غلام حسین موٹرمکینک
نورمحمد جمالی
۔۔۔۔۔
اس کتبے پر نظر پڑی تو لگا جیسے میں ایک گہری جھیل بن گیا ہوں جس کی تہہ میں پڑے ہوئے سنگریزے اور حیرت سے بھری ہوئی حنوط شدہ یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ میرے پورے وجود کے اندر اور دل ودماغ میں بھونچال سا مچا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ پھر کتبے پر نگاہ پڑی۔لکھا تھا:
’’غلام حسین موٹر مکینک ولد محمد حسین ،عمر بارہ سال، تاریخ وفات1980ء کول پور…‘‘
’’ناممکن!‘‘ میں بڑبڑایا حنوط شدہ یادوں میں آہستہ آہستہ جان پڑتی گئی۔
سردیوں کی یخ ٹھنڈی شامیں میرے لیے ہمیشہ یادوں کے زخم اور حیرتوں کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بن کر آتی ہیں جنہیں سر کرنا مشکل ہوتاہے۔ سرد ہوائیں جب چہرے پر پڑتیں تو آنکھوں کے کونے بے اختیار نم سے ہوجاتے اور جسم میں عجب کپکپی سی طاری ہوجاتی۔
اس کی وجہ ایک واقعہ ہے جو آج بھی میرے لئے کسی بہت بڑے معمے سے کم نہیں۔ یقینا آپ کیلئے بھی یہ حیرت ناک معمہ ہوگا…!
یہ 1988ء کا واقعہ ہے جب میں اپنی گاڑی میں کوئٹہ سے اوستہ محمد جارہا تھا۔ رات کالی تھی اور آسمان پر ننھے منے تارے شیشے سے اس پار مجھے جھانکتے محسوس ہورہے تھے جیسے وہ میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں۔
کار کے شیشے لاک تھے اور ہیٹر آن تھا اس لئے سردی کا احساس ہی نہیں ہورہا تھا۔ میں اندر سے سخت پریشان تھا۔ کیونکہ چند گھنٹے قبل ابو کا فون آیا تھا کہ میں فوراً اوستہ محمد آجاؤں کیونکہ میری امی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی ۔ دراصل میری امی کی طبیعت اس سے قبل بھی کئی مرتبہ خراب ہوچکی تھی، اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
میں چونکہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اس لئے وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے… کچھ عرصے قبل میں نے بلوچستان یونیورسٹی میںداخلہ لے لیا… فارمیسی میں میرا یہ دوسرا سال تھا کہ ابو کا ایک دن بلکہ رات کو فون آگیا تو میں وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔ ہاں تو میں شہر کی جانب رواں دواں تھا کہ اچانک گاڑی کو ہلکے ہلکے جھٹکے لگے اور وہ خودبخود بند ہوگئی۔ ’’یہ کیا ہوگیا؟‘‘ میں نے کہا اور گاڑی سے اتر کر میں نے بونٹ اٹھایا… اندر سے دھواں سا نکل رہا تھا ۔ کئی تاریں جل کر کالی ہوگئی تھیں… میں چند لمحے انہیں دیکھتا رہا… مگر مایوسی سے سرجھٹک دیا… میں نہیں سمجھ سکا کہ گاڑی کو کیا ہوگیا تھا…؟ سردی کا احساس بڑھتا جارہا تھا۔سڑک سنسان لگ رہی تھی اور میں اتنا اناڑی تھا کہ گاڑی کو ٹھیک ہی نہیں کرسکتا تھا… جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں نے مکا مار کر بونٹ گرادیا… اسی وقت پہاڑی کی طرف سے روشنی سی نمودار ہوئی وہ روشنی میرے لئے امید کی کرن تھی۔ میں خوش ہوگیا اور آنے والے کو دیکھنے لگا…!!
مگر اگلے لمحے ہی میری خوشی ماند پڑ گئی کیونکہ آنے والا گیارہ بارہ سال کا ایک گول مٹول سا بچہ تھا… اس نے سلام کیا تو میں نے سلام کا جواب دے کر گاڑی کو تاسف سے گھورا۔ سردی بڑھتی ہی جارہی تھی۔
’’کیا گاڑی خراب ہوگئی ہے؟‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ہاں بھئی… اسی لیے تو ویرانے میں کھڑا سردی برداشت کررہا ہوں…‘‘ میں نے ہاتھوں کو رگڑا۔
’’میں نے آپ کی جھلک دیکھی تو اس طرف چلا آیا۔ میں ابھی گاڑی کو چیک کرتا ہوں آپ ذرا یہ لالٹین پکڑیں…!‘‘
’’تم… کیا… تم کرسکتے ہو گاڑی کو ٹھیک…‘‘ میں چونکا۔
’’جی …اوپر پہاڑی پر ایک گیراج میں کام کرتا ہوں۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرایا، میں نے لالٹین پکڑی تو وہ بونٹ اٹھا کر گاڑی پر جھک گیا۔
’’ایک بات تو بتاؤ…؟‘‘ وقت گزاری کیلئے میں نے پوچھا۔
’’جی…‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’غلام…‘‘
’’کیا غلام… یہ کیا نام ہے؟‘‘
’’وہ جی پہلے غلام حسین تھا۔ مگر بگڑتے بگڑتے غلام اور غلامو بن گیا ہے۔‘‘ اس نے تار جوڑتے ہوئے کہا… اس کے ہاتھ بڑی مہارت کے ساتھ چل رہے تھے۔
’’تمہاری بارہ سال کے قریب تو عمر ہوگی نا… تم پھر پڑھتے کیوں نہیںہو…‘‘ میں نے پھر سوال جڑدیا۔
’’جی یہاں تو اسکول ہی نہیں ہے…‘‘ اس نے درد بھرے لہجے میںکہا۔
تھوڑی دیر بعد وہ فارغ ہوگیا… بونٹ گرا کر اس نے مجھے گاڑی اسٹارٹ کرنے کو کہا…میں نے چابی گھمائی تو گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔میں نے بے انتہا مسرت سے مغلوب ہوکر ایک بڑا سا نوٹ نکال کر غلام حسین کی سمت بڑھایا۔
’’یہ لو… تمہارا معاوضہ…‘‘
’’معاوضہ‘‘… اس کی رنگت متغیر ہوگئی… وہ ایک قدم پیچھے ہٹا… پھر آہستہ سے بولا… ’’مجھے اس کا معاوضہ ’’یہاں‘‘ نہیں ’’وہاں‘‘ چاہئے… ویسے بھی میں نے انسانی ہمدردی کے تحت یہ کام کیا ہے…‘‘ وہ عجیب سے انداز میں بولا۔ میں اس کے خلوص سے بے پناہ متاثر ہوا… اور صرف اتنا کہا ۔’’بہت شکریہ غلام حسین…‘‘
’’جی کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے لالٹین اٹھائی اور جانے کیلئے پلٹا… میں نے کہا۔’’غلام حسین‘‘ وہ پلٹا اور میری سمت سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔’’میری امی کی طبیعت خراب ہے تم اچھے بچے ہو دعا کرنا…؟‘‘
’’اللہ آپ کی امی کو صحت دے…‘‘یہ کہہ کر وہ آہستہ آہستہ اندھیرے میں گم ہوگیا۔
میں نے ٹھنڈی آہ بھری اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ اوستہ محمد تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ گیا۔ حیرت انگیز طور پر امی کی صحت اچھی ہوگئی۔ میرا وہاں بس ٹور ہی ہوگیا تھا…
ایک ہفتے بعد میں پھر واپسی کے سفر پر تھا۔ راستے میں ’’کول پور‘‘ کے اس مقام پر بے اختیار میں نے گاڑی روک دی…جہاں غلام حسین سے میں ملا تھا… وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی… میں نے پہاڑی پر چڑھنا شروع کردیا۔ پہاڑی پر چڑھنا کچھ دشوار نہ تھا… میں اوپر پہنچ گیا۔ وہاں چند ہی مکان تھے مگر ان گھروں سے پہلے ایک چھوٹی سی قبر بنی ہوئی تھی کتبہ پر نام پڑھ کر میں دنگ رہ گیا۔ اس لمحے… مجھے لگا جیسے میں ایک گہری جھیل بن گیا ہوں۔ دماغ میں بھونچال سا مچا ہوا تھا… کتبے پر لکھا تھا۔
’’غلام حسین موٹر مکینک ولد محمد حسین ،عمر بارہ سال ،تاریخ وفات1980ء کول پور…‘‘
’’حیرت انگیز…!!‘‘ میں بڑبڑایا ۔’’وہ آٹھ برس قبل ہی فوت ہوچکا تھا۔ مگر پھر اس رات…‘‘
میں اس معمے کو آج تک نہ سمجھ سکا۔
٭…٭