اللہ کا فضل
کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
مصب بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم لوگوں کی جو مدد ہوتی ہے اور تم کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ (تمہاری صلاحیتوں اور قابلیتوں کی بنیاد پر نہیں ملتیں بلکہ) تم میں سے جو بے چارے کمزور اور خستہ حال ہیں ان کی برکت اور ان کی دعائوں سے ملتی ہیں۔‘‘ (بخاری، معارف الحدیث جلد 2صفحہ 100)
۔۔۔۔۔
دروازے پر بیل ہوئی۔ اوصاف بیٹھا اسکول کا کام کر رہا تھا۔ امی کی آواز سنائی دی۔
’’اوصاف بیٹا دیکھو کون ہے؟‘‘
’’جی اچھا…!‘‘ اوصاف بے دلی سے اٹھا۔ اس وقت وہ حساب کے سوال حل کرنے میں لگا ہوا تھا کہ دروازے پر بجنے والی گھنٹی نے ساری توجہ غارت کر دی۔
اس نے جا کے دروازہ کھولا۔ دروازے پر ایک بوڑھا سا آدمی اپنے چھوٹے سے لڑکے کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔
’’اللہ کے نام پر دینا بابا…!‘‘ لڑکے نے اس پر نظر پڑتے ہی کہا۔
’’معاف کرو…!‘‘ اوصاف نے سختی سے کہا۔
’’اللہ بھلا کرے گا…!‘‘ لڑکے نے دوبارہ اس کی طرف التجائیہ نگاہوں سے دیکھا۔
اسی وقت پیچھے سے ابو کی آواز آئی۔
’’کون ہے بیٹا؟‘‘
’’مانگنے والے…!‘‘ اوصاف کے لہجے میں بڑی اکتاہٹ تھی۔
’’اچھا…!‘‘ ابو جلدی جلدی چلتے ہوئے اس کے پاس آ گئے۔ اور اس کو کندھے سے پکڑ کے ایک طرف ہٹایا اور لڑکے سے بولے: ’’یہ لو بیٹا…!‘‘
انھوں نے بیس روپے کا نوٹ لڑکے کی طرف بڑھایا۔
لڑکے نے جلدی سے نوٹ لے لیا اور بولا: ’’صاحب اللہ بھلا کرے…!‘‘
ابو کی نظر بابا پر پڑی جو خاموش کھڑا تھا۔ اور بس ان کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔
ابو نے چند لمحے ان کی طرف دیکھا پھر بولے: ’’بابا جی ناشتا کریں گے؟‘‘
ابو نے یہ کہتے ہوئے چھوٹا گیٹ پورا کھول دیا اور ان دونوں کو گیراج میں آنے کا اشارہ کیا۔
وہ دونوں جھجکتے ہوئے اندر آ گئے۔ گیراج میں دو پلاسٹک کی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔
انھوں نے انھیں اس پر بیٹھے کا اشارہ کیا۔ کیونکہ وہ زمین پر بیٹھنے لگے تھے۔
’’میں ابھی آپ کو ناشتا بھجواتا ہوں…!‘‘ انھوں نے کہا اور اوصاف کو اندر چلنے کا اشارہ کیا۔
وہ ابو کے پیچھے پیچھے اندر آ گیا۔ ابو نے دروازہ بند کیا اور اس کی طرف دیکھ کے بولے: ’’کیا بات ہے ہمارے شہزادے کا مزاج کچھ بگڑا بگڑا سا لگ رہا ہے…!‘‘
’’کچھ نہیں ابو…! بس میں وہ ہوم ورک مکمل کر رہا تھا ۔ آج اتوار ہے اس لئے میں نے سوچا کہ صبح ہی صبح کام مکمل کر لوں کیونکہ دوپہر میں کرکٹ کا میچ بھی ہے…!‘‘
اوصاف نے بتایا۔
اتنی دیر میں امی آ گئیں۔
’’کون آیا ہے؟‘‘
’’فقیر باپ بیٹا ہیں۔ ابو نے انہیں ناشتے کے لئے بٹھا لیا ہے!‘‘ اوصاف نے کہا۔ مگر اس کے انداز میں ایسی ناگواری تھی کہ دونوں یعنی امی اور ابو محسوس کیے بنا نہ رہ سکے۔
امی نے کہا: ’’اچھا تو پھر میں ابھی ناشتا بنا دیتی ہوں۔ پراٹھے تو میں نے بنا ہی لئے تھے اب انڈے تل کے انھیں دے دیتی ہوں…!‘‘ انھوں نے کچن کا رخ کیا۔
’’اورچائے بھی…!‘‘ ابو نے لقمہ دیا۔ اور اوصاف کی طرف دیکھ کے نرمی سے بولے: ’’جائو بیٹا ۔ ہوم ورک مکمل کر لو۔‘‘
’’جی ابو…!‘‘ اوصاف کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
ذرا دیر میں چار پراٹھے اور چار انڈوں کا ناشتہ تیار ہو گیا۔ امی نے ساتھ میں رات کا آیا ہوا دہی بھی ایک پیالی میں ڈال کے دے دیا۔
’’ارے آپ نے بڑا اہتمام کر دیا…!‘‘ ابو نے خوش دلی سے کہا۔
’’صبح صبح دعائیں مل جائیں گی…!‘‘ امی نے ہنس کر کہا۔
’’واہ بھئی واہ…! آپ تو دعائیں حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی ہیں۔‘‘
’’مگر یہ موقع تو آپ کی وجہ سے ملا ہے۔ اگر آپ انہیں ناشتے کا نہ کہتے تو مجھے کیسے یہ سعادت ملتی…؟‘‘ امی نے برجستہ کہا۔
ابو ہنسنے لگے۔
اوصاف کے کان ان ہی کی طرف لگے ہوئے تھے۔ پھر اس نے آوازوں سے اندازہ لگایا کہ ابو ناشتا لے کے جا رہے ہیں۔ پراٹھے ،چائے کی مہک آئی۔ پھر ابو چائے لیکر گئے۔ اس دوران انھوں نے اوصاف کو بالکل نہیں پکارا ۔ تاکہ وہ دل جمعی سے اپنا ہوم ورک مکمل کر لے۔
پھر اسے جوسر چلنے کی آواز آئی۔
تھوڑی دیر میں ابو اس کے پاس آئے۔اس وقت تک وہ ہوم ورک مکمل کر چکا تھا۔
اس نے قلم بند کرکے ڈبیا میں رکھا اور ابو سے بولا: ’’ابو آپ نے ناشتہ کر لیا…؟‘‘
’’نہیں…!‘‘ ابو نے جواب دیا۔ ’’میں انتظار کر رہا تھا کہ تم اپنا ہوم ورک ختم کر لو تو ہم اکٹھے ناشتا کریں…!‘‘
’’جی ابو میں لے کر آتا ہوں…!‘‘ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میں لے آئی ناشتہ…!‘‘ امی نے کہا۔ ان کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔ جس میں سے پراٹھوں کی اشتہا انگیز مہک آ رہی تھی۔
انھوں نے ٹرے میز پر رکھی۔ اوصاف نے دیکھا پراٹھے، آلو قیمہ، دہی، انڈے سب ہی موجود تھا۔
ناشتہ دیکھ کر اس کو بھوک لگنے لگی۔
’’واہ امی مزہ آگیا…!‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں بھاگ کے ہاتھ دھو کے آتا ہوں۔‘‘
’’اور کچن میں سے جوس کا جگ بھی لیتے آنا۔ میں نے سیب اور گاجر کا جوس نکالا ہے…!‘‘ ابو نے کہا۔
ان تینوں نے بھرپور ناشتا کیا۔
اوصاف نے جوس پیتے ہوئے کہا: ’’امی اتنا مزے دار ناشتہ کھلانے کے لئے شکریہ۔ میں نے تو اتنا کھا لیا کہ نیند آنے لگی ہے…!‘‘
’’تو پھر تھوڑی دیر سو جائو۔ میں دیکھ رہی تھی کہ تم بہت صبح سے اپنے ہوم ورک میں لگے تھے…!‘‘ امی نے پیار سے کہا۔
ابو نے پوچھا: ’’تمھارا میچ کب ہے؟‘‘
’’دو بجے کے بعد…!‘‘ اوصاف نے بتایا۔
’’چلو پھر تھوڑی دیر سو لو۔ ابھی تونو ہی بجے ہیں۔ بارہ بجے تک اٹھ جانا…!‘‘ ابو نے پیار سے کہا۔
اوصاف اٹھ کے اپنے کمرے میں چلا آیا۔
امی ابو آپس میں باتیں کرنے لگے۔
٭٭٭
اوصاف اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد جلیل الرحمن الیکٹرونکس انجینئر تھے۔ اور ایک کمپنی میں بڑے اچھے عہدے پر فائز تھے۔ اللہ نے گھر میں خوب برکت اور خوش حالی عطا کی تھی۔ وہ خوش مزاج اور دوسروں کا خیال رکھنے والے شخص تھے۔
اکثر لوگوں کے برعکس وہ گھر کے کاموں میں امی کا ہاتھ بھی بٹا دیتے تھے۔ اگر کسی دن کام والی نہ آئے تو وہ چھوٹے موٹے کام نپٹا دیتے تھے۔
امی کہتیں: ’’آپ کیوں کر رہے ہیں۔ میں کر لوں گی…!‘‘
’’مجھے ثواب سے محروم مت کرو…!‘‘ وہ مسکرا کے کہتے۔
’’ثواب بھلا یہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں کیسا ثواب؟‘‘ امی حیرت سے پوچھتیں۔
’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے کام خود کرتے تھے۔ کبھی بکری کا دودھ دوہ لیا۔ کبھی کپڑوں میں پیوند لگا لیا۔ کبھی آٹا گوندھنے میں مدد کر دی۔ یہ میرے کریم آقا ﷺ کی سنت ہے۔ میں اپنے گھر کے کاموں میں تمہارا ہاتھ بٹا کے سنتؐ کی پیروی کرتا ہوں۔ اس لئے تم سنت پر عمل کرنے کے ثواب سے محروم نہ کرو…!‘‘
امی مسکراتے ہوئے انھیں ٹوکنا چھوڑ دیتی تھیں۔
دوپہر میں جب اوصاف اٹھا اور اس نے اپنے دوست کو فون کرکے میچ کے متعلق پوچھا تو معلوم ہوا کہ میچ ملتوی ہو گیا اور اب اگلے اتوار کو ہو گا۔
اس نے ابو کو بتایا تو وہ بولے: ’’چلیں یہ بھی ٹھیک ہوا۔ ہم اتوار بازار چلتے ہیں۔ کچھ پھل اور سبزیاں وغیرہ لے آتے ہیں…!‘‘
’’ہاں یہ اچھا رہے گا…!‘‘ اوصاف نے خوش ہو کے کہا۔
’’میں آپ کو لسٹ بنا دیتی ہوں۔ شام کو چچا جان بھی آ رہے ہیں۔‘‘ امی نے کہا اور سامان کی فہرست بنانے لگیں۔
سامان کی فہرست لے کر وہ اتوار بازار روانہ ہو گئے۔ اتوار بازار میں خاصا رش تھا۔ انھوں نے اپنی گاڑی کافی دور پارک کی ، وہاںبھی کئی فقیر تھے۔ ابو نے تین چار فقیروں کو دس دس روپے دیئے۔
اس کے بعد انھوں نے آلو، ٹماٹر، پیاز ، پالک وغیرہ خریدی۔ پھر پھلوں میں آم، انگور ، کیلے، سیب خریدے۔ ایک اسٹال پر انھیں خوش رنگ لیچی دکھائی دی۔
’’وہ ابو وہ لیچی آ گئی…!‘‘ اوصاف نے ابو کو متوجہ کیا۔
اوصاف کو لیچی اور انگور بہت پسند تھے۔
سامان لے کر انھوں نے ڈگی میں رکھا اور واپس روانہ ہو گئے۔ چوراہے پر سگنل بند تھا۔ ابو گاڑی روک کے اشارہ کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔
اسی وقت کسی نے انگلی سے شیشہ بجایا۔ اوصاف نے دیکھا ۔ ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا آدمی انگلیوں میں بہت سی انگوٹھیاں پہنے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
شیشہ بند ہونے کی وجہ سے اس کی مدھم سے آواز آئی۔ ’’دے دے بابا۔ اللہ بھلا کرے گا…!‘‘
ابو نے حسبِ معمول دس کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھا دیئے۔ وہ خوش خوش چلا گیا۔
’’ابو…!‘‘ اوصاف نے کہا۔ ’’آپ کو اس کو پیسے نہیں دینا چاہئے تھے…!‘‘
’’کیوں…؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
’’اتنا موٹا تازہ، لمبا چوڑا ہے اسے محنت کرنی چاہئے…!‘‘ اوصاف نے کہا۔
’’صحیح کہہ رہے ہو…!‘‘ ابو نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر میں نے تو اسے شکر میں دے دیئے…!‘‘
’’شکر میں دے دیئے…!‘‘ اوصاف نے الجھن سے پوچھا۔ ’’کیسا شکر؟‘‘
’’اس شکر میں دے دیئے کہ یہ پھیلا ہوا ہاتھ میرا نہیں۔ میرے اللہ نے مجھے دینے والا ہاتھ بنایا ہے…!‘‘ ابو نے مسکرا کے کہا۔
اوصاف حیران رہ گیا۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
اسی وقت سگنل کھل گیا۔ ابو نے گیئر بدلتے ہوئے کار آگے بڑھا دی۔
سگنل کراس کرکے ابو نے کہا۔
’’تمھیں ایک بات بتائوں…؟‘‘
’’جی ابو…!‘‘ اوصاف نے دھیمے سے کہا۔
’’ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم لوگوں کو نعمتیں ملتی ہیں۔ جو مدد ملتی ہے۔ وہ تمہاری صلاحیتوں اور قابلیتوں کی وجہ سے نہیںملتی ہیں۔ بلکہ تم میں جو کمزور، خستہ حال ہوتے ہیں ان دعائوں اور برکتوں سے ملتی ہیں…!‘‘
’’بیٹا اس دنیا میں سب کچھ ہماری قابلیت ہی سے نہیں ملتا بلکہ اللہ کے فضل سے ملتا ہے اور اللہ کا فضل ان لوگوں کی دعائوں کے طفیل ملتا ہے۔ جو لوگ بے ساختہ ہمیں دے جاتے ہیں۔ دعائیں لیا کرو۔ دوسروں کو پیسے دینے، کھانا کھلانا تو بس دعائیں لینے کا بہانہ ہوتا ہے۔ اصل چیز تو اللہ پاک کی خوشنودی ہوتی ہے… کیا سمجھے…!‘‘ انھوں نے مسکرا کر کہا۔
’’جی…!‘‘ اوصاف نے دھیمے سے کہا۔ اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب وہ بھی دعائیں حاصل کرنے کے لئے خوش دلی سے اپنی پاکٹ منی میں سے بچت کرکے صدقہ خیرات کیا کرے گا۔ آخر دعائیں اس کی بھی تو ضرورت ہیں…!
٭…٭
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے