skip to Main Content

ایک سپاہی کے عہد کا احترام

طالب ہاشمی

۔۔۔۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایرانیوں اور مسلمانوں کے درمیان بے شمار چھوٹی چھوٹی اور بڑی لڑائیاں ہوئیں۔ اس زمانے میں ایرانی آگ کی پوجا کرتے تھے جبکہ مسلمان اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ان لڑائیوں میں ایک زبردست لڑائی 12 ہجری میں عراق میں نمارق کے مقام پر ہوئی۔ اس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار ”جابان“ تھا جس کا شمار ایران کے نامی بہادروں میں ہوتا تھا جبکہ دوسری طرف اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت ابوعبید ثقفی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ ان کا شاران بزرگوں میں ہوتا ہے جو رسول پاک ﷺ کے مبارک زمانے ہی میں اسلام قبول کر چکے تھے مگر کسی وجہ سے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے تھے۔ لڑائی میں ایرانی فوج کی تعداد اسلامی فوج سے تین چار گنا تھی لیکن مسلمانوں میں ایمان کا اتنا جوش تھا کہ دشمن کی تعداد ان سے کتنی ہی زیادہ ہو وہ اس سے نہیں ڈرتے تھے اور اللہ کے بھروسے پر اس سے ٹکرا جاتے تھے۔ ایرانیوں نے اسلامی فوج پر بڑے زور کا حملہ کیا لیکن مسلمان ان کے سامنے پہاڑ کی طرح جمے رہے اور پھر انہوں نے ایساز بردست جوابی حملہ کیا کہ ایرانیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ ان کے بے شمار آ دی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے بھاگنے والوں کا پیچھا کیا اور بہت سے بھگوڑوں کو گرفتار کرلیا۔ان میں ایرانیوں کا سپہ سالار جابان بھی تھا، جس مسلمان سپاہی نے اس کو گرفتار کیا وہ اس کو پہچانتا نہیں تھا۔ جاہان بڑا مکارآ دمی تھے۔ اس نے مسلمان سپاہی سے کہا:
”بھائی میں بوڑھا آ دمی ہوں تمہارے کس کام آؤں گا، مجھے چھوڑ دو تو میں اپنے بدلے میں تمہیں اتنا کچھ دوں گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ مسلمان سپاہی اس کی باتوں میں آگیا اور اس کوامان دے دی یعنی اس کی جان کی حفاظت کا عہد کر لیا۔ اسے کیا پتا تھا کہ یہ ایرانی فوج کا سپہ سالار ہے اورمسلمانوں سخت دشمن ہے۔ پھر وہ اسے ساتھ لے کراپنے سپہ سالارحضرت ابوعبید کے خیمے میں گیا تا کہ ان کے سامنے اپنے عہد کو پختہ کرسکے۔اسی اثنا میں لوگوں نے جابان پہچان لیااور انہوں نے غل مچادیا کہ یہ ایرانی فوج کاسپہ سالارہے، اس کوبچ کر نہیں جانا چاہیے۔
حضرت ابوعبید رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی باتیں سنیں توانہوں نے للکار کہا:
”اسلام میں عہد توڑنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ ایک مسلمان جابان کو امان دے چکا ہے۔ اب اسے قتل نہیں کیا سکتا، ہم سب پر اب اس کاخون حرام ہے۔“
اپنے سپہ سالار کا حکم سن کرسب لوگ خاموش ہو گئے اور جابان کو نہ صرف چھوڑ دیا گیا بلکہ حفاظت کے ساتھ ایسی جگہ پہنچادیا گیا جہاں اس کی جان کوکوئی خطرہ نہ تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top