکسن نے الٹی کک منصور کے ہاتھ پر ماری، منصور کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ کر دور جا گرا اور ہاکسن نے دوڑ لگا دی۔ منصور اسکے پیچھے تھا۔وہ سب دوڑ پڑے۔
راہداری آگے جاکر کافی کشادہ ہوگئی تھی۔ذیشان اور انکل رحمن جوں ہی اس کشادہ حصہ میں پہنچے، حیرت زدہ رہ گئے۔انہوں نے دیکھا کہ منصور تو ہاکسن سے گتھم گتھا ہے اور صفدر اسی گونگے بوڑھے سے ہاتھا پائی کررہا ہے۔ ان دونوں کو وہ سرنگ سے باہر چھوڑ آئے تھے۔ ذیشان اور انکل رحمن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ صفدر اور بوڑھا زیر زمین آئے کیسے۔
بوڑھے میں خدا جانے کہاں سے اتنی طاقت آگئی تھی کہ وہ چیتے کی طرح اچھل کر صفدر سے لڑرہا تھا۔دونوں اتنی تیزی سے اپنی جگہ بدل رہے تھے کہ ذیشان اور انکل رحمن کے لئے صفدر کی مدد کرنا بڑا مشکل تھا۔
ایک موقع پر صفدر نے بوڑھے کی گردن جکڑنے کی کوشش کی۔ بوڑھا تڑپ کر اسکی گرفت سے نکل گیا لیکن اس کے بال صفدر کی مٹھیوں میں آگئے۔ صفدر نے بوڑھے کے بال کھینچے تو ایک جھٹکے کے ساتھ بوڑھے کے چہرے پر سے ماسک بالوں سمیت اتر گیا۔اندر سے نیلی آنکھوں، سفید رنگت اور بھورے بالوں والا ایک جوان چہرہ نمودار ہوا۔اس چہرے پر بڑی سفاک مسکراہٹ تھی۔ وہ شخص جست لگا کر ایک طرف ہوگیا اور اس نے فاتحانہ اندازمیں کہا۔”دوستو،اس زیر زمین دنیا سے فرار ہونا تمہارے نصیب میں نہ تھا۔اب تم لوگ زندگی کی آخری سانسیں یہیں پوری کرو گے، میں تو چلا۔ہاکسن کی طرف سے الوداع ……بائی بائی!“
وہ تمام لوگوں کو حیرت زدہ چھوڑ کر ایک طرف کو تیزی سے ہٹا۔ پھر اس نے ایک طرف لگے ہوئی سرخ اور زرد رنگ کے بٹن دبایئے۔ بٹن دبتے ہی ایک دیوار ایک طرف کو سرک گئی اور ہاکسن نے اندر چھلانگ لگادی لیکن اگلے ہی لمحے ہاکسن کی دردناک چیخ اس سرنگ نماراہداری میں گونج اٹھی۔وہ سب اس طرف لپکے۔ اس دوران میں منصور اس سفید فام شخص کی ریڑھ کی ہڈی پر ایک کاری ضرب لگا کر اسے بے بس کر چکا تھا جسے کچھ دیر تک وہ ہاکسن سمجھ رہا تھا۔سفید فام شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہ بھی اسی طرف بھاگا جدھر ذیشان، صفدر اور انکل رحمن دوڑے تھے۔وہ تینوں اسی سرنگ میں جھانک رہے تھے جس میں ہاکسن نے چھلانگ لگائی تھی۔
ہاکسن کی قسمت اس کا ساتھ عین وقت پر چھوڑ گئی تھی۔ زلزلہ کے باعث سرنگ آگے جا کربہت گہری کھائی بن گئی تھی۔ہاکسن سمجھے بیٹھا تھا کہ وہ سرنگ سے دوڑتا ہوا باہر نکل جائے گا لیکن سرنگ کھائی میں بدل چکی تھی۔وہ ہزاروں فٹ گہرائی میں جا گرا تھا۔یقینااس کی ہڈیوں کا سرمہ بن گیا ہوگا۔
”اس کا یہی انجام ہونا تھا۔“انکل رحمن بولے۔پھر چونک کر کہنے لگے۔”فوراً یہاں سے نکلو۔مجھے خدشہ ہے کہ ہاکسن جاتے جاتے کوئی شرارت کر گیا ہے۔“وہ سب الٹے قدموں دوڑے۔ منصور، صفدر اور ذیشان نے بھی گیس کی بو محسوس کرلی تھی۔ہاکسن ان سب کو یہیں ہلاک کردینا چاہتا تھا۔
راستے میں وہی سفید فام شخص کراہتا ہواملا۔منصور نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس کی ریڑھ کی ہڈی پر شدید ضرب لگی تھی،وہ چیخیں مار کر رہ گیا۔آخر منصور اور صفدر نے مل کر اسے اٹھالیا اور سرنگ کے دروازے کی سمت دوڑے۔ گیس کی بو تیز ہوتی جارہی تھی۔
”باہر نکلنے کا میکنزم تلاش کرو جلدی۔ورنہ یہیں سب دفن ہوجائیں گے۔“انکل رحمن نے چیخ کر کہا۔
اسی وقت اس سفید فام نے جسے منصور اور صفدر نے اٹھا رکھا تھا،کراہ کر کہا۔ ”سفید دائرے پر سرخ رنگ کے پانچ ستارے بنے ہوں گے۔اس سفید دائرے کو دباؤ۔“

کچھ تلاش کے بعد ایک جگہ انہیں دیوار پر خوبصورت ڈیزائن بنا نظر آیا۔اس ڈیزائن میں کئی سفید دائرے تھے اور ان پر سرخ ستارے بھی تھے۔لیکن پانچ ستارے صرف ایک سفید دائرے پر تھے۔ذیشان نے جھپٹ کر اس دائرے کو دبادیا۔ایک شور کے ساتھ سرنگ کا دروازہ کھل گیا۔وہ سب ہانپتے ہوئے باہر نکل آئے۔
”یار صفدر تم اندر کس طرح پہنچ گئے؟“منصور نے باہر نکل کر پوچھا۔
”کچھ نہ پوچھو یار۔وہ بوڑھا یعنی ہاکسن غضب کا چالباز تھا۔اس نے بڑی عاجزی سے مجھ سے اشاروں میں کہا کہ اس کے پیٹ میں درد ہورہا ہے۔میں ذرا اس کی طرف سے غافل ہوا اور وہ دوڑ پڑا،ایک جگہ کا نٹے دار جھاڑیاں ایک خاص ترتیب سے اگی ہوئی تھیں، وہیں وہ اچھلنے لگا،اچھلتے ہوئے اس نے پاؤں زمین پر مارا اور زمین میں دروازہ سا کھل گیا۔اس نے اندر چھلانگ لگائی تو میں بھی اندر کود گیا۔“
”آؤ اس بستی کی صورتحال کا جائزہ لیں۔“ انکل رحمن نے کہا۔”آہ“ سفید فام شخص کراہا جسے وہ سرنگ سے نکال کر لائے تھے۔ سب کی توجہ اس کی طرف ہوگئی۔سفید فام شخص کی حالت بڑی خراب تھی۔منصور کی ضرب شایدبہت شدید تھی۔انکل رحمن نے اس شخص سے پوچھا۔”تم کون ہو؟“
”میں“سفید فام شخص کراہا۔”میں پیٹر ہوں۔ہاکسن کا پرانا خادم۔مگر مجھے اس سے نفرت ہے۔“
ان سب نے مل کر پیٹر کوایک سایہ دار جگہ پر لٹادیا۔
پیٹر نے انہیں بتایا کہ وہ کس طرح محفوظ طریقے پر اس زیر زمین بستی میں داخل ہوسکتے ہیں اور مہلک گیس کے اخراج کو بند کرنے کا کنٹرول کس کمرے میں ہے۔وہ سب پیٹر کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس بستی میں داخل ہوگئے۔انہوں نے بستی کا کونہ کونہ چھان مارا۔انہیں لاتعداد قیدی ملے۔اسلحہ اور منشیات کی فیکٹری کا آدھے سے زیادہ حصّہ زلزلے کی وجہ سے تباہ ہوچکا تھا۔ایک جگہ انکل رحمن کو چند مواصلاتی آلات صحیح حالت میں مل گئے۔ان کی مدد سے انہوں نے ہیڈ کوارٹر سے مدد طلب کر لی۔کچھ ہی دیر میں یہاں فوجی ہیلی کاپٹر کی مدد سے چھاتہ بردار فوج اتررہی تھی۔ہیلی کاپٹر کی ضرورت اس لئے بھی پڑی کہ اس دشوار گزاروادی تک جیپوں کے ذریعہ پہنچنا نہایت مشکل تھا۔ہیلی کاپٹروں سے تین ڈاکٹر بھی اترے۔انہوں نے زخمی منصور اور صفدر کو طبّی امداد دی اور پیٹر کا معائنہ کیا۔ایک ڈاکٹر نے مایوسی سے سر ہلا کر کہا۔ ”اس کی پیٹھ کسی سخت چیز سے ٹکرائی ہے۔اب شاید یہ زندگی بھر کے لئے معذور ہوجائے۔“لیکن پیٹر معذوری کی زندگی گزارنے سے پہلے ہی اسی شام چل بسا۔اس نے اپنے پاس موجود زہریلا کیپسول کھا کر خود کشی کرلی تھی۔اس بین الاقوامی گروہ کے پندرہ ارکان گرفتار کر لئے گئے۔
اس میں میگھاری بھی تھا اور حاجی کمال بیگ بھی۔ دھاریوال کی لاش مل گئی تھی۔ہاکسن کی لاش بڑی جدوجہد کے بعد فوجیوں نے نکالی۔
حاجی کمال بیگ نے عدالت میں وعدہ معاف گواہ بن کر اعتراف کر لیا کہ یہ گروہ ملک میں دھماکے کرواتا ہے اور نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنانے میں مصروف ہے اور یہ سب کچھ ایک بڑی طاقت کے اشارے پر ہوتا ہے۔پھر حاجی کمال بیگ نے عدالت میں افسردگی کے ساتھ کہا تھا۔”یہ محض ایک گروہ نہیں بلکہ بہت بڑا بین الاقوامی جال ہے اورا س کے تحت دو درجن سے زائد گروہ اب بھی باہر ملک میں سرگرم عمل ہیں۔“
حاجی کمال بیگ کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ گروہ کے بقیہ ارکان کو سزائے موت سنائی گئی۔
انکل رحمن کے سادہ سے ڈرائنگ روم میں چاولوں کی پلیٹ سے آخری لقمہ لیتے ہوئی منصور نے کہا۔ ”انکل!ہم اس زندگی کے آخری لمحے تک ان وطن دشمنوں کے خلاف جہاد جاری رکھیں گے۔“
”ان شاء اللہ“صفدر،ذیشان اور انکل رحمن نے ایک ساتھ کہا۔
ان چاروں کی آنکھوں میں آنسو جھلملارہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top