آخری کمال
کہانی: The Conjeree’s Revenge
مصنف: Stephen Leacock
ترجمہ: گل رعنا
”خواتین و حضرات!“ جادوگر نے کہا۔ ”جیسا کہ میں آپ لوگوں کو دکھا چکا ہوں کہ یہ پیالا بالکل خالی ہے، اب میں اس میں آپ کو ایک گولڈ فش تیرتی ہوئی دکھاﺅں گا۔“ ہال میں موجود تمام لوگ کہہ رہے تھے۔ ”اوہ! زبردست! یہ کیسے ممکن ہے؟“ لیکن ہال میں اگلی نشست پر بیٹھا ذہین آدمی اپنے برابر بیٹھے ہوئے لوگوں سے سرگوشی کررہا تھا۔ ”مچھلی والا پیالا اس نے اپنی لمبی آستین میں چھپایا ہوا تھا۔“ لوگوں نے خوشی سے سر ہلایا اور کہنے لگے۔ ”ہاں واقعی، ضرور یہی بات ہے۔“ اور پھر ایک سے ایک یہ بات پورے ہال کو معلوم ہوگئی اور سب کہنے لگے۔ ”گولڈ فش اس کی آستین میں چھپی ہوئی تھی۔“
”اب میں آپ کو ہندوستان کا مشہور چھلوں والا کمال دکھاﺅں گا۔“ جادوگر کہہ رہا تھا۔ ”یہ دیکھیے! سارے چھلے بالکل الگ الگ ہیں، مگر میرے پھونک مارتے ہی سب جڑ جائیں گے۔
”یہ دیکھیے۔“
ہال میں بے ساختہ تالیاں گونج اُٹھیں۔ یہاں تک کہ لوگوں نے سنا، ذہین آدمی کہہ رہا تھا۔ ”اس نے ضرور اپنی آستین میں جڑے ہوئے چھلوں کا دوسرا سیٹ چھپایا ہوا ہوگا۔“ دوبارہ سب لوگوں نے اپنے سر ہلائے اور کہا۔ ”جڑے ہوئے چھلے اس کی آستین میں تھے۔“ جادوگر کی تیوری چڑھ چکی تھی۔ ”اب میں ایک بہت دلچسپ کمال دکھاﺅں گا۔ کیا آپ میں سے کوئی اپنا ہیٹ دے گا؟ جی! ہاں، آپ دیں، شکریہ! دیکھیے حاضرین! یہ ہیٹ بالکل خالی ہے۔ اب میں اس میں سے انڈے برآمد کرکے دکھاﺅں گا۔“ اس نے یکے بعد دیگرے ہیٹ سے ایک درجن انڈے نکال کر میز پر رکھ دیے اور اگلے پینتیس سیکنڈ تک حاضرین یہ سمجھتے رہے کہ جادوگر بہت ذہین انسان ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ہال میں موجود ذہین آدمی کو کہتے سنا۔ ”یہ انڈے اس نے اپنی آستین میں چھپائے ہوئے ہوں گے۔“ اور سارے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہنا شروع کردیا۔ ”اس کی آستینوں میں بہت سے انڈے چھپے ہوئے ہیں۔“
انڈے والا جادو ناکام رہا اور یہ شو ایسے ہی چلتا رہا۔ ذہین آمی کی سرگوشیوں سے حاضرین کو پتا چلا کہ گولڈفش، چھلوں اور انڈے کے علاوہ جادوگر نے اپنی آستینوں میں تاش کے پتے، ڈبل روٹی، ایک چوزا، ایک گڑیا اور ایک ہزار کا نوٹ چھپایا ہوا ہے۔ جادوگر کی شہرت تیزی سے نقطہ انجماد سے نیچے جارہی تھی۔ پروگرام کے آخر میں اس نے آخری کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔
”خواتین و حضرات!“ اس نے کہنا شروع کیا۔ ”آخر میں آپ کو میں مشہور جاپانی کمال دکھاﺅں گا جو حال ہی میں ایجاد ہوا ہے۔ کیا آپ جناب!“ اس نے ذہین آدمی کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔ ”کیا آپ براے مہربانی مجھے اپنی سونے کی گھڑی دیں گے؟“ سونے کی گھڑی جادوگر کے حوالے کردی گئی۔ ”کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں یہ گھڑی اس ہاون دستے میں ڈال کر توڑ پھوڑ دوں؟“ اس نے پوچھا۔ ذہین آدمی نے مسکرا کر سر ہلایا۔ جادوگر نے گھڑی ہاون دستے میں پھینک دی اور ایک ہتھوڑی اٹھا کر گھڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ”اس نے ضرور میری گھڑی اپنی آستین میں چھپائی ہے۔“ ذہین آدمی نے سرگوشی کی۔ ”اب جناب! جادوگر نے کہا۔ ”کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کا رومال لے کر اس میں سوراخ کردوں؟ شکریہ! یہ دیکھیے خواتین و حضرات! میں نے اس رومال میں بہت سارے سوراخ کردیے ہیں۔ اچھی طرح دیکھ لیجیے! میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا ہے۔ ہر کسی کو یہ سوراخ اچھی طرح نظر آرہے ہوں گے۔“ ذہین آدمی مسکرایا لیکن اس بار وہ سمجھ نہیں سکا کہ جادوگر کیا کرتب دکھارہا ہے۔ ”اور اب جناب کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کی قیمتی ریشمی ٹائی موم بتی سے جلادو؟ شکریہ! اور کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کا چشمہ اپنی ہتھوڑی سے توڑ ڈالوں؟ جی بہت شکریہ!“
اس وقت تک ذہین آدمی خاصا حیران ہوچکا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جادوگر کیا کرنے جارہا ہے۔ ہال میں سناٹا طاری تھا۔ یہاں تک کہ جادوگر کی آواز ہال میں گونجنے لگی۔ ”خواتین و حضرات! آپ سب نے ملاحظہ فرمایا کہ میں نے ان صاحب کی اجازت سے ان کی گھڑی توڑ دی، ان کے رومال میں سوراخ کردیے، ان کی ٹائی جلادی اور ان کا چشمہ ٹکڑے، ٹکڑے کردیا۔ اگر یہ مجھے مزید اجازت دیں گے تو میں ان کے کوٹ کے اوپر سبز رنگ کی دھاریاں پینٹ کرنے کے لیے تیار ہوں تاکہ آپ سب لوگ مزید لطف اندوز ہوسکیں اور اگر یہ اجازت نہیں دے رہے تو جناب! میرا آج کا شو یہیں ختم ہوتا ہے۔“
ایک زبردست موسیقی کے ساتھ پردہ گر جاتا ہے اور حاضرین اُٹھ کر ہال سے نکلنے لگتے ہیں۔ ان کو اب یقین ہوچکا ہے کہ کچھ کمالات ایسے بھی ہیں جو جادوگر کی آستینوں کے محتاج نہیں۔
٭….٭