اللہ کا شیر
فریال یاور
………………………………..
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ ہر شہید صحابی کے ساتھ پڑھایا۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ پڑھائی گئی۔
………………………………..
کوہِ صفا کی جانب دور سے ایک گھڑ سوار چلا آرہا ہے۔ گھڑ سواری کا انداز بتا رہا ہے کہ شہ سوار نہایت ماہر ہے۔ گھڑ سوار آہستہ آہستہ کوہ صفا کی جانب بڑھتا ہے۔ یہ خوب صورت اور نہایت مضبوط جسم کا مالک ہے۔ چہرے پر ایک مسرت، ایک خوشی چھائی ہوئی ہے۔ اس کے انداز سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ شکار کھیل کر لوٹ رہا ہے اور چونکہ شکار میں دن اچھا گزرا۔ اس لیے چہرے پر ابھی تک خوشی نظر آرہی ہے اور اصل بات بھی یہی ہے کہ یہ شخص شکار کا بہت شوق رکھتا ہے۔ لیکن اس کی یہ خوشی تھوڑی ہی دیر میں غائب ہوجاتی ہے۔
کوہِ صفا پر بنے ایک مکان میں موجود اس کی بہن صفیہ نے انہیں اطلاع دی کہ آج عمر بن ہشام نے تمہارے چہیتے بھتیجے کو بہت ستایا اور برا بھلا کہا ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ اجنبی شخص غصے سے بے قابو ہو کر سیدھا عمر کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ معلومات کرنے کے بعد پتا چلا کہ عمر بن ہشام کعبہ میں اپنے مشرکین ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اجنبی نے وہاں پہنچ کر اپنی کمان پوری قوت سے عمر بن ہشام کے سر پر ماری۔ عمر کے سر سے خون نکل پڑا اور ایک بڑا زخم بن گیا۔ اجنبی نے عمر کو کڑ ک کر کہا۔’’تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ میں بھی آج سے انہی کے دین پر ہوں جو وہ کہتا ہے میں بھی وہ کہتا ہوں اگر تجھ میں ہمت ہے تو ذرا مجھے بھی گالیاں دے کر دیکھ۔‘‘
عمر بن حشام (ابوجہل) کو لہولہان دیکھ کر اس کے قبیلے کے کچھ لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور اجنبی پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن عمر بن ہشام نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
*۔۔۔*
اجنبی نے اس وقت جوش اور غصے میں اپنے بھتیجے کی حمایت تو کر دی مگر گھر آکر غصہ کچھ کم ہوا تو شیطانی وسوسوں نے اجنبی کو پریشان کر دیا اور طرح طرح کے سوال ان کے ذہن میں آنے لگے کہ اپنے آباؤ اجداد کے دین کو کس طرح چھوڑو گے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو کس طرح قبول کروگے۔ قریش کے سردار ہوتے ہوئے تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کروگے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ اس سے تو مرجانا بہتر ہے۔ غرض اسی پریشانی میں ساری رات گزرگئی۔ صبح ہونے پر بیت اﷲ میں حاضری دی اور اﷲ سے ذہن کی پریشانی کو دور کرنے کی دعا کی۔ اجنبی نے جب یہ تمام واقعہ اپنے بھتیجے کو سنایا کہ کس طرح اس نے اپنے بھتیجے کے دشمن سے بدلہ لیا اور سخت تنبیہہ کی ہے تو بھتیجے نے کہا: ’’چچا جان میں اس وقت زیادہ خوش ہوں گا جب آپ اس دین کو قبول کرلیں گے جس کو لے کر میں آیا ہوں۔‘‘ بھتیجے کے الفاظ میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ چچا کا دل فوراً اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس کے بعد بھتیجے نے انہیں نہایت تفصیل کے ساتھ اسلام کی سچائی سمجھائی۔ اﷲ کا خوف دلایا اور جنت کی خوشخبری دی اور وہ پکار اٹھے۔
’’میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق ہیں۔ آپ اپنے دین کا خوب اظہار کیجئے۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے اوپر آسمان کا سایہ ہو اور میں اپنے پرانے دین پر رہوں۔‘‘
ابو عمارہ کنیت رکھنے والے یہ اجنبی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب تھے۔آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں صرف دو سال بڑے تھے۔ قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا زیادہ تر وقت دارارقم (جو کہ اس وقت مسلمانوں کا مرکز تھا) میں گزرنے لگا۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دارارقم میں چند صحابہ کے ساتھ موجود تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازے کے سوراخ سے کسی نے باہر جھانکا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے، تلوار لٹکائے نظر آئے۔ اس پر صحابہ کرام کو پریشانی ہوئی اور وہ اس فکر میں پڑ گئے کہ دروازہ کھولیں یا نہ کھولیں۔ کیونکہ معاملہ خون خون خرابے تک جانے کا خدشہ تھا۔
اس وقت حضرت حمزہ اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑے جوش سے کہا۔ اسے آنے دو۔اگر نیک ارادہ سے آیا ہے تو خیر ہے۔ ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دوں گا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ جب اندر آئے تو بڑے احترام کے ساتھ کہا کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زور سے ’اﷲ اکبر‘ فرمایا اور ساتھ میں صحابہ کرام نے اتنے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مکہ کی وادی گونج اٹھی۔ اب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کی صورت میں اسلام کو دو بڑی قوتیں مل گئی تھیں۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر جو کہ ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری میں پیش آیا۔ بڑے جوش کے ساتھ شرکت کی۔ غزوہ بدر کے دن اسود بن عبدالاسد مخزومی نامی ایک کافر نے قسم کھائی کہ وہ مسلمانوں کے حوض سے پانی نہیں پیے گا یا پھر اسے خراب کر دے گا۔ یہ شخص ایک نہایت بداخلاق اور سخت طبیعت کا مالک تھا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو اس شخص کی ڈینگ سنی تو غصے سے بے تاب ہو گئے اور شیر کی طرح لپک کر اس پر حملہ کیا کہ اس کی ٹانگ کٹ گئی اور وہ زمین پر گر پڑا اور بالآخر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں اپنی بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ کفار حیران رہ گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بڑے بڑے نامور سرداروں کو واصل جہنم کیا۔ جس کی وجہ سے کفار نے آپ رضی اللہ عنہ سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
۳ ہجری میں کفار نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ مدینے پر حملہ کردیا۔ مسلمان اور کفار احد کے میدان میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے۔ اس وقت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کل سات سو مجاہدین تھے جبکہ کفار کی تعداد اب تین ہزار تھی۔ دونوں لشکروں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ کفار کے لشکر میں ایک غلام بھی تھا۔ جس کا نام وحشی تھا ۔ یہ جبیر بن مطعم کا غلام تھا۔ جبیر بن مطعم نے وحشی سے کہا کہ اگر تونے حمزہ رضی اللہ عنہ کو میرے چچا طعیمہ بن عدی کے بدلے میں قتل کر دیا تو تُو آزاد ہے۔ ادھر ہندہ بنت عتبہ وحشی کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل پر آمادہ کررہی تھی اور وحشی کو سونے چاندی اور مال و دولت کا لالچ دے رہی تھی۔ لڑائی جاری تھی۔ مسلمانوں نے بہادری اور شجاعت کا وہ مظاہرہ کیا کہ مشرکین شکست کھانے لگے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لڑتے جاتے اور کہتے جاتے۔ میں اﷲ کا شیر ہوں ۔۔۔اور کافروں کا خاتمہ کرتے جاتے۔ لیکن وحشی درختوں کی آڑ لے کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کی تیاری کر رہا تھا اور جلد ہی اسے اس کا موقع مل گیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نہایت بہادری سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کا پاؤں پھسلا اور وہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے اس وقت وحشی نے نشانہ لے کر ان کے نیزہ مارا جو ناف میں لگا اور پار ہو گیا۔ وہ شہید ہوگئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر مشرکین کو بہت خوشی ہوئی۔ ہندہ نے اپنے دل کی بھڑاس اس طرح نکالی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ناک کان اور ہونٹ کاٹ کر اس کا ہار بنایا اور پیٹ چاک کرکے آپ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ نکال کر چبانا چاہا مگر چبا نہ سکی اور تھوک دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے پیارے چچا کا یہ حال دیکھا تو سخت غمزدہ ہوئے اور رونے لگے اور فرمایا کہ تم پر خدا کی رحمت ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ کو اور تمام شہدا کو بغیر غسل دیے خون آلود کپڑوں میں ہی دفن کیا گیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ ہر شہید صحابی کے ساتھ پڑھایا۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ پڑھائی گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*