آخری لمحات
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اے ابوبکر! امت محمدیہ میں تم وہ شخص ہو جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں مکمل خاموشی ہے۔ جس میں ایک اداسی سی نظر آرہی ہے۔ اس خاموشی کو کچھ کچھ دیر میں ایک سسکی کی آواز توڑ دیتی ہے۔ بستر پر ایک نہایت دبلے پتلے گندمی رنگت کے شخص آرام فرما رہے ہیں۔ چہرے کی ہڈیاں دبلے ہونے کی وجہ سے بہت نمایاں نظر آرہی ہیں اور آنکھیں بھی اندر کو دھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ عمر تو ان کی کوئی ۶۴ کے قریب تھی مگر اپنی عمر سے زیادہ ضعیف نظر آتے تھے۔ مگر ان پندرہ دنوں میں تیز بخار نے انہیں اور بھی زیادہ کمزور کر دیا تھا۔ بستر پر اٹھ کر بیٹھنے کے لیے بھی کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ بظاہر تو ان کی بیماری کی وجہ یہ نظر آرہی تھی کہ سخت سردی کے موسم میں نہانے کی وجہ سے کمزور جسم پر ٹھنڈ کا اثر ہو گیا مگر اکثر لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ پیارے ساتھی کی وفات کا صدمہ انہیں اندر ہی اندر کھوکھلا کررہا ہے۔ اصل بات بھی یہی تھی کہ اپنے پیارے ساتھی سے اتنی محبت تھی کہ زندگی کا کوئی ایسا موقع نہ تھا جب یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ رہے ہوں۔ اب بیماری شدت اختیار کر چکی تھی اور کمزوری بہت بڑھ گئی تھی۔ انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔
اس لیے اس کمزوری کی حالت میں بھی کسی اہم مسئلے پر اپنے ساتھیوں کو بلا کر مشورہ کیا اور پھر اپنا فیصلہ لکھوایا۔ ساتھ ہی لوگوں کو بھی تاکید کی کہ انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے۔ اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ ﷲ تعالیٰ کا خوف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک بڑے عہدے پر ہونے کے باوجود بھی نہایت سادہ زندگی گزاررہے تھے۔ سرکاری خرچ کو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے ناپسند کرتے تھے۔ جب سے یہ سرکاری عہدہ انہیں ملا تھا۔ تجارت کے کاموں کی دیکھ بھال مشکل بلکہ ناممکن ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے لوگوں نے بہت سی بحث کے بعد انہیں سرکاری خرچ سے گزارہ کرنے پر راضی کیا۔ اب اس آخری وقت میں انہیں اس خرچ کیے گئے پیسوں کی بھی بہت فکر تھی۔ اسی وجہ سے چند دنوں پہلے بیماری کی حالت میں اپنے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا : ’’میں نے سرکاری خزانے سے کتنا خرچ کیا ہے۔‘‘ حساب لگا کر بتایا گیا:’’ چھ یا آٹھ ہزار درہم۔‘‘
تو فرمایا:’’ میری فلاں زمین بیچ کر یہ رقم واپس سرکاری خزانے میں دی جائے۔‘‘
پوچھا:’’ اس سرکاری عہدے کے بعد ان کی جائیداد میں کیا کیا چیزیں آئیں۔‘‘
جواب ملا :’’ایک غلام، ایک لونڈی، ایک اونٹنی اور ایک پرانی چادر۔‘‘
ان کے بارے میں وصیت کی کہ یہ بھی ان کے ہونے والے جانشین کو واپس کی جائیں۔
اس کام کے ہونے کے بعد اپنے گھر کے منتظم کو بلا کر پوچھا: ’’میرے ذمے تمہاری کوئی رقم باقی ہو تو بتاؤ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’ پچیس درہم باقی ہیں مگر میں آپ کو وہ قرض معاف کرتا ہوں۔‘‘
فرمایا:’’ چپ رہو اور میرے آخرت کے سامان کو قرض سے مت تیار کرو۔‘‘
یہ سن کر منتظم جن کا نام مقیت تھا۔ رونے لگے۔ بزرگ نے انہیں اپنی کمزور اور پرسوز آواز میں تسلی دی۔ ساتھ ہی بیٹی کو تاکید کی کہ مقیت کے پچیس درہم فوراً ادا کیے جائیں۔ پھر کمزوری کی وجہ سے لیٹ گئے۔ کم گو تو شروع سے ہی تھے مگر اس وقت کمزوری کی وجہ سے بولنا اور بھی مشکل ہو رہا تھا مگر اس حالت میں بھی اپنے فرائض سے غافل نہیں تھے اور مسلسل ان کے بارے میں تاکید کررہے تھے۔ اسی دوران ایک شخص ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اس سے ملک کے پورے حالات سنے اور پھر اپنے ایک قریبی ساتھی کو بلا کر ملک سے متعلق کچھ ضروری تاکید کی۔
اسی دوران حالت نازک سے نازک ہوتی گئی۔ سانس کچھ بہتر ہوئی تو پاس بیٹھی اپنی بیٹی کو تاکید کی :’’ یوں تو تم مجھے بہت عزیز ہو مگر میں چاہتا ہوں کہ جو زمین میں نے تحفے میں تمہیں دی تھی۔ اس میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں کو بھی حصہ دو۔‘‘ بیٹی نے باپ کی خواہش کو قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا۔ سانس کسی وقت تیز ہوجاتی ہے۔ کبھی بہتر ہوجاتی ہے۔ جب بات چیت کے لائق ہوتے ہیں تو ایک بار پھر آنکھیں کھولتے ہیں۔ زندگی کا مقصد ہی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا تھا۔ آنکھیں کھولتے ہی پوچھا: ’’پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال کس دن ہوا تھا۔‘‘
لوگوں نے کہا: ’’منگل کے دن۔‘‘
فرمایا: ’’مجھے امید ہے کہ میری موت بھی آج ہی ہوگی کیونکہ آج بھی منگل ہی کا دن ہے۔‘‘ پھر اپنے غسل اور دفن سے متعلق اپنی بیوی کو کچھ ہدایات دیں۔ سانس پھر تیز ہوتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے رک جاتے ہیں پھر آنکھیں کھولتے ہیں اور بیٹی سے معلوم کرتے ہیں۔
’’پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا۔‘‘
بیٹی نے کہا:’’ تین کپڑوں کا۔‘‘ بیٹی کو اکھڑی سانس کے ساتھ تاکید کی :’’ میرے کفن کے بھی تین ہی کپڑے رکھنا۔‘‘ جسم پر اس وقت بھی دو ہی چادریں تھیں۔ بیٹی کو وصیت کی :’’ یہ دو چادریں ہیں۔ انہیں دھو لینا اور ایک چادر نئی لے لی جائے۔‘‘
بیٹی نے یہ سنا تو روتے ہوئے کہا: ’’ابا جان کیا ہم اتنے غریب ہیں کہ نیا کپڑا بھی نہیں خرید سکیں تو ان بزرگ نے فرمایا: ’’ابا کی جان نئے کپڑے تو مردوں سے زیادہ زندوں کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
یہ نیک بزرگ جنہیں زندگی کے آخری لمحات میں بھی ﷲ کے احکام اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا خیال تھا۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھی، صحابی رسول، عاشق رسول، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔
یوں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر لحاظ سے ہی محترم و جلیل ہیں مگر ان کا عشق رسول تمام صحابہ کرام سے زیادہ تھا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا۔ بعثت نبوی کے ابتدائی زمانے میں ایک دن پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم طواف کعبہ کے لیے حرم کے اندر تشریف لے گئے۔ مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو غضب ناک ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا۔ کسی نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جا کر خبر دی کہ اپنے ساتھی کی خبر لو۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے حرم میں پہنچے اور اپنے پیارے ساتھی پر کفار کو حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا تو غصے سے بے قابو ہو کر کفار کے درمیان گھس گئے۔ کسی کو مارتے کسی کو ہٹاتے اور کہتے جاتے۔
’’تم پر افسوس ہے کہ تم ایک ایسے شخص کو یہ کہنے پر مارے ڈالتے ہو کہ میرا رب ﷲ ہے اور حال یہ ہے کہ وہ ﷲ کی جانب سے روشن دلیلیں تمہارے پاس لایا ہے۔‘‘ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مداخلت مشرکین کو سخت ناگوار گزریں۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو چھوڑ دیا اور سب ان پر ٹوٹ پڑے۔ اتنا مارا کہ لہولہان ہو گئے۔ پٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔ ’’اے عزت و جلال والے! تیری ذات بہت بابرکت ہے۔‘‘ ان کے قبیلہ بنو تمیم کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہ بھاگم بھاگ حرم پہنچے اور انہیں مشرکین سے چھڑایا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ اس حادثہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب گھر پہنچے تو ان کا یہ حال تھا کہ سر پر جس جگہ ہاتھ لگتا۔ وہیں سے بال جھڑ جاتے۔ گھر پہنچ کر بے ہوش ہو گئے۔ بڑی دیر بعد جب ہوش آیا۔ سب سے پہلے جو الفاظ زبان سے نکلے۔ وہ یہ تھے۔ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘ یہ ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی کہ خود زخموں سے چور ہیں لیکن فکر ہے تو صرف اﷲ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ اس طرح ہجرت کا پرخطر سفر اور غزوہ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے اوپر لینا بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال ہے۔
عشق رسول کے بعد جو صفت سب سے زیادہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں پائی جاتی تھی۔ وہ آپ رضی اللہ عنہ کا خوف خدا ہے۔ ہر وقت آخرت کے حساب کتاب سے خوفزدہ رہتے تھے۔ اسی لیے ان کا لقب ’’اواہ منیب‘‘ یعنی بہت آہیں بھرنے والا اور اﷲ کی طرف رجوع کرنے والا پڑ گیا تھا۔ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ وہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ بولے:’’ ﷲ آپ کو معاف فرماے۔ ایسا نہ کیجئے۔ ‘‘آپ نے فرمایا: ’’ اسی زبان نے تو مجھے برباد کیا ہے۔‘‘
کسی باغ کی طرف گزرتے۔ پرندوں کو اڑتے، پھدکتے اور چہچہاتے دیکھتے تو سرد آہ کھینچ کر فرماتے: ’’پرندوں تمہیں مبارک ہو کہ جہاں چاہتے ہو چرتے چگتے ہو۔ جس درخت کے ساے میں چاہتے ہو بیٹھ جاتے ہو۔ حشر کے دن تمہارا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ کاش ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تمہاری طرح ہوتا۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام کے درمیان آکر بیٹھے اور حاضرین سے دریافت کیا۔
’’آج تم میں سے کون روزہ دار ہے؟‘‘
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول ﷲ میں روزے سے ہوں۔‘‘
’’آج تم میں سے کس نے بیمار کی عیادت کی ہے؟‘‘
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیمار ہیں۔ چنانچہ مسجد آنے سے پہلے ان کی عیادت کر آیا ہوں۔‘‘
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کسی نے آج مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’ہم نے تو ابھی آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے اور ابھی تک کہیں گئے ہی نہیں (کھانا کس طرح کھلاتے)۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’صبح جب میں مسجد آرہا تھا تو ایک فقیر نے سوال کیا۔ عبدالرحمن کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ وہ میں نے فقیر کو دے دیا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابوبکر ! تم کو جنت کی بشارت ہو۔‘‘ اور فرمایا :’’جس شخص نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کیں وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
غرض کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس عظمت کے درجے پر تھے۔ وہ اس وجہ سے تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات مبارک پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مکمل نمونہ تھی۔ انہوں نے اپنی جان و مال، اہل و عیال، عزت و آبرو سب کچھ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں قربان کر دیا تھا اور ان کی عظمت کی گواہی خود رب ذوالجلال نے دی۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اپنی احادیث میں بیان کیں اور صحابہ کرام نے بھی دی۔ آپ کے عظیم مرتبے کے لیے یہ حدیث مبارکہ ہی کافی ہے :
’’اے ابوبکر! امت محمدیہ میں تم وہ شخص ہو جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگے۔‘‘
آپ کی وفات ۲۲ جمادی الاُخریٰ ۱۳ ہجری منگل کا دن گزرنے پر مغرب و عشاء کے درمیان ہوئی۔ انتقال کے وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ دعا تھی۔
’’اے رب تو مجھ کو مسلمان اٹھا اور صالحین کے ساتھ حشر کر۔‘‘
*۔۔۔*