ایک مکڑا اور مکھی
علامہ محمّد اقبال
اک دن کسی مکھی سے يہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
ليکن مری کٹيا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے يہاں پائوں نہ رکھا
غيروں سے نہ مليے تو کوئی بات نہيں ہے
اپنوں سے مگر چاہيے يوں کھنچ کے نہ رہنا
آئو جو مرے گھر ميں تو عزت ہے يہ ميری
وہ سامنے سيڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو ديجئے گا يہ دھوکا
اس جال ميں مکھی کبھی آنے کی نہيں ہے
جو آپ کی سيڑھی پہ چڑھا ، پھر نہيں اترا
مکڑے نے کہا واہ ! فريبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے ميں نہ ہو گا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس ميں نہيں تھا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو ! جو مرے گھر ميں تو ہے اس ميں برا کيا
اس گھر ميں کئی تم کو دکھانے کی ہيں چيزيں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی يہ کٹيا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باريک ہيں پردے
ديواروں کو آئينوں سے ہے ميں نے سجايا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہيں بچھونے
ہر شخص کو ساماں يہ ميسر نہيں ہوتا
مکھی نے کہا خير ، يہ سب ٹھيک ہے ليکن
ميں آپ کے گھر آئوں ، يہ اميد نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہيں سکتا
مکڑے نے کہا دل ميں سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح يہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہيں جہاں ميں
ديکھو جسے دنيا ميں خوشامد کا ہے بندا
يہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبا
ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ايک نظر آپ کو ديکھا
آنکھيں ہيں کہ ہيرے کی چمکتی ہوئی کنياں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجايا
يہ حسن ، يہ پوشاک ، يہ خوبی ، يہ صفائی
پھر اس پہ قيامت ہے يہ اڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب يہ خوشامد تو پسيجی
بولی کہ نہيں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کي عادت کو سمجھتی ہوں برا ميں
سچ يہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہيں ہوتا
يہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بيٹھ کے مکھی کو اڑايا