skip to Main Content

آلوچے

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

”ٹن ٹن ٹن……!“
اسکول کی چھٹی ہو گئی تھی۔ ڈھیر سارے بچے اپنے اپنے بستے لے کر نکل آئے تھے۔
”لے لو بھیا آلوچے، کالے کالے آلوچے“
”آلو چھولے گرما گرم۔“
”پاپڑ لے لو پا پڑ۔“
طرح طرح کی چیزوں والے شور مچانے لگے۔ اسلم نے فرید کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
”چلو آلو چھولے کھاتے ہیں۔“
”نا بابا، میرا پیٹ خراب ہو جائے گا۔ تم نے دیکھا نہیں وہ چھولوں کی پلیٹ کس طرح دھوتا ہے۔ ایک ہی بالٹی میں گندہ سا پانی پڑا ہے، اسی میں پلیٹ ڈبو کر نکال لیتا ہے۔“ فرید نے کہا۔
”اچھا تو فروٹ چاٹ کھاتے ہیں۔“
”اوں ہوں، اس پر کتنی مکھیاں بیٹھی ہیں۔“ فرید نے اشارہ کیا۔
”اوہ آلوچے تو کھا سکتے ہو؟“ اسلم نے چڑ کر کہا۔
”ہاں کھا سکتا ہوں مگر گھر لے جا کر اور دھو کر کھاؤں گا۔“
”اچھا بھئی تم آلوچے گھر لے جا کر اور دھوکر کھانا میں تو یہیں کھاؤں گا، گھر لے گیا تو آدھے سے زیادہ اکرم اور نسیمہ چٹ کر جائیں گے، مجھے کیا ملے گا؟“
دونوں آلو چے والے کے پاس پہنچے۔
”آلو چے کیسے دیے؟“اسلم نے پوچھا۔
”تین روپے پاؤ۔“
”ایک پاؤ دے دو۔“ فرید نے کہا۔ آلو چے والے نے ایک پاؤ آلوچے تول دیے۔
”تم نہیں خریدو گے؟“ فرید نے اسلم سے پوچھا۔
”یار اتنے مہنگے؟میرے پاس توتین ہی روپے ہیں بس کا کرایہ بھی تو دینا ہے۔“
”مجھ سے لے لو۔“ فرید نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔
”نہیں یا ر ارے وہ دیکھو ایک اور آلوچے والا کھڑا ہے۔“ اسلم دو سرے آلوچے والے کے پاس چلا گیا۔
”کیسے دے رہے ہو؟“
”چار روپے کلو۔“
”اچھا…اتنے سستے؟ آدھا کلو دے دو۔“ اسلم نے خوش ہو کر کہا۔
”اسلم یہ آلوچے گلے سڑے ہیں مت خرید و۔“ فرید نے اسے روکا۔
”ارے آدھا کلو آلو چے دے رہا ہے۔ کتنے بہت سے ہوں گے۔ تم تول دو جی۔“ ا سلم نے کہا۔
آلو چے والے نے آلوچے تول کر پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال دیے۔
اسلم نے اسی وقت تھیلی میں ہاتھ ڈال کر آلوچے نکالے اور کھانا شروع کر دیا۔
”بڑے مزے کے ہیں تم بھی لو۔“ اس نے ایک پلپلا سا آلوچہ فرید کی طرف بڑھایا۔
”نہیں بھئی تم ہی کھاؤ بلکہ میرا مشورہ ہے کہ لالچ نہ کرو اور یہ آلو چے نہ کھاؤ۔“
”میں تو کھاؤں گا۔ کھاتے ہوئے پیدل ہی گھر پہنچ جاؤں گا، بس کا کرایہ بھی بچے گا۔“ اسلم پیدل ہی چلا گیا۔
دوسرے دن اسلم اسکول نہ آیا۔ چھٹی کے بعد فرید اسلم کے گھر پہنچا۔ گھنٹی بجائی۔ اسلم کے بھائی نے دروازہ کھولا۔
”اسلم آج اسکول نہیں آیا؟“ فرید نے پوچھا۔
”کیسے آتا؟ وہ تو اسپتال میں ہے۔“
”اسپتال میں!مگر کیوں؟“
”ا سے الٹیاں اور دست آرہے تھے۔“
فرید نے اسپتال کا نام اور وارڈ کا نمبر پوچھا اور اسپتال پہنچ گیا۔
اسلم بسترپر لیٹا تھا اور اس کے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ سرہانے اس کی امی پریشان بیٹھی تھیں۔
”کیا ہوا دوست؟“فرید نے ہمدردی سے پوچھا۔
”ہونا کیا تھا اوب!“ اسلم نے ابکائی لی۔”امی مجھے الٹی آرہی ہے۔“ امی نے جلدی سے اسے سہارادیا۔ اس نے بستر سے جھک کر نیچے رکھی بالٹی میں جلدی سے قے کی۔ امی نے اس کا منہ دھلایا اورپانی لینے کے لئے باہر چلی گئیں۔
”تم نے آلوچے کھانے سے منع کیا تھانا؟“اسلم نے شرمندگی سے کہا۔
”بس میں نے لالچ میں ڈھیر سارے آلوچے خریدے اور راستے ہی میں کھا گیا۔ کل سے طبیعت بہت خراب ہے۔“ پھر اس نے چپکے سے کہا۔”ڈاکٹر امی سے کہہ رہے تھے کہ بچے نے کوئی گلی سڑی غذاکھائی ہے۔ میں نے امی کو بتایا نہیں،تم بھی نہ بتانا۔“
”ڈاکٹر ٹھیک ہی تو کہہ رہے تھے۔“ فرید نے کہا۔”اچھا تو پھر بچہ جی کا کیا ارادہ ہے آئندہ؟ کھاؤ کے آلوچے؟“
”توبہ میری توبہ، اوب……“ اسلم کو پھر ابکائی آنے لگی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top