بچے کتنے سچے
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
منی بس کی رفتار دھیمی ہوئی اور پھر وہ رک گئی۔ بس سے چند افراد اترے، کنڈکٹر نے بس کے دروازے پردوبارہ ہاتھ مار کر ہانک لگائی۔ ”ڈبل اے“ اور بس چلی گئی۔
بس سے اترنے والے مسافروں میں زبیر عثمانی بھی تھے۔ دبلے پتلے، چھوٹا ساقد، آنکھوں پر باریک فریم کا چشمہ اور منہ میں پان……!
وہ اس وقت اپنی اسٹیشنری کی دکان سے لوٹ رہے تھے جو یہاں سے تقریباً آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ دائیں طرف تین گلیاں چھوڑ کر وہ اپنی گلی میں مڑے۔ آج انھیں اپنے گھر کے قریب ہجوم نظر آیا۔
”اللہ خیر کرے۔“ ان کا دل بیٹھ گیا۔
انہیں دیکھتے ہی کچھ نو جوان ان کی طرف لپکے۔
”کیا ہوا؟“ عثمانی صاحب نے دورہی سے پوچھا۔
”کیا نہیں ہو اعثمانی بھائی۔“ صغیر چھوٹے نے آنکھیں نکال کر کہا۔
”کیا …… کیا نہیں ہوا؟“ عثمانی صاحب اور زیادہ گھبرا گئے۔
”آپ کے بچے عزیز کو چودھری اقبال نے تھپڑ مار دیا۔“
”مگر کیوں؟“
”کچھ بھی نہیں جی…… بس ذرا عزیز کی گیند چودھری صاحب کے گھر میں چلی گئی تھی، اور اس وقت خود چودھری کا بیٹا بھی گلی میں کھیل رہا تھا۔“ کسی نے کہا۔
”پھر بھی مار دیا!“
”حد ہو گئی!!“
”چلو، چل کے چودھری سے بات کرتے ہیں۔“ ایک آواز آئی۔
”ہاں، ہاں، چلو۔“ کئی آواز یں آئیں۔
بہت سے نوجوان چودھری اقبال کے تین منزلہ شاندار مکان کی طرف چل دیے۔ ہجوم ان کے پیچھے تھا۔ دو تین نوجوانوں نے چودھری اقبال کے گھر کا دروازہ بدتمیزی سے پیٹ ڈالا۔ ایک نوجوان نے کال بیل کے بٹن پرانگلی رکھ دی اور ہٹانے کا نام نہ لیا۔
دھڑاک سے دروازہ کھلا اور چودھری اقبال باہر نکلے۔
ان کے ایک ہاتھ میں موبائل فون تھا، چہرے پر شدید غصے اور قمیص پر چائے کے آثار تھے……!
”آپ لوگ انسان نہیں ہو؟ ہیں جی؟“ انھوں نے طیش کے عالم میں پوچھا۔
”ا بے، تو خود تو پہلے انسان بن، بچے کو مارتا ہے!“ ہجوم میں سے کسی کی آواز آئی۔
”دیکھیں جی، آپ بھی اس محلے میں رہتے ہو۔“ اقبال چودھری نے ذرا نرم پڑتے ہوئے کہا۔”بچے روز گلی میں کھیلتے ہیں، روزانہ ان کی گیند میرے گھر میں آتی ہے، میں نے پہلے کبھی کچھ کہا……؟
……پر جی، آج جو، ان کی گیند آئی ہے،تو جی میں ادھر صحن میں بیٹھاچائے کی پیالی پی رہا تھا، گیند سیدھی جا کے چائے کی پیالی پر گری۔اوجی، چائے بھی گرم تھی۔ سیدھی میری کمیض (قمیض) پر گری، اب ایسی بات ہو تو بندہ غصہ کھاہی جاتاہے۔“
”مگر چو دھری صاحب، آپ نے تو غریب کے بچے کو ماردیا، آپ کا بچہ بھی تو گلی میں کھیل رہا تھا۔“ کسی بزرگ نے کہا۔
”ہیں جی؟“چو ہدری صاحب کا منہ کھلا رہ گیا۔”انوار بھی ادھرہی کھیل رہا تھا؟اس کے لیے گھر میں جگہ تھوڑی ہے؟“
”اور نہیں تو کیا،اپنے گریبان میں تو منہ ڈالیں۔“ ایک آواز آئی۔
”بالکل! یہی بات ہے، اپنے بچے کو کچھ نہیں کہنا، غریب کے بچے کو جتنا دل کرے مارلو،ارے یہ چودھری لوگ ہوتے ہی ایسے ہیں۔“دوسرے نے ہاں میں ہاں ملائی۔
”پتا نہیں کیوں ادھر آئے ہیں۔“ تیسرا بولا۔
”دیکھیں جی، ہم ادھر رہتے ہیں توکسی کے باپ کا نہیں کھاتے۔“چو دھری صاحب کا پارہ پھر چڑھنے لگا۔
”کیا کہہ رہے ہو چو دھری صاحب، یہ تو ہماری شرافت ہے کہ تم ادھر رہ رہے ہو، نہیں تو تمہارے گھر کے کسی کوبھی اٹھاناکوئی مشکل کام ہے۔“صغیر چھوٹے نے تڑخ کر کہا۔
”کسی مائی کے لال میں ہمت نہیں ہے کہ میرے گھر کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ سکے، آنکھیں نکال لوں گا۔“ چودھری صاحب گر جے۔
”کیا کہا؟ آنکھیں نکالے گا۔ابے، ہم شرافت سے بات کر رہے ہیں تو سر پہ چڑھا آریاہے، تیرے تو باپ کی بھی مجال نہیں جو آنکھیں نکال سکے۔“ عامر مستانہ آستین چڑھاتے ہوئے بولا۔
”میرے باپ تک نہیں جانا،نہیں تو سب کو اندر کروادوں گا۔ ابھی ایک فون کروں گا ڈ……ی آئی جی کو،سب سیدھے ہو جائیں گے۔“
”تڑیاں دے رہا ہے!“
”ہاں، ہاں، ایک ایک کو اندر کروا دوں گا۔“ چوہدری صاحب تیزی سے مڑے اور دروازہ دھڑ سے بند کر کے اندر چلے گئے۔
”ہمیں اندر کر وانے چلا ہے، خود اندر چلا گیا!“ کسی نے پھبتی کسی اور قہقہے بلند ہوئے۔
یہ سارا جھگڑا جس بچے کو تھپڑ مارنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس کے والدز بیر عثمانی خاموش کھڑے تھے۔ کسی نے ان کاکندھا ہلایا۔
”کیا حکم ہے، عثمانی صاحب! دومنٹ کی مار ہے چودھری کا گیٹ……“
”آج ہو جائے، عثمانی صاحب! ان چودھریوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔“
”ر ہنے دو…… رہنے دو……“ عثمانی صاحب نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا اور واپسی کے لئے مڑ گئے۔
”آج عثمانی صاحب کو رحم آ گیا، نہیں تو چو دھری کی لاش ہی یہاں سے جاتی۔“صغیر چھوٹا جوش سے بولا۔
ہجوم آہستہ آہستہ منتشر ہو گیا۔
۔۔۔۔۔
چودھری صاحب نے اب اپنے گھر پر پولیس کے دو سپاہی بلوا کر بٹھالئے تھے۔پولیس والے سارا دن کرسیوں پر بیٹھے چائے پیتے رہتے اور آنے جانے والوں کو شک بھری نظروں سے گھورتے رہتے۔ چودھری صاحب نے اپنے گھر کے صدر دروازے پر مضبوط جنگلہ بھی لگوا لیا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کی منڈیر پر تار بھی بچھوائے تھے،جن میں رات کو کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ہفتے بھر تک گلی میں بچوں کا شور سنائی نہ دیا۔ بچے گلی میں کھیلتے رہتے تھے تو رونق رہتی تھی۔اس دن کے واقعے کے باعث شاید بچے خودہی ڈر کر کھیلنے نہ آتے تھے۔
جمعرات کا دن تھا، سہ پہر کے چار بجے ہوں گے۔ زبیر عثمانی اپنی چھوٹی سی دکان میں بیٹھے کسی بچے کو پنسل نکال کردے رہے تھے کہ صغیر چھوٹا دوڑتا ہوا آیا۔ تیز دوڑنے کی وجہ سے وہ ہانپ رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔
”عثمانی صاحب!آپ کا بیٹا عزیز بہت دیر سے غائب ہے۔“
”کیا؟ کہاں گیا؟“ عثمانی صاحب نے جلدی سے پوچھا۔
”پتانہیں، پورے محلے کے گھروں میں پوچھ لیا، سوائے چودھری اقبال کے۔ کہیں کوئی مین ہول بھی کھلا ہوا نہیں،کوئی ٹنکی کا ڈھکنا بھی اٹھا ہوا نہیں، کچھ لڑ کے اسپتال گئے ہیں پوچھنے۔ آپ کو بھی ڈھونڈ رہے تھے۔ آپ دکان بند کر کے کہیں گئے ہوئے تھے۔“
”ہاں، میں دکان کے لیے مال لینے گیا تھا اردو بازار۔ چلو میں چل رہا ہوں۔“عثمانی صاحب نے جلدی جلدی دکان کے با ہر لٹکی ہوئی اشیا سمیٹ کر دکان میں پھینکیں اور شٹر گرا کر تالا لگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ صغیر چھوٹے کے ساتھ تقریباً دوڑتے ہوئے اس گلی میں داخل ہوئے۔
آج گلی میں پہلے سے بھی بڑا مجمع تھا۔ لڑکے غصے سے پاگل ہورہے تھے۔ عثمانی صاحب کو دیکھتے ہی سب تیزی سے ان کی طرف لپکے۔
”قسم سے عثمانی صاحب، چو دھری اقبال کے سوا کسی کا کام نہیں ہوسکتا۔“
”یہ چودھری ہے ہی بڑا بد معاش۔“ کسی اور نے قریب سے کہا۔
”چلو چل کر اس سے بات کرتے ہیں، عثمانی صاحب کا انتظار تھا۔“ صغیر چھوٹے نے کہا۔ہجوم چودھری صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ کسی من چلے نے ٹی ٹی نکال کر چودھری صاحب کے گھر کے دروازے پر تین فائر کیے۔ باہر بیٹھے پولیس والے ہڑبڑا کر اٹھے۔ اپنی اپنی کلا شنکوف اٹھا کر بھاگنے لگے۔ کسی نے اپنی چپل ان پر دے ماری، کسی نے جوتا پھینک مارا۔
اسی وقت چودھری اقبال لال پیلے ہوئے گھر سے باہر نکلے۔ ان کے ساتھ دو باوردی محافظ تھے جن کے ہاتھوں میں پستول تھے۔
”بچے کو کہاں چھپا کر رکھا ہے؟“ صغیر چھوٹے نے للکا را۔
”مجھے کیا خبر، کون سا بچہ، میں نے تو یہ پوچھنا ہے کہ تم لوگوں نے میرے بچے انوار کو کہاں چھپایا ہے، سونہہ رب دی، اگر میرے بچے کو کچھ ہو گیا تو تم لوگوں کے گھروں میں آگ لگوا دوں گا۔“ چودھری صاحب کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔
”لو بھئی، ان کا بچہ بھی اغواء ہو گیا۔“ کسی نے کہا۔
”ڈراما کر ریا ہے، بچہ اسی کے پاس ہے، کیوں بے، سیدھی طرح بچہ واپس کرتا ہے یا نہیں؟“ صغیر چھوٹے نے اکڑکر کہا۔
”اوجی، تم لوگ سمجھتے نہیں ہو، سدھی طرح بتا دو میرے بچے کو تم میں سے کس نے چھپایا ہے، نہیں تو تم لوگوں کوجیل میں سڑادوں گا۔“
”جیل میں سڑانے سے پہلے ہم تجھے یہیں سڑا دیں گے۔ تیری تو لاش کا بھی پتا نہیں چلے گا۔“ عامر مستانے نے آگے بڑھ کر چودھری صاحب کا گریبان پکڑ لیا۔ چودھری صاحب کے دونوں محافظوں نے اپنے اپنے پستول تان لیے۔ چودھری صاحب کے نوکر اور گھر کے کچھ افراد بھی نکل آئے۔ اچھا خاصا ہنگامہ ہو گیا۔
کئی بزرگوں نے بڑھ کر نو جوانوں کو روکا ورنہ خون خرابا ہو جاتا۔ کچھ لوگ چودھری صاحب کو پکڑ کر ایک طرف لے گئے۔ وہ غصے کے مارے ننگی گالیاں بک رہے تھے۔ ادھر کچھ لوگوں نے صغیر چھوٹے اور عامرمستانے کو پکڑ رکھا تھا، ان کی زبانوں سے بھی فحش گالیوں کا فوارہ ابل رہا تھا۔
بزرگوں نے بڑی مشکل سے چودھری صاحب اور نو جوانوں کو یہ سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا کہ چودھری صاحب کا بھی تو بچہ غائب ہے۔ بزرگوں کے مشورے پر گمشدہ بچوں کی تلاش پھر شروع کی گئی۔
لوگ ٹولیوں کی شکل میں ادھر ادھر پھیل گئے۔ دکانوں کے تختوں کے نیچے، مکانات کی پچھلی گلیوں میں، درختوں کے پیچھے ہر جگہ بچوں کی تلاش ہونے لگی۔
شام کے سائے گہرے ہونے لگے۔ چودھری صاحب کے چہرے پر سخت پریشانی کے آثار تھے۔ وہ اپنے موبائل فون کے پر جانے کتنے اسپتالوں اور تھانوں کو فون کر چکے تھے۔ زبیر عثمانی بھی بے حد فکر مند تھے۔
محلے کے چند نوجوانوں کے ساتھ، عثمانی صاحب اور چودھری اقبال بچوں کو تلاش کرتے ہوئے گورنمنٹ پرائمری اسکول تک پہنچ گئے۔ عثمانی صاحب کا بچہ اسی اسکول میں پڑھتا تھا، چودھری صاحب کا بیٹا کسی اچھے پرائیوٹ اسکول میں جاتا تھا۔ آج کل تو اسکولوں کی چھٹیاں تھیں۔ اسکول میں بچوں کے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، کیونکہ اسکول کا دروازہ بند تھا۔ پھر بھی لوگوں نے اسکول کے چوکیدار سے کہہ سن کر اسکول کا در وازہ کھلوایا۔ اسکول کا میدان خالی پڑا تھا۔ سب لوگ برآمدے سے ہوتے ہوئے کمروں میں جھانکنے لگے۔ تاہم کمروں کے دروازے بند تھے۔ آخری کمرے میں دروازہ سرے سے تھا ہی نہیں۔
سب سے پہلے ایک نو جو ان آخری کمرے تک پہنچا۔ اندر جھانکتے ہی اس کے منہ ہی خوشیوں بھرا جملہ نکلا۔
”مل گئے!“
سب لوگوں کے چہروں پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ سب آخری کمرے کی طرف لپکے۔ اندر دونوں بچے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گہری نیند سور ہے تھے۔ لوگ کمرے میں داخل ہو گئے۔ چودھری صاحب اور عثمانی صاحب نے اپنے اپنے بچے کواٹھا کر سینے سے چپکا لیا۔ دونوں بچے نیند میں تھے۔ وہ جاگ تو گئے مگر صورتحال کو فوری طور پر سمجھ نہ پائے تھے۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر وہ خوفزدہ بھی نظر آ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد سب لوگ چودھری صاحب کے ڈرائنگ روم میں جمع تھے۔ صوفے بھر جانے کے باعث بہت سے لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ کچھ دروازے کے باہر کھڑے تھے اور کچھ ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں سے اندر جھانک رہے تھے۔
دونوں بچے صوفے پر سہمے بیٹھے تھے۔ ان کی عمریں پانچ، چھ سال کے لگ بھگ ہوں گی۔
”پتر یہ تم نے کیا کیا؟ سکول میں جا کے سو گئے؟“ چودھری صاحب پوچھ رہے تھے۔
”ہاں بیٹا، یہ کیا بات ہوئی، گھر میں بستر نہیں تھا کیا؟“ایک بزرگ بولے۔
”نہیں!“ چودھری صاحب کا بیٹا بولا۔”بابے نے مجھے کہا تھا، عزیز کے ساتھ کھیلنا نہیں، تو ہم دونوں نے سوچا کہ ہم سکول میں جا کر کھیلیں گے، کسی کو پتا نہیں چلے گا سکول بند ہے نا، ادھر سکول کے پیچھے والی دیوار میں ایک سوراخ ہے، اس سے ہم سکول میں جا کر دیر تک کھیلے، پھر خبر نہیں کب ادھر ہی سو گئے۔“
کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا۔
آخر چودھری صاحب کی بھاری آواز ابھری۔ ان کی آواز جذبات کی شدت سے کانپ رہی گی۔
”بھائیو! میرے اس معصوم پتر نے میری اکھاں کھول دی ہیں۔ بچے تو نفرت کرنا جانتے ہی نہیں ہیں،کون چودھری ہے، کون عثمانی، کون ملک، کون دہلوی، اس سے ان کو کیا مطلب، یہ تو ہم بڑے ہیں جو ایک دوسرے کو نیچ سمجھتے ہیں۔“
”بے شک، یہ ذات پات تو اللہ نے ایک دوسرے کو پہچاننے کے لئے بنائی ہیں۔“ ایک بزرگ نے گردن ہلا کر کہا۔ ”اللہ کے نزدیک تو بڑا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے۔“
”ہاں جی، اور کیا، بناشک!“چودھری صاحب بولے، پھر انھوں نے کمرے میں موجود تمام افراد اور کمرے کے دروازے اور کھڑکیوں سے جھانکنے والے سب لوگوں پر نظر ڈالی اور بولے:
”میں نے جی سوچ لیا ہے، میں اس محلے میں ایک خالی پلاٹ خرید دوں گا، ادھر بچوں کے کھیلنے کی جگہ بناؤں گا، ادھر چودھری کا بیٹا بھی کھیلے گا، اور عثمانی بھائی کا بھی اور سب محلے والوں کے بچے بھی……“
”سبحان اللہ، جیتے رہو چودھری!“ایک بزرگ نے خوش ہو کر کہا۔
اس وقت اپنی آنکھیں پو نچھتے ہوئے، زبیر عثمانی اپنی جگہ سے اٹھے اور انھوں نے چودھری اقبال کو گلے لگا لیا۔ ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے جھانکنے والوں تک نے دیکھا کہ چودھری اقبال کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے۔