پتریاٹا
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ویگن، پہاڑوں کے گرد بل کھانے والی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ سڑک کسی بڑے سے اژ د ہے کی طرح گھومتی چلی گئی تھی۔ چوکس ڈرائیور ہر موڑ پر پہنچتے ہی ہارن بجا رہا تھا۔
”ابو جی!“ سلمان نے کہا۔ ”ہم کتنی دیر میں پتر یا ٹا پہنچ جائیں گے؟“
”بیٹے، آدھا سفر طے ہو چکا۔ اب ان شاء اللہ ایک گھنٹے میں پتر یاٹا پہنچ جائیں گے۔“
”یہ علاقہ کتنا خوبصورت ہے۔“ عثمان نے کہا۔
”ہاں بیٹے، اللہ نے اس علاقے کو بڑا حسن عطا فرمایا ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے۔ ہم بلندی کی طرف جارہے ہیں۔ تمہیں پتا ہے نا، بلندی کی طرف جاتے ہوئے کیا پڑھنا چاہیے؟“
”جی ہاں ابو جی، اللہ اکبر پڑھنا چاہیے۔“ عثمان نے جواب دیا۔
”شاباش، اور نیچے اتریں تو سبحان اللہ کہنا چاہیے۔ تم نے کبھی سوچا، اللہ تعالیٰ نے یہ پہاڑ کیوں بنائے ہیں؟“
”نہیں ابو جی!“
”قرآن مجید کی سورہ نحل میں ہے: اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تا کہ زمین تمہیں لے کر لڑھک نہ جائے۔ یعنی پہاڑوں کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ تیز رفتار سے گھومنے والی زمین کو بے قابو ہو جانے سے روکتے ہیں۔ پہاڑوں کے اور بھی کئی فائدے ہیں، ان سے معدنیات نکلتی ہیں۔ ان پر برف جمتی ہے جو پگھلتی ہے تو دریاؤں میں پانی آتا ہے، یہ بارش کا سبب بھی بنتے ہیں، بہت سی قدرتی سرحدیں اور راستے اور نشانیاں ان پہاڑوں کی وجہ سے حاصل ہوتی ہیں۔“
ویگن لوئر ٹو پاسے ایک سڑک پر مڑی۔ اب وہ نیچے کی طرف جارہی تھی۔
”ابو جی، پتر یا ٹا کتنی دور ہے؟“ سلمان نے پوچھا۔
”بیٹے، راولپنڈی سے مری اُنسٹھ (59) کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور مری سے پتریاٹا کا فاصلہ صرف پندرہ کلومیٹر ہے۔“
کچھ دیر بعد دیگن کا کنڈکٹر چلا رہا تھا: ”چلو بھئی، گلہڑہ گلی والو، اترو!“
ویگن رک چکی تھی۔ سلمان اور عثمان اپنے ابو جی کے ساتھ ویگن سے اتر آئے۔ دونوں طرف دکانیں تھیں، کئی ہوٹل تھے، جن کے بورڈ مسافروں کو قیام کی دعوت دے رہے تھے۔
”ابو جی، یہ تو گلہڑہ گلی ہے؟“ عثمان نے کہا۔
”بیٹے، اس علاقے کا نام گلہڑہ گلی ہی ہے اور اس تفریحی مقام کا نام پتریاٹا ہے۔“
تینوں نے ایک جگہ بیٹھ کر ٹھنڈی بوتلیں منگوا کر پی لیں، پھر وہ آگے بڑھے جہاں سے رواں کرسی (چیئر لفٹ) روانہ ہوتی ہے۔
”اس علاقے کو حکومت نے خاص ترقی دی ہے۔“ ابو جی کہ رہے تھے۔”ایک تو یہ علاقہ ہے ہی قدرتی طور پر بہت حسین، پھر یہاں جدید انداز کی تعمیرات اور رواں کرسی اور ہنڈولے (کیبل کار) کی وجہ سے بہت سے سیاح اسی طرف کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ ہے، خوبصورت چمن ہیں، صاف ستھرے غسل خانے ہیں، بیٹھنے کے لیے جگہ جگہ نشستیں ہیں، کوڑا ڈالنے کے لیے کوڑا دان ہیں۔“
وہ تینوں سیڑھیاں چڑھ کر اس جگہ پہنچے جہاں سے رواں کرسی اور ہنڈولے کا مشترکہ ٹکٹ ملتا ہے۔ ابو جی نے ٹکٹ خریدے، پھر وہ سب ان مسافروں کی قطار میں شامل ہو گئے جو رواں کرسی سے سفر کرنا چاہ رہے تھے۔ سلمان اور عثمان نے دلچسپی سے دیکھا کہ آہنی تار سے لٹکی ہوئی رنگا رنگ رواں کرسیاں بلندی سے آ رہی تھیں اور ایک بڑے ستون پر لگے آہنی پہیے کے گرد گھوم کر واپس بلندی کی طرف جا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد ان لوگوں کی باری بھی آ گئی۔ ابو جی بچوں کو بتا چکے تھے کہ رواں کرسی ٹھہرتی نہیں ہے۔ دھیمی رفتار سے چلتی ہی رہتی ہے۔ اسی حالت میں اس پر چڑھنا ہوتا ہے۔ ایک رواں کرسی میں دو افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔ ابو جی نے فیصلہ کیا کہ جاتے ہوئے ابو جی اور سلمان ایک رواں کرسی پر سفر کریں گے اور واپسی پر ابو جی کے ساتھ عثمان رواں کرسی پر ہو گا۔ جاتے ہوئے عثمان کو اور واپسی پر سلمان کو کسی اور کے ساتھ رواں کرسی پر بیٹھنا ہوگا۔
ابو جی اور سلمان آنے والی رواں کرسیوں کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو گئے۔ جیسے ہی رواں کرسی قریب آئی وہ اس پر بیٹھ گئے۔ ابھی وہ سنبھلنے نہ پائے تھے کہ رواں کرسی حرکت کرتے ہوئے خاصی بلند ہو چکی تھی۔ سلمان نے مڑ کردیکھا، عثمان پیچھے آنے والی رواں کرسی پر ایک صاحب کے ساتھ بیٹھ چکا تھا۔
رواں کرسی بلند ہوتی جا رہی تھی۔ نیچے کا منظر بہت دلفریب تھا۔ وادی میں بکھرے ہوئے مکانوں کی سرخ چھتیں، سرسبز درخت، سیاہ رنگ کی بل کھاتی سڑک، چمکتی دھوپ اور نیلے آسمان پر کسی راج ہنس کی طرح تیرتے سفید بادل۔۔۔ سلمان کا دل، اپنے رب کی عظمت کے احساس سے بھر گیا۔ اللہ نے یہ دنیا کتنی خوب صورت بنائی ہے، وہ سوچنے لگا۔
”بیٹے، اس رواں کرسی کے ذریعے سے ہم تیرہ سو میٹر کا فاصلہ طے کریں گے، پھر درمیانی اسٹیشن پر اتر جائیں گے۔“ ابو جی بتا رہے تھے۔ ”یہاں ستر سے زائد رواں کرسیاں لگائی گئی ہیں۔“
کچھ دیر بعد درمیانی اسٹیشن آ گیا۔ سلمان اور ابو جی رواں کرسی سے پھرتی سے اترے کیونکہ رواں کرسی ٹھہرتی نہیں ہے۔ پیچھے آنے والی رواں کرسی سے عثمان اور اس کے ساتھ بیٹھے صاحب بھی اتر آئے تھے۔ ان صاحب نے آتے ہی سلام کیا اور اپنا تعارف کروایا۔ ”میرا نام سلیمان ہے۔ میں کراچی سے آیا ہوں۔“ سلمان اور عثمان کے ابو جی نے مسکرا کر کہا:”وعلیکم السلام، میرا نام بھی سلیمان ہے!“
وہ چاروں درمیانی اسٹیشن پر پچھلی جانب کھڑے ہو کر دور تک پھیلے مناظر کا نظارہ کرنے لگے۔ ابو جی نے بتایا: ”وہ سامنے مری کا گاؤں چارہان ہے۔ اس گاؤں کے پیچھے جو پہاڑ نظر آ رہا ہے اس سے آگے بلند پہاڑ پر مری کی آبادی ہے۔ اس کی بائیں جانب جہاں دو اونچے ٹاور نظر آ رہے ہیں، وہ مری کا پنڈی پوائنٹ ہے۔“
پھر وہ چاروں، ہنڈولے کی طرف بڑھے۔ تین ہنڈولے ایک ساتھ جڑے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ سفید رنگ کے ہنڈولے (کیبل کار) ان کے قریب آکرر کے۔ اس کے دروازے خود کار طریقے سے کھل گئے۔ وہ چاروں اور دیگر مسافر اندر بیٹھ گئے۔ ایک ہنڈولے میں آٹھ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ مسافروں کے بیٹھ جانے پر ہنڈولے کے دروازے خود کار طریقے سے بند ہو گئے۔ پھر تینوں ہنڈولے ایک جھٹکے سے حرکت میں آگئے۔ ہنڈولے کی رفتار، رواں کرسی کے مقابلے میں تیز تھی۔
”کل بارہ ہنڈولے لگائے گئے ہیں۔“ ابو جی بولے۔ ”دیکھو، ہم بلندی کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم اٹھارہ سو میٹر کا فاصلہ طے کریں گے اور ایک جگہ تو زمین سے چارسو پچاس میٹر کی بلندی سے بھی گزریں گے۔“
کچھ دیر بعد ہنڈولے رک گئے۔ وہ سب باہر آ گئے۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پرندے سریلی بولیاں بولتے ہوئے اڑ رہے تھے۔
”حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔“ ابو جی کہ رہے تھے۔”ان کو اللہ نے پرندوں اور جانوروں کی بولیاں سمجھنے کی صلاحیت عطا کی تھی۔“
سلیمان صاحب مسکرائے اور بولے۔”حضرت سلیمان علیہ السلام کے والد حضرت داؤد علیہ السلام بھی نبی تھے۔ اللہ نے پہاڑوں اور پرندوں کو ان کے تابع کر دیا تھا۔ وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔“
”ہم اس وقت صوبہ پنجاب کے سب سے بلند مقام پر ہیں۔ یہ جگہ سطح سمندر سے تقریباً دو ہزار تین سو میٹر بلند ہے۔ دیکھیں وہ دُور راول جھیل نظر آ رہی ہے۔ اس کے قریب اسلام آباد کی عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں۔ بائیں طرف راولپنڈی شہر ہے اور ادھر نیچے کی طرف دیکھیں، کتنا سرسبز جنگل ہے۔ یہاں طرح طرح کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔“
کچھ دیر تک اس پر فضا مقام سے لطف اندوز ہونے کے بعد وہ چاروں، ہنڈولے کی طرف بڑھ گئے، جو انہیں واپس لے جانے کے لیے اُسی وقت آ کر رکا تھا۔