skip to Main Content

آبِ حیات

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”ہاں بھئی ہو جائے مقابلہ!“ نسرین نے اعلان کیا تو نوید، شہزاد اورتزئین، سب نسرین کی طرف دیکھنے لگے۔ نوید نے مسکرا کر پوچھا:
”کیسا مقابلہ نسرین باجی؟“
”یہی کہ ہم میں سے ہر ایک کتنے گلاس پانی روزانہ پیتا ہے۔“
”پھر اس سے کیا ہوگا؟“ شہزاد نے کہا۔
”جو سب سے کم گلاس پانی پیتا ہے، وہی مقابلہ جیت جائے گا۔“نسرین نے بتایا۔
”میں تو دن بھر میں چھ گلاس سے زیادہ پانی نہیں پیتی۔“ تزئین نے کہا۔
”چھ گلاس؟ میں تو صرف چار گلاس پانی پیتا ہوں۔“ شہزاد نے فخر سے کہا۔
”میں بھی چھ سات گلاس پانی تو پی لیتا ہوں گرمی جو ہے۔“ نوید نے شرمندگی سے بتایا۔
”میں تو روزانہ صرف دو گلاس پانی پیتی ہوں۔“ نسرین نے فخر سے کہا۔اس وقت ڈاکٹر خورشید داخل ہوئے۔ انہوں نے ذرا ناراض لہجے میں پوچھا:
”یہ کون عقل مند ہے، جو روزانہ صرف دو گلاس پانی پیتا ہے؟“
”یہ عقل مند مجھ ناچیز کے سوا کون ہو سکتا ہے۔“ نسرین نے آداب بجا لاتے ہوئے جواب دیا۔ نوید شہزاد اور تزئین، تینوں، نسرین کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
”مجھے یقین تھا، وہ بے وقوف تمہارے سوا کوئی نہیں ہو سکتا؟“ڈاکٹر خورشید نے خفگی سے کہا۔؎
”جی؟“ نسرین کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور نوید، شہزاد اور تزئین مسکرانے لگے۔
”جی ہاں!“ ڈاکٹر خورشید بولے: ”پانی تو اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسمانی نظام ایسا بنایا ہے کہ پانی اس کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ اگر ہمیں کسی وجہ سے کھانے کو نہ ملے تو ہم اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک ہمارے جسم کی ساری چربی، شکر اور آدھی لحمیات یعنی پروٹین بالکل ختم نہ ہو جائیں، لیکن اگر جسم کا دس فیصد پانی کم ہو جائے تو یہ بات صحت کے لیے بے حد خطرناک ہے اور اگر جسم سے بیس فی صد پانی ضائع ہو جائے تو موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس لیے پانی ہمارے لیے ”آب حیات“کی حیثیت رکھتا ہے۔“
”خورشید بھائی، آپ تو ڈرا رہے ہیں۔“ نسرین نے گھبرا کر کہا۔
”میں کوئی بات بڑھا چڑھا کر نہیں بیان کر رہا۔“ڈاکٹر خورشید نے سنجیدگی سے کہا۔
”جسم میں پانی کی کمی سے بہت ساری بیماریاں ہو جاتی ہیں۔“
”کون سی بیماریاں خورشید بھائی؟“ نوید نے پوچھا۔
”سب سے خطر ناک بیماری لو لگنا ہے۔ یہ گرمی کے موسم میں ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ قبض کی بڑی وجہ کم پانی پینا ہے۔ پھر، پیشاب میں غلاظت، پتھریاں پیدا ہونا، گردوں کے امراض ہو جانا، سب پانی کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ متلی، بھوک نہ لگنا، مزاج برہم رہنا، تھکن، غنودگی، جسم میں درد، گھبراہٹ، در دسر، بد ہضمی، بیزاری جیسی شکایات، جسم میں پانی کی کمی کے سبب سے ہو سکتی ہیں۔“
”آپ تو بڑی خطرناک باتیں بتا رہے ہیں خورشید بھائی۔“ تزئین نے بوکھلا کر کہا۔
”خطر ناک ضرور ہیں لیکن اس عقل مند کے لیے جو دن بھر میں بہت کم پانی پیتا ہے، مثلاً صرف دو گلاس روزانہ۔“ ڈاکٹر خورشید اطمینان سے بولے اور نوید، شہزاد اور تزئین، تینوں نسرین کی طرف دیکھنے لگے جس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرخورشید نے شفقت بھرے لہجے میں کہا:
”بھئی اگر اب تک علم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی پانی کم پیتا رہا ہے تو ضروری نہیں کہ علم ہو جانے کے بعد بھی وہ ایسا ہی کرے گا۔“
تزئین نے پوچھا:
”خورشید بھائی، دن بھر میں کتنے گلاس پانی پینا ضروری ہے؟“
”عام طور پر دس سے بارہ گلاس پانی روزانہ پینا چاہیے، اگر موسم گرما ہے یا آپ کسی گرم مقام پر ہیں تو اس سے بھی زیادہ پانی پینا چاہیے۔ سردیوں کے موسم میں بھی روزانہ سات آٹھ گلاس پانی پی لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ دو سے ڈھائی گلاس پانی غذا سے حاصل ہونا چاہیے۔“ ڈاکٹر خورشید بولے۔
”غذا سے؟“سب بچے حیرت سے بولے۔
”ہاں!“ ڈاکٹر خورشید مسکرائے۔”اللہ تعالیٰ نے غذاؤں میں بہت پانی رکھا ہے۔ سبزیوں اور پھلوں میں پانی کی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ ٹماٹر، سلاد، خربوزہ، تربوز میں نوے فیصد پانی ہوتا ہے اور یہ صرف پانی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں طرح طرح کے حیاتین، نمکیات اور معدنیات ہوتی ہیں۔ سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس کے علاوہ ایک اچھی شے،لسّی، اس میں پانی کے علاوہ بہت غذائیت بھی ہوتی ہے۔“
”خورشید بھائی، ہمارے جسم میں پانی کا کام کیا ہے؟“
”کوئی ایک کام ہو تو بتاؤں!“ ڈاکٹر خورشید مُسکرا کر بولے۔ ”بے شمار اہم کام ہیں، جو پانی کی وجہ سے انجام دیے جاتے ہیں۔ پانی کے ذریعے سے غذا ہضم ہوتی ہے۔ جسم میں جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے، پانی ہی کے ذریعے سے غذا پہنچتی ہے، پانی ہی کی مدد سے غیر ضروری اور مضر اجزاء ہمارے جسم سے خارج ہوتے ہیں، ورنہ یہ مضر اجزاء ہمیں بیمار کر دیں۔ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا کرم ہے کہ اسی پانی میں حل ہو کر وہ آکسیجن ہمارے جسم کے ہر حصے تک پہنچتی ہے، جسے ہم سانس کے راستے، جسم میں داخل کرتے ہیں اور پھر اسی پانی میں گھل کر کاربن ڈائی آکسائڈ ہمارے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے جسے ہم سانس باہر خارج کرتے ہوئے اپنے جسم سے نکال دیتے ہیں۔“
”واقعی، پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔“ تزئین نے متاثر ہو کر کہا۔
”اور سنو!“ ڈاکٹر خورشید بولے:”پانی ہی کی وجہ سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت یکساں رہتا ہے۔ جب ہمارے جسم میں گرمی زیادہ ہو جاتی ہے تو ہمیں پسینہ آتا ہے اور غیر ضروری گرمی خارج ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں نے دیکھا، اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں کیسا خود کار نظام رکھ دیا ہے، ہمیں پتا بھی نہیں چلتا کہ اللہ کی مہربانی سے ہمارا جسمانی نظام ہمیں بے شمار مسائل سے خودہی بچاتا رہتا ہے۔“
”بے شک اللہ کی ذات بڑی کریم ہے۔“ شہزاد نے کہا۔
”آپ لوگوں کو شاید علم نہ ہو کہ ہمارے جسم میں وزن کے لحاظ سے دو حصے پانی ہے اور ایک حصہ ٹھوس اجزاء ہیں۔ ہمارا جسم بے شمار ننھے ننھے خلیوں سے بنا ہوا ہے۔ ہر خلیے میں پیچیدہ کیمیائی عمل ہوتے رہتے ہیں، ان کے ذریعے سے خلیوں میں آکسیجن، غذائی اجزاء اور دیگر ضروری اشیاء داخل ہوتی رہتی ہیں۔ ان سارے کیمیائی عملوں کے لیے پانی بہت ضروری ہے۔“
”آپ نے بہت کام کی باتیں بتا ئیں خورشید بھائی!“ نسرین نظریں جھکا کر بولی۔
”ایک دو باتیں اور سن لو۔“ ڈاکٹر خورشید گھڑی دیکھتے ہوئے بولے۔”بہتر ہے کہ پانی، کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے پی لیا جائے۔ کھانے کے دوران میں، پانی نہ پییں اور کھانے کے دو گھنٹے بعد خوب پانی پیا جائے۔ اس طرح کھانا بہتر طریقے سے ہضم ہو گا اور گیس وغیرہ کی شکایت نہ ہوگی۔“
”میں تو پانی پینے جا رہی ہوں، تم لوگوں میں سے کسی کو پانی پیتا ہے؟ واپسی پر لیتی آؤں گی۔“ نسرین نے اعلان کیا۔
”بالکل، سب پییں گے، سب کے لیے لے آؤ۔“ ڈاکٹر خورشید نے مسکرا کر کہا، پھر وہ بولے: ”پانی اللہ کی بہت عظیم نعمت اور زندہ رہنے کے لیے”آب حیات“ہے۔ یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سوال فرمائے گا۔“
نسرین پانی لینے کے لیے جا چکی تھی اور بقیہ تینوں بچے خورشید بھائی کاآخری جملہ سن کر سوچ میں پڑ گئے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top