skip to Main Content

الٰہ دین کا روبوٹ

محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔

نام تو اس کا علاؤالدین تھا مگر اب سبھی لوگ اسے”الٰہ دین“کہہ کرپکارتے تھے۔اسے بھی یہ مختصر نام بہت پسند آنے لگا تھا، اورتو اوراب تو اس نے مستقبل میں یہی نام بطور تخلص استعمال کرنے کا فیصلہ بھی کرلیاتھا۔علاؤالدین دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔وہ بہت کاہل لڑکا تھا،محنت سے جی چراتا تھا اورہمیشہ خیالی پلاؤ پکاتا رہتا تھا۔اسے ایک پُرآسائش اور مزے دار زندگی کی طلب تھی۔یہ منزل تو مثالی تھی،مگر وہ یہ منزل محنت کے بغیر حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس کے سبھی ہم جماعت امتحانات کی تیاریوں میں مگن تھے اور دن رات ایک کیے ہوئے تھے مگر الٰہ دین خیالی دنیا میں کھویا رہتا تھا۔کبھی اس کے ننھے سے دل میں یہ خواہش جنم لیتی کہ کاش اس کے ہاتھ وہ مرغی لگ جائے جو سونے کے انڈے دیاکرتی تھی تو کبھی اس کے دل میں یہ امنگ پیدا ہوتی کہ کاش اس کے ہاتھ الٰہ دین کا چراغ لگ جائے تو سارے مسائل ہی حل ہوجائیں۔
”الٰہ دین!! او الٰہ دین بات سنو!!“
اسے کہیں دور سے آواز سنائی دی۔وہ چونک گیا اور یہ آواز اسے حقیقی دنیا میں کھینچ لائی۔اس نے دیکھا اس کا”پڑھاکو دوست“ کامل اسے پکار رہاتھا۔
”بولو“اس نے براسامنھ بنایا۔
”بولو کے بچے!! صبح سے مراقبے میں بیٹھے ہو،کچھ تو تیاری کرلو،دیکھ نہیں رہے امتحانات سر پہ ہیں اور سر شمشاد بھی جلال میں ہیں۔“کامل نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟کیا مل جائے گا مجھے؟نہیں پڑھنا مجھے۔“الٰہ دین بے زاری سے بولا۔
”ارے میاں!میٹرک میں اچھے نمبرز آئیں گے تو آگے کے لیے آسانیاں ہوں گی،سمجھ آئی؟“ کامل نے ہاتھ نچانچاکر اسے سمجھایا تھا۔
”آگے!!! آہاااااااا……“الٰہ دین نے لفظ”آگے“ کوکھینچ کر اپنی دوگز کی جمائی بھی اس میں شامل کرلی تھی۔اس کی یہ بھونڈی حرکت دیکھ کر کامل نے اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا اور اپنی کتاب پہ جھک کر پھر سے پڑھنے لگا جب کہ الٰہ دین اپنی خیالی دنیا میں کھوگیا،اب کی بار وہ قدیم دور کاخزانہ تلاش کررہاتھا۔

٭٭

اسکول سے چھٹی ہوچکی تھی۔الٰہ دین نے بے دلی سے اسکول بیگ کندھے پہ ڈالا۔اپنی سائیکل پہ بیٹھا اور اسے جہاز تصور کرتے ہوئے تیز رفتار ی سے بھگانے لگا۔چونکہ آج اس کاگھر جانے کا بالکل بھی جی نہیں کررہاتھا، لہٰذا اس نے سائیکل کا رخ جنگل کی طرف موڑدیا اور ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزر کر جنگل میں داخل ہوگیا۔یہاں درختوں کی بہتات تھی اور چاروں طرف خود رو پودے اُگے ہوئے تھے، جن کی بدولت یہ علاقہ بہت سرسبز اور حسین نظرآتا تھا۔اس نے ایک جگہ سائیکل روکی،اسے زمین پہ پٹخا اور خود بھی گھاس پہ لیٹ گیا۔حسب سابق اس کی خیالی دنیا کے دریچے کھلنے لگے تھے۔ابھی وہ اپنی خیالی دنیا میں پوری طرح کھویا نہیں تھا کہ اسے دور سے ایک چیز دکھائی دی۔وہ زور سے چونکا۔اس نے بغورسے دیکھا تووہ سیاہ رنگ کا بیگ تھا۔الٰہ دین کا تجسس بیدار ہوگیا۔اس نے فوراً ہی اس جانب دوڑ لگا دی،تھوڑی دیر بعد وہ اس چیز کے قریب پہنچ چکا تھا۔یہ ایک بیگ ہی تھا۔سیاہ رنگ کا بڑا سابیگ!!
الٰہ دین نے دھڑکتے دل کے ساتھ بیگ کھولا،اگلے ہی لمحے وہ زور سے اچھلا۔اس کے سامنے ایک خوب صورت لیپ ٹاپ پڑا تھا۔
”اوہ“اس کے منھ سے تحیر آمیز آواز نکل گئی۔اس نے ڈرتے ڈرتے لیپ ٹاپ کو ہاتھ لگایا اور اسے گود میں لے کر بیٹھ گیا۔اب اس نے اس کا جائزہ لینا شروع کیا۔یہ تو بالکل نیا لیپ ٹاپ تھا۔اس نے دائیں بائیں سائیڈوں کو دیکھا کہ اسے آن کرنے کابٹن ڈھونڈ سکے اور پھر اسے بٹن مل ہی گیا۔اس نے لیپ ٹاپ آن کر دیا۔بٹن دباتے ہی لیپ ٹاپ پہ رنگ برنگی روشنیاں ناچنے لگیں اور پھرسکرین پہ کچھ لکھا ہوا نظر آنے لگا۔الٰہ دین کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل چکی تھیں۔اس نے نمودار ہونے والے الفاظ پڑھے تو وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا،لکھا تھا:
”الٰہ دین کے چراغ کے بعد اب پیش خدمت ہے الٰہ دین کا روبوٹ۔“
”اف!! یہ کیا ہوگیا، مل گیا،آخر مجھے مل ہی گیا،شکر خدایا شکر!!!“الٰہ دین کے منھ سے مسرت بھرے بے ربط سے جملے نکلے۔اس نے دیکھا،سکرین پہ”اوکے“ کا بٹن ظاہر ہوگیا تھا۔اس نے وہ بٹن دبادیا،فوراً ہی ایک اور عبارت نمودار ہوئی:
”آپ روبوٹ کی ملکیت حاصل کرنے کے اہل ہیں،پلیز اپنی تفصیلات کا اندراج کیجیے اور خود کو رجسٹر کیجیے۔“
الٰہ دین کی سانسیں تیز تیز چلنے لگی تھیں۔اس نے سکرین پہ آنے والے خالی کالمز کو پُرکرنا شروع کردیا،جس میں اس نے نام پتہ لکھنا تھا۔تھوڑی دیر بعد اوکے کا بٹن ظاہر ہوا تو اس نے وہ بٹن دبا کر رجسٹریشن مکمل کرلی،اب ایک اورعبارت اس کے سامنے تھی اور یہ عبارت پڑھتے ہوئے الٰہ دین خوشی سے جھوم اٹھا،وہاں لکھا تھا:
”مبارک ہو! آپ کا روبوٹ تیار ہے،روبوٹ بلانے کے لیے ایک دبائیے!!“
الٰہ دین نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ،بٹن دبادیا،فوراً ہی سیٹی کی تیز آواز سنائی دی،اس کے ساتھ ہی لیپ ٹاپ کی سکرین پہ مختلف روشنیاں جگمگانے لگیں۔الٰہ دین کو ہلکا سا خوف محسوس ہورہاتھا کہ نجانے اب کیا ہوگا،اچانک اس نے فضا میں ایک تیز بھنبھناہٹ جیسی آواز سنی، جیسے شہد کی مکھیاں اس کے سر کے اوپر منڈلا رہی ہوں،اس نے حیرت اور خوف سے اوپر دیکھا تو وہ ششدر رہ گیا،اس کے عین اوپر ایک چھوٹا سا روبوٹ اڑ رہاتھا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ روبوٹ زمین پہ اتر آیااور الٰہ دین کے سامنے آرکا،ساتھ ہی اس کی مشینی آواز الٰہ دین کی سماعتوں سے ٹکرائی:
”علاؤالدین عرف الٰہ دین،میرے آقا!! تمہارا روبوٹ حاضر ہے۔“
”شش۔۔۔شکریہ روبوٹ!!“الٰہ دین بری طرح ہکلاگیا تھا۔
”آقا!! حکم کیجیے!!“روبوٹ نے مشینی انداز میں پوچھا۔الٰہ دین سوچنے لگا کہ کیا کہے،آخر اس نے پہلا حکم جاری کیا:
”مجھے گرما گرم پیزا چاہیے اور ساتھ میں کولڈ ڈرنک بھی!!“
”جو حکم باس!!“روبوٹ نے کہا اور پھر وہ فضا میں معلق ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضا میں گم ہو گیا۔ اب الٰہ دین سنبھل چکاتھا،اب اس کا دماغ تیزی سے منصوبہ بندی کررہاتھا۔وہ سوچ رہاتھا کہ اگر یہ روبوٹ کام کرتا ہے تو اسے اگلاحکم کسی بڑے کام کا دینا چاہیے،عین اسی وقت روبوٹ کسی جن کی مانند اس کے سامنے اترا،اس کے مشینی ہاتھوں میں ایک پیک شدہ پیزا اور کولڈ ڈرنک تھی۔
”روبوٹ حاضر ہے آقا“روبوٹ نے اپنے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا۔الٰہ دین کی آنکھوں میں خوشی کے دیپ جل اٹھے تھے۔اس نے وہ چیزیں وصول کیں اور بیٹھ کر کھانے پینے لگا۔تھوڑی دیر بعد اس نے ایک لمبی سی ڈکار لی اور شکر الحمدللہ پڑھا۔اب تو اسے ہری ہری سوجھ رہی تھیں۔اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر روبوٹ کو کہا:
”مجھے ایک ایسا ”اے ٹی ایم“کارڈ چاہیے جس میں لاکھوں روپے ہوں۔“
”جو حکم آقا،یہ کام تو میں ابھی کیے دیتا ہوں،یہ کہہ کر اس نے اپنے بازو پہ لگا ایک بٹن دبایا،اگلے ہی لمحے اس کے بازو پہ ایک سکرین نمودار ہوگئی۔اس نے اس پہ کچھ ٹائپ کرنا شروع کردیا،تھوڑی دیر بعد اس نے پھر بٹن دبایا تو وہ سکرین غائب ہوگئی۔اب روبوٹ نے اپنے سینے پہ لگا ایک بٹن دبایا تو اس کے سینے سے ایک چمکتا دمکتا اے ٹی ایم کارڈ نکل آیا۔
”کارڈ حاضر ہے آقا!!“اس کے منھ سے مشینی آواز نکلی۔
”اف خدایا!!“الٰہ دین کے منھ سے کانپتی آواز نکلی۔اس نے وہ کارڈ اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا اور روبوٹ کو واپس بھیجنے کے لیے بٹن دبانے لگا۔جب روبوٹ واپس چلاگیاتوالٰہ دین نے وہ لیپ ٹاپ بیگ میں ڈالا اور شہر کی راہ لی،تھوڑی دیر بعد وہ اپنا اے ٹی ایم کارڈ ایکٹو کرچکاتھا،یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں کہ اے ٹی ایم میں دس لاکھ کی خطیررقم موجود تھی۔الٰہ دین نے پہلے تو جی بھر کرشاپنگ کی،نئے کپڑے اورجوتے خریدے،پھراس نے شہر سے باہر جانے اور سیر سپاٹے کا فیصلہ کیا اور سفر پہ چل پڑا۔اگلے دو ہفتوں میں اس کی زندگی بدل چکی تھی،اب اس کے لیے راوی چین ہی چین لکھ رہاتھا۔وہ ملک کے تمام بڑے شہر گھوم چکاتھا۔جب بھی اس کا بینک بیلنس کم ہونے لگتا،تو وہ روبوٹ کو بلا کر مزید رقم منگوالیتا۔اس طرح اس کی زندگی پرآسائش ہوگئی تھی۔
ادھر اس کے دوست پہلے کی طرح پڑھ رہے تھے اوراپنا دماغ کھپارہے تھے۔اس کا سب دوستوں سے رابطہ تھا۔اس کا دوست کامل تو بہت ہی زیادہ پڑھ رہاتھا۔ وہ ان سب کا خوب مذاق اڑاتا تھا۔دن گزرتے گئے۔ایک روز الٰہ دین وہ لیپ ٹاپ اٹھائے ایک کھلی جگہ پہ بیٹھا تھا۔وہ روبوٹ کوبلا کر کچھ کام لینا چاہتا تھا،یہ ایک وسیع وعریض میدان تھا۔دور دور تک سبزہ پھیلا ہوا تھا۔اچانک فضا میں عجیب سی آواز ابھری،اس سے پہلے کہ الہ دین کچھ سمجھتا،اس کے سامنے ایک بڑی سی اڑن طشتری آن اتری،اس نے سوچا کہ یہ اڑن طشتری بھی روبوٹ سے منسلک ہو اور شاید روبوٹ اس کے لیے کوئی نیا تحفہ لایا ہو، مگر یہ تو کسی اور سیارے کی مخلوق تھی،مشینی مخلوق!!۔اس مخلوق نے اترتے ہی الٰہ دین کو گھیر لیا۔
”کیا کررہے ہو تم؟ کون ہوتم؟؟“الٰہ دین نے غصے سے چیخ کر انہیں خبردار کیا۔
”اے انسان!! یہ لیپ ٹاپ دے دو،یہ ہمارا ہے۔“آنے والی مخلوق نے مخصوص مشینی لہجے میں کہا تو الہ دین زور سے اچھلا،یہ سن کرتو گویا اس کی جان نکل گئی تھی،وہ یوں لرز رہاتھا جیسے اس کی جان اسی لیپ ٹاپ میں بند ہو۔
”نن۔۔نہیں۔۔نہیں یہ میرا ہے۔“وہ ہذیانی انداز میں چیخا۔
”نہیں انسان،جھوٹ نہ بولو،یہ ہمارے سیارے کا ہے، یہ ہم سے غلطی سے گرگیاتھا،ہم اسے واپس لے کر جارہے ہیں،یہ اچھی چیز نہیں ہے،ہم اسے ختم کردیں گے۔“مشینی مخلوق نے رک رک کر کہا۔
”کک کیوں۔یہ تو کام کی چیز ہے،تم ایسا کرو،یہ مجھے دے دو،خدا کے لیے یہ مجھے دے دو!!۔“ الٰہ دین نے منتیں شروع کردی تھیں۔
”نہیں انسان!! یہ چیز ہمیں بے عمل بناتی ہے۔یہ دنیا توعمل سے آباد ہے،عمل،حرکت اور محنت سے کائنات چل رہی ہے،اے انسان غورکرو،ایک ندی بہہ رہی ہوتی ہے تو اس کا پانی مسحورکن گیت اور نغمے بکھیر رہاہوتا ہے،اور جب ندی بہنا چھوڑ دیتی ہے تو اس کی رونق اور اس کے ساز سب کچھ ختم ہوجاتا ہے،لہٰذا خود کو عمل سے بارونق بناؤ انسان!!!۔“مشینی مخلوق نے توالٰہ دین کو باقاعدہ لیکچر دے ڈالا تھا۔
اس سے پہلے کہ الٰہ دین کچھ کرتا،مشینی مخلوق حرکت میں آئی اور وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر اپنی اڑن طشتری میں گھس گئی اور دوسرے ہی لمحے الٰہ دین اچھل پڑا کیوں کہ چشم زدن میں ہی وہ اڑن طشتری غائب ہوچکی تھی،گویا وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔الٰہ دین نے گہری سانس لی،وہ سمجھ چکاتھا کہ یہ اب کچھ باقی نہیں رہا،لہٰذااس نے بچی ہوئی نقدی استعمال کی اور واپس اپنے شہر آگیا۔اس وقت میٹرک کے پیپر ہورہے تھے۔اس نے سوچا کہ امتحان میں شرکت تو کروں،اس نے امتحان تو دیا مگر اس کی تیاری تو تھی ہی نہیں،لہٰذا وہ سب مضامین میں فیل ہوگیا،جب کہ کامل نے محنت کرکے بورڈ میں دوسری پوزیشن لے لی تھی۔اگلے روز کے اخبارات میں کامل کی ہنستی مسکراتی تصویر چھپی تھی جس میں وہ انعام میں ملنے والا لیپ ٹاپ بھی تھامے ہوا تھا۔الٰہ دین نے تصویر دیکھی اور پھر اپنی آنکھیں بند کرلیں،لیکن اب وہ خیالی دنیا کے خیالی منصوبے نہیں بنارہاتھا بلکہ خود کو زندہ وجاویدر کھنے کے لیے عمل کی راہیں تلاش کررہاتھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top