پہلا انعام
مقبول جہانگیر
۔۔۔۔۔
یہ اُس زمانے کا ذکر ہے جب ہم آپ کی دُعا سے ساتویں جماعت پاس کر کے آٹھویں میں پہنچے تھے ۔اسکول میں ہماری بڑی شہرت تھی، کھیلوں کا میدان ہو یا بزم ادب ہر جگہ ہمارا ڈنکا بڑے زور و شور سے بج رہا تھا۔ امتحانات میں ہم ہمیشہ فرسٹ آیا کرتے۔ تقریری مقابلے میں اسکول کی طرف سے ہمیں ہی بھیجا جاتا اور ہم اپنے مخالفین کو چاروں شانے چت گرا کر انعامی کپ لے آتے ،غرض کہ ایک دھوم مچا رکھی تھی ہم نے۔
چند روز بعد بزم ادب کی طرف سے اسکول میں ایک مشاعرے کا اعلان کیا گیا۔ یہ دراصل ایک قسم کا مقابلہ تھا یعنی جو طالب علم اس مشاعرے میں بہترین نظم سنائے گا، اُسے پچاس روپے انعام دیا جائے گا۔ بزم ادب کے عہدے داروں نے اس مقابلے کی تیاریاںخوب زور و شور سے شروع کر دیں۔ اسکول کا ہال دلہن کی طرح خوب سجایا گیا۔ لاؤڈ اسپیکر کا بھی انتظام ہوا اور مشاعرے کی صدارت کے لیے ملک کے ایک مشہور شاعر کو دعوت دی گئی ۔
مشاعرہ ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمیں بلوایا۔ ہم ان کے کمرے میں پہنچے تو سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب اور ہمارے کلاس انچارج بھی تشریف فرما تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی ہیڈ ماسٹر صاحب مسکرا کر بو لے۔’’ کیوں بیٹا!! تم نے مشاعرے کے لیے نظم لکھی یا نہیں؟‘‘
یہ سنتے ہی ہمارے پیروں تلے کی زمین سرک گئی ۔بھلا بتائیے، شاعری کبھی ہمارے باپ دادا نے بھی کی تھی جو ہم کرتے؟ ہمیں چپ دیکھ کر سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے فرمایا ۔’’ارے میاں !تمہارے لیے نظم لکھ لینا کونسا مشکل کام ہے۔ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگیںگے۔‘‘ حالانکہ مرزا غالب بھی پانچ منٹ میں غزل نہ کہہ سکتے ہوں گے جو اُستادوں کے اُستاد تھے ۔ہمارے لیے تو پانچ صدیاں بھی کم تھیں۔
ابھی کچھ جواب دینے نہ پائے تھے کہ ہمارے کلاس انچارج صاحب نے تو تمہارا دم ہی نکال دیا۔ ہیڈ صاحب سے کہنے لگے۔ ’’جناب! آپ مطمئن رہیے۔ ’’یہ ضرور مقابلے میں شریک ہوگا اور انعام بھی اسے ہی ملے گا …ماشاء اللہ! ایسا ذہین بچہ شہر بھر میں نہیں۔‘‘
’’بے شک۔ بے شک! ‘‘ہیڈ ماسٹر صاحب نے مسکرا کر فرمایا ۔’’بھئی!! اب اسکول کی لاج تمہارے ہاتھ ہے ۔دوسرے اسکولوں کو بھی اس مقابلے میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ بڑی شرمندگی کی بات ہوگی کہ تمہاری موجودگی میں کوئی دوسرا طالب علم انعام لے جائے ۔‘‘
سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب نے میز پر گھونسا مارتے ہوئے فرمایا ۔’’ ہم بھی دیکھیں گے کہ اس کے ہوتے ہوئے دوسرے اسکول کالڑکا انعام کیسے لے جا سکتاہے! …جاؤ بر خوردار! آج ہی سے محنت کرکے نظم لکھنی شروع کر دو۔‘‘
چھٹی ہوتے ہی کا نپتی ہوئی ٹانگوں اور دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ہم گھر پہنچے۔ جلدی جلدی کھانا کھایا اپنے کمرے میں گئے اور رضائی اوڑھ کر سوچنے لگے کہ اس مصیبت سے کس طرح چھٹکارا حاصل کریں؟ مقابلے کے لیے جو نظم لکھی جانی تھی اُس کا نام تھا’’ مکتب۔‘‘ ہمیں مکتب کے معنی تو معلوم تھے لیکن یہ پتا نہ تھا کہ نظم کس طرح کہتے ہیں، وزن کیا ہوتا ہے، قافیہ کیا چیز ہے اور ردیف کس بلا کا نام ہے؟ پنسل منہ میں دبائے سوچوں کے سمندر میں غوطے کھا ہی رہے تھے کہ ایک دھماکے سے دروازہ کھلا اور بھائی جان اپنی ہاکی گھماتے ہوئے کمرے میں نازل ہوئے۔
’’ہیں؟ کیا ہوا؟ صبح ہی صبح لحاف اوڑھے کیوں لیٹا ہے؟ ‘‘اُنھوں نے چلا کر پو چھا۔
ہمیں سخت طیش آیا لیکن غصے کو ضبط کر کے جواب دیا۔’’ اس وقت دوپہر کے دو بجے ہیں۔ آپ کو صبح نظر آ رہی ہے۔ میں اسکول کے مشاعر نے کے لیے نظر لکھ رہا ہوں ۔‘‘
’’ہا ہا ہا …ہا ہا ہا!‘‘! انھوں نے ایک چھت پھاڑ قہقہہ لگا کر ہمارا دماغ ہلا دیا۔ گویا آپ شاعری فرمارہے ہیں۔ آہا ہا ہا…! اب دماغ خراب ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘
ان نا معقول قہقہوں پر ہمیں واقعی غصہ آگیا اور ہم نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔’’جی ہاں، میرا دماغ تو خراب ہوا ہے، آپ کا دماغ بہت اعلیٰ ہے جبھی ہر سال ایف اے میں فیل ہوتے ہیں۔ یہ سن کر بھائی جان ایک دم کمرے سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ ہم پھر نظم کی طرف متوجہ ہوئے اور پندرہ بیس منٹ کی کوشش کے بعد دو اوٹ پٹانگ سے شعر لکھ ہی لیے کہ اتنے میں دوبارہ دروازہ کھلا اور والد صاحب غصے میں بھنائے ہوئے نمودار ہوئے۔ ہم گھبرا کر بیٹھ گئے اور نظم والا کاغذ چھپا لیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو اس وقت کمرے میں تم؟ ‘‘انھوں نے گھور کر ہم سے پوچھا۔ ’’آج کھیلنے نہیں گئے؟‘‘
’’جی نہیں…میں…وہ…دراصل ایک…‘‘ ہم نے ہکلا کر کہنا شروع کیا۔
’’ کیا بک رہے ہو؟ ابھی تمہارے بھائی نے مجھے بتایا ہے کہ تم شاعری کر رہے ہو؟ انتہائی نحس ہے یہ شاعری وائری خبردار، جو کبھی بھول کر بھی شاعری کی۔‘‘
’’جی ہاں…جی نہیں۔میں تو …وہ…در اصل اسکول میں ایک مشاعرہ ہو رہاہے …ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھ سے بھی نظم لکھنے کے لیے کہہ دیا ہے…پچا… پچاس روپے انعام …‘‘
’’بس چپ رہو۔ گدھے کہیں کے …کل چلوں گاتمہارے سا تھ میں اسکول اور پوچھوں گا تمہارے ماسٹر صاحب سے… لیجئے صاحب! ہم اپنے بچوں کووہاں پڑھائی کے لیے بھیجتے ہیں کہ شاعری اور مشاعرہ بازی کے لیے؟ ‘‘
ہم نے سہم کر کہا۔ ’’بہت اچھا۔ میں مشاعرے میں شریک نہیں ہوں گا۔ آپ تشریف نہ لے جائیں وہاں ورنہ وہ مجھ پر خفا ہوں گے۔‘‘
یہ سب شرارت بھائی جان کی تھی۔انہوں نے ہی ابا جان کو ہمارے خلاف بھڑکایا تھا۔ بھلا بتائیے اس حالت میں کیا خاک نظم لکھتے۔جھنجھلا کر دل میں سوچا۔’’ جہنم میں جائے یہ مشاعرہ…ہم کل ہیڈ ماسٹر صاحب کو صاف جواب دے دیں گے کہ ابا جان اس شاعری کے حق میں نہیں۔‘‘
دوسرے روز ہم اسکول پہنچے اور ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں جانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ وہ خود ہی ہماری کلاس میں آگئے اور آتے ہی کلاس میں اعلان کیا۔’’عزیز بچو! تمہیں یہ سن کر بے حد خوشی ہوگی کہ ہمارے اسکول کا ایک بہترین طالب علم جہانگیر بھی انعامی مشاعرے کے لیے نظم لکھ رہا ہے۔ہم اس کی کامیابی کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں۔‘‘
یہ سن کر لڑکوں نے خوشی سے تالیاں پیٹنی شروع کر دیں اور ہمیں پیشگی ہی مبارک بادیں دینے لگے۔ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ منہ سے کچھ بولیں کہ ہیڈماسٹر صاحب نے فوراً ہم سے پوچھا۔’’سنائو بیٹا! نظم لکھ لی؟‘‘
ہم نے اپنے دل میں کہا کہ اگر انکار کیا تو نہ صرف تمام دوستوں کے سامنے کرکری ہوگی بلکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا دل بھی ٹوٹ جائے گا۔چنانچہ ہم نے زبردستی مسکراتے ہوئے اور دل پر جبر کرکے کہہ دیا ۔’’ جی ہاں، بس اب مکمل ہونے ہی والی ہے۔کل صبح آ پ کو سنا دوں گا۔‘‘
یہ سن کر ان کا چہرہ خوشی کے مارے سرخ ہو گیا۔بولے۔’’شاباش!شاباش!میرے خیال میں تم اپنے ماسٹر صاحب سے چھٹی لے کر گھر چلے جائو اور آج نظم مکمل کر لو۔کل مشاعرہ ہے۔‘‘
ماسٹر صاحب نے فوراً ہمیں گھر جانے کی اجازت دے دی اور ہم اپنی قسمت کو روتے ہوئے گھر آگئے۔اس مصیبت سے بچنے کی کوئی صورت ذہن میں نہ آتی تھی۔ بہت دماغ لڑایالیکن کوئی ترکیب سمجھ میں نہ آئی۔ایک ہی علاج تھا کہ کہیں سے ایسی نظم مل جائے جس کا عنوان ہو۔’’مکتب‘‘اور نظم بھی کسی ایسے گم نام شاعر کی ہو جو مرکھپ چکا ہو۔ اچانک یاد آیا کہ ایک جگہ اردو کے پرانے رسالے اور کتابیں بکتی ہیں، وہاں جا کر تلاش کرنا چاہیے۔شاید نصیب کھل جائے۔
کباڑی کی دکان پر پہنچ کر ہم نے پرانے رسالوں اور کتابوں کی ورق گردانی شروع کی۔ ان میں سے بعض کتابیں اور رسالے تو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کے معلوم ہوتے تھے۔ ان میں ہر موضوع پر نظمیں اور مضامین موجود تھے لیکن ’’مکتب‘‘ پر کوئی نظم نظر نہ آئی۔آخر مایوس ہو کر ہم نے ایک پھٹا پرانا رسالہ اٹھایا جسے دیمک نے چاٹ لیا تھا ۔ اس کا پہلا ہی صفحہ کھولا تو ایک نظم پر نظر پڑی۔ دیکھتے ہی خوشی سے اچھل پڑے۔ یہ نظم’’مکتب‘‘ پر لکھی ہوئی تھی اور کسی ایسے گم نام شاعر کی تھی جس کا نام بھی کبھی ہم نے نہ سنا تھا۔ دکان دار نے رسالے کی قیمت چار آنے بتائی اور ہم نے فوراً خرید لیا۔
دوسرے روز شام کو مشاعرہ ہو رہا تھا۔ شام کو ہم نے نہا دھو کر نئی شیروانی اور پاجامہ پہنا۔ جناح کیپ اوڑھی اور باقاعدہ دولہا بن کر اسکول پہنچے۔ بے شمار مہمان اور طلباء جمع تھے۔ سارا ہال جگمگ جگمگ کر رہا تھا اور شہر کے مشہور شاعر اور ادیب اوپر اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں وہ بزرگ تشریف لے آئے جنہیں صدارت کرنی تھی، ان سے سب کا تعارف کرایا گیا اور پھر مشاعرہ شروع ہوا۔
باری باری سب طالب علموں نے نظمیں سنائیں۔ سب کو دادا ملی۔ اب ہمارا نام پکارا گیا۔ اس سے بیشتر کہ ہم سینہ تان کر اٹھتے اور اسٹیج پر پہنچتے، ہیڈ ماسٹر صاحب نے کھڑے ہو کر ہماری تعریفیں کرنی شروع کر دیںکہ ہم یہ ہیں اور ہم وہ ہیں ،لہٰذا حاضرین کو چاہیے کہ ہمارا کلام غور سے سنیں۔اب ہم دھڑکتے دل کے ساتھ اٹھے، لڑکھڑاتے ہوئے اسٹیج پر پہنچے اور جیب سے نظم نکال کر پڑھنی شروع کی۔ ایک تو ہماری آواز بڑی سریلی، دوسرے نظم بہترین۔ ہر شعر پر اتنی داد ملی کہ سارا ہال گونج اٹھا۔ ایک ایک شعر کئی کئی بار پڑھوایا گیا۔ ہم سلام کر کر کے تھک گئے لیکن داد دینے والے نہ تھکے۔ آخر نظم ختم کرکے ہم اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔تمام لوگوں کی نظریں ہم پر جمی ہوئی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد جج صاحبان نے اعلان کیا کہ جہانگیر صاحب کی نظم سب سے اچھی ہے اس لیے انہیں انعام دیا جاتا ہے۔اس پر تالیوں اور نعروں کے شور سے حشر برپا ہوگیا۔ اچانک صاحب صدر ہنستے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھے اورہنسی روک کر بولے:
’’حضرات! جہانگیر صاحب نے جو نظم پڑھی ہے اس پرانہیںپہلا انعام دیا گیا ہے لیکن آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ نظم آج سے تیس برس پہلے میں نے کہی تھی اور یہ کئی رسالوں میں چھپ چکی ہے۔ میں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں۔لہٰذا یہ انعام مجھے ملنا چاہیے ۔ میں جہانگیر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میری نظم بڑے اچھے انداز میں پڑھی۔‘‘
اس کے بعد کی کہانی کچھ زیادہ دلچسپ نہیں۔ بس اتنابتادینا کافی ہے کہ اسکول کے چار لڑکے ہمیں چارپائی پر ڈال کر گھر چھوڑ گئے اور پھر تقریباً ایک ہفتے تک ہم گھر سے باہر نہیں نکلے۔