skip to Main Content

مائی لارڈ حُقّہ

الطاف فاطمہ
۔۔۔۔۔

یہ کہانی وہانی تو کیا ہے بچپن کی ایک دُھندلی سی یاد ہے ،جو ہے تو دھندلی سی، پر دل کے کسی نہ کسی گوشے میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
دسمبر کی ایک بہت ہی سرد اور دھندلی سی شام تھی اور ہم لوگ سمر ہاؤس والے چبو تر سے پر بیٹھے کاٹھ کی تلواریں چاقوؤں سے چھیل چھیل کر بنانے میں مصروف تھے ،اس لیے کہ اگلے دن ہم کو ایک زبر دست جنگ لڑنا تھی کہ اتنے میں ایک ناٹے سے قد کے بڑے میاں، بالکل گھسے گھسائے ردی سے کپڑے اور پھپھوندی لگی ترکی ٹوپی پہنے، لپک لپک چلتے ہوئے باغ کے پچھلے حصے سے نمودار ہوئے۔ اُن کے ہاتھ میں ٹین کا ایک چھوٹا سا چونگا سا تھا۔ بالکل ایسا جیسے نمائش کے دروازوں پر مٹکنے والے مسخروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ گھڑی گھڑی اِس کو منہ سے لگا لگا کر چیزوں اور دکانوں کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ ہاں تو بھئی! وہ حضرت آئے اور منہ اُٹھا کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ہم لوگوں نے بھی کنکھیوںسے ان کو خوب خوب دیکھا اور دل میں سوچا کہ اگر یہ ذرا سے اور چھوٹے ہوتے اور اُن کی یہ لال چمڑے کی جوتیاں ذرا اور نُکیلی ہوتیں تو یہ بالکل پریوں کی کہانیوں کے بونے معلوم ہوتے۔
سلطان بھائی ہم سب میں بڑے تھے۔ وہی لپک کر ان کے پاس پہنچے اور جوں ہی ان سے بات کرنا شروع کی، بڑے میاں نے جھٹ وہ ٹین کا چونگا اپنے کان سے لگایا اور ان سے فرمائش کی کہ اس کے اندر بولو۔ کچھ دیر کے بعد سلطان بھائی اُن کو اندر پہنچا آئے اور ہم لوگوں کو بتایا کہ یہ دادا ابا کے دوست ہیں۔ اچھا! تو یہ عجیب و غریب بڑے میاں اُن کے دادا ابا اور ہمارے نانا اباکے دوست ہیں۔ ہم نے حیرانی سے سوچا اور پھر تلواریں چھیلنے میں مصروف ہو گئے۔
’’یہ کان میں چونگا لگا کر کیوں بات کرتے ہیں؟ ‘‘ہم میں سے کسی نے پوچھا۔
’’اونھ بھئی! بالکل بہرے پَٹ ہیں۔‘‘ سلطان بھائی نے جھنجھلا کر جواب دیا۔
پھر جب ہم لوگ اندر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بر آمدے کے تخت پر نانا ابا اور وہ بڑے میاں بیٹھے باتوں میں مصروف ہیں۔ پاس ہی بڑی سی چائے دانی میں چائے بھری رکھی ہے اور دونوں کے درمیان تخت کے قریب سوندھی سوندھی خوشبوکا حقہ کھڑا مہک رہا ہے۔
ہم سب کے سب حیران تھے کہ آخر نانا ابا کو یہ کیا سوجھی کہ خود تو اتنے لمبے چوڑے بالکل سرسید احمد خاں کی تصویر کی طرح اور اتنے چھوٹے سے پھٹیچر سے بڑے میاں سے دوستی کی ہے جو بالکل پرستان کے بونے معلوم ہوتے ہیں۔ ہم بہت دنوں تک اپنی بات پر حیران ہوا کیے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ بعض وقت پریوں کی کہانیوں کے چھوٹے چھوٹے بونے بھی اتنے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں جن کو کرتے دیو بھی گھبرا جائیں۔
ہاں تو دو ہی ایک دن میں ان کا نام ’’مائی لارڈ حقہ‘‘ پڑ گیا۔ اس لیے کہ و ہ تو بیٹھے باتوں میں غرق رہتے اور جہاں ان کا حقہ ٹھنڈا ہوتا وہ منہ اُونچا کرتے اور بڑی رازداری میں نانا ابا سے فرمائش کرتے کہ ’’مائی لار ڈ حقہ!‘‘ یہ سن کرنانا ابا فوراً کسی نہ کسی کو آواز دے کر حقہ تازہ کرواتے اور ایک اور چائے دانی بھروا کر رکھ لیتے۔
الجھن تو تمھیں ضرور ہوگی کہ آخر یہ مائی لارڈ حقہ تھے کون اور آخر اُنھوں نے ایسا کون سا تیر مارا تھا جو اُن کا ذکر اتنے زور شور سے کیا جا رہا ہے؟
تو سنو! یہ مائی لارڈ حقہ تھے۔ خان بہادر بشیر الدین صاحب، اسلامیہ کالج اٹاوہ کے بانی یعنی اُس کی بنیاد ڈالنے والے۔ کوئی کالج یا اسکول اگر انسان اس لیے کھولے کہ اس کے ذریعے وہ عزت اور دولت کمائے گا تو یہ کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن جب انسان کا مقصد دولت کمانے کے بجائے قوم کے بچوں کی تعلیم اور ترقی ہو تو یہ کام بڑا مشکل ہوتا ہے ان مائی لارڈ حقہ نے اٹاوے میں اسلامیہ اسکول اِسی لیے کھولا کہ وہاں اُن کی قوم کے بچوں کی تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ ہر وقت اُن کا دل یہ دیکھ دیکھ کر کڑھا کرتا تھا کہ ہندوؤں نے تو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے بڑے معقول انتظام کر رکھے ہیں اور گورنمنٹ کے اسکولوں میں بھی انہی کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہے لیکن مسلمان بچے جہاں بھی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اُن کو حقارت اور ذلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جس وقت اُن کے دل میں یہ خیال آیا اُس وقت یہ ایک اسکول میں ماسٹر تھے اور درمیانہ حیثیت کے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اُنھوں نے اتنا بڑا اسکول اور پھر کالج کس طرح کھولا؟ یہ داستان تم میری اماں کی زبانی سنو۔
ہوا یہ کہ ایک دن ہم نے اپنی اماں سے پوچھا کہ اتنے پھٹیچر سے صاحب کو آپ چچا کیوں کہا کرتی ہیں اور کیوںنانا ابا ان سے دن رات باتیں کیا کرتے ہیں؟ یہ سن کر اماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آواز بھرا گئی۔ انھوں نے بڑے دُکھ سے کہا ۔’’بیٹا! یہ پھٹیچر نہیں ہے۔ یہ قوم کا محسن ہے۔ اس کا ہم پر، تم پراور قوم پر احسان ہے۔ اس شخص نے اپنی ساری زندگی اور تمام دولت قوم کے لیے وقف کر دی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کی بیوی جہیز میں بہت سا زیور اور برتن وغیرہ لائی تھیں۔ انھوں نے شادی کے دوسرے دن اپنی بیوی سے پوچھا کہ تم نے شادی مجھ سے کی ہے یا اس زیور کپڑے سے؟ بیوی نے جھٹ کہا کہ تم سے۔ اس پر یہ بو لے کہ اگر مجھ سے کی ہے تو پھر سنو! میری زندگی بھر کی یہ آرزو ہے کہ میں اپنی قوم کے بچوں کے لئے اسکول قائم کروں اور وہ بھی ایسا کہ اُس کی ٹکر کا اسکول اٹاو ے بھر میں نہ ہو۔ مگر میرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ اگر تم میرا ساتھ دو تو میرے کام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ میں نے سختیاںجھیل کر کچھ پیسا اپنی تنخواہ سے بھی بچا رکھا ہے۔
بیوی نے اپنا تمام زیور اور قیمتی سامان مائی لارڈ حقہ کے حوالے کیا اور مائی لارڈ حقہ نے یہ کیا کہ اپنے گھر کا بھی تمام قیمتی سامان بیچ کر ایک چھوٹے سے اسکول کی بنیاد ڈال دی۔
پھر کچھ دن بعد اُن کا اسکول ہائی اسکول بن گیا، جس میں ایک بورڈنگ بھی تھا۔ یہ بات لکھنے کو تو میں نے ڈیڑھ سطر میں لکھ دی ہے لیکن تم خود خیال کر سکتے ہو کہ ایک غریب قوم کے لیے ایک غریب آدمی کو یہ ہائی اسکول بنانے میں کیا کیا کچھ دقتیںپیش آئی ہوں گی۔
اسی دوران میں انھوں نے ایک اخبار ’’البشیر‘‘ کے نام سے جاری کیا جس میں مسلمانوں کی تعلیم اور قومی اسکولوں اور کالجوں کی ضرورت کا پرچار کیا جاتا تھا۔ چندے جمع کرتے کرتے اور پائی پائی جوڑتے جوڑتے ان کی طبیعت میں کنجوسی پیدا ہو گئی تھی۔ چندے کی ایک اکنی بھی گم ہو جاتی تو یقین جانو رو دیتے کہ میری غریب قوم کی گاڑھی کمائی کا پیسا ہے۔ اگر کوئی سو روپے بھی اس کے بدلے میں دیتا، تو بھی غم زدہ رہتے کہ وہ اکنی ہوتی تو اتنے روپے اور ایک آنہ ہوتا۔
ہاں تو دو تین دن رہ کر مائی لارڈ حقہ چلے گئے اور چند دن کے بعد اپنے کالج کے دو عدد اُستادوں اور بہت سے کاغذات کے ساتھ واپس تشریف لائے۔ بس پھر کیا تھا۔ دن رات برآمدے کے بڑے تخت پر کاغذات اور نقشے پھیلے رہتے اور مائی لارڈ حقہ اور اُن کے دوست، یعنی نانا ابا کام میں مشغول رہتے۔ ان دونوں کو تو دنیا کی کسی بات کا ہوش نہ رہتا تھا مگروہ دونوں استاد بیچارے ضرور تھک جایا کرتے ہوں گے۔ در اصل بات یہ تھی کہ مائی لار ڈ حقہ اپنے کالج کی بلڈنگ بڑھا رہے تھے اور نا نا ابا چونکہ انجینئر تھے، اس لیے وہ اس کا نقشہ تیار کر رہے تھے۔ نقشہ بن گیا اور حساب کتاب کا کام بھی پورا ہو گیا مگرپیسے کی کمی کا سوال ابھی تک موجود تھا۔
دسمبر کی چھٹیوں میں کالج کے لڑکے اور اُستاد زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کر رہے تھے اور مائی لارڈ حقہ واپس اٹاوہ جاچکے تھے کہ کچھ دن بعد نانا ابا بیمار پڑ گئے اور ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ کچھ دن تو سخت بیمار رہے پھر جب ذرا حالت سنبھلی تو اُنھوں نے وہ تمام کاغذات ہسپتال منگوا لیے جو مائی لارڈ حقہ اُن کے حوالے کر گئے تھے۔ اب یہ تو مجھے علم نہیں کہ کام کس قسم کا تھا۔ مگر یہ یاد ہے کہ منشی جو انھوں نے اس کام کے لیے رکھا تھا، دن رات اُن کے بستر کے قریب میز پر بیٹھا کام کرتارہتا تھا اور اسے سر اٹھانے کی مہلت نہ ملتی تھی۔ جب اُن کے بیٹے اور پوتے اُن کو دیکھنے آتے تو ان کو بہت سے روپے اس خیال سے دیے جاتے تھے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ادھر وہ لوگ ہسپتال سے باہر نکلتے ادھر وہ منشی سے کہتے۔’’ ارے میاں! دیکھنا کوئی منی آرڈر فارم بھی ہے کاغذوں میں؟ ‘‘منی آرڈر فارم ہمیشہ موجود رہتے تھے۔ وہ فوراً منشی سے فرمائش کرتے۔ ’’میاں! یہ روپے تو بشیر الدین کو روانہ کر دو کہ کالج کے کام میں لائے۔‘‘
ادھر مائی لارڈ حقہ تھے کہ دھڑا دھڑ کالج کی عمارت بڑھوا رہے تھے۔ ایک آدھ بار جب وہ نانا ابا کو دیکھنے آئے تو ہسپتال کے کمرے میں بیٹھ کر بھی وہ یہ بھول گئے کہ میں کسی کی عیادت کو آیا ہوں اور بیمار کو بھی اپنی بیماری یاد نہ رہی۔
مائی لار د حقہ اپنے کالج میں ’’کالج ابا‘‘کے نام سے مشہور تھے۔ جن لوگوں نے ان کے کالج میں پڑھا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ یہ ننھی سی جان کالج میں بجلی کی طرح کو ندا کرتی تھی۔ اسکول کی بعض کلاسیں خود لیتے تھے، ہوسٹل کی ہر بات اپنی نظر کے سامنے رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ کھانے کے دیگچے تک پکتے میں کھول کھول کر دیکھتے تھے۔
پھر ایسا ہوا کہ نانا ابا کا انتقال ہو گیا اور ہم نے بہت دنوں تک مائی لارڈ حقہ کی شکل نہیں دیکھی۔ صرف ایک دفعہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے دسمبر کی ایک سرد شام کو وہ آئے۔ جھٹ پٹا سا ہو چلا تھا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ پھٹیچر حالت میں اور فکر مند نظر آتے تھے۔ ہاتھ میں وہی ٹین کا زنگ آلود چونگا تھا۔ وہ اُسی تخت پر بیٹھے تھے اور اماں سر ڈھانکے ان کے پاس بیٹھی تھیں۔ اُنھوں نے ان کے لیے چائے بھی منگوائی اور پوچھا کہ’’ چچا! حقہ منگواؤں؟ ‘‘تو انھوں نے انکار کر دیا ۔بہت ہی دکھی انداز سے چاروں طرف سر گھما کر دیکھا اور چائے پیئے بغیر ہی اُٹھ کر چل دیے۔اس وقت تو ہم یہ سوچتے رہے کہ مائی لارڈ حقہ اور بھلا حقے سے انکار کریں! لیکن اب سمجھ میں آتا ہے کہ اس گھر میں اب وہ ہستی موجود نہ تھی جن سے وہ انتہائی رازداری سے فرمائش کیا کرتے تھے ۔’’مائی لارڈ !حقہ؟‘‘اس لیے حقہ پینے کو بھی اُن کا دل نہ چاہا ہوگا۔
تو بھئی! یہ تھی وہ عجیب اور انوکھی ہستی جس نے اپنی بیوی کا زیور بیچ کر ایک اسکول کی بنیاد رکھی اور پھر اپنی ان تھک کوششوں سے ایک بڑا سا کالج بھی بنا ڈالا۔ ممکن ہے تم کہو کہ اتنے بہت سے صفحوں میں ایک چھوٹے سے پھٹیچر بڈھے کی داستان نہ لکھی ہوتی تو ایک کہانی اور پڑھنے میں آتی لیکن بھئی! مجبوری یہ آپڑی کہ مجھے مدت سے بے چینی تھی۔ جیسے میرے پاس تمہارے لیے کسی کی بڑی قیمتی امانت ہو اور جس کا بوجھ اُٹھائے اُٹھائے میں تھک گئی ہوں۔ تو بھئی میں نے تمہاری امانت تمہارے حوالے کر دی۔ اب تم جانو اور تمہارا کام!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top