نیکی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ککڑیاں تو آپ نے کھائی ہوں گی؟! آپ کہیں گے،”جی ہاں کئی مرتبہ۔“ تو بھئی ککڑیاں آج ہی نہیں، آج سے تیرہ سو سال پہلے بھی بڑے شوق سے کھائی جاتی تھیں اور بچے تو انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ایسے ہی بچوں میں ایک چھوٹی سی بچی تھی، جوعراق کے شہر کو فہ میں رہا کرتی تھی۔
ایک دن بچی نے گھر کے باہر تازہ تازہ ککڑیاں بکتی دیکھیں۔ بچی کا بڑا جی چاہا کہ ککڑیاں کھائے لیکن پیسوں کے بغیر تو ککڑی والا اسے ککڑی نہ دیتا، خود اس کے پاس پیسے نہ تھے۔ وہ روتی ہوئی گھر آگئی اور امی سے ضد کرنے لگی کہ ککڑیاں کھاؤں گی۔ بچی کے ابو ان دنوں خاصی مالی پریشانیوں سے دوچار تھے۔ امی تو بڑی مشکل میں پڑ گئیں۔ پیسے کہاں سے لائیں؟ ادھر بچی تھی کہ ضد کئے جارہی تھی۔ امی نے اسے منع کیا تو وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔
بچی کے ابو بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ ان سے معصوم بچی کا رونا دیکھانہ گیا۔انہوں نے سوچا کہ کہیں سے مدد مانگی جائے۔ کوئی تھوڑی سی رقم دے دے تو گھر میں کھانے پینے کا کچھ سامان آجائے گا اوربچی کو ککڑیاں بھی مل جائیں گی۔
وہ اٹھے اور ایک بہت بڑے بزرگ کی مجلس کی طرف چل دیے،یہ’مجلس البرکۃ‘کہلاتی تھی۔آنے کو بچی کے ابو مجلس میں آگئے لیکن بزرگ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے انہیں بہت شرم آئی۔ انہوں نے کبھی کسی سے مانگانہ تھا، وہ مانگنا پسند بھی نہیں کرتے تھے اور ہے بھی صحیح بات۔ کسی سے مانگنا، ہاتھ پھیلانا کوئی اچھی بات تونہیں ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا بہت سے ہٹے کٹے گداگر بھیک مانگتے رہتے ہیں اور انہیں ذرا بھی شرم نہیں آتی لیکن جو اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں،وہ ضرورت پڑنے پر بھی کسی سے مانگتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ تو بھئی، بچی کے ابو کا بھی یہی حال تھا۔ وہ بار بار کچھ کہنے کا ارادہ کرتے لیکن پھر رک جاتے۔ آخر وہ مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔
بزرگ انہیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ شخص سخت ضرورت مند ہے لیکن غیرت والا آدمی ہے، اس لئے کچھ کہتے ہوئے اسے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ بزرگ اپنی جگہ سے اٹھے اور بچی کے ابو کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ بچی کے ابو اپنے مکان میں چلے گئے تو بزرگ ان کا مکان دیکھ کر واپس آگئے۔
رات ہوئی تو بزرگ اس بچی کے مکان پر پہنچے۔ خاصی دیر ہو چکی تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بزرگ نے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بچی کے ابو باہر نکلے۔ اندھیرے میں پہچان نہ سکے کہ کون آیا ہے۔ اتنی دیر میں بزرگ نے مکان کے دروازے پر ایک تھیلی رکھی اور یہ کہتے ہوئے فوراً واپس چلے گئے۔
”دیکھو تمہارے دروازے پر تھیلی پڑی ہوئی ہے، یہ تمہارے لئے ہے۔“
بچی کے ابو نے تھیلی اٹھائی لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کون صاحب تھے جو تھیلی دے کر چلے گئے۔ اندر جا کر تھیلی کھولی تو اندر پانچ سو درہم اور ایک پر چہ رکھا ہوا تھا۔ پرچہ پر لکھا تھا:
”ابو حنیفہ اس رقم کو لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔یہ رقم حلال ذریعہ سے حاصل کی گئی ہے۔“
کچھ سمجھے آپ؟ ابوحنیفہ کون تھے؟ یہ مسلمانوں کے فقہ کے مشہور امام ابوحنیفہؒ تھے جن کو ’امام اعظم‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اما م صاحب نے کتنے چپکے سے بچی کے ابو کی مدد فرمائی۔ ایسا آپ نے اس لئے کیا کہ دو سرے اگر آپ کے نیک عمل کو دیکھتے تو واہ واہ کرنے لگتے،اس طرح آپ کی نیکی کا ثواب ضائع ہو جانے کا خطرہ تھا۔ ہمارے پیارے رسول ﷺنے ہمیں بتایا ہے کہ کوئی شخص اگر نیک کام دوسروں کو دکھانے کے لئے کرتا ہے تو اس کا ثوب ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اس شخص کو ریا کاری(نمود و نمائش) کا گناہ الگ ملتا ہے۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ بچی کے ابو کے پاس اتنے پیسے کبھی نہ تھے کہ وہ اپنی پیاری بچی کو ککڑیاں خرید کر دے سکیں لیکن ان کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں لیکن آپ نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے نیک بندے کی کس طرح مدد فرمائی۔ اللہ اپنے نیک بندوں کی ہمیشہ مدد فرماتا ہے۔