عملی سبق
فارسی ادب سے بچوں کی کہانی
اردو ترجمہ:عبدالقیوم بیدارؔ
۔۔۔۔۔
ایک تاجر کے پاس ایک خوبصوت توتا تھا۔وہ ایک پنجرے میں ہر وقت بند رہتا تھا اور پیاری پیاری باتوں سے دکان دار کو خوش کرتا تھا۔ایک بار تاجر سفر پر جانا چاہتا تھا اور چاہتا تھا کہ دکان کے لیے سامان بھی لے آئے اور دکان چل جائے۔دکان دار روانگی کے لیے تیار ہوا تو گھر میں اپنے غلاموں اور کنیزوں سے پو چھا کہ آپ کے لیے کیا تحفہ لے کر آؤں۔جسے جو چاہیے تھا،اس نے کہہ ڈالا۔
کسی نے کہا میرے لیے شال لاؤ۔کسی نے کہا میرے لیے فلاں چیز لے آؤ۔حتیٰ کہ ایک نے کہا میرے لیے دار چینی لاؤ۔تاجر نے سب کچھ نوٹ کر لیا اور اپنے توتے کو خدا حافظ کہنے کے لیے آیا اور اس سے پوچھا کہ تمھارے لیے ہندوستان سے کیا لاؤں۔توتے نے کہا کہ مجھے کوئی تحفہ نہیں چاہیے میں آپ کی سلامتی چاہتا ہوں۔لیکن میں نے سنا ہے کہ ہندوستان میں بہت سارے توتے رہتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ جب آپ جنگل سے گزریں اورجہاں سبز توتے اڑتے ہوں اور جب آپ ان توتوں کو دیکھیں خوش اور خرم تو آپ انھیں میرا سلام دینا اور ان سے کہنا کہ میرا توتا آپ سے رہنمائی چاہتا ہے اور اس نے پیغام دیا ہے کہ دوستی اور ہم جنس ہونے کی شرط یہ ہے کہ مجھے بھی یاد کرومیں بھی آپ کی طرح خوش ہوجاؤں۔وہ چاہتا ہے کہ میں قید میں ہوں اگر چہ آپ آزاد ہیں، درختوں میں رہتے ہیں۔میرا یہ پیغام ان تک پہنچائیے اور کچھ نہیں چاہیے۔
تاجر نے توتے کا یہ پیغام بھی نوٹ کر لیا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ اس کا پیغام ہندوستان کے دیگر توتوں کو ضرور پہنچادے گا۔جب وہ تاجر ہندوستان پہنچا اور اپنے گھوڑے پر سوار ایک جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک درخت پر بہت سے سبز توتے بیٹھے ہیں اور خوبصورت آوازیں نکال رہے ہیں۔ تاجر کو یاد آیا کہ اس نے اپنے توتے کا پیغام ہندوستان کے توتوں کو دینا ہے۔اس نے اپنے گھوڑے کو روکا اور توتوں کو آواز دی اور اپنے توتے کا پیغام ان تک پہنچایا۔اور کہا کہ جواب دو کہ میں اپنے توتے تک تمھارا پیغام پہنچا دوں۔
جیسے ہی تاجر نے اپنی بات ختم کی توایک توتا بری طرح سے کانپ اٹھااور درخت سے نیچے گرا اور بے ہوش ہوگیا اور باقی سارے توتے خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔تاجر نے تعجب کیا اور دوبارہ یہی پیغام دیا اور جواب چاہا کہ میرا توتا بھی تمھاری طرح ایک توتا ہے اور آپ لوگوں کے جواب کا منتظر ہے۔کوئی جواب تو دو۔
ایک اور توتا اسی طرح لرز اٹھا اور درخت سے نیچے گر گیا۔تاجر کو بہت پشیمانی ہوئی اور وہ پریشان ہوا۔خود سے کہنے لگا کہ یہ میں نے کیا غلطی کی۔میں نے ان توتوں کو غمگین کر دیا اور ان کی موت کا باعث بنا۔میں نہیں جانتا تھا کہ یہ توتے واقعی میرے توتے کے رشتہ دار ہیں۔ اس کا حال سن کر غم سے بے ہوش ہوگئے اور میری بات سن کر اس کی یاد میں گر پڑے لیکن اب جو ہونا تھا سو ہوگیا۔ دکان دار کافی دیر وہاں رکنے کے بعد چل پڑا۔باقی توتوں نے اس بابت کچھ نہ کہا۔تاجر شہر گیا خرید و فروخت شروع کی اور بہت اچھا نفع کمایا۔تحائف خریدے اور اپنے شہر لوٹ آیا اور جو تحائف اپنے ساتھ لایا تھا انھیں اپنے گھر والوں میں تقسیم کیا اور اپنے توتے کے پاس آیا۔
توتے نے کہا:”اے میرے عزیز دوست یہ تحائف لے آئے میرے لیے کیا خبر لے کر آئے ہو۔ہندوستان کے توتوں نے کیا پیغام دیا۔“
تاجر نے کہا:”اے میرے پیارے توتے!میں نے تمہارا پیغام پہنچادیا لیکن پشیمان ہوں کہ میں نے کیوں یہ پیغام پہنچایا۔ اگر میں جانتا کہ یہ ہوگا تو میں یہ پیغام ان تک کبھی نہ پہنچاتا۔میری بات سن کر وہ غمگین ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا۔“
توتے نے کہا:”یہ نہیں ہوسکتا۔میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں۔ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ کوئی جواب نہ دیں۔توتے آدمیوں سے زیادہ صفات والے ہیں اور زیادہ وفادار ہیں۔اگر میرا پیغام پہنچایا ہو تو انھوں نے جواب ضرور دیا ہوگا۔“
تاجر نے کہا:”بہتر ہے کہ یہ بات رہنے دو، اس کے علاوہ جو چاہیے میں فراہم کر دیتا ہوں۔“
توتے نے کہا:”مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔مجھے صرف یہ بتاؤ کہ جب تم نے میرا پیغام پہنچایا تو انھوں نے کیا کہا اور کیا کیا؟“
تاجر نے کہا:”اب چوں کہ تم بہت اصرار کر رہے ہو تو میں بتا دیتا ہوں کہ توتوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔جب میں نے تمھارا پیغام پہنچایا اور تمھاری تکلیف انھیں بتائی توان میں سے ایک توتے کی حالت غیر ہوگئی اور شدت غم سے کانپ اٹھا اور درخت سے گر کر بے ہوش ہوگیا۔ باقیوں نے کچھ نہ کہا۔میں نے انتظار کیا اور دوبارہ کہا،میں تمھارے جواب کا منتظر ہوں،ایک اور توتا زمین پر گرا اور بے ہوش ہوگیا اور باقی سب خاموش رہے۔جب میں نے دیکھا کہ کوئی جواب نہیں آیا،میں اپنے اس عمل سے پشیمان ہوا کہ میں ان کی موت کا باعث بنا۔مجھے نہیں پتا کہ تمھارے رشتہ دار تھے یا نہیں لیکن یہ جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے کچھ نہیں کہا جو میں سمجھ پاتا۔۔۔“
جب تاجر کی بات یہاں پہنچی، توتا بات سمجھ گیا اور ایک زوردار چیخ ماری۔اس کے اوپر کپکپاہٹ طاری ہو گئی وہ پنجرے کے اندر بے ہوش ہوکر گر پڑا۔تاجر یہ دیکھ کر مزید غمگین ہوگیا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا ہوگیا؟بہرحال توتا مر چکا تھا۔
اب تاجر کا غم و غصہ بے فائدہ تھا،ناچار ہوکر اس نے پنجرے کا دروازہ کھولا اور دیکھا کہ زندگی کی کوئی دمک توتے میں موجود نہیں۔اس کے پاؤں کو زنجیر سے آزاد کیا اور توتے کو ایک طرف رکھ دیا اور اس پیغام اور اس کے نتیجے سے غمگین ہوگیا۔لیکن جوں ہی توتے نے خود کو پنجرے سے آزاد پایا اپنے پر پھڑپھڑائے اور درخت کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔تاجر اس صورت حال سے حیران ہوا۔اوپر دیکھا اور توتے سے پوچھا:
”یہ کیا ماجراہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ عجیب ہو رہا ہے۔اب جب کہ تم درخت کے اوپر ہو،میری پہنچ سے دور ہو اور جب چاہو اُڑ کر جا سکتے ہو۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ حکمت عملی تم نے کہاں سے سیکھی؟ میں نے تمھارا پیغام پہنچایا تو تم بھی مجھ سے سچ کہو۔“
توتے نے کہا:”اچھا!تم انسان نصیحت سے سبق نہیں سیکھتے۔اقوال زریں سنتے ہو،کتابیں پڑھتے ہو لیکن عمل نہیں کرتے۔لیکن ہم توتے عمل کی زبان سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔چوں کہ تم ایک اچھے انسان ہو، میرا پیغام پہنچایا اور جواب بھی لے آئے، میں بھی تمھیں سچ بتاؤں گا۔میں نے اپنے پیغام میں ہندوستان کے توتوں سے دریافت کیا تھا اور انھوں نے بھی ایک عملی سبق دیا۔
پہلا یہ کہ سب خاموش رہے۔مجھے یہ سمجھانے کے لیے کہ میری گرفتاری کی وجہ میری شیریں زبان ہے لہٰذا میں خاموش رہوں۔ اور دوسرا یہ کہ وہ توتے بے ہوش ہوگئے۔یہ بھی ان کا عملی جواب تھا۔وہ کہنا چاہتے تھے ہوشیار رہو ورنہ مارے جاؤ گے۔جب تک شکار رہوگے شکاری تمھاراپیچھا کرتا رہے گا۔اگر تمھارے پاس نہ دانت ہیں نہ ہتھیار ہیں اور تم پنجرے میں قید ہو تو بے زبان،بے ہوش اور لاچار بن جاؤ تم آزاد ہو جاؤ گے۔مور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے قید ہوجاتا ہے اور توتا شیریں زبانی کی وجہ سے۔میری شیریں زبانی ہی میرے لیے وبال بن گئی۔ہندوستان کے توتوں نے مجھے ایک عملی سبق دیا کہ میں خاموش ہو جاؤں اور مرنے کا ڈراما کروں تو آزاد ہو جاؤں گا۔اور اب تم دیکھتے ہو کہ میں نے اس پر عمل کیااور اب میں آزاد ہوں۔“توتے نے یہ کہا اور اُڑگیا۔