ایک غلطی!
طارق ریاض خاں ................................................................................................................ اگلے روز وہ بیرون ملک فون کرنے میں مصروف تھا۔ اس…
سید محمد اسمٰعیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں انگور کا ایک گچھّا تھا۔جو ایک بیل سے طائف ؔ کے ایک مقام پر لٹکا ہوا تھا۔ اس بیل کا مالک ایک شخص تھا جس کا نام عتبہ ؔ بن ربیعہؔ تھا ۔شیبہؔ اس کا بھائی تھا۔
ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ رسو لِ اکر م ﷺ طائف کے قبیلے بنی ثقیف کی طرف جارہے ہیں ۔وہ اس خاموشی سے آئے کہ کسی کو ان کی آمد کا علم نہ ہوا ۔وہ دراصل بنو ثقیف کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے آتے تھے ۔
ہمارے نبی ﷺ کا خیال تھا کہ ثقیف ؔ قریشؔ کی نسبت کم تعصّب والے ہوں گے اور زیادہ ذی عقل ہوں گے ۔
جب مَیں وجود میں آیا، میری شکل کچّے دانوں کی طرح تھی ۔اس وقت سے مکّہ کی جانب سے آنے والے راہ گیر وں سے جو میری بیل کی چھاؤں میں آرام کی خاطر بیٹھا کرتے تھے محمدﷺ کے متعلق بہت سی باتیں چلی آئیں تھیں ۔ان ہی لوگوں کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ عورتوں میں سب سے پہلے آپﷺ کی زوجہ محترمہ خدیجہ الکبریؓ اور مردوں میں حضرت ابو بکرؓ اور بچوں میں حضرت علیؓ آپﷺ کے چچا زاد بھائی آپ ﷺ پر ایمان لائے تھے ۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ جو لوگ آپﷺ پر ایمان لائے ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے اور قریش ؔ کے زیادہ لوگ آپﷺ کو جھٹلا رہے ہیں اور آپﷺ کا مذاق اڑاتے ہیں ۔آپﷺ کا راستہ روکتے ہیں، آپﷺ کو تخت و تاج اور مال و دولت کا لالچ دے کر دعوتِ اسلام سے روکنا چاہتے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ آپﷺ ان بتوں کی خلاف تبلیغ کر نا چھوڑ دیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے ۔ایک دن میں نے ایک مسافر سے جو میری بیل کے سائے تلے بیٹھا تھا ،سُنا کہ جب قریش کے سردار آپﷺ کے چچا ابو طالب ؔ کے ساتھ آپ کے پاس یہ مطالبہ لے کر گئے کہ آپﷺ جتنا چاہیں مال و دولت لے لیں مگر اسلام کی دعوت دینا چھوڑ دیں تو آپﷺ نے جواب دیا کہ :’’اے میرے چچا اگر اہلِ قریشؔ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں کہ میں دین اسلام کی تبلیغ سے باز آجاؤں، پھر بھی ایسا نہ کروں گا ۔حتیٰ کہ دین اسلام ہر چیز پر غالب آجائے اور اسلام کے خلاف تمام قوتیں ختم ہو جائیں ۔‘‘
اسی طرح ایک دن اپنی بیل کے مالک عُتبہ کی زبانی بھی میں نے سُنا کہ قریشؔ نے اس کے ذریعے رسولِ اکرم ﷺ کو یہ پیغام بھجوایا کہ قریشؔ اس بات پر تیار ہیں کہ وہ آپﷺ کو اتنا مال و دولت دیں کہ آپﷺ سب سے زیادہ دولت مند ہو جائیں ،آپﷺ کو سردار مان لیں اور صرف آپ ﷺ ہی کی رائے پر عمل کریں ،آپﷺ کو بادشاہ بنا کر تخت پر بٹھا دیں اور اگر یہ سب کچھ بیماری ہے (یعنی وحی کا آنا )تو وہ بڑے سے بڑے حکیم سے آپﷺ کا علاج کرائیں گے ۔رسول ﷺ نے عتبہ ؔ کی باتوں کو بڑے تحمّل سے سُنا اور پھر جواب میں قرآن کریم کی آیت پڑھی جس کا ترجمہ ہے:
’’اے نبی ﷺ کہہ دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ماسوائے اِ س کے کہ مجھ پر اس خدائے واحد کی طرف سے جو تمھارا اور میرا رب ہے وحی کی صورت میں پیغام آتا ہے ۔‘‘
عتبہؔ رسولِ اکرم ﷺ کا یہ جواب سُن کر اہلِ قریش ؔ کی طرف واپس ہوا اور ان سے کہا کہ مَیں نے رسولِ اکرم ﷺ سے ایسا کلام سُنا ہے جو نہ شاعری ہے، نہ جادو۔اس نے قریش ؔ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ رسولِ اکرم ﷺ کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ اس کا کہنا تھا کہ محمّد ﷺقریش ؔ کے درمیان بچپن سے ہیں۔ ان کا اخلاق بہت بلند ہے۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔امانت کا پاس رکھتے ہیں اور جب وہ قریش کے پاس دین کا پیغام لے کر آئے تو انھیں جھٹلایاگیا ۔جادو گر کہا گیا ۔
قریشؔ کا مال اور حکومت کا لالچ دینا بھی رسولِ اکرم ﷺ پر کوئی اثر نہ کر سکا ۔وہ برابر ایک اللہ کی عبادت کی دعو ت دیتے رہے ۔اُدھر آپﷺ اور آپﷺ پر ایمان لانے والوں پر اور زیادہ سختیاں کرنے لگے ۔جب قریشِ مکّہ کی تمام چالیں ناکام ہو گئیں تو انھوں نے آپﷺ اور آپﷺ پر ایمان لانے والوں کے ساتھ مکمل طور بات چیت اور لین دین ختم کر دیا اور کعبہ کے دروازے پر ایک تحریر لٹکا دی جس میں قریش کا یہ فیصلہ درج تھا کہ :
۱۔مسلمانوں سے نہ کوئی ملے جُلے اور نہ کوئی بات کرے ۔
۲۔مسلمانوں کے ساتھ ہر قسم کی خریدوفروخت بند کر دی جائے ۔
۳۔مسلمانوں کے ہاں کوئی رشتہ نہ کیا جائے اور مسلمانوں سے ہر قسم کالین دین اور تعلق ختم کر دیا جائے ۔
قریشؔ کے اس فیصلے کے بعد رسولِ اکرمﷺ اور ان کے چچا ابو طالب ؔ دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ ایک گھاٹی میں چلے گئے جہاں پر انھوں نے بڑی تکلیف میں مگر بہت صبرو شکر کے ساتھ تین سال گزارے ۔ حضرت خدیجہؓ نے خاص طور پر اپنی تمام دولت مسلمانوں پر خرچ کر دی ۔مسلمانوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ بچّے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بِلک بِلک کر روتے اور مُسلمان درختوں کے پتے وغیرہ چبا کر بھوک کومارتے تھے ۔
اسی دوران اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے رسولِ اکرم کو خبر دی کہ دیمک نے قریشؔ کے فیصلے کے اس حصّے کو چاٹ لیا ہے جس میں مسلمانوں سے مکمل طور پر قطع تعلق کے لئے کہا گیا تھا۔رسول اکرمﷺ نے اپنے چچا ابو طالب ؔ کو یہ بات بتائی ۔جنھوں نے قریش کے سرداروں کو بلایا اور ان سے کہا کہ میرے بھتیجے جس نے آج تک جھوٹ نہیں بولا، نے مجھے یہ اطلاع دی ہے۔ اگر میرا بھتیجا سچّا ہے تو تم لوگ ظلم کرنے سے بازآجاؤ۔اگر وہ جھوٹا ہے تو میں اسے تمھارے سپرد کر دوں گا ۔پھر تمہیں اختیار ہے کہ جو چاہوسو اس کے ساتھ سلوک کرو۔قریش کے سرداروں نے خانہ کعبہ میں لٹکی ہوئی تحریر کو کھول کر دیکھا تو واقعی اس کے اُس حصے کو دیمک چاٹ گئی تھی جس میں مسلمانوں سے مکمل قطع تعلق کا ذکر تھا ۔قریشؔ کو رسولِ اکرم کی سچائی کا اس لئے زیادہ یقین ہوا کہ رسولِ اکرم ﷺتین سال سے اس گھاٹی میں مقیم تھے اور خانہ کعبہ میں داخل نہ ہوئے تھے ۔
آخر کار قریش ؔ کے پانچ بڑے سرداروں نے اعلان کیا کہ اس فیصلے کو نہیں مانتے۔ انھوں نے اس دستاویز کو پھاڑ دیا اور مسلمانوں کا بائیکاٹ ختم ہو گیا ۔لیکن کافر رسولِ اکرم ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو تکلیف پہنچانے سے باز نہ آئے ۔دراصل آپﷺ کے چچا ابو طالب ؔ اور زوجہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد انھوں نے مسلمانوں پر اور ظلم کرنا شروع کر دیا ۔مثلاًایک دفعہ کسی کافر نے جب رسولِ اکرم ﷺ سجدہ کی حالت میں تھے آپﷺ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی اور اس ناپاک کام پر وہ اور اس کے ساتھی خوب ہنسے ۔ایک دفعہ ایک کافر نے آپﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر اس زور سے کھینچا کہ آپﷺ کا دم گھٹنے لگا۔
یہ اور اس کے علاوہ دیگر خبریں مجھ تک ان لوگوں کی زبانی پہنچتی رہیں جو مکّہ سے واپسی پر میری بیل کے سائے میں آرام کرنے بیٹھ جایاکرتے تھے ۔
ان تکلیف دہ خبروں سے مجھے بہت رنج ہوتا اورمیں دل ہی دل میں تمنا کرتا کہ کاش میں اپنی زندگی میں رسولِ اکرم ﷺ کو دیکھوں ۔مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کافر مجھے توڑ کر نہ لے جائیں اور پھر مجھ سے شراب نکال کر نہ پئیں اور مدہوشی کے عالم میں مسلمانوں پر اور ظلم نہ کریں ۔میں ہر وقت رسولِ اکرم سے ملاقات کی تمنّا اپنے دل میں رکھتا تھا۔ آخر کار اللہ نے میری خواہش کو حقیقت بنا دیا جب رسولِ اکرم ﷺ خود ہی میرے پاس تشریف لے آئے۔ رسولِ اکرم کو دیکھ کر مجھے جتنی خوشی ہوئی اتنا ہی مجھے آپ ﷺ کا حال دیکھ کر رنج ہوا ۔قریب تھا کہ میں چیخ چیخ کر رونے لگتا ۔
بات یوں ہوئی کہ رسولِ اکرم ﷺ طائفؔ کے قبیلہ ثقیف ؔ کے سرداروں کے پاس گئے اور اُنھیں دعوت دی کہ وہ اللہ ،اس کے رسول ﷺ اور اس کی کتاب پر ایمان لے آئیں ۔انھوں نے نہ صرف ایمان لانے سے انکار کیا بلکہ آپﷺ کو بُرا بھلا کہا اور جب آپﷺ واپس ہو رہے تھے تو آپﷺ کے پیچھے نا سمجھ بچّے اور کچھ احمق لوگوں کو لگا دیا جو آپﷺ کو گالیاں دے رہے تھے۔ آپﷺ کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ آپ کو پتھروں سے مارتے اور جب آپﷺ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو وہ آپﷺ کا راستہ روک لیتے ۔
آخر کار آپﷺ ان اوباشوں سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔آپﷺ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا ۔آپﷺ سخت تھکے ماندے تھے ۔آپﷺ آرام کے لئے اس بیل کے سائے تلے بیٹھے جس پر میں لٹکا ہوا تھا ۔
میں نے آپﷺ کو یہ کہتے ہوئے سُنا :۔
’’اے میرے خُدا !میں اپنی کمزوری ،کم سامانی اور کم تدبیری کی تجھ ہی سے شکایت کرتاہوں ۔ اے میرے خدا ،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔ تو ہی کمزوروں کا پر ورد گار ہے۔ تو مجھے جس کے چاہے سپرُد کر دے ۔اگر تیرا غضب مجھ پر نازل نہ ہو تو پھر مجھے کسی مصیبت کی پر واہ نہیں ۔تو ہی کریم ہے ۔میں تجھ سے صرف تیری رضا کا طالب ہوں ۔‘‘
عتبہ اور اس کا بھائی شیبہ قریب ہی بیٹھے رسولِ اکرم ﷺ کی یہ دعا سُن رہے تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ عتبہ ؔ کا غلام جس کانام عداسؔ تھا اپنے مالک کے حکم سے آگے بڑھا ۔بیل سے مجھے توڑا اور ایک طباق میں مجھے رکھ کر رسولِ اکرم ﷺ کو جاکر پیش کر دیا۔میں بے حد خوش ہوا ۔خاص طور پر اس وقت جب رسولِ اکرمﷺ نے بِسمِ اللہ کہہ کر اپنا ہاتھ میر ی طرف بڑھا یا۔میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔رسولِ اکرم کی زبان سے بِسمِ اللہ سُن کر عداسؔ حیران ہوکر کہنے لگا کہ ایسا کلمہ اس نے پہلے کسی سے نہیں سُنا ۔شہر طائف والے ایسا کلمہ نہیں بولتے ۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے عداسؔ سے پوچھا کہ وہ کس شہر کا رہنے والا ہے ۔عداسؔ نے جواب دیا کہ میں نینواؔ (عراق) کا رہنے والا ہوں ۔رسولِ اکرم ﷺ نے کہا کہ اِ س شہر سے جس سے ایک بزرگ ہستی یونس ؑ ؔ بن حئی کاتعلق تھا ۔عداسؔ نے پوچھا آپﷺ کو یونس بن حئی علیہ السلام کا کیسے علم ہوا ؟ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جواب دیا کہ وہ بھی نبی ؑ تھے اور میں بھی نبی ہوں ۔ بس یہ سنتے ہی عداس ادب کے طور پر آپﷺ کے آگے جھکا اور آپﷺ کے سر مبارک اور ہاتھو ں کو بوسہ دینا شروع کر دیا ۔
عداسؔ زور زور سے کہہ رہا تھا کہ ہاں آپ نبی ﷺ ہیں۔نبی کے علاوہ اللہ کے راستے میں کوئی اور شخص اتنی تکلیفیں برداشت نہیں کرتا ۔
جب عداسؔ یہ سب کہہ رہا تھا میرے دانے پیارے نبیﷺ کی انگلیوں کے درمیان خوشی سے ناچ رہے تھے ۔
میں دنیا کی تاریخ کا سب سے خوش نصیب انگوروں کا خوشا ہوں ۔کیونکہ میں پیارے نبیﷺ کی خوراک اس وقت بنا جب آپﷺ بہت تکلیف میں تھے ۔میں نے اپنی آنکھوں سے عداسؔ کو آپ ﷺ پر ایمان لاتے دیکھا۔