آگ ہی آگ
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کا پیغام
عمارت میں سات آدمی موجود تھے ان ساتوں کے چہروں پر موت کا خوف طاری تھا یوں لگتا تھا جیسے موت کے خوف نے ان کا سارا خون نچوڑ لیا ہو ،رنگ بالکل سفید نظر آرہے تھے۔ آنکھوں میں ویرانیاں ہی ویرانیاں تھیں۔ بولتے بھی تو یوں لگتا جیسے دور کسی اندھے کنویں سے ان کی آواز آ رہی ہو۔
عمارت میں کوئی چیز گر پڑتی تو انہیں یوں لگتا جیسے کوئی خنجر ان کی طرف کھینچ مارا گیا ہو وہ بھڑک اٹھتے۔ ان کی چیخیں نکل جاتیں۔ عمارت کا نام تھا ’’خان ولا‘‘۔ عمارت کے مالک کا نام’’ خان بدیع خان‘‘ تھا۔ وہ ان سات میں سے ایک تھا ۔عمارت میں کوئی بچہ یا عورت نہیں تھی۔ یہ عمارت انہوں نے آپس میں جمع ہو کر کھانے پینے ،دوستی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے چن رکھی تھی۔وہ ہر سال دسمبر کی چھ تاریخ کو یہاں جمع ہوتے تھے۔ پورا ایک ہفتہ یہاں گزارتے تھے،خوب کھاتے تھے پیتے تھے، گپیں ہانکتے تھے، کھیلتے تھے کودتے تھے۔
یہ عمارت صرف ایک عمارت نہیں تھی ،پوری ایک تفریح گاہ تھی۔ اس کے ارد گرد لمبی چوڑی سبزہ گاہ تھی ۔اس سبزہ گاہ میں دنیا بھر سے لا کر پودے لگائے گئے تھے۔ سیکڑوں قسم کے پھول اپنی بہار دکھاتے تھے۔ موسم کوئی بھی ہو پھول ضرور کھلا کرتے تھے۔ دسمبر میں بھی یہاں موسم بہار نظر آتا تھا۔
ہر سال ساتوں دوست چھ دسمبر کی شام تک یہاں پہنچ جاتے تھے وہ بہت گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ۔اپنے گھر بار کی خیریت ،بال بچوں کی خبریں ایک دوسرے کو سناتے اور سات دن اس طرح گزر جاتے کہ ان کا پتا بھی نہ چلتا کب گزر گئے۔ سات دن بعد جب وہ رخصت ہوتے تو اگلے سال کی چھ تاریخ کو ملنے کا وعدہ کر کےلیکن اس بار ان کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں تھی آج ابھی چھ تاریخ تھی ۔کل سے ان کے پروگرام شروع ہونے والے تھے ،لیکن ان حالات میں کیا خاک پروگرام ہوتے اس وقت بھی وہ عمارت کے ہال میں بچھی گول میز کے گرد بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ عمارت کے تین ملازم غلاموں کی طرح ساکت کھڑے تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب چائے ختم ہو اور وہ برتن اٹھا کر ہال سے باہر نکل جائیں۔
تھوڑی دیر پہلے جب خان بدیع خان نے آ کر عمارت کا تالا اپنے ملازموں کے ذریعے کھلوایا تھا تو سامنے ہی دیوار پر انہیں ایک پوسٹر لگا نظر آیا تھا۔ پوسٹر ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور وہ بھی سرخ روشنائی سے ۔وہ اس پوسٹر کی تحریر پڑھ کر چونک اٹھے۔ ان کے قدم رک گئے وہ اندر کی طرف بڑھ نہ سکے ۔ملازمین کو بھی وہ اپنی شہری رہائش گاہ سے ساتھ لائے تھے ۔تالا اپنی آنکھوں کے سامنے کھلوایا تھا اس لیے اس پوسٹر کے بارے میں ملازمین سے تو پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔
ان کے پیچھے ملازم بھی رک گئے وہ بھی ان پڑھ تو نہیں تھے کہ پوسٹر کے الفاظ نہ پڑھ سکیں۔ اس پر بھدے الفاظ میں یہ تحریر نظر آ رہی تھی
’’اس بار یہاں خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔ تم سات میں سے چھ کو قتل کر دیا جائے گا۔ خوب جان لو سات میں سے چھ کو۔‘‘
نیچے کسی کا نام نہیں تھا۔ سرخ الفاظ سے خون ٹپکتا محسوس ہو رہا تھا ۔ان کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
انہوں نے فوراً گھوم کر اپنے ملازمین کی طرف دیکھا۔
’’یہ۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ؟‘‘
’’کک۔۔ کون سی بدتمیزی سر ؟‘‘ ایک نے کانپ کر کہا۔
’’یہ پوسٹر‘‘
’’ہم تو آپ کے ساتھ آئے ہیں سر، عمارت کی چابی سارا سال آپ کے سیف میں رہتی ہے ۔سر! ہمیں کیا معلوم یہ کس کی شرارت ہے۔۔‘‘ دوسرا بولا۔
’’شرارت۔۔ تم اس کو شرارت کہہ رہے ہو۔۔‘‘ وہ گرجے۔۔
’’اور کیا کہیں سر۔۔ یہ شرارت نہیں تو کیا ہے۔۔‘‘ آخر کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ میں سے چھ کو قتل کر دے۔۔‘‘
’’اسے پڑی ہے۔۔ تبھی لکھا ہے نا۔۔ ارے بھئی۔ وہ ساتویں کو بطور قاتل پھنسوانا چاہتا ہے، جب کہ وہ ہے کوئی اور۔‘‘
’’اوہ ‘‘تینوں ملازموں نے ایک ساتھ کہا۔ اب ان پر بھی سکتہ طاری تھا۔ ’’خیر باقی دوست آ لیں، پھر مشورہ ہو گا۔‘‘
ایک ایک کر کے تمام دوست آ گئے۔ ان سب نے یہ تحریر پڑھ لی ۔نہ جانے کیوں کوئی بھی اس تحریر کو مذاق سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا۔’’نہیں خان بدیع یہ مذاق نہیں ہو سکتا۔‘‘ ان کے ایک دوست ڈابر شاہ نے کہا۔
’’بالکل آ ج سے پہلے یہاں ہم سے کبھی کسی نے کوئی مذاق کیا ہے۔‘‘ دوسرے دوست شاکان جاہ نے کہا۔
’’مذاق ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سوال تو یہ ہے کہ پوسٹر لگانے والا اندر کس طرح داخل ہوا؟آج یہاں آنے سے پہلے جب آپ نے تجوری میں سے چابی نکالی تو یہ اپنی جگہ پر تھی ؟‘‘ تیسرے دوست شوبی تارا نے کہا۔’’بالکل اپنی جگہ پر تھی۔ اور تجوری کی چابی صرف اور صرف آپ کے پاس رہتی ہے ؟‘‘ چوتھے دوست طاؤس جان نے کہا۔’’ بالکل ویسے تو کسی ضرورت کے تحت گھر کے افراد کو بھی دے دی جاتی ہے۔ اس چابی کی ویسے خاص حفاظت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس عمارت میں کوئی ایسی قیمتی چیزیں تو ہوتی نہیں ہیں۔‘‘
’’ہو سکتا ہے کسی نے عمارت پر قبضہ کرنے کے لیے یہ پوسٹر لگا دیا ہو۔ تاکہ ہم خوف زدہ ہو کر یہاں سے چلے جائیں ۔‘‘پانچواں دوست جالوت شاہی بولا۔
’’اگر کوئی یہاں خفیہ طور پر سارا سال رہنے کے چکر میں ہے تب تو اسے اس قسم کی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔۔ کیونکہ ہم تو صرف سات دن کے لیے یہاں آتے ہیں باقی سارا سال تو مالی یہاں رہتا ہے۔ مالی سے وہ ساز باز کر سکتا تھا۔ اور سات دن کے لیے ادھر ادھر ہو سکتا تھا۔ ‘‘۔’’نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی آپ مالی کو بلا کر معلوم تو کر لیں ویسے وہ خود کہاں رہتا ہے ؟‘‘ ان کے آخری دوست راج دیو نے کہا۔
’’پچھلی طرف اس کا کوارٹر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے ایک ملازم سے کہا۔
’’تم جا کر مالی کو یہاں بلا لاؤ۔۔ وہ ضرور سویا پڑا ہے۔۔ ورنہ اس وقت یہاں ہوتا۔‘‘ ملازم گیا اور مالی کو لے آیا۔
’’ایک آدھ گھنٹہ پہلے اس طرف کوئی آیا تو نہیں؟تم نے اندر کسی کو داخل ہوتے دیکھا تو نہیں ؟ ‘‘وہ بولے۔
’’بھلا کوئی اندر کس طرح داخل ہو سکتا تھا جناب۔‘‘وہ بولا’’ باہر سے تو تالا لگا ہوا تھا ،سارا سال میں خود اندر نہیں جا سکتا تو کوئی اور کس طرح جا سکتا ہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ یہ دیکھو! کوئی اندر داخل ہوا تھا۔ وہ یہ پوسٹر لگا کر چلا گیا۔‘‘
مالی کی نظریں پوسٹر پر جم گئیں اور پھر ان میں خوف دوڑ گیا۔ وہ بری طرح کانپنے لگا۔
’’نن۔۔ نہیں۔نہیں صاحب مجھے کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’دیکھتے ہیں۔۔ یہ کیا چکر ہے ؟‘‘
اور اس وقت وہ میز کے گرد موجود تھے۔’’ آخر ہم اس کو کسی کا مذاق سمجھنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں۔‘‘ ڈابر شاہ نے منہ بنایا۔’’ آپ خود بتائیں ڈابر شاہ۔ کیا آپ اس کو مذاق سمجھنے کے لیے تیار ہیں ؟‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’نن۔ نہیں۔ یہی تو عجیب بات ہے ۔میں خود بھی اس کو مذاق نہیں سمجھتا۔۔ یہ ہماری موت کا پیغام ہے۔‘‘
لیکن ہم میں سے چھ کی ،ساتواں تو محفوظ رہے گا۔گویا کوئی نامعلوم آدمی ہم میں سے چھ کو ہلاک کر کے چھ کے چھ قتل ساتویں کے سر لگانا چاہتا ہےتاکہ کوئی اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ ہاں بالکل یہی بات ہے۔ شاکان جاہ نے کہا۔ آخر وہ کون ہے۔ کیوں ہمیں ہلاک کرنا چاہتا ہے ؟‘‘
’’ہم بھلا کیا بتا سکتے ہیں۔‘‘ شوبی تارا نے کہا۔
’’تو پھر اس کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ ہم اس سال یہاں پروگرام کینسل کر دیتے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔‘‘ طاؤس جان نے تجویز پیش کی۔
’’اس سے کیا فائدہ ہو گا۔‘‘
’’قاتل اپنا کام نہیں کر سکے گا۔‘‘
’’کیوں؟ اگر اسے یہ کام ضرور ہی کرنا ہے تو وہ ہمارے گھروں میں ہم پر وار کرے گا اس سے بچنے کا یہ حل نہیں ہے۔‘‘ جالوت شاہی نے کہا۔
’’تب پھر۔ ہم کیا کریں ؟‘‘ راج دیو نے کہا۔
’’میرا خیال ہےہم سراغ رساں کو بلا لیتے ہیں۔ کسی پرائیویٹ سراغ رساں کو۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’پرائیویٹ سراغ رساں عام طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ میں تو یہ مشورہ نہیں دوں گا۔‘‘ جالوت نے کہا۔
’’تب پھر کسے بلائیں ؟‘‘
’’ انسپکٹر جمشید کو۔ ‘‘طاؤس نے فوراً کہا۔
’’انسپکٹر جمشید؟ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا‘‘ پھر خان بدیع نے کہا۔
’’وہ بھلا یہاں کیوں آنے لگے۔ ایک سرکاری آفیسر ہیں۔‘‘
’’تو ہم ان کے آفیسر سے بات کر لیتے ہیں اور ان سے درخواست کر لیتے ہیں آخر یہ چھ انسانوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔‘‘ شوبی تارا نے کہا۔
’’ٹھیک ہے تو پھر کریں رابطہ۔ میری تو کسی ایسے آفیسر سے واقفیت نہیں جو انسپکٹر جمشید پر زور ڈال سکتا ہو۔‘‘
’’وہ لوگ تو زور ڈالے بغیر بھی آ جائیں گے۔ وہ اور قسم کے لوگ ہیں۔‘‘ طاؤس جان نے کہا۔
’’تو پھر تم ہی ان سے رابطہ کیوں نہیں کرتے۔ میں نے ان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے انہیں آج تک دیکھا نہیں۔‘‘ طاؤس جان نے کہا۔
’’چلو آج دیکھ لیں گے کرو فون۔ ‘‘طاؤس جان نے انکوائری سے ان کے نمبر معلوم کیے، پھر گھر فون کیا۔ دفتر فون کیا۔ اور رسیور رکھ دیا۔
’’ لو کر لو بات۔ وہ تو کسی مہم کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’یہ ایک اور رہی، اب کیا کیا جائے ؟‘‘
’’شہر چلتے ہیں۔ کسی ہوٹل میں یہ سات دن گزار لیتے ہیں۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ہوٹل میں کیا خاک مزا آئے گا۔‘‘
’’تمہیں مزے کی پڑی ہے۔ یہاں جان کے لالے پڑے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ تب پھر۔ میں پولیس کمشنر صاحب سے بات کرتا ہوں۔ وہ کسی اور کو بھیج دیں گے۔‘‘ جالوت شاہی نے کہا۔
’’پولیس کمشنر سے تمہارے تعلقات ہیں ؟‘‘
’’وہ تو میرا لنگوٹیا ہے۔‘‘
’’تو کرو بھائی فون کچھ تو ہونا چاہیے۔‘‘
’’جالوت شاہی نے فون پر رابطے کی کوشش شروع کر دی اور آخر پندرہ منٹ بعد سلسلہ مل سکا۔
’’ہیلو کمشنر صاحب !جالوت بات کر رہا ہوں، ہاں ہاں بالکل وہ دراصل بات یہ ہے کہ میں اس وقت خان بدیع کی عمارت میں موجود ہوں جس میں ہم ہر سال جمع ہوتے ہیں۔ آپ کو تو یہ بات معلوم ہو گی ،میں نے آپ کو بتائی تھی نا۔ ٹھیک ،اس بار ہم یہاں پہنچے تو ہمارا استقبال ایک پوسٹر نے کیا۔۔ جی۔ جی ہاں۔ پوسٹر نے اب اس کے الفاظ بھی سن لیں۔‘‘
انہوں نے الفاظ دہرا دیے۔ پھر بات مکمل کی۔ اور آخر کمشنر کی بات سن کر رسیور رکھ دیا۔ پھر ان کی طرف مڑ ے۔
’’وہ ایک بہت ماہر سراغ رساں کو بھیج رہے ہیں۔‘‘
اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ اس طرح اچھلے جیسے موت دوڑ کر ان کی طرف آ رہی ہو۔
بھاری چیز
’’ہماری زندگی بھی کیا زندگی ہے۔ جب دیکھودوڑ دھوپ ہو رہی ہے۔‘‘ فرزانہ نے سرد آہ بھر کر کہا۔
’’وہ دیکھو۔ ہمارے سروں پر سیا ہ بادل آ گیا۔ دھوپ یہاں سے ہٹ گئی۔ اب ہماری زندگی دوڑ دھوپ نہیں دوڑ بادل بن گئی ہے۔ ‘‘فاروق مسکرایا۔
’’ دماغ چل گیا ہے شاید۔‘‘ محمود نے اسے گھورا۔
’’ یہ تمہارا خیال ہے جو کہ سند نہیں ۔‘‘فاروق بولا۔
’’ میرا خیال ہے، بہت جلد ہم کہیں الجھنے والے ہیں۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔
’’فضول خیال ہے۔ الجھ کر ہی تو آ رہے ہیں۔ اب اور کیا الجھیں گے۔ کتنے دن ہو گئے ہمیں گھر سے نکلے ہوئے۔ اب فارغ ہوئے ہیں تو تم کہہ رہی ہو کہ ہم الجھنے والے ہیں ۔کم از کم ایک بار گھر تو چلے جائیں اس کے بعد الجھ جائیں گے۔‘‘
’’اگر تقدیر نے گھر جانے کا وقت دیا تبھی جائیں گے نا ۔وہ دیکھو ایک عمارت نظر آ رہی ہے۔ ہم کچھ دیر یہاں آرام کر کے آگے بڑھیں گے ۔ میں تو گاڑی چلا چلا کر بری طرح تھک گیا ہوں۔‘‘ محمود نے جلدی جلدی کہا۔
’’ابا جان،انکل خان رحمان اور پروفیسر انکل بھی ہمارے ساتھ آ جاتے تو کتنا اچھا تھا لیکن ابا جان نے ہمیں پہلے بھیج دیا ہے ۔کوئی تک؟‘‘ فاروق نے جل بھن کر کہا۔
’’کوئی تُک ہے تبھی تو انہوں نے ہمیں پہلے بھیج دیا ہے ۔اگر تک نہ ہوتی تو وہ کیوں بھیجتے۔‘‘
’’عمارت بہت خوبصورت لگتی ہے چاروں طرف سبزہ زار بھی ہے ۔میں تو کہتا ہوں یہیں رک کر ابا جان اور انکلز کا انتظار کر لیتے ہیں ۔‘‘ فاروق نے کہا۔
’’ہرگز نہیں ،ابا جان کا حکم ہے کہ ہم فوراً گھر پہنچیں۔ گھر پہنچنے سے پہلے ہم کہیں رکنا پسند نہیں کریں گے۔ یہ ان کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی۔ ‘‘
عین اسی وقت ٹائر پھٹنے کی آواز گونجی۔ ساتھ ہی فاروق نے قہقہہ لگایا۔’’ اب بھی رکو گے یا نہیں۔‘‘
’’ہرگز نہیں، ٹائر تبدیل کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔ ‘‘
’’اب شاید تمہارا دماغ چل گیا ہے۔‘‘ فاروق نے منہ بنایا۔
’’ فاروق ٹھیک کہہ رہا ہے،محمود۔‘‘
’’کیا ٹھیک کہہ رہا ہے ؟‘‘
’’یہی کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے۔‘‘ فرزانہ مسکرائی۔
’’پاگل ہو گئی ہو کیا؟ بھلا میرا دماغ کیوں چلنے لگا۔ دماغ کی بھی ایک ہی کہی۔ چلنے کو اس دنیا میں کیا نہیں چل سکتا۔‘‘ فاروق بولا۔
’’ ہاں یاد آیا۔ ایک ٹائر تو پہلے ہی پنکچر ہو چکا ہے۔ ارے باپ رے۔ خیر ہم اس عمارت والوں سے مد د مانگ لیتے ہیں، شاید یہاں سے کوئی ٹائر مل جائے ،اس صورت میں بھی ہمیں رکنا تو پڑے گا نا۔‘‘
’’ اسے رکنا نہیں کہتے۔‘‘ محمود نے فوراً کہا۔
’’ بھئی تم شوق سے اسے رکنا نہ کہو، میں کہہ لیتا ہوں۔ رکنا۔ بلکہ ٹھہرنا۔ قیام کرنا۔ ‘‘فاروق نے آنکھیں نکالیں۔
’’بس بس، اتنی باہر نہ نکالو۔ یہ آنکھیں کہیں بالکل ہی باہر آ کر گالوں پر نہ اٹک جائیں۔‘‘ فرزانہ گھبرا گئی۔
’’ پھر ان کو گالوں پر اٹکنے کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔‘‘ فاروق نے منہ بنایا۔
’’ اچھا آؤ۔ ٹائر کا پتا کریں۔ ‘‘محمود بولا۔
’’ ٹائر کی بجائے کہیں ہمیں کسی اور چیز کا پتا نہ چل جائے۔‘‘ فاروق نے کہا۔
’’ میں نے ٹائر کا پتا کرنے کی بات کی ہے۔ پتا چلنے کی نہیں۔ ‘‘
’’حد ہو گئی۔ تم دونوں تو بس ایک دوسرے سے لڑنے پر تلے رہتے ہو۔ کوئی موقع تو خالی جانے دیا کرو۔‘‘
’’ تمہیں خالی موقعوں کی آخر ایسی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘فاروق نے حیران ہو کر کہا اور فرزانہ اسے گھور کر رہ گئی۔
’’مم۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’کس سے،فرزانہ کی آنکھوں سے ؟‘‘
’’نن۔ نہیں اس عمارت سے ۔‘‘فاروق نے واقعی خوف زدہ ہو کر کہا۔
’’ لو، اب یہ حضرت عمارتوں سے بھی ڈرنے لگے۔‘‘
’’عمارتیں ہی تو ہوتی ہیں جن سے ڈرا جاتا ہے۔ تم نے نہیں سنا۔ بھوت بنگلہ ، چڑیل محل ، جنوں کا گھر۔‘‘
’’ یہ تو شاید جھوٹے بچوں کی کہانیوں کی کتابوں کے نام ہیں۔جو فضول قسم کے لکھنے والے لکھتے رہتے ہیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے ہم باتوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں فوراً اس عمارت میں پہنچنا چاہیے۔ اگر ٹائر مل گیا تو مزا آ جائے گا۔‘‘ فرزانہ نے کہا۔
’’نہیں ملا تو زیادہ مزا آئے گا۔‘‘ فاروق مسکرا کر بولا۔
’’ لیکن ہم مزے کے پیچھے کیوں پڑیں۔ ہمیں تو بس گھر جانا ہے۔ آؤ۔‘‘
تینوں تیزی سے اس عمارت کی طرف قدم اٹھانے لگے۔
’’ اس کے گرد یہ خوب صورت باغ دیکھ کر میرا جی بے تحاشہ چاہنے لگا ہے کہ ہم کچھ دیر کے لیے یہاں رک جائیں ۔‘‘فرزانہ بولی۔
’’لیکن ابا جان کے حکم کا کیا کریں۔ ‘‘محمود نے کہا۔
’’ انہوں نے خاص طور پر تو ہم سے یہ کہا نہیں کہ سیدھے گھر جائیں۔ راستے میں کہیں نہ رکیں۔‘‘
’’ میں پھر بھی اسے مناسب نہیں سمجھتا۔ ہو سکتا ہے شہر میں ہماری شدید ضرورت ہو اور ہم یہاں رک کر رہ جائیں۔ پھر ابا جان ضرور ہم پر بگڑیں گے۔‘‘
’’اچھا بابا۔ اللہ کرے ٹائر مل جائے ۔پھر ہم سیدھے گھر ہی جائیں گے۔ بلکہ اگر تم کہو تو ہم ناک کی سیدھ میں چلے جائیں گے۔‘‘
’’ بس خاموش۔ ہم عمارت کے نزدیک پہنچنے والے ہیں۔ لیکن اس عمارت کے نزدیک باتیں کرنا منع تو نہیں ہے۔‘‘
’’ دھت تیرے کی۔‘‘ محمود نے جھلا کر اپنی ران پر ہاتھ مارا لیکن اس کا ہاتھ فرزانہ کی کہنی پر لگا۔
’’ تم تو کہنی اور ران میں پہچان بھی بھول گئے۔‘‘ فرزانہ نے تلملا کر کہا۔
’’ اوہ معاف کرنا فرزانہ۔ دراصل میرا ہاتھ پھسل گیا تھا۔‘‘ محمود نے گھبرا کر کہا۔
’’تمہارا ہاتھ پھسل گیا۔ فاروق کی زبان پھسلتی رہتی ہے۔ ‘‘
’’آخر ہم گھر کس طرح پہنچیں گے۔‘‘ فرزانہ نے گھبرا کر کہا۔
’’ ہاں واقعی۔ یہ بات تو قابل غور ہے ۔‘‘محمود بولا۔
’’بھئی دوسرا ٹائر تو جیسے اس عمارت والے تیار لیے بیٹھے ہیں ہمارے لیے ۔‘‘فرزانہ نے اسے گھورا۔
’’ان کی کسی کار میں سے نکالنے کے لیے کتنا وقت لگ جائے گا۔ ارے واہ۔ یہاں تو چھ سات کاریں نظر آ رہی ہیں۔ سمجھ لو۔ بن گیا کام۔‘‘
’’امید تو یہی ہے لیکن ہو سکتا ہے یہ لوگ ہماری مد د نہ کریں۔‘‘
’’اس صورت میں ہم زبردستی ٹائر حاصل کریں گے۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’ یہ تو شرافت نہیں۔ ‘‘
’’لیکن کسی کی مصیبت میں کام نہ آنا بھی تو شرافت نہیں۔‘‘ محمود بولا۔
’’ وہ یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ہم ان کا ٹائر واپس کرنے نہیں آئیں گے۔‘‘
’’اگر وہ یہ خیال ظاہر کریں گے تو ہم ٹائر کی قیمت انہیں دے دیں گے۔ اس صورت میں تو وہ کوئی اعتراض نہیں کریں گے نا۔‘‘
’’ اس صورت میں بھی اگر اعتراض کریں گے تو ہم ان کے اعتراض کی ایسی کی تیسی کر دیں گے۔‘‘
’’ ایسی کی تیسی کرنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ ہم ان کی تیسی کی ایسی کریں۔‘‘ فاروق نے کہا۔
’’ وہ تم کرنا ۔‘‘محمود نے جل کر کہا۔
’’ اور فرزانہ کیا کرے گی۔ ‘‘
’’تم دونوں کا انتظار۔ کم از کم ٹائر مانگنے کے سلسلے میں میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی۔ تم ضرور اوٹ پٹانگ طریقہ اختیار کرو گے۔‘‘ فرزانہ نے گھبرا کر کہا۔
’’اچھا تو پھر تم یہیں ٹھہرو۔ ہم ٹائر لے کر ابھی آتے ہیں۔‘‘
’’ شکریہ میں بھی یہی چاہتی ہوں ۔‘‘یہ کہہ کر فرزانہ کرک گئی۔ دونوں منہ بنا کر آگے بڑھ گئے۔
’’اس کا خیال ہے ہمیں ٹائر نہیں ملے گا۔ جب کہ ہم یہاں سے ایک دو نہیں پورے سات ٹائر حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔
’’لیکن یار ہم اتنے ٹائروں کا کریں گے کیا۔‘‘ محمود نے گھبرا کر کہا۔
’’ اوہو۔ بھئی میں نے کہا ہے حاصل کر سکتے ہیں ، یہ نہیں کہا کہ حاصل کریں گے۔حاصل تو ہم صرف ایک کریں گے۔‘‘
’’ لیکن اگر نہ کر سکے تو فرزانہ بہت مذاق اڑائے گی۔‘‘ محمود بولا۔
دونوں دروازے پر پہنچ گئے۔ گیٹ کھلا تھا۔ وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گئے لیکن پھر ٹھٹک کر رک گئے ۔ساتھ ہی دیوار پر ہاتھ سے لکھا ایک پوسٹر لگا تھا۔ اس کے الفاظ پڑھ کر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’ یہ۔ یہ۔ یہ کیا ؟‘‘ فاروق نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’شش۔ شاید۔ ایک عدد کیس۔ ‘‘محمود نے بھی ہکلا کر کہا۔
’’آؤ۔ فوراً۔ یہاں سے نکل جائیں ، ورنہ یہ کیس ہمیں چمٹ جائے گا۔ کسی بھوت کی طرح۔‘‘
’’ لل۔ لیکن ٹائر کے بغیر۔‘‘
’’بھئی ٹائر کسی اور سے لے لیں گے۔ وہاں اس پوسٹر سے تو واسطہ نہیں پڑے گا۔ ‘‘
’’اچھی بات ہے۔ ‘‘محمود نے کہا۔
دونوں فوراً واپس مڑے اور فرزانہ کی طرف بڑھنے لگے۔ ابھی تک انہیں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ فرزانہ نے جب انہیں خالی ہاتھ آتے دیکھا تو بھنا اٹھی۔
’’ میں نے پہلے ہی کہا تھاتم ٹائر نہیں لا سکو گے۔ اب تم یہاں ٹھہرو میں ٹائر لا کر دکھاتی ہوں۔‘‘
’’تم ٹائر لاؤ گی۔ میں کہتا ہوں۔ رہنے ہی دو۔ کہیں یہ عمارت ہمارے گلے نہ پڑ جائے۔‘‘ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔
’’ کیا باتیں کر رہے ہو۔ عمارت گلے نہ پڑ جائے۔ اس نے بوکھلا کر کہا۔‘‘
’’اگر ہماری باتیں تمہیں کسی پاگل کی باتیں لگتی ہیں تو جاؤ۔ جا کر ٹائر لے آؤ۔ ‘‘محمود نے جل کر کہا۔
’’ لگتی تو خیر ہیں۔ لہذا میں جا رہی ہوں۔ ‘‘اور وہ پیر پٹختی چلی گئی۔ لیکن جلد ہی اس کی بھی واپسی ہو گئی۔
’’ تم نے وہاں دیوار پر لگا پوسٹر پڑھا؟‘‘ فرزانہ نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
’’ ہاں اور عمارت کے دروازے پر یا اندر کوئی نظر بھی نہیں آیا۔‘‘
’’ ہاں اس کا مطلب ہے۔ شاید۔ اندر کوئی واردات ہو چکی ہے۔‘‘
’’ارے باپ رے۔ ‘‘فاروق نے کہا اور تھر تھر کانپنے لگا۔
’’ بھئی اب تمہیں کانپنے کی اتنی بھی ضرورت نہیں۔ جتنا کہ کانپ رہے ہو۔ آؤ دیکھتے ہیں۔ کیا چکر ہے۔ ‘‘فرزانہ نے کہا۔
’’ دیکھ لو۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔
’’ اور ہم تینوں کو لینے کے دینے کب نہیں پڑتے، یہ تو ہمارا مقدر ہے۔ ‘‘فرزانہ مسکرائی۔
’’تینوں ایک ساتھ عمارت کے دروازے پر پہنچے ، اس سے پہلے وہ سبزہ زار کو تعریف بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے آئے تھے۔ جونہی وہ دروازے پر پہنچے۔ ایک بھاری چیز ان پر آ گری۔
کیا !!!
تینوں ملازم اور مالی دوڑ کر اندر داخل ہوئے تو ان کی جان میں جان آئی۔
’’ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ یہ آنے کا کون سا طریقہ ہے ؟‘‘
’’ وہ۔ جی ہم نے۔ شکار پکڑ لیا ہے۔‘‘ ایک نے ہانپ کر کہا۔
’’ شکار پکڑ لیا؟ یہ تم نے شکار کب سے کھیلنا شروع کر دیا۔‘‘
’’ وہ۔ شکار سے مراد۔ پوسٹر لگانے والے۔ ‘‘
’’کیا !!! ‘‘ساتوں اچھل کر کھڑے ہو گئے۔
’’کیا کہا تم نے۔۔ تم نے ان لوگوں کو پکڑ لیا ہے۔ جنہوں نے وہ پوسٹر لگا یا ہے۔‘‘
’’ہاں ! ہم نے انہیں جال میں قید کر دیا ہے۔‘‘
’’جال۔ کیا مطلب ؟‘‘ شاکان نے حیران ہو کر کہا۔
’’ جی وہ۔۔ میں نے ہرن وغیرہ پکڑنے کے لیے ایک جال بنا رکھا ہے۔ کبھی کبھی ہرن سبزہ زار میں آ جاتے ہیں تو میں انہیں پکڑ کر اپنے سبزہ زار کے چڑیا گھر میں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
’’ اوہ۔ آؤ دیکھیں۔ وہ لوگ کون ہیں۔ جو ہمیں مت کی خبر سنا رہے تھے۔‘‘ وہ ان کے ساتھ باہر نکلے۔ دروازے پر ہی وہ جال میں کسے نظر آئے جال کا منہ اچھی طرح باندھ دیا گیا تھا۔
’’اگر ہم چاہتے تو اس جال سے کب کے نکل چکے ہوتے ، لیکن ہم جانتے ہیں چونکہ آ پ نے غلط فہمی کی بنا پر ہمیں پکڑا ہے۔ اس لیے ہم نے اس جال کو نقصان نہیں پہنچایا۔‘‘
’’بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کرو۔ اس جال سے نکلنا تم لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ اچھا یہ بات ہے۔ پھر اپنے جال کے نقصان کی شکایت نہ کرنا۔‘‘
’’ نہیں کروں گا۔ نکل کر دکھا ؤ۔ میں تو تمہیں ایک سو روپے انعام بھی دوں گا۔ ‘‘مالی نے خوش ہو کر کہا۔
’’ اب یہ انعام بھی جیتنا پڑے گا۔ ‘‘فاروق نے سرد آہ بھری۔
’’تم لوگ ہو کون۔ اور اس بے ہودہ مذاق کی کیا تک تھی۔‘‘
’’ بے ہودہ مذاق کی بھی بھلا تک ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ پہلے تو تم لوگ اس جال کو کاٹ کر دکھاؤ۔ پھر ہم تم سے بات کریں گے۔‘‘ خان بدیع نے بھنا کر کہا۔
’’ یہ کیا مشکل ہے۔ ابھی لیں۔‘‘ یہ کہہ کر محمود نے جوتے کی ایڑی میں سے اپنا چاقو نکالا اور جال کاٹ کر رکھ دیا۔ دوسرے لمحے وہ جال سے باہر تھے۔ اور مالی کھڑا پلکیں جھپک رہا تھا۔
’’بہت خوب تو تم لوگوں کے پاس چاقو تھا۔ خیر جال کی بات چھوڑو۔ وہ تو اب کٹ چکا ہے۔ مالی خود اس کی مرمت کر لے گا۔ اب یہ بتا و کہ تم نے یہ پوسٹر یہاں کیوں لگایا تھا ؟‘‘
’’ہم نے لگایا تھا؟ خدا کا خوف کریں ، ہم کیوں لگاتے پوسٹر۔ ہمیں کیا ضرورت تھی پوسٹر لگانے کی۔ ہمارا دماغ تو نہیں چل گیا کہ لگاتے یہاں پوسٹر۔‘‘ فاروق نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
’’ یار کیا پوسٹر پوسٹر لگا رکھی ہے۔ کام کی بات کرنے دو پہلے مجھے۔‘‘ محمود نے جھلا کر کہا۔
’’ اچھی بات ہے۔ وہ تم کر لو۔‘‘ فاروق نے فوراً کہا۔
’’ دیکھیے جناب۔ اس پوسٹر سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ہم تو دوسرے شہر سے چلے آ رہے تھے کہ ٹائر پھٹ گیا۔ ہمیں یہ عمارت نظر آئی۔ یہاں کچھ کاریں نظر آئیں تو سوچا شاید یہاں سے ایک عدد ٹائر مل جائے لیکن یہاں تو ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ حد ہو گئی ،یعنی کہ آپ ہمارے ساتھ چل کر ہماری کار دیکھ لیں ، کار کا پھٹا ہوا ٹائر دیکھ لیں ،آپ کو ہمارے بیان کی سچائی معلوم ہو جائے گی۔‘‘
’’ہوں ! ہو سکتا ہے۔ یہ سچ کہہ رہے ہوں۔ ویسے یہ مجھے ایسے لگتے نہیں۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ دیکھیے خان بدیع۔‘‘ طاؤس جان نے کچھ کہنا چاہا کہ فاروق نے بات کاٹ دی۔
’’آپ نے کیا نام لیا۔ خان بدی۔ یہ کیا نام ہوا ؟‘‘
’’ اے خبردار۔ میں خان بدیع ہوں۔ ب د ی ع۔‘‘
’’ اوہ اچھا۔ آپ وہ والے بدیع ہیں۔ میں سمجھا تھا بدی والے بدی۔‘‘ فاروق نے گڑ بڑا کر کہا۔
’’ یار کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو۔ کبھی بدیع الزمان نام نہیں سنا کسی کا۔‘‘
’’ ہاں ! کیوں نہیں سنا۔‘‘ فاروق بولا۔
’’آپ کیا کہہ رہے تھے طاؤس جان۔ ‘‘خان بدیع ان کی طرف مڑے۔
’’میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں کیا معلوم یہ کیسے ہیں جب تک ہمارا اطمینان نہیں ہو جاتا ہم انہیں نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
’’ اب ہم خود بھی چھوڑا جانا پسند نہیں کریں گے۔ ‘‘محمود مسکرایا۔
’’ کیا مطلب۔‘‘ وہ چونکے۔
’’ یہ بتائیں۔ پوسٹر کا چکر کیا ہے ؟‘‘
’’ دیکھا۔ اب یہ انجان بن کر دکھائیں گے۔‘‘ طاؤس جان نے چمک کر کہا۔
’’ اوہو! بات تو کرنے دیں ہم بھاگے تو نہیں جا رہے۔ ویسے ہم چاہیں تو ابھی اور اسی وقت آپ لوگوں کو آپ لوگوں کے سامنے بھاگ کر دکھا سکتے ہیں اور آپ لوگ ہمیں نہیں پکڑ سکیں گے۔۔ بلکہ آپ لوگ تو ہماری گرد کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔ اگر یقین نہیں تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، کر لیں تجربہ۔ ہو جائیں دو دو ہاتھ۔ کیا خیال ہے۔ دکھائیں بھاگ کر۔ میرا مطلب ہے دکھائیں آپ لوگوں کو دن میں تارے۔ ‘‘فاروق نے بہت تیزی سے کہا۔
’’توبہ ہے تم سے۔ آپ لوگ اور محاورات کے پیچھے اپنے اس پیرے میں ہاتھ دھو کر پڑ گئے اف مالک۔‘‘ محمود نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔
’’تو اپنے پیرے میں پڑ گیا۔ تمہارے پیرے میں تو نہیں پڑا۔ جب تمہارے پیرے میں دخل اندازی کروں گا۔ پھر بات کرنا۔‘‘
’’یہ تو بہت بڑ ھ بڑھ کر باتیں بنا رہے ہیں حالانکہ یہ یہاں سے ہماری مرضی کے بغیر بھاگ کر بھی نہیں دکھا سکیں گے۔ کیونکہ میں بھی دوڑ کے ان گنت مقابلے جیت رکھے ہیں۔ ‘‘شوبی تارا نے کہا۔
’’ بہت خوب مسٹر شوبی تارا۔‘‘ خان بدیع نے خوش ہو کر کہا۔
’’ شوبی تارا، یہ نام بھی کچھ کم عجیب نہیں ہے۔ خیر جیسا بھی ہے۔ ہاں تو مسٹر تارا اگر آپ کا دعویٰ ہے تو پھر آپ ہمیں پکڑ کر دکھا دیں۔‘‘
’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘
’’آؤ بھئی۔ ذرا انہیں فرار ہو کر دکھائیں۔‘‘
تینوں نے ان الفاظ کے ساتھ دوڑ لگا دی۔ شوبی تارا نے فوراً ان کے پیچھے دوڑ لگا دی۔ اور باقی لوگ بے تحاشہ ان کے پیچھے دوڑ پڑے لیکن بہت جلد ان لوگوں نے محسوس کر لیا کہ وہ تینوں شوبی تارا کے ہاتھ آنے والے نہیں ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تینوں نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
’’افسوس شوبی تارا کی بے وقوفی سے وہ لوگ فرار ہو گئے۔‘‘
’’ مجھے بھی بہت افسوس ہے۔ میں نے سکول اور کالج کے زمانے میں ضرور دوڑ کے مقابلے جیتے تھے۔ لیکن اب میں بچہ نہیں ہوں کہ ان کے مقابلے میں دوڑ سکتا۔ یہ تینوں تو چھلاوے لگتے ہیں خیر۔۔ کمشنر صاحب کا بھیجا ہوا سراغ رساں ان کا خود ہی سراغ لگا لے گا۔ ہم اسے ان کے بارے میں بتا دیں گے۔‘‘
’’ چلیے ٹھیک ہے اب وہیں چل کر بیٹھے ہیں۔ اب تو ہمیں سراغ رساں کا انتظار کرنا ہی پڑے گا۔ وہ اندر جانے کے لیے مڑے ہی تھے کہ دوڑتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ اور پھر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے چلے آ رہے تھے ۔آخر وہ ان کے نزدیک آ کر رک گیے۔
’’آپ لوگ ہمیں نہیں پکڑ سکے نا۔ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔‘‘
’’کمال، ہم نے تو خیال کیا تھا کہ تم لوگوں نے فرار ہونے کے لیے دوڑ کے مقابلے کا ڈراما رچایا تھا۔‘‘ خان بدیع نے حیران ہو کر کہا۔
’’آپ کا خیال سو فیصد غلط ہے۔ ہم اگر فرار ہونا چاہیں تو یہ کام ہمارے لیے چنداں مشکل نہیں تھا۔ بلکہ ہم تو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آپ میں سے کسی کی کار لے کر فرار ہو سکتے تھے۔‘‘
’’کیا کہا۔۔ کار لے کر۔۔ ناممکن۔۔ سب کاریں لاک ہیں۔ تم لوگ دروازے کس طرح کھولو گے۔ جب تک تم کھولنے کی کوشش کرو گےاس وقت تک ہم تم لوگوں تک پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘
’’ آؤ بھئی۔۔ ذرا انہیں یہ کھیل بھی دکھا دیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔’’ چلو۔‘‘
انہوں نے اس قدر تیز دوڑ لگائی کہ وہ دھک سے رہ گئے اور جب وہ دوڑتے ہوئے کاروں کے پاس پہنچے۔ وہ ایک کار کے دروازے میں چابی لگا کر اسے کھول چکے تھے۔ ان میں سے ایک ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر انجن سٹارٹ کر چکا تھا۔ اور پھر جب وہ اس کار کی طرف دوڑے تو کار یہ جا وہ جا۔
’’افسوس ہم ان کے جال میں آ گئے۔ یہ تو لٹیرے اور اٹھائی گیرے قسم کے بچے ہیں۔ اب ہم کار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ‘‘
’’دراصل ان کی اسکیم یہی تھی۔‘‘ طاؤس جان نے فوراً کہا۔
’’ اگر ان کی یہ سکیم ہوتی تو انہیں ہم سے آ کر ملنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ تو خاموشی سے کار لے جا سکتے تھے اور ہم ہرگز انہیں نہ پکڑ سکتے۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’میرا خیال ہے۔ خان صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ لوگ چور ہرگز نہیں ہیں، میرا خیال ہے ان کے ساتھ چل کر ان کی بات کی تصدیق کر لیتے ہیں اور انہیں ایک عدد ٹائر دے دیتے ہیں۔ ‘‘شاکان جاہ نے کہا ۔
’’دے تو ہم اس صورت میں دیں گے نا جب وہ واپس آئیں گے۔ مجھے تو وہ واپس آتے نظر نہیں آ تے۔‘‘ طاؤس جان نے کہا ۔اسی وقت کار واپس آ تی نظر آ گئی۔
’’لیجیے وہ آ گے واپس۔۔‘‘خان بدیع نے مسکرا کر کہا۔
طاؤس جان کا منہ لٹک گیا۔ اسی وقت کار اسی جگہ آ کھڑی ہوئی اور تینوں اس سے اتر کر ان کے سامنے آ گئے۔
محمود نے کہا۔’’ اب آ پ لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ ‘‘
’’آپ لوگوں کی کار کہاں ہے۔‘‘
’’ اس طرف کچھ فاصلے پر۔‘‘
’’ آئیے دیکھتے ہیں۔‘‘
دو کاروں میں سوار ہو کر وہ ان کی کار تک پہنچے پھر واپس آ کر خان بدیع نے کہا۔’’ آپ ٹائر لے سکتے ہیں۔‘‘
’’ افسوس اب ہم ٹائر لے کر اس وقت نہیں جا سکتے۔‘‘
’’ کیا مطلب ،اب کیا بات ہو گئی۔‘‘ خان بدیع نے حیران ہو کر کہا۔
’’ پہلے ہم اس پوسٹر کا معاملہ صاف کریں گے۔‘‘
’’ ارے تو یہ تم لوگوں نے ہی لگایا ہے۔‘‘ خان بدیع چونکے۔
’’ نہیں ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کیا چکر ہے۔ پوسٹر کس نے لگایا ہے۔ اس نے مذاق کیا ہے یا واقعی وہ آ پ لوگوں میں سے چھ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ اور اگر وہ واقعی قتل کرنا چاہتا ہے تو چھ کو کیوں ؟ساتویں کو کیوں چھوڑ دینا چاہتا ہے۔‘‘
’’تاکہ ساتواں ان چھ کے قتل کے جرم میں پکڑا جائے اور اس کی طرف کسی کا دھیان بھی نہ جائے‘‘۔ خان بدیع نے کہا۔
’’ہوں ! اس بات میں وزن ہے،لیکن زبردست امکان اس بات کاہے کہ وہ آپ میں سے ہی ہے اور آخر میں خود کو بے گناہ ظاہر کرنے کے لیے اس نے یہ پوسٹر لگایا ہے۔‘‘
’’ارے باپ رے۔ اس پہلو سے تو ہم نے اب تک نہیں سوچا۔‘‘
’’ تو اب سوچ لیں۔‘‘
’’ آپ فکر نہ کریں۔ ہمارے اس مسئلے کے لیے پولیس کمشنر صاحب کی طرف سے ایک عدد سراغ رساں یہاں آنے ہی والے ہیں۔‘‘
’’ اوہ تب تو ٹھیک ہے اب ہم یہاں رک کر کیا کریں گے۔‘‘ فاروق نے خوش ہو کر کہا۔
’’ لیکن سراغ رساں کے آ نے تک تو ہمیں یہاں رکنا ہی چاہیے کہیں قاتل وار نہ کر جائے۔‘‘ فرزانہ نے بے چین ہو کر کہا۔
’’رکنے کو آپ ان کے آنے کے بعد بھی رک سکتے ہیں۔ اس عمارت میں بہت جگہ ہے۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ شکریہ! ہم نے اگر ضرورت محسوس کی تو ضرور رکیں گے۔‘‘
’’ آپ لوگ دارالحکومت جا رہے تھے ؟‘‘ خان بدیع نے پوچھا۔
’’ جی ہاں ! ہم وہیں رہتے ہیں۔ آئیے اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ خان بدیع نے عمارت کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
وہ ابھی اندر جا کر اطمینان سے بیٹھے بھی نہیں تھے کہ ایک ملازم نے آ کر بتایا۔’’ کمشنر صاحب کا بھیجا ہوا آدمی آ گیا ہے۔‘‘
’’ انہیں یہیں لے آ ؤ۔ ‘‘خان بدیع نے کہا۔ ملازم فوراً چلا گیا۔
’’ کمال ہے اس قدر جلد بھیج دیا انہوں نے آدمی فارغ ہو گا۔ اسی وقت روانہ کر دیا ہو گا۔‘‘
جلد ہی لمبے قدر کا دبلا پتلا اور خوب صورت آدمی تیز تیز قدم چلتا ہوا ان کے پاس آ پہنچا۔
’’السلام علیکم حاضرین! مجھے کمشنر صاحب نے بھیجا ہے،اور میرا نام خادم حسین راہی ہے۔‘‘ اس نے ایک ایک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر جونہی اس کی نظر ان تینوں پر پڑی وہ زور سے اچھلا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی بلکہ پل بھر کے لیے تو انہیں یوں لگا جیسے وہ پریشان ہو گیا ہو۔ پھر اس نے خود کو پرسکون کرتے ہوئے کہا۔’’ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ آپ لوگ اور یہاں۔ پھر میری یہاں کیا ضرورت تھی ؟‘‘ اب اس کا لہجہ نا خوش گوار ہو گیا تھا۔
’’ کیا مطلب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں ؟ ‘‘خان بدیع نے کہا۔
’’ہائیں آپ انہیں نہیں جانتے ؟ ‘‘اس نے اور بھی حیران ہو کر کہا۔
’’ نہیں یہ لوگ دوسرے شہر سے اپنی کار پر آ رہے تھے کہ ان کا ٹائر پھٹ گیا۔ یہاں انہیں کاریں نظر آئیں تو یہ ٹائر کی امید میں چلے آئے۔لیکن آ پ انہیں کس طرح جانتے ہیں ؟‘‘
’’ میں انہیں کیوں نہ جانوں گا۔ یہ انسپکٹر جمشید کے بچے ہیں۔‘‘
’’کیا !!!‘‘ اس بار حاضرین ایک ساتھ چلائے۔
نن۔۔۔ نہیں
چند لمحے تک مکمل سکوت طاری رہا۔ پھر خان بدیع نے کہا۔
’’واقعی۔ ان کی حیرت انگیز صلاحیتیں دیکھ کر ہم حیران ہو رہے تھے۔ اب بات سمجھ میں آئی۔‘‘
’’ یہ تو اس سے کہیں زیادہ صلاحیتوں کے لوگ ہیں۔ تب پھر میری اب یہاں کیا ضرورت۔ میں چلتا ہوں۔ آپ کا مسئلہ تو یہ چٹکی بجاتے میں حل کر دیں گے۔‘‘
’’ خیر ہم اس قدر جلد باز بھی نہیں ہیں کہ چٹکی بجاتے میں کیس حل کر دیں۔‘‘ محمود نے شرما کر کہا۔
’’خیر خیر۔۔ چٹکی بجاتے تو میں نے ایسے ہی کہہ دیا۔ مطلب یہ تھا کہ بہت جلد اور بہت آ سانی سے یہ یہاں کا مسئلہ حل کر دیں گے لہذا میں چلتا ہوں۔‘‘
’’ آپ شاید ناراض ہو گئے ہیں حالانکہ انہیں ہم نے بلایا نہیں۔ یہ اتفاقی طور پر یہاں آئے ہیں۔‘‘
’’اور کیا۔ اور اگر آپ کو ہماری موجودگی گراں گزر رہی ہے تو لیجیے ہم چلے جاتے ہیں۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’ نہیں نہیں۔ آپ اس طرح نہیں جا سکتے اور نہ مسٹر خادم حسین جا سکتے ہیں۔ آپ چاروں مل کر ہمارا مسئلہ حل کریں۔‘‘خان بدیع نے جلدی جلدی کہا۔
’’ چلیے ٹھیک ہے۔‘‘محمود نے فوراً کہا۔
’’ اس پوسٹر کا چکر ہے کیا ؟‘‘ خادم حسین بولا۔
اب خان بدیع نے انہیں پوسٹر کے بارے میں بتایا۔
’’ سب سے پہلے تو ہم اس پوسٹر کو محفوظ کرنے کی اجازت چاہیں گے۔‘‘محمود نے کہا۔
’’ مطلب یہ کہ دیوار پر لگا ہوا یہ غائب بھی ہو سکتا ہے۔ آخر اس پر قاتل کے ہاتھ کی تحریر ہے۔‘‘
’’ یہ ضروری نہیں کہ تحریر اس نے خود لکھی ہو۔ دوسری بات یہ کہ آپ ابھی اسے قاتل نہیں کہہ سکتے۔‘‘
’’ اوہ ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کاغذ پر لکھی تحریر ہمارے کام کی چیز ہے۔ اس کو محفوظ کر لینا چاہیے۔‘‘ خادم حسین نے کہا۔ وہ دیوار کے پاس آئے۔ خادم حسین پوسٹر اتارنے کے لیے آ گے بڑھا ہی تھا کہ محمود بول اٹھا ’’ایک منٹ ٹھہریں۔ اس طرح تو پوسٹر پر آپ کی انگلیوں کا نشان آ جائے گا اور قاتل کی انگلیوں کے نشانات مٹ سکتے ہیں۔ آخر اس کاغذ پر اس کی انگلیوں کے نشانات تو ہیں نا۔‘‘
’’ہاں بالکل۔۔ واقعی آپ اپنے اس میدان کے بہت ماہر کھلاڑی ہیں۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات کی طرف دھیان دیتے ہیں۔‘‘ خادم حسین نے ان کی تعریف کی۔
’’ شکریہ اب آپ کیا کریں گے ؟‘‘
’’میں میں کچھ نہیں کروں گا۔ پوسٹر آپ لوگ دیوار سے اتاریں۔‘‘
’’ اچھی بات ہے ہمارے پاس انگلیوں کے نشانات ابھارنے والا پاؤڈر موجود ہے ہم ابھی اس پر سے نشانات اتار لیتے ہیں۔‘‘ محمود نے کہا۔
پھر پوری احتیاط سے پوسٹر اتار لیا۔ اسے ایک میز پر رکھا ۔اس پر پاؤڈر چھڑکا اور کیمرے سے اس کی تصاویر لے لیں۔
’’فاروق ان سب کی انگلیوں کے نشانات لے لو۔‘‘
’’ اچھی بات ہے۔‘‘
’’ یہ۔۔ یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں۔۔ ہماری انگلیوں کے نشانات کیا کریں گے آپ؟‘‘ خان بدیع نے گھبرا کر کہا۔
’’یہ اندازہ لگانا ہے کہ آخر کون ہے جو اس گھر کی خوشیوں کو چھین لینا چاہتا ہے۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’بالکل۔۔ آپ یہ نہ بھولیں کہ قاتل میرا مطلب ہے ہونے والا قاتل آپ میں سے ایک بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ ہاں ! یہ بات آپ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ ‘‘
’’خیر ہمیں کیا۔ ہم نشانات دے دیتے ہیں۔ بالکل‘‘ شاکان جاہ نے کہا۔
’’ کم از کم میں نہیں دوں گا۔ نشانات۔‘‘ طاؤس جان بولا۔
’’ کیا مطلب۔‘‘
’’ میں جب تک اپنے وکیل سے مشورہ نہ کر لوں نشانات نہیں دوں گا۔‘‘
’’آپ کے وکیل کہیں نہ کہیں نشانات تو آپ کو دینے ہوں گے اس لیے کہ آپ تفتیش میں روڑے نہیں اٹکا سکتے۔‘‘
یہ چھ آدمیوں کے قتل کا معاملہ ہے۔‘‘ خادم حسین نے تیز لہجے میں کہا۔
’’ ہاں بالکل۔ آپ نے ٹھیک کہا۔‘‘ فاروق بولا۔
’’ اچھی بات ہے لے لیں پھر نشانات۔‘‘ فاروق نے ان سب کے نشانات لے لیے۔
’’اب آپ لوگ ایک کام اور کریں۔ اور وہ کیا ؟‘‘ وہ چونکے۔
’’اپنی اپنی تحریر بھی ذرا دے دیں۔مہربانی فرما کر ہرشخص انہی الفاظ پر مشتمل اپنی تحریر لکھ دیں۔ اس طرح آسانی ہو جائے گی۔‘‘
’’ یہ اتنے خوفناک الفاظ ہم کس طرح لکھ دیں۔‘‘ خان بدیع نے کانپ کر کہا۔
’’ آپ کی تحریر کا نمونہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’ اچھی بات ہے۔‘‘ طاؤس جان نے جھلا کر کہا اور سب نے ان الفاظ میں تحریر بھی لکھ دی ۔
’’ہم ذرا اپنا کام مکمل کر لیں۔ آپ ان سے جو سوالات وغیرہ کرنا چاہیں کریں۔‘‘ محمود نے خادم حسین سے کہا۔ خادم حسین سر ہلا کر رہ گیا اور وہ ایک کمرے میں آ گئے۔۔ انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔
’’ یہ انسپکٹر ہم سے آگے نکلنے کے چکر میں ہے لیکن ہم اسے نکلنے دیں گے نہیں۔‘‘ فرزانہ بولی۔
’’ایسی کیا بات ہے۔ ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ بے چارے بچ جائیں۔ نامعلوم قاتل ناکام ہو جائے۔اور بس ہمیں اس سے کیا غرض کہ کون مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے۔ آؤ کام کریں۔‘‘
انہوں نے فلم نکال کر دھوئی۔ پوسٹر کی تحریر اب انہیں صاف نظر آنے لگی۔ لیکن پورے پوسٹر پر ایک انگلی کا نشان بھی نہیں تھا۔
’’ اس کا مطلب ہے ہمارا مجرم کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا۔‘‘ محمود بڑبڑایا۔
’’ خیر کوئی بات نہیں۔ اب ذرا تحریر کی چھان بین کرو۔‘‘
’’ انہوں نے سب کی تحریر اس پوسٹر کی تحریر سے ایک ایک لفظ کے حساب سے ملا کر دیکھی لیکن پوسٹر والی تحریر سے کوئی تحریر بالکل بھی ملتی جلتی نظر نہ آئی۔ اب تو وہ پریشان ہو گئے۔
’’کھیل آسان نہیں مجرم بہت ماہر لگتا ہے۔‘‘
’’ دیکھا جائے گا۔‘‘ فرزانہ نے کندھے اچکائے۔
انہوں نے تمام تحریروں ، تصاویر اور پوسٹر کا ایک پیک بنایا۔ اسے سیل کیا اور اپنے کمرے کی الماری میں رکھ دیا۔
’’ اب ہمیں ذرا اس عمارت کا جائزہ لینا چاہیے۔‘‘
’’ہاں قاتل کے لیے تمام راستے بند کر دینے چاہییں تاکہ وہ اندر داخل ہو ہی نہ سکے۔‘‘
انہوں نے پوری عمارت کا جائزہ لیا عمارت میں کل پندرہ کمرے تھے۔ ہر کمرے کا دوسرے کمرے سے تعلق درمیانی دروازے سے تھا۔ پھر ہر دو کمروں کا باتھ روم ایک تھا گویا تمام کمرے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ اس صورت حال نے انہیں پریشان کر دیا۔
’’قاتل کے لیے تو بہت آسانی ہے۔‘‘ فرزانہ نے گھبرا کر کہا۔
’’ہم اس کا بندوبست کر لیتے ہیں۔ تم فکر نہ کرو پہلے جائزہ مکمل کر لو۔‘‘ محمود نے کہا۔
عمارت سے باہر نکلنے کا ایک راستہ پچھلی طرف سے بھی تھا۔ اس راستے سے کوئی آسانی سے اندر آ بھی سکتا تھا۔ اور باہر جانا بھی بہت آسان تھاکیونکہ پچھلی طرف گھنا جنگل تھا۔وہ اور بھی پریشان ہوئے اور اس کمرے میں آئے جہاں سب مہمان جمع تھے۔ خادم حسین اس وقت وہاں نہیں تھا۔
’’یہ مسٹر خادم حسین کہاں گئے ؟‘‘
’’کافی دیر تک ہم سے سوالات کرتے رہے۔ اب انہوں نے سر میں درد محسوس کیا تو کچھ دیر آرام کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے۔‘‘
’’ اور ان کے کمرے کا نمبر ؟‘‘
’’بارہ وہ بولے۔’’
’’ شکریہ آپ کی یہ عمارت بالکل غیر محفوظ ہے۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘
’’ ایک تو اس میں پچھلی طرف جو دروازہ ہے وہ کسی مجرم کے بہت کام آ سکتا ہے۔‘‘
’’ تو اس کو بند کروا لیتے ہیں۔ اندر کی طرف تالا لگوا دیتے ہیں۔‘‘
’’ اس سے بھلا کیا ہو گا۔ تالا کھولنا مشکل کام نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جرائم پیشہ افراد کے لیے۔ آپ نے دیکھا نہیں تھا ہم نے کار کا دروازہ کس تیزی سے کھول لیا تھا۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’ لل۔۔۔ لیکن آپ لوگ جرائم پیشہ تو نہیں ہیں۔‘‘ انہوں نے گھبرا کر کہا۔
’’ جرائم پیشہ تو ہم سے بھی زیادہ ماہر ہوتے ہیں۔‘‘ محمود بولا۔
’’تب پھر کیا کروں ؟‘‘
’’ اس وقت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔ ہاں ، ایک ترکیب ہے۔۔ آپ اس دروازے پر دو تالے لگوا دیں۔ ایک اندر کی طرف ایک باہر کی طرف۔ اور دونوں کی چابیاں ہمیں دے دیں۔‘‘
’’ چلیے ٹھیک ہے۔ میں کرا دیتا ہوں۔ ‘‘
’’اب دوسری مصیبت جس کا کوئی حل نہیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔
’’ اور وہ کیا ؟‘‘
’’تمام کمرے چوکور حالت میں ہیں یعنی مربع شکل میں اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ اگر غسل خانوں کے دروازے بند نہ ہوں تو ایک کمرے سے چل کر اندر ہی اندر آخری کمرے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ قاتل کے لیے یہ صورت حال بھی بہت سود مند ہے۔‘‘
’’آپ تو مجھے ڈرائے دے رہے ہیں۔‘‘ خان بدیع نے گھبرا کر کہا۔
’’ اب فرض کریں،آپ لوگوں میں سے ہی کوئی شخص یہ جرم کرنا چاہتا ہے تو وہ ان کمروں میں آرام سے اپنا کام کرے گا اور واپس جا کر اپنے بستر پر سو جائے گا۔ صبح سب کے ساتھ اٹھے گا اور قتل کی خبر پر زور سے اچھلے گا۔ ‘‘
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔‘‘ خان بدیع اور بھی گھبرا گئے۔
’’ باہر سے تو ہم کسی قاتل کو اندر آنے سے روک سکتے ہیں لیکن اندر موجود قاتل کا ہم کیا کریں۔ یہ آپ ہمیں بتائیں۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’آخر آپ اس بات پر کیوں تل گئے ہیں کہ قاتل اندر کا ہی آدمی ہے۔‘‘
’’ کیا اس پوسٹر کی تحریر کسی کی تحریر سے مل گئی ہے۔‘‘
’’ افسوس یہ نہیں ہو سکا۔ اگر ہو گیا ہوتا تو ہم کیوں پریشان ہوتے۔‘‘
’’ پھر آپ بتائیں۔ میں کیا کروں۔‘‘
’’ پہلی بات پچھلے دروازے میں اندر اور باہر تالا لگوا دیں۔ صدر دروازے پر بھی ایسا ہی کریں۔‘‘
’’ چلیے یہ ہو جائے گا۔ اور کچھ؟؟‘‘
’’ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ تالوں کی چابیاں ہمیں دے دیں اور ایک بات اور ،ہر مہمان اپنے کمرے میں اپنی طرف سے دروازے بند کر کے رکھے۔‘‘
’’اس طرح باتھ روم کس طرح استعمال ہو سکیں گے۔‘‘ انہوں نے گھبرا کر کہا۔
’’ کوئی باتھ روم استعمال کرنا پڑے تو اس کے لیے پہلے ہمیں خبر کی جائے ہم دوسری طرف جائیں گے تب باتھ روم استعمال کیا جا سکے گا۔‘‘
’’ہوں ! آپ لوگ واقعی عقلمند ہیں۔ ان ترکیبوں پر عمل کر کے واقعی قاتل سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘
’’اور آپ کے سراغ رساں کہاں ہیں انہوں نے اب تک کیا کیا ہے؟‘‘
’’وہ قاتل کا کھوج لگانے کی فکر میں ہیں۔ انہوں نے ہم سے سوالات کیے ہیں۔ ادھر ادھر کا جائزہ لیا ہے۔ آپ کی طرح انہوں نے بتایا۔‘‘
’’ تو کیا انہوں نے بھی کمروں اور دروازوں کے بارے میں یہی باتیں بتائی ہیں ؟‘‘
’’ابھی تک تو انہوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔‘‘
’’ اچھا خیر ایک سوال ہم بھی آپ سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ کہیے۔‘‘وہ بولے۔
’’ آپ ساتوں میں سے کون سا شخص ایسا ہو سکتا ہے جسے باقی چھ کو ہلاک کرنے سے کوئی خاص قسم کا فائدہ پہنچتا ہو۔‘‘
’’ کوئی نہیں، ہم اس پہلو پر بھی سوچ چکے ہیں۔‘‘ وہ بولے۔
’’ لیکن ایک بات آپ بھی سن لیں۔ بغیر وجہ کے کبھی کوئی کسی کو قتل نہیں کرتا۔ قتل کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے اور جب کوئی وجہ نہیں ہوتی تو پھر قاتل جنونی ہوتا ہے لیکن اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی جنونی آدمی کی نہیں ہے ۔ویسے بھی آپ میں اور آپ کے دوستوں میں جنون کی کوئی علامت نظر نہیں آئی۔‘‘
’’نہیں۔ یہ ٹھیک ہے ہم میں سے کوئی بھی جنونی نہیں ہے ۔‘‘وہ بولے۔
’’ تب پھر قتل کی وجہ ضرور ہو گی۔ اور میں کہتا ہوں کہ یہ ضرور کسی کا مذاق ہے یہاں کوئی قتل نہیں ہونے والا۔‘‘
’’یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہمیں اپنی طرف سے بچاؤ کی کوشش تو کرنا ہی ہو گی نا۔‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ یہ تو ہمارا فرض ہے آپ کو ایک خاص بات بتائیں جناب ۔‘‘محمود مسکرایا۔
’’ضرور بتائیے۔‘‘ وہ فوراً بولے۔
’’پوسٹر جو لگا ہوا آپ کو نظر آیا تھا نا اس پر کسی کی بھی انگلی کا کوئی نشان نہیں ملا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘وہ چونکے۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل بہت چالاک ہے۔ ہر بات کو بخوبی جانتا ہے۔ وہ اپنے جرم کا کوئی نشان تک نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اور وہ واردات ہر حال میں کرے گا۔‘‘
’’نن۔۔۔ نہیں۔‘‘خان بدیع نے خوف زدہ آواز میں کہا۔ ان کی آنکھیں پوری طرح پھیل گئیں۔
چاہے کچھ ہو جائے
’’خوف زدہ ہونے سے کام نہیں چلے گا جناب۔ آپ سب کو پوری طرح ہوشیار رہنا ہو گا۔ چوکنے رہیے۔نہ جانے وہ کس رخ سے وار کرے گا۔ کم از کم رات کے وقت کسی کے بھی کمرے میں ہم اسے واردات نہیں کرنے دیں گے۔ اس کا انتظام ہم سونے سے پہلے کر ڈالیں گے۔ کوئی شخص رات کو اپنے کمرے کا بیرونی دروازہ ہرگز نہیں کھولے گا۔ غسل خانے والے مشترکہ دروازے کو کھولنے کی اگر کسی کو ضرورت پیش آئے گی تو وہ پہلے اپنے بیرونی دروازے پر دستک دے کر ہمیں خبردار کرے گا۔‘‘
’’تو کیا آپ ساری رات جاگتے رہیں گے۔‘‘ خان بدیع نے حیران ہو کر کہا۔
’’ چند انسانی جانوں کو بچانے کے لیے اگر ہمیں چند راتیں جاگنا پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں ،کیا خیال ہے آپ کا ؟‘‘ فاروق نے شوخ آواز میں کا۔
’’آپ لوگ بہت اچھے ہیں۔ بہت نیک ہیں۔‘‘ طاؤس جان نے فوراً کہا۔
’’ بس اب آپ ہماری تعریف نہ کریں ۔ہمیں کام کرنے دیں۔ ہاں تو جس کسی کو غسل خانے جانے کی ضرورت پیش آئے ،وہ پہلے اپنا بیرونی دروازہ کھٹکھٹائیں۔ ہم فوراً دروازے پر پہنچیں گے۔ ہم تینوں یا کوئی ایک پہنچے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ تینوں پہنچیں۔ پہلے ہم ان کے ساتھ والے کو جگائیں گے۔ اس کے ذریعے غسل خانے کا دروازے کھلوائیں گے۔ اور جب تک دوسرا شخص غسل خانے میں رہے گا پہلا ہماری نظروں میں رہے گا۔ اس احتیاط سے کم از کم غسل خانوں کے راستے کوئی گڑ بڑ نہیں ہو گی۔‘‘
’’لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف اور صرف اس راستے گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ راج دیو نے برا سا منہ بنایا۔
ایسے میں قدموں کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے انسپکٹر خادم حسین کو آتے دیکھا۔
’’ آئیے انسپکٹر صاحب آپ کی کار گزاری کہاں تک پہنچی۔‘‘
’’ میں نے پورے سبزہ زار کا ایک چکر لگایا ہے۔ امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ باہر سے کسی قاتل کے آنے کے بہت سے راستے بنتے ہیں اور ہمیں ان تمام راستوں کو بند کرنا ہو گا۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟ ‘‘محمود نے حیران ہو کر کہا۔
’’ سبزہ زار کے درخت بہت بلند اور گھنے ہیں ۔ان کی شاخیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں اور کئی درخت عمارت کی چھت تک پہنچے ہوئے ہیں ان درختوں کے ذریعے چھت پر اترنا حد درجے آسان ہے۔‘‘
’’لیکن چھت پر اتر کر کوئی شخص زیادہ سے زیادہ اس صحن میں آ سکتا ہے اور صحن میں ہم موجود ہوں گے۔‘‘ فاروق نے کہا ۔
’’میں نے تو صرف یہ بتایا ہے کہ باہر سے اگر کوئی شخص اندر آنا چاہے تو یہ کام اس کے لیے مشکل نہیں ہو گا۔‘‘ خادم حسین نے کہا۔
’’ ہوں خیر دیکھا جائے گا۔‘‘ فرزانہ نے کندھے اچکائے۔
’’ ویسے میرا خیال ہے قاتل کہیں باہر سے نہیں آئے گا ۔وہ آپ سات میں سے کوئی ایک ہے۔‘‘ انسپکٹر خادم حسین نے پر یقین انداز میں کہا۔
’’نن۔۔ نہیں۔۔ نہیں ہم میں سے کوئی ایک کیوں دوسروں کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہماری تو آپس میں قطعاً کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہم تو گہرے دوست ہیں۔ ‘‘
’’بعض گہری دوستیوں میں گہری دشمنیاں چھپی ہوتی ہیں۔‘‘ انسپکٹر نے کہا ۔
’’بہر حال ہمیں کرنا ہے بچاؤ۔ اور وہ ہم کریں گے۔ ‘‘
’’کھانا لگ گیا ہے جناب!‘‘ ایک ملازم نے آ کر بتایا۔ وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’رات کا کھانا کھانے کے بعد کافی کا دور ہو گا۔ سردی بہت ہے کافی بہت مزا دے گی تاہم اگر کسی صاحب کو کافی پسند نہ ہو تو ان کے لیے چائے بنوائی جا سکتے ہے۔‘‘ خان بدیع نے اعلان کرانے کے انداز میں کہا۔
کوئی کچھ نہ بولا شاید انہیں کافی یا چائے کی بجائے صرف اور صرف یہ فکر تھی کہ قاتل کس طرف سے حملہ آور ہو گا۔ کھانے کے کمرے میں وہ میز کے گرد بیٹھے تھے۔ کھانا پہلے ہی میز پر لگا دیا گیا تھا ۔ان سب کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھے ہی تھے کہ محمود پکار اٹھا۔
’’کھانے سے پہلے کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ۔۔‘‘اس نے جملہ درمیان میں چھوڑ دیا اور سب پر ایک نظر ڈالی سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔
’’ کیا کہنا چاہتے ہیں الجھن میں کیوں مبتلا کر رہے ہیں؟‘‘ طاؤس جان نے انہیں گھورا۔
’’ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ کھانا چیک کر لیا جائے۔‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘وہ ایک ساتھ بولے۔
’’یہ ضروری نہیں کہ قاتل غسل خانوں کے راستے اپنا کام کرے آخر وہ یہ کام زہر دے کر بھی تو کر سکتا ہے۔ یہ طریقہ تو اس کے لیے بہت زیادہ آسان ہو گا۔‘‘
’’کیا !!! ‘‘وہ سب چلا اٹھے۔
’’ اف مالک آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ افسوس کہ میرا دھیان اس طرف کیوں نہ گیا۔‘‘ انسپکٹر خادم حسین راہی نے کہا ۔
’’اس میں افسوس کی کوئی بات نہیں جناب ایسا ہوتا ہے۔‘‘ فرزانہ مسکرائی۔
’’ یہ معقول تجویز ہے ،رومو بابا !طوطوں کا پنجرہ لاؤ ۔‘‘خان بدیع نے کہا ۔مالی فوراً باہر نکل گیا جلد ہی طوطوں کا پنجرہ لے آیا۔
’’ ہر قسم کا کھانا ان کی پیالیوں میں ڈالا جائے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
ایک ملازم نے تھوڑا تھوڑا کھانا ہر ایک ڈش سے طوطوں کی پیالیوں میں ڈال دیا۔ طوطے کھانے لگے۔ اچانک وہ درد ناک انداز میں چلائے اور قیں قیں کرتے پنجرے کے اندر ڈھیر ہو گئے۔
’’اف مالک یہ تو سب مر گئے۔ ‘‘
’’تو ہمارا اندازہ درست نکلا۔ اس ہال میں ہم سب کی موت واقع ہو چکی تھی اگر ہم آپ لوگوں کو نہ روکتے۔‘‘ محمود نے پرسکون آواز میں کہا۔ راج دیو اور طاؤس جان نے انہیں تیز نظروں سے دیکھا پھر راج دیو نے مسکرا کر کہا۔’’ آپ لوگوں کے بارے میں جیسا سنا تھا ویسا ہی آپ کو پایا آپ نے ہم سب کی زندگیاں بچا لیں۔‘‘
’’ سب کی نہیں جناب۔ ‘‘
’’کیا مطلب ؟‘‘
’’قاتل خود زندہ رہتا۔ وہ اس کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگاتا۔ بس صرف منہ چلاتا رہتا۔‘‘
’’اوہ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ راج دیو نے کہا۔
’’معاف کیجیے گا آپ ہندو ہیں ؟‘‘
’’ہاں بالکل۔۔۔ کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے یا آپ اس بنیاد پر مجھے شک کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کہ میں ہندو ہوں۔‘‘
’’شک کی نظروں سے تو ہم سب کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ اس بارے میں فکر مند نہ ہوں ۔‘‘محمود نے مسکرا کر کہا۔
’’ کیا مطلب۔ سب کو کیوں؟ واردات اگر ہو گی تو کرنے والا تو صرف ایک ہو گا۔‘‘ طاؤس جان بولا۔
’’لیکن ہم نہیں جانتے وہ کون ہو گا۔‘‘ فرزانہ نے بھنا کر کہا۔
’’خیر۔۔۔ خیر۔۔۔ یہ آپ کا کام ہے۔ اس کا پتا لگائیں۔ لیکن آپ سب کو تو قاتل خیال نہ کریں۔‘‘ راج دیو نے کہا۔
’’ہم سب پر صرف شک کر رہے ہیں، یہاں تک کہ خان بدیع پر بھی۔‘‘
’’سوائے اپنے آپ پر شک کر نے کے۔۔گویا آپ ہر ایک پر شک کر رہے ہیں ؟‘‘ انسپکٹر خادم حسین ہنسا۔
’’ ہاں انسپکٹر صاحب یہ ہمارا اصول ہے۔‘‘
’’ اصول تو خیر سنہری ہے ،خود میں بھی اس پر عمل کرتا ہوں۔‘‘
عین اسی وقت باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی ان سب نے چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’ یہ۔۔ یہ کون آ گیا۔‘‘ ڈابر شاہ کانپ کر بولا۔
’’ شاید قاتل صاحب تشریف لائے ہیں۔‘‘ محمود بولا۔
’’ ارے۔ باپ رے۔ تو آپ لوگ کچھ کریں نا۔‘‘
’’ فکر نہ کریں ہم بھی فکر نہیں کر رہے۔‘‘ فاروق مسکرایا۔
’’ یعنی اب ہم فکر بھی نہ کریں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ ہونے کو اس دنیا میں کیا نہیں ہو سکتا۔ جانو دیکھو باہر کون ہے۔ اپنی بندوق ہاتھ میں لے کر جانا۔‘‘
’’ بہت بہتر جناب ۔‘‘ملازم نے کہا اور فوراً باہر چلا گیا۔ جلد ہی بھاری قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ تین آدمی اندر داخل ہوئے۔۔۔ جانو ان کے پیچھے تھا۔ محمود ،، فاروق ، خان رحمان اور پروفیسر داؤد تھے۔
’’السلام علیکم۔! تم لوگوں کی کار بے کار دیکھی تو ہم نے خیال کیا، تم ضرور یہاں موجود ہو گے اور ٹائر حاصل کرنے کے سلسلے میں یہاں آئے ہو گے لیکن تمہیں تو کافی دیر پہلے یہاں سے گزر جانا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے ان لوگوں نے انکار تو کیا نہیں ہو گا۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے جلدی جلدی کہا۔
’’ نن۔۔ نہیں۔ ابا جان۔‘‘ محمود بولا۔
’’ابا جان۔۔۔ اوے۔۔۔۔۔ تو کیا یہ انسپکٹر جمشید ہیں؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’ جی ہاں اور یہ ہمارے انکلز ہیں۔ خان رحمان اور پروفیسر داؤد۔‘‘
’’اوہ اوہ۔‘‘ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔ ان سب نے ان سے ہاتھ ملائے پھر ان کے لیے بھی کرسیاں رکھی گئیں۔
’’ یہاں کی فضا کچھ خوش گوار نہیں لگتی کوئی حادثہ ہو گیا کیا؟ ارے ان طوطوں کو کیا ہوا؟ اوہو۔۔۔ کھانا انہیں چیک کرایا گیا ہے۔ کیا کوئی شخص آپ لوگوں کو زہر دینا چاہتا ہے ؟‘‘انہوں نے جلدی جلدی کہا۔
’’بھئی واہ۔ کس قدر جلد اندازہ لگا لیا آپ نے۔‘‘ خان بدیع بولے۔
’’ یہ ہمارا دن رات کا کام ہے۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’ کوئی نامعلوم شخص ان میں سے چھ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔‘‘
’’ لیکن یہ تو آٹھ ہیں۔۔ گویا باقی دو بچیں گے۔‘‘
’’ ان میں سے یہ انسپکٹر خادم حسین راہی ہیں۔ یہاں ہونے والی واردات کے خوف سے انہوں نے پولیس کمشنر کو فون کیا تھا۔ کمشنر صاحب نے انسپکٹر خادم حسین کو بھیج دیا۔‘‘ محمود نے بتایا۔
’’معاملہ کیا ہے؟‘‘ وہ بولے۔
اب انہیں پوسٹر کے بارے میں بتایا گیا۔
’’ میں وہ پوسٹر دیکھنا چاہتا ہوں محمود!‘‘ انسپکٹر جمشید پریشان ہو کر بولے۔
’’ اس پر کسی کی انگلیوں کے نشانات نہیں مل سکے، ابا جان میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر محمود اپنے کمرے میں چلا گیا۔اور پوسٹر لیے واپس آیا۔۔ انسپکٹر جمشید چند منٹ تک اس کو بغور دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
’’جس شخص نے یہ پوسٹر لکھا ہے۔ اپنے دائیں ہاتھ سے نہیں لکھا اور دوسری بات یہ ہے کہ اس نے بائیں ہاتھ سے لکھنے سے پہلے دستانے چڑھا لیے تھے۔ اس طرح پوسٹر پر انگلیوں کے نشان نہیں آئے۔ گویا وہ سوجھ بوجھ والا آدمی ہے اور سب سے بڑھ کر ایک بات بتاؤں؟‘‘
’’ جی فرمائیے!‘‘ وہ ایک ساتھ بولے۔
’’کھانے میں زہر مجرم نے آپ لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے نہیں ملایا تھا۔‘‘
’’ جی کیا مطلب۔ تو پھر ؟‘‘
’’اس حرکت سے وہ صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ قتل کی واردات ضرور کرے گا، چاہے کچھ ہو جائے۔ نن۔۔۔ نہیں۔‘‘ وہ ایک ساتھ چلائے۔
’’میں زخمی ہوں۔‘‘
کمرے میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر محمود بولا:
’’لیکن آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کھانے میں زہر ملانے سے اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ دوسروں پر واضح کر دے کہ وہ قتل کی واردات ضرور کرے گا۔ کیا وہ جانتا تھا کھانا چیک کر لیا جائے گا؟‘‘
’’ہاں وہ جانتا تھا۔ یہاں محمود ،، فاروق ، فرزانہ اور ایک سراغ رساں انسپکٹر خادم حسین موجود ہیں۔ لہذا کھانا چیک ہوئے بغیر نہیں کھایا جائے گا۔ وہ بس یہ چاہتا تھا کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ وہ واردات ہر حال میں کرے گا۔‘‘
’’ اور وہ۔۔ یہ یقین کیوں دلانا چاہتا ہے۔ آخر یقین دلا کر وہ کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ؟‘‘
’’وہ ان سب کے چہروں پر خوف کے سائے دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ وہ چاہتا ہے مرنے سے پہلے ان سب لوگوں کو تھر تھر کانپتے ہوئے دیکھے، لرزتے ہوئے دیکھے، زندگی کے لیے انہیں ترستے ہوئے دیکھے۔ پتا نہیں، اس قدر انتقامی جذبات اس میں کہاں سے آ گئے۔‘‘
’’انتقامی جذبات؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’ہاں انتقامی جذبات۔ وہ کسی سے کوئی انتقام لینا چاہتا ہے۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے کسی ایک سے یا چھ سے؟‘‘
’’ دونوں باتیں ہو سکتی ہیں۔۔ لیکن۔۔‘‘
’’لیکن کیا ؟‘‘
’’لیکن یہ کہ میں یہ بات ضرور یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ یہ کیس ہے انتقام کا۔ اگر انتقام کا نہ ہوتا تو وہ اپنا کام چپ چپاتے کر سکتا تھا۔ کسی کو بتائے بغیر کانوں کان کسی کو پتا نہ لگتا لیکن پوسٹر لگا کراس نے سب کو خبر دار کر دیا۔۔ چوکنا کر دیا۔۔ بلکہ سب سے بڑھ کر یہ کہ خوف زدہ کر دیا، اور یہی اس کی خواہش تھی۔ وہ آپ سب کو خوف زدہ دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
’’ تو ہم اس کے لیے ویسے ہی بہت زیادہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ فاروق نے فوراً کہا۔ محمود اور فرزانہ مسکرا دیے۔
’’اس طرح اس کا اطمینان نہیں ہو گا۔ خون کی پیاس بجھا کر ہی اسے سکون ملے گا۔ وہ انتقام کی آگ میں جل رہا ہے۔ آپ میں سے کوئی ایسا ضرور ہے جس نے کسی کا دل بہت زبردست طریقے سے دکھایا ہے۔جلدی سے غور کریں صرف اسی صورت میں ہم اس کے وار سے بچ سکتے ہیں۔ ورنہ۔۔۔‘‘
’’ورنہ کیا ؟‘‘
’’وہ وار کرنے کے لیے بالکل تیار ہے اور اس کا وار خالی نہیں جائے گا۔‘‘
’’ آپ کی موجودگی میں بھی؟‘‘
’’ ہاں میری موجودگی میں بھی، اس لیے کہ میں شروع سے یہاں نہیں ہوں۔ اگر میں شروع میں ہی یہاں آ گیا ہوتا تو شاید ایسا نہ ہونے دیتا۔‘‘
’’ لیکن ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا بس چند طوطے مارے گئے ہیں۔‘‘
’’ بھئی اس نے اپنی تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔‘‘ وہ بے چارگی کے عالم میں بولے۔
’’لیکن آپ اس کی تیاریوں کو ملیا میٹ تو کر سکتے ہیں نا؟‘‘
’’ ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہم نہیں جانتے مجرم کس رخ سے وار کرے گا۔‘‘
’’ تب پھر آپ پوری عمارت اور سبزہ زار کا جائزہ لے لیں۔‘‘ شوبی تارا نے فوراً کہا۔
’’ میں ایسا ضرور کروں گا۔ لیکن آپ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئے۔
’’ کہیے، آپ رک کیوں گئے یہاں سے فوراً شہر چلے جائیں۔ اپنے اپنے گھر۔‘‘
’’ تو کیا اس طرح مجرم اپنا پروگرام روک دے گا؟‘‘ خان بدیع نے فوراً کہا۔
’’ نہیں، پروگرام تو وہ نہیں روکے گا۔‘‘
’’ تب پھر ہم یہیں کیوں نہ اس کا سامنا کریں۔ اب تو آپ لوگ بھی یہاں آ گئے ہیں۔ اپنے اپنے گھر میں ہم الگ الگ ہو جائیں گے آپ جیسے لوگ ہم اور کہاں سے لائیں گے۔‘‘
’’ خیر، آپ کی مرضی ۔ہو گا تو وہی جو اللہ کو منظور ہو گا۔ محمود اس کھانے کے نمونے محفوظ کر لو اور ہر ایک کمرے کی تلاشی لے ڈالو ۔دیکھو زہر کس کے کمرے میں موجود ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ جی بہتر ۔‘‘
’’باقی سب لوگ یہیں موجود رہیں گے۔‘‘ انسپکٹر جمشید سرد آواز میں بولے۔
محمود ، فاروق اور فرزانہ فوراً کمروں کی طرف مڑ گئے اور لگے ایک ایک کمرے کو چیک کرنے لیکن انہیں زہر کی کوئی شیشی کسی کمرے میں نہ ملی۔ انہوں نے باورچی خانے کا بھی جائزہ لیا۔ باورچی اس وقت وہیں تھا۔ فاروق نے اسے گھورتے ہوئے کہا’’ ہاں جناب آپ کیا کہتے ہیں زہر میں کھانا کس طرح مل گیا؟‘‘
’’ جی زہر میں کھانا یا کھانے میں زہر؟‘‘ اس نے حیران ہو کر کہا۔
’’ ایک ہی بات ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑ جائے گا۔ کھانا تم نے تیار کیا تھا۔ پھر اس میں زہر کس طرح مل گیا ؟‘‘
’’میں خود حیران ہوں۔‘‘
’’تم اس دوران باورچی خانے سے کہیں گئے تھے ؟‘‘
’’ جی ہاں! ایک دو بار جانا تو پڑا تھا سٹور میں سے کچھ چیزیں نکالنے کے لیے۔ باورچی خانے سے متعلقہ چیزیں وہیں رکھی ہیں۔‘‘
’’ تب تو مجرم کے لیے بہت آ سانی تھی۔ زہر ملانا اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔ خیر اب تم بہت دھیان رکھو گے ۔کوئی چیز بھی تیار کرو اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے۔ جانا ہی پڑ جائے تو باورچی خانے کے دروازے کو تالا لگا کر جاؤ گے۔ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے ۔کوئی خان صاحب اور ان کے دوستوں کی جان لینے کے درپے ہے۔ ارے ہاں خان صاحب اور دوسرے لوگوں کی آمد سے پہلے کیا تم لوگ نہیں آئے تھے یہاں ؟‘‘ محمود نے کہا۔
’’ جی نہیں، خان صاحب ہر سال یہاں دعوت سے ایک دن پہلے آ جاتے ہیں ۔ہمیں اپنے ساتھ ہی لاتے ہیں۔ اپنے سے الگ ہمیں یہاں نہیں بھیجتے۔‘‘
’’ہوں۔۔ جب آپ سب لوگ آئے اور دروازہ کھولا تو وہ پوسٹر لگا ہوا تھا؟ ‘‘
’’بالکل لگا ہوا تھا۔‘‘
’’شکریہ بہت بہت ۔‘‘محمود نے کہا اور باہر نکل آئے۔
’’مجرم کے لیے اندر آ کر پوسٹر لگانا کوئی مشکل کام نہیں تھا، جیسا کہ ہم جان چکے ہیں۔ کئی درخت چھت تک آئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ تو کیا زینے کا دروازہ کھلا ملا تھا۔۔ اسے ؟‘‘
’’آؤ دیکھتے ہیں ۔زینہ بند ہونے کی صورت میں وہ صحن میں کس طرح اترا ہو گا۔‘‘
وہ چھت پر آئے ۔زینے کا دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ انہوں نے منڈیر کا اچھی طرح جائزہ لیا، اور پھر زور سے اچھلے۔ منڈیر پر شیشے کے ٹکڑے لگائے گئے تھے۔ ان شیشوں پر ایک جگہ خون لگا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’اس کا مطلب ہے زینہ دوسرے طرف سے بند تھا۔ مجرم کو منڈیر کے ذریعے نیچے اترنا پڑا تھا۔ اس نے درخت کی شاخ سے رسی باندھی اور اس کے ذریعے نیچے سرک گیا، لیکن ایسا کرتے وقت منڈیر کا شیشہ اس کے جسم میں چبھ گیا اور وہ زخمی ہو گیا۔ اس کے باوجود وہ نیچے اترا اور پوسٹر لگا کر واپس زینے کے راستے چھت پر آ گیا۔ اس نے رسی اتار لی اور درخت کی شاخ کے ذریعے لوٹ گیا۔‘‘
’’ تب پھر۔۔ ہمارا مجرم زخمی ہے۔‘‘ فرزانہ بولی۔
’’ لیکن۔۔۔ ہم نےان میں سےکسی کو زخمی نہیں دیکھا۔‘‘
’’ ہو سکتا ہے زخم ایسی جگہ لگا ہو جو کپڑوں سے ڈھکی ہوئی ہو۔ ہمیں کس طرح پتا چل سکتا ہے بھلا۔‘‘
’’ یہ تو ہمیں دیکھنا ہو گا۔ ویسے اس زخم نے ہمارا کام بہت آ سان کر دیا ہے۔‘‘
’’ ہاں لیکن یہ ترکیب سوچنا ہو گی کہ اس زخم کا پتا کس طرح چلایا جائے۔ ترکیب کیا کیا ہے؟‘‘
’’ فرزانہ ہمارے ساتھ ہے۔ترکیبوں کا پٹارا۔ اس کے پاس ہے۔ ابھی اپنا پٹارا کھولے گی اور اس میں سے ترکیب نکال کر ہمارے سامنے رکھ دے گی۔۔ کیوں فرزانہ ؟‘‘ فاروق نے شوخ آواز میں کہا۔
’’ کبھی تم دونوں بھی اپنے دماغ سے کوئی ترکیب نکال دیا کرو۔‘‘ فرزانہ نے جل بھن کر کہا۔
’’ اچھی بات ہے۔ آج ہم ترکیب سوچیں گے اور تم سنو گی۔‘‘ فاروق نے جل بھن کر کہا۔
’’ خوشی ہو گی۔‘‘ فرزانہ مسکرائی۔
’’آؤ۔۔۔ ابھی سب کے سامنے ترکیب بیان کرتے ہیں۔‘‘ محمود نے جلدی سے کہا۔
وہ اس کمرے میں آئے جس میں سب جمع تھے۔۔ انسپکٹر جمشید ان کی طرف دیکھ کر بولے ’’معلوم ہوتا ہے کوئی خاص بات معلوم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہو۔‘‘
’’ جی آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں ۔۔ ہم نہیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔’’ یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’پتا نہیں۔۔ وہ خاص بات ہے یا نہیں۔ ویسے ہم مجرم کو اب بہت آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی خطرناک قدم اٹھائے ،کسی کی زندگی سے کھیلے، ہمیں اسے پکڑ لینا چاہیے۔ ‘‘
’’ہم سب یہی تو چاہتے ہیں۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ تو پھر آ پ لوگوں کو ہماری ترکیب پر عمل کرنا ہو گا۔‘‘
’’ترکیب ،کیسی ترکیب؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’ہمارا مجرم زخمی ہے۔۔ لیکن زخمی اس کے جسم کا کوئی ایسا حصہ ہے جو کپڑوں کے نیچے ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زخمی کون ہے۔‘‘
’’ایک منٹ ایک منٹ۔‘‘ طاؤس خان نے گھبرا کر کہا۔
’’ جی فرمائیے۔۔ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ ہاں ! یہ بات آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ مجرم زخمی ہے؟ اور یہ کہ کوئی ایسا شخص جو مجرم نہیں زخمی ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ تینوں چکرا کر رہ گئے ۔انہیں گھبراہٹ میں دیکھ کر انسپکٹر جمشید مسکرا دیے۔
’’ان تینوں نے اگر یہ بات کہی ہے تو اس کی معقول وجہ بھی ہو گی۔ اب رہی یہ بات کہ زخمی کوئی اور شخص بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں زخمی ایک سے زیادہ آدمی ہوں گے۔ ہم دونوں یا تینوں زخمیوں کو الگ کر سکتے ہیں۔ اس طرح باقی لوگ شک کی زد سے نکل جائیں گے۔ اور تفتیش صرف ان تک رہ جائے گی۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک۔‘‘ خان رحمان نے پر جوش انداز میں کہا۔
’’ تو پھر اب آپ لوگ اعلان کریں، آپ میں سے کون کون زخمی ہیں ۔اگر اعلان نہیں کریں گے تو ہم ڈاکٹر صاحب کے ذریعے چیک کروائیں گے ۔پھر نہ کہیے گا ہماری بے عزتی ہو گئی۔ یہ مسئلہ ہے زندگی اور موت کا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ خان بدیع بولے۔
’’ میں۔۔ میں زخمی ہوں۔‘‘ طاؤس جان نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’ شکریہ، زخم آپ کے جسم پر کہاں ہے ؟ دائیں ران پر، ران کے اوپر کی طرف یا نیچے کی طرف ؟ ‘‘انسپکٹر جمشید نے کچھ سوچ کر پوچھا۔
محمود ، فاروق اور فرزانہ نے حیران ہو کر ان کی طرف دیکھا ، کیونکہ انہوں نے ابھی منڈیر پر خون لگا ہونے کے بارے میں کسی شخص کو کچھ نہیں بتا یا تھا۔ اور یہ سوال وہی شخص کر سکتا تھا جسے یہ بات معلوم ہو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے والد نے اندازہ لگا لیا تھا اور اندازے لگانے کے وہ یوں بھی ماہر تھے۔
’’ اوپر کی طرف۔‘‘
’’ کسی اور کے جسم پر زخم ہے ؟ ڈاکٹر صاحب! آپ ذرا خان صاحب کے دوستوں کے جسموں کو الگ کمرے میں جا کر چیک کر لیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید بولے۔
’’اچھی بات ہے۔‘‘ انہوں نے کہا۔
انسپکٹر جمشید نے یہاں پہنچنے کے بعد ڈاکٹر کو فون کر دیا تھا کیونکہ قاتل کا وار ہونے کی صورت میں ڈاکٹر کی فوری ضرورت پڑ سکتی تھی، اور ڈاکٹر کا انتظار جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب خان بدیع کے دوستوں کو لے کر جانے لگے تو انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔’’ آپ نہیں جائیں گے۔۔ خان صاحب۔‘‘
’’ جی۔۔ کیا مطلب۔ کیا میں بھی خود کو چیک کراؤں؟‘‘
’’ جی ہاں۔ کیوں نہیں، اس کیس کے مجرم آپ بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’ میں کوئی غلط بات نہیں کہہ رہا۔ یہ ہمارا اصول ہے۔ کیس سے متعلق ہر آدمی پر شک کرتے ہیں۔‘‘
’’ یہ اچھا اصول ہے۔ میں تو ان سب کا میزبان ہوں میں بھلا انہیں گھر بلا کر ہلاک کروں گا؟‘‘
’’ جی ہاں اس کا بالکل امکان ہے۔۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے نرم آواز میں کہا۔
’’ آپ عجیب ہیں ،بہت عجیب ۔‘‘وہ بولے ۔
’’میں صرف عجیب نہیں، غریب بھی ہوں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
’’ اچھی بات ہے۔ اگر آپ کا اطمینان اسی طرح ہو سکتا ہے تو میں بھی خود کو چیک کرا لیتا ہوں۔‘‘
’’انہوں نے منہ بنا کر کہا اور اس کمرے میں چلے گئے جس میں ڈاکٹر صاحب باقی لوگوں کو لے گئے تھے۔۔ اب وہ تینوں ، انسپکٹر جمشید ، پروفیسر داؤد ، خان رحمان اور انسپکٹر خادم حسین رہ گئے۔
’’ آپ براہ راست کمشنر صاحب کے ماتحت ہیں ؟‘‘ انسپکٹر جمشید نے ان سے پوچھا ۔
’’جی ہاں! یہی بات ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ آپ اب تک کس نتیجے پر پہنچے ہیں ؟ ‘‘
’’اس پر کہ کسی نے ان کے ساتھ مذاق کیا ہے، لیکن مذاق کرنے کے لیے اس قدر لمبا چوڑا منصوبہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘
’’ اس سلسلے میں بھلا ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ ضرورت تھی یا نہیں۔ یہ تو مجرم ہی بتا سکے گا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ہی ڈاکٹر صاحب باقی لوگوں کے ساتھ اس کمرے سے نکلے۔ ان کے چہرے پر انہیں مایوسی ہی مایوسی نظر آئی۔
’’ ان میں سے صرف طاؤس جان کی ران پر ہی زخم ہے ۔باقیوں میں سے کسی کے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔‘‘ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا ۔پھر ان کی نظریں طاؤس جان پر اٹک گئیں۔
عمارت کا مجرم
’’آپ لوگ مجھے اس طرح کیوں گھور رہے ہیں۔‘‘
’’ آپ کو اپنے زخم کے بارے میں وضاحت کرنا ہو گی۔‘‘ انسپکٹر جمشید بولے۔
’’ لیکن زخم کا چکر کہاں سے ٹپک پڑا۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ محمود وضاحت کر دو۔‘‘
’’ اوپر منڈیر پر شیشے کے ٹکڑے لگائے گئے ہیں۔ زینے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ مجرم کو پوسٹر لگانے کے لیے اندر آنا تھا۔ وہ درخت کے ذریعے چھت پر پہنچا اور درخت کی شاخ سے رسی باندھ کر صحن میں اترا ایسا کرتے وقت اس کے جسم کے کسی حصہ میں شیشے کا ایک ٹکڑا چبھ گیا۔ اوپر منڈیر پر خون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
’’ اوہ۔۔۔ اوہ‘‘ خان صاحب بولے پھر انہوں نے بھی نظریں طاؤس جان پر جما دیں۔
’’میری ران پر یہ زخم چند روز پہلے آیا تھا۔۔ میں نے اس پر اپنے فیملی ڈاکٹر سے پٹی کرائی تھی۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔‘‘
’’ پوچھنے کی ضرورت بعد میں پیش آئے گی پہلے تو آپ یہ بتائیں۔۔ زخم کس طرح آیا تھا؟‘‘
’’سڑک پر دو آدمی لڑ پڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے۔ انہیں چھڑانے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ میں نے سوچا اگر انہیں نہ روکا گیا تو کہیں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارا نہ جائے ۔لہذا میں ان کے درمیان کود پڑا اور اس طرح ان میں سے ایک کا خنجر میری ران میں لگ گیا۔ جونہی خنجر میری ران میں لگا ان دونوں کو جیسے ہوش آ گیا۔ وہ اپنی لڑائی بھول گئے اور مجھے سنبھالنے میں لگ گئے۔ اب اگر میں ہسپتال جاتا تو پولیس کے چکر میں الجھنا پڑتا۔ لہذا میں نے اپنے ڈاکٹر سے اس پر پٹی کرائی۔اور وہ دونوں مجھے سنبھلتے دیکھ کر رفو چکر ہو گئے۔کیونکہ کسی بھی وقت وہاں پولیس پہنچنے والی تھی۔ جس جگہ وہ لڑ رہے تھے وہاں ایک پبلک فون بوتھ بھی تھا۔ اس سے کسی نے پولیس کو فون کر دیا تھا۔‘‘
’’ ہوں ٹھیک ہے۔ آپ کے پاس اس واقعے کا کوئی گواہ ہے۔‘‘
’’ اس وقت میں اپنی کار میں وہاں سے گزر رہا تھا۔ کار خود چلا رہا تھا۔ لڑائی دیکھنے والوں نے مجھے چھڑاتے بھی ضرور دیکھا ہو گا۔‘‘
’’ تب تو کام آسان ہو گیا۔‘‘ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
’’ جی وہ کیسے۔‘‘اس نے چونک کر کہا۔
’’ یہ لڑائی کہاں ہوئی تھی؟‘‘
’’ڈوگر چوک میں۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’ آئیے میرے ساتھ۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے اٹھتے ہوئے کہا۔ پھر وہ ان تینوں سے بولے۔
’’ تم یہیں ٹھہرو گے۔ کہیں مجرم ہماری عدم موجودگی میں وار نہ کر جائے۔ خان رحمان اور پروفیسر داؤد تم بھی یہیں ٹھہرو۔‘‘
’’ اوکے سر۔‘‘ وہ مسکرائے۔
وہ طاؤس جان کے ساتھ اسی وقت ڈوگر چوک پہنچے۔ ایک دکان دار سے انہوں نے پوچھا۔’’ چند روز پہلے یہاں دو آدمی لڑ پڑے تھے۔ وہ خنجروں سے لڑ رہے تھے۔ آپ کو کچھ یاد ہے؟‘‘
’’ہاں جناب یہ بھی کوئی بھولنے کی بات ہے۔ شکریہ پھر کیا ہوا تھا۔ ‘‘
’’کوئی ان کے درمیان بیچ بچاؤ کرانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ پھر ایک کار والا رکا اور اس نے ان دونوں کے درمیان پڑ کر انہیں چھڑایا لیکن وہ خود زخمی ہو گیا تھا۔‘‘
’’ اور ذرا انہیں دیکھیے !جن صاحب نے چھڑوایا تھا۔ وہ یہی تو نہیں تھے؟‘‘
اس نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور پھر چلا اٹھا’’ بالکل جناب ،وہ یہی تھے۔‘‘
’’ شکریہ۔۔۔ آئیے جناب چلیں۔‘‘
دکان دار حیرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ شاید اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ انہوں نے یہ بات اس سے کیوں پوچھی، جب کہ بیچ بچاؤ کرانے والا خود ان کے ساتھ تھا۔ کار میں بیٹھتے ہوئے انسپکٹر جمشید بولے’’ اس میں شک نہیں کہ آپ کی بات کی تصدیق ہو گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس عمارت کے مجرم نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک زخمی آدمی تو دوبارہ بھی زخمی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ پھر یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ طاؤس جان نے جل کر کہا۔
’’ اگر آپ کے بیان کی تصدیق نہ ہو سکتی تو آپ کو اسی وقت گرفتار کر لیا جاتا۔‘‘
’’ آپ تو مجھے مجرم بنانے پر تل گئے ہیں شاید۔‘‘
’’ ایسی بات نہیں ،میں عمارت میں موجود ہر شخص کو مجرم بنانے پر تلا ہوا ہوں۔‘‘ وہ مسکرائے۔
عمارت میں پہنچ کر انہوں نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا’’ ان کی بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔ یہ اس چوک میں زخمی ہوئے تھے۔‘‘
’’ چلیے ایک پر سے تو آپ کا شک ختم ہوا۔‘‘
’’ شک ابھی رفع نہیں ہوا۔ بہر حال بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کے جسم پر زخم ہے نہیں۔ اب یا تو مجرم طاؤس جان ہیں یا پھر کوئی باہر کا آدمی ،لیکن باہر کے آدمی والی بات بھی حلق سے نہیں اترتی۔‘‘
’’ حلق سے کیوں نہیں اترتی بھلا، کیا آپ کے خیال میں باہر کا کوئی آدمی مجرم نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’ ہو تو سکتا ہے لیکن پھر آپ کو ضرور معلوم ہوتا کہ وہ کون ہے اور کیوں ایسا کرنا چاہتا ہے جب کہ آپ لوگوں کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔‘‘
’’ لیکن عمارت میں موجود اگر کوئی مہمان مجرم ہے یا میزبان مجرم ہے تو بھی باقی لوگوں کو کیا پتا کہ وہ کیوں ایسا کرنا چاہتا ہے۔
’’ اس لیے کہ آپ سب لوگ یہ بات بار بار سوچ چکے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھلا کیوں باقی سب کو ہلاک کرے گا ،لیکن آپ یہ بات اب تک نہیں سمجھ پائے کہ میں غلط تو نہیں کہہ رہا۔‘‘
’’ نہیں آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’ اب لے دے کے ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے۔‘‘
’’اور وہ کیا۔‘‘
’’ چاروں ملازمین کو بھی چیک کر لیا جائے۔‘‘
’’ کیا مطلب ملازمین کو؟ بھلا کسی ملازم کو کیا پڑی ہے ایسا خطرناک کام کرنے کی ؟‘‘
’’یہ تو ہم بعد میں سوچیں گے، اگر کوئی ان میں سے زخمی ہوا تو۔‘
’’ جیسے آپ کی مرضی ۔‘‘
’’کیوں بھئی تم میں سے تو کوئی زخمی نہیں ہے۔‘‘
’’ نن۔۔۔ نہیں مالی نے گھبرا کر کہا۔‘‘
’’ اور تم میں سے ؟‘‘
’’ نہیں میں تو زخمی نہیں ہوں۔‘‘ وہ ایک ساتھ بولے۔
’’ ڈاکٹر صاحب آپ کو ایک بار پھر زحمت کرنی پڑے گی۔‘‘
’’ اچھی بات ہے ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب ان کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ جلد ہی ان کی واپسی ہوئی۔
’’ یہ بالکل ٹھیک ہیں۔ جسم پر کوئی خراش تک نہیں ہے۔‘‘
’’ شکریہ تب پھر اب میں رہ گیا ہوں اور یہ تینوں بھی اور میرے دونوں دوست بھی ۔بہتر ہو گا کہ آپ ہمیں بھی چیک کر لیں۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھلا آپ لوگ ایسا کام کیوں کرنے لگے۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ میرا خیال ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ ڈاکٹر صاحب آپ باری باری ہمیں بھی چیک کر لیں۔‘‘
’’ میرے خیال میں اس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بولے۔
’’ اس کی ضرورت ہے۔ آپ باری باری ہمیں بھی دیکھ ہی لیں تاکہ بات صاف ہو جائے۔‘‘
’’ جیسے آپ کا حکم۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کندھے اچکائے۔
’’ انہوں نے باری باری ان سب کو بھی دیکھا اور بولے’’ نہیں آپ میں سے کوئی زخمی نہیں ہے۔‘‘
’’ چلیے اتنا تو ہوا میرے خیال ہے اب سب کو چیک کیا جا چکا ہے۔‘‘
’’ نہیں جناب۔ میں ابھی رہتا ہوں۔ آپ مجھے بھول گئے۔‘‘ انسپکٹر خادم حسین نے ہنس کر کہا۔
’’ لیکن آپ کو تو یہاں بعد میں اس مجرم کو پکڑے کے لیے بلایا گیا تھا۔ آپ کا بھلا اس معاملے سے کیا تعلق۔‘‘
’’ تعلق تو آپ کا بھی نہیں تھا۔ پھر آپ نے خود کو کیوں چیک کرایا۔‘‘
’’ اچھی بات ہے ڈاکٹر صاحب آخری بار اور زحمت کریں ۔‘‘
انہوں نے کہا’’ ضرور کیوں نہیں۔‘‘ اور پھر وہ انسپکٹر خادم حسین کے ساتھ اس کمرے میں چلے گئے۔ دو منٹ بعد ان کی واپسی ہوئی۔ انہوں نے کہا’’ نہیں ان کے جسم پر بھی کوئی زخم نہیں ہے۔‘‘
’’ تب پھر۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
’’ تب پھر کیا ؟‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’ تب پھر اب صرف اور صرف ایک شخص ایسا رہتا ہے جسے چیک نہیں کیا جا سکا۔‘‘
’’ جی کیا کہا آپ نے ،بھلا وہ کون ہے ؟‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ وہ ہیں ڈاکٹر صاحب خود۔‘‘
’’ یہ۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میرا بھلا اس معاملے سے کیا تعلق؟ مجھے تو ابھی ابھی بلایا گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے گھبرا کر کہا۔
’’ حد ہو گئی بھئی۔‘‘ راج دیو نے کہا۔
’’ ڈاکٹر صاحب آپ کو خود کو بھی چیک کرانا ہو گا اور آپ کو چیک کروں گا میں۔ کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
’’ بھلا اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ۔‘‘کئی آوازیں ابھریں۔
’’ میں اپنی یہ ذلت ہمیشہ یاد رکھوں گا انسپکٹر جمشید ۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے بھنا کر کہا۔
’’ضرور یاد رکھیے گا، آئیے! میرے ساتھ ۔‘‘انہوں نے مسکرا کر کہا اور ڈاکٹر صاحب کو بازو سے پکڑ کر اس کمرے میں لے گئے ۔اب باہر موجود سب لوگ بہت بے قراری کے عالم میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں تین منٹ انتظار کرنا پڑا۔ آخر دونوں باہر آ گئے۔ انسپکٹر جمشید کافی فکر مند لگ رہے تھے۔
’’ کیا رہا؟ آپ نے تو بہت دیر لگا دی۔‘‘
’’ ہاں ذرا دیر لگ گئی میں اپنا اطمینان پوری طرح کرنا چاہتا تھا۔‘‘
’’ پھر ہو گیا آپ کا اطمینان ؟‘‘خان بدیع نے برا سا منہ بنایا۔
’’ جی ہاں ہو گیا۔‘‘
’’ گویا ڈاکٹر صاحب کے جسم پر بھی کوئی زخم نہیں ہے ۔‘‘خان بدیع بولے۔
’’ جی ہاں نہیں ہے زخم ۔‘‘وہ بولے۔
’’ بس تو پھر ثابت ہو گیا کہ گھر میں موجود کوئی فرد مجرم نہیں ہو سکتا ۔باہر کا کوئی آدمی ہی مجرم ہے۔ اب آپ اپنی تفتیش اس عمارت سے باہر لے جائیں۔‘‘
’’اس میں شک نہیں کہ کسی کے جسم پر زخم ثابت نہیں ہو سکا سوائے طاؤس خان کے اور یہ اپنی بے گناہی ثابت کر چکے ہیں ۔پھر بھی۔۔ ‘‘وہ کہتے کہتے رک گئے۔
’’پھر بھی کیا ؟‘‘
’’پھر بھی۔۔ یا تو طاؤس جان مجرم ہیں یا کوئی اور لیکن ہیں عمارت میں ہی موجود ۔مجرم باہر کا کوئی آدمی ہرگز نہیں ہے ۔‘‘
’’یہ۔۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں ؟‘‘ خان بدیع نے حیرت زدہ انداز میں کہا۔
عین اس وقت وہاں ایک دھماکا ہوا۔
کیسی آگ
کمرہ دھوئیں سے بھر گیا۔ اس قدر گہرے دھوئیں سے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اور پھر وہ بے ہوش ہوتے چلے گئے۔ ہوش آیا تو سب کے سب بندھے ہوتے تھے البتہ مجرم ان کے سامنے کھڑ ا مسکرا رہا تھا اور وہ اسے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔
’’انسپکٹر خادم حسین! یہ کیا پاگل پن ہے ۔کیا دھوئیں کا بم آپ نے مارا ہے۔؟ ‘‘
’’یہ کام اور کوئی کر بھی کس طرح سکتا ہے۔‘‘
انسپکٹر جمشید اسے گھور کر رہ گئے۔ وہ بھی بندھے ہوئے تھے۔
خادم حسین پھر بولا’’ انسپکٹر جمشید اور یہ تینوں چالاک ترین بچے اگر یہاں نہ آ جاتے تو میں اپنا کام بخوبی کر گیا تھا لیکن ان لوگوں نے آ خر کار میرا کام خراب کر دیا۔‘‘
’’لیکن کیسے؟ ان لوگوں نے تو تم پر کوئی الزام نہیں لگایا تھا پھر تم نے دھوئیں کا بم کیوں استعمال کیا؟‘‘
’’ اس لیے کہ انسپکٹر جمشید بھانپ گئے تھے اور پھر میرے پاس وقت بالکل نہ بچتا کچھ کر گزرنے کے لیے ۔‘‘خادم حسین نے کہا ۔
’’کیا کہا انسپکٹر جمشید سمجھ گئے تھے؟ کیا سمجھ گئے تھے ؟‘‘
’’ جب یہ ڈاکٹر کو لے کر اندر گئے تو واپسی پر بہت فکر مند تھے۔ خاص طور پر انہوں نے مجھ پر نظر رکھی۔ میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر نے میرا راز راز نہیں رکھا۔‘‘
’’ راز راز نہیں رکھا، انسپکٹر خادم حسین یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’ میں بتاتا ہوں ۔ان حضرت کی ران زخمی ہے ۔ہم نے اور تو سب کو چیک کرا لیا تھا لیکن انہیں چیک نہیں کرایا جا سکا تھا۔ آخر اپنے ہی کہنے پریہ بھی ڈاکٹر کے ساتھ اندر چلے گئے۔ واپسی پر میں نے ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں خوف دیکھا۔ یہ بات محسوس کر کے میں نے ڈاکٹر صاحب کو چیک کرنے کا اعلان کیا۔ انہیں اندر لے جا کر میں نے دبی آواز میں ان کے خوف زدہ ہونے کی بات پوچھی۔ پہلے تو یہ کچھ بتانے ہی کے لیے تیار نہ ہوئے لیکن پھر یہ بات بتا دی کہ انسپکٹر خادم حسین زخمی ہے اور اس نے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگر یہ بات باہر نکل کر بتائی تو یہ اسے گولی مار دے گا۔ لہٰذا باہر نکل کر انہوں نے کچھ نہ بتایا صرف یہ کہا کہ ان کے جسم پر بھی زخم نہیں ہے ۔لیکن میں نے ان کا جھوٹ صاف محسوس کر لیا تھا۔ اسی لیے میں پھر انہیں لے کر اندر گیا۔ اور تمام بات معلوم کر لی۔ ادھر انسپکٹر خادم نے بھی بھانپ لیا کہ میں اس کے بارے میں جان چکا ہوں۔‘‘
’’ اف مالک تو یہ ہیں وہ صاحب جو ہم میں سے چھ کو ہلاک کرنا چاہتے تھے لیکن آخر کیوں ہم نے ان کا کیا بگاڑا ہے ؟‘‘
’’یہ تو یہی بتائیں گے۔ ہم تو سب بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ فاروق نے بے چارگی کے عالم میں کہا۔
’’ فاروق ٹھیک کہہ رہا ہے مجرم خود بتائے گا کہ وہ ایسا کیوں چاہتا تھا۔‘‘
’’ ضرور بتاؤں گا۔ تم سب کو موت کے گھاٹ اتارنے سے پہلے اس الجھن سے سب کو نجات دلوا دوں گا تاکہ تم لوگ سکون سے مر سکو۔ انسپکٹر جمشید اور ان کے ساتھی تو بلاوجہ درمیان میں آ کودے اور اس کی سزا نہیں یہ مل رہی ہے کہ باقی لوگوں کے ساتھ انہیں بھی مرنا پڑے گا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں یہ ہمارا روز کا کام ہے۔‘‘
’’ کون سا روز کا کام ہے؟‘‘
’’ یہی مرنا اور کیا ‘‘فاروق مسکرایا۔
’’یار چپ رہو۔ دماغ نہ چاٹو۔ہمارا روز کا کام اگر مرنا ہے تو ہم زندہ کس طرح ہیں۔‘‘ محمود نے بھنا کر کہا۔
’’ اللہ کی مہربانی سے۔‘‘
’’اچھا خاموش رہو۔ خادم حسین کو بات پوری کرنے دو ۔‘‘انسپکٹر جمشید نے ڈانٹا اور وہ سہم گئے۔
’’ ہاں مسٹر مجرم کچھ بتانا پسند کریں گے یا نہیں؟‘‘ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
’’ ضرور بتاؤں گا۔ تم سننے کا حوصلہ رکھتے ہو۔ خان بدیع اپنے باپ کی ساری دولت پر قبضہ کر کے بیٹھا ہے اپنے بھائی کے بچوں کو بالکل محروم کر دیا تھاانہوں نے ۔ان کے بھائی کے بچے بہت چھوٹے تھےکہ ان کا چھوٹا بھائی ایک حادثے میں مارا گیا۔ انہوں نے ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ نہ رکھاحالانکہ وہ نصف دولت کے مالک تھے۔ بچوں کی ماں کو دھمکی دی کہ وہ انہیں لے کر کہیں دور چلی جائے ورنہ مروا دیے جائیں گے ۔وہ مصیبت کی ماری اپنے بچوں کو لے کر بہت دور چلی گئی اور وہیں اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کیا۔ دوسرے گھروں میں کام کر کر کے اس نے انہیں پالا۔ میں بڑا ہوا تو یہ ساری کہانی اپنے سینے میں لے کر انتقام کی آگ لے کر اس سالانہ پروگرام کا مجھے علم تھا۔ لہذا میں نے اس پروگرام کے دوران انہیں ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ پھر سوچا قتل اس طرح کروں کہ کوئی میرے بارے میں سوچ بھی نہ سکے ۔لہٰذا پوسٹر لگایا تاکہ سب یہ خیال کریں کہ یہ تو ان کے آپس کا کوئی معاملہ ہے ۔میں صرف خان بدیع کو مارتا اور اس کے بعد الگ ہو جاتا یہ لوگ خوف زدہ تو ہو ہی گئے تھے۔ خیال کرتے کہ باقی لوگوں کو بھی قاتل نہیں چھوڑے گا۔ لہٰذا یہاں سے فوراً نکل جاتے ۔پولیس انہی میں سے قاتل کو تلاش کرتی رہتی اور تھک ہار کر کیس فائل ہو جاتا اور میرا انتقام پورا ہو جاتا۔ لیکن انسپکٹر جمشید اور ان کے بچوں کی آمد نے میرا کھیل خراب کر دیا۔‘‘ وہ کہتا چلا گیا۔
’’ خراب نہیں کر دیا۔ اچھا کر دیا۔ تم قتل جیسے بڑے جرم سے بچ گئے۔ اب تو بہت معمولی سزا ہو گی۔ اپنا حق حاصل کرنے کا تم نے کوئی اچھا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ خان بدیع کو مار کر کیا تم اپنے حصے کی دولت حاصل کر لیتے؟‘‘
’’ نہیں میں معلومات حاصل کر چکا ہوں۔ خان صاحب نے اپنے وکیلوں کے ذریعے اپنا کام بہت پکا کر رکھا ہے۔ ہم عدالت کے ذریعے اپنا حق نہیں لے سکتے تھے اور انتقام کی آگ چین نہیں لینے دے رہی تھی۔۔ ان حالات میں میں آ خر کیا کرتا ؟‘‘
’’آپ کو آپ کی والدہ نے بھی نہیں روکا؟‘‘
’’وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ورنہ ضرور روکتیں۔لیکن اب کیا فائدہ۔ میری ماں تو ایڑیاں رگڑ کر مر گئی۔‘‘
’’انسپکٹر صاحب۔ صبر سے کام لیں اس وقت اس سے بہتر صورت حال کوئی نہیں ہو سکتی۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے خشک لہجے میں کہا۔
’’ افسوس انتقام کی آگ اس طرح نہیں بھجے گی اور میں تمام زندگی اس آگ میں جلتا رہوں گا۔‘‘ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے جیب سے خنجر نکال لیا۔
’’نن۔۔ نہیں۔ نہیں انسپکٹر جمشید یہ آپ کی موجودگی میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
’’آپ دیکھ رہے ہیں ہم بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ تو خیر ہے۔‘‘
’’آپ خود سوچیں ہم کیا کریں۔‘‘
’’کچھ نہ کچھ تو آپ کو کرنا ہی ہو گا ورنہ میں تو مارا جاؤں گا بے موت۔‘‘
’’بے موت تو خیر کوئی بھی نہیں مرتا۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
’’آپ مسکرا رہے ہیں اور وہ خنجر لیے میری طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘
’’ اور میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ٹھہریں میں ایک بار پھر اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اس کی طرف مڑتے ہوئے بولے۔’’یار انسپکٹر خادم حسین میری بات مان جاؤ سکھی رہو گے۔‘‘
’’بھاڑ میں گیا سکھ۔‘‘ اس نے جھلا کر کہا۔
’’ اگر تم باز نہ آئے تو مجھے حرکت میں آنا پڑے گا۔‘‘ انسپکٹر جمشید نے جھلا کر کہا۔
’’ آپ کس طرح حرکت میں آ سکتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ پیر تو بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خان بدیع کی طرف بڑھا۔
’’ آخری وارننگ۔ پھر میں کوئی لحاظ نہیں کروں گا۔‘‘ انسپکٹر جمشید گرجے۔
’’آپ کیا کر لیں گے۔ آپ کر کیا سکتے ہیں۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔
’’محمود ذرا اسے دکھا دو ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘ محمود فوراً اٹھ کھڑا ہو گیا۔
’’یہ۔ یہ۔ یہ کیا۔ اس نے ہاتھ پیر کس طرح کھول لیے۔‘‘
’’جس طرح میں نے کھول لیے۔‘‘ یہ کہہ کر فاروق بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ارے ‘‘خان بدیع کے منہ سے نکلا۔
’’بلکہ جس طرح میں نے کھول لیے۔ ‘‘فرزانہ نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔
’’اف میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں۔ آپ لوگ جادوگر تو نہیں ہیں۔‘‘ ڈابر شاہ نے حیرت زدہ انداز میں کہا۔
’’جی نہیں جادو حرام ہے۔‘‘ انسپکٹر جمشید بولے ۔
’’پھر آخر کس طرح ممکن ہے؟‘‘
’’ہم ایسے کاموں کے عادی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان چاروں کے ہاتھوں اور پیروں پر بندھی رسیاں اب فرش پر پڑی نظر آئیں۔
’’اب آپ کا کیا پروگرام ہے؟‘‘ محمود نے انسپکٹر کی طرف دیکھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا دم بخود کھڑا تھا۔ کچھ نہ کہہ سکا۔
’’ اگر آپ خان صاحب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی صرف اور صرف ایک ترکیب ہے۔ ‘‘فاروق نے شوخ لہجے میں کہا۔
’’اور۔ اور وہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کہ پہلے آپ ہم لوگوں کو ختم کر دیں۔ ‘‘
’’نن۔ نہیں۔ آپ لوگوں کا جرم کیا ہے۔‘‘
’’بس تو پھر خنجر پھینک دیں۔ ہم آپ کو آپ کا حق دلوائیں گے۔‘‘
وہ سوچ میں ڈوبا رہا۔ پھر خنجر اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا۔ محمود نے فوراً خنجر اٹھا لیا۔
’’ انہیں گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘خان بدیع شرمندہ انداز میں بولے۔سب نے ان کی طرف دیکھا۔
’’مجرم میں ہوں ہتھکڑیاں مجھے لگائیں۔ میں نے واقعی اس کا حق غصب کیا تھا۔ آج اس مقام پر آ کر میری آنکھیں کھلی ہیں۔ مجھ سے بہت عظیم ظلم سرزد ہوا ہے۔ ہمیں بھی ان حالات میں زندگی گزارنا چاہیے۔ جن حالات میں بیس سال ان لوگوں نے گزارے ہیں۔اگر میں انہیں نصف دولت دے دیتا ہوں تو یہ انصاف نہیں ہو گا۔ ہرگز نہیں ہو گا۔ اور اس کے سوا میں کوئی دوسری بات سنوں گا بھی نہیں۔‘‘ خان بدیع نے جذباتی آواز میں کہا۔
’’ میرا ذہن بھی یہی کہتا ہے۔ یہی ہونا چاہیے۔ ‘‘جمشید بولے۔
’’بلکہ آپ پر کیس بھی چلنا چاہیے۔‘‘
’’ نہیں۔ کم از کم میں کیس چلانا پسند نہیں کروں گا۔ اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا۔ تمام ثبوت تو ان کے حق میں ہوں گے۔‘‘
’’اب وہ ثبوت میرے حق میں نہیں جائینگے۔ جب میں خود عدالت میں بیان دونگا کہ تمام ثبوت جعلی ہیں۔‘‘ خان بدیع نے کہا۔
’’ کچھ بھی ہو میں یہ معاملہ عدالت میں نہیں لے جاؤں گا۔ اگر انہوں نے جرم کیا ہے تو میں نے بھی تو قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی ہے لہذا یہ حساب تو ہو گیا برابر۔‘‘ خادم حسین نے کہا۔
’’اور دوسرا حساب میں برابر کر رہا ہوں میں اپنے بیوی بچوں کو لے کر ابھی اور اسی وقت یہاں سے کہیں دور جا رہا ہوں۔ ہم جاتے وقت بھی ساتھ کچھ نہیں لے جائیں گے اور میں یہ تحریر لکھ جاؤں گا کہ اب یہ دولت خادم کے گھرانے کی ہے۔‘‘
’’میں اب بھی تیار ہوں آپ مجھے میری نصف جائیداد دے دیں۔‘‘
’’نہیں۔ یہ نہیں ہو گا۔ نہیں ہو گا۔‘‘خان بدیع نے پر زور انداز میں کہا۔ پھر تیزی سے مڑے اور عمارت سے باہر نکل گئے۔ وہ انہیں جاتا ہوا دیکھتے رہے۔
’’اف مالک یہ کیا سے کیا ہو گا۔ بیٹھے بٹھائے کایا پلٹ گئی۔‘‘
’’اس کیس میں ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مسٹر خادم آپ کو کیسے معلوم تھا کہ پولیس کمشنر آپ کو ہی بھیجیں گے؟‘‘
’’ میں ساری کہانی انہیں پہلے ہی سنا چکا تھا۔ وہ میری امی کے دور کے رشتہ دار ہیں۔ اس کا مطلب ہے وہ بھی تمہارے جرم میں شریک تھے۔ ہ‘‘
’’اں وہ بھی انتقام میں میری مد د کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس لیے انہوں نے جان لیا تھا کہ اگر میں نے انتقام نہ لیا تو میں خود زندہ نہیں رہوں گا۔ ‘‘
’’خیر انہیں بھی معافی مل جائیگی۔ ویسے انہیں آپ کو اس قسم کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ذرا سوچیں آپ کی ساری زندگی جیل میں گزرتی۔‘‘
’’لیکن جیل کے باہر میں انتقام لیے بغیر بھی تو خود کو جیل میں ہی محسوس کرتا رہا ہوں۔ اور تن بدن میں ہر وقت آ گ لگی رہتی تھی۔‘‘
’’اچھا بابا اب چلیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’یہ کہانی اس رخ سے مکمل ہو گی۔ یہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔‘‘ محمود نے حیرت سے کہا۔ تو اب سوچ لو، منع کس نے کیا ہے؟‘‘فاروق نے شوخ انداز میں کہا۔ محمود اسے گھورنے لگا۔ باقی لوگ مسکرانے لگے۔
٭٭٭