زرافہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”کیا تم جانتے ہو کہ دنیا کا سب سے اونچے قد والا جانور کون سا ہے؟“ ماہ رخ نے اپنے بھائی شاہ رخ سے پوچھا۔
”سب سے اونچا جانور۔۔۔ یہ تو اونٹ ہی ہو سکتا ہے۔“ شاہ رخ نے سوچ کر جواب دیا۔
”جواب غلط ہے۔ یہی سوال ہم عفت سے کرتے ہیں!“ماہ رخ نے اس طرح اعلان کیا جیسے مقابلہ معلومات ہو رہا ہو۔
”میرا خیال ہے شتر مرغ ہو گا۔“ عفت نے بھی سوچتے ہوئے کہا۔
”آپ دونوں کا ایک ایک جواب غلط ہوا۔ صحیح جواب ہے زرافہ۔!“
”ارے ہاں، میرا تو اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ ماہ رخ باجی، زرافے کا قد کتنا اونچا ہوتا ہے۔؟“ شاہ رخ نے پوچھا۔
”قد۔۔۔ زرافے کا۔۔۔؟ ٹھہر دسوچنے دو۔۔۔“ ماہ رخ بھی سوچ میں پڑ گئی، پھر اس نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی۔ ”بھئی یہ کیا بات ہوئی،تم لوگوں سے سوال میں کر رہی ہوں، تم لوگوں نے کیوں سوال کرنے شروع کر دیے۔“
”باجی کو سوال کا جواب نہیں آیا تو ہمیں ڈانٹنے لگیں۔“ شاہ رخ نے مسکرا کر کہا۔ اسی وقت ماموں جان آگئے۔
”السلام علیکم، کیا ہوا؟ کون سے سوال کا جواب نہیں آیا؟“
”السلام علیکم ماموں جان!“ سب نے سلام کیا اور شاہ رخ بولا:
”ماہ رخ باجی ہم سے پوچھ رہی تھیں کہ دنیا کا سب سے اونچا جانور کون سا ہے۔ ہمیں یاد نہیں تھا، انہوں نے صحیح جواب بتا دیا، زرافہ، لیکن انہیں خود بھی نہیں معلوم کہ زرافے کا قد کتنا ہوتا ہے۔“
”چلو کوئی بات نہیں، اگر نہیں معلوم تو بڑوں سے پوچھ لینا چاہیے۔“ماموں جان نے پیار سے کہا۔
”ماموں جان، اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ہمیں زرافے کے بارے میں بتا ئیں۔“ عفت نے کہا۔
”وقت؟“ ماموں جان نے گھڑی دیکھی اور مطمئن ہو کر بولے،”چلو ٹھیک ہے، ابھی میرے پاس کچھ وقت ہے، لیکن پہلے آپ مجھے پانی پلائیں۔“
”ا بھی لیجیے۔“ ماہ رخ جلدی سے پانی لینے چلی گئی۔ چند لمحوں میں وہ پانی سے بھرا گلاس لے آئی۔ ماموں جان نے بسم اللہ پڑھ کر پانی پیا اللہ کا شکر ادا کیا، پھر کہنے لگے:
”بچو، زرافہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عجیب شاہکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر کروڑوں اقسام کے جاندار پیدا فرمائے ہیں، ان میں سے ہر قسم دوسری سے بالکل مختلف ہے۔ اب زرافے کو لیجیے، اس کی اونچائی تقریباً چھے میٹر یعنی اُنیس فٹ ہوتی ہے۔ ہمارے مکان کی دوسری منزل کی چھت تک کی بلندی سمجھ لیں۔“
”ماموں جان، زرافے کہاں پائے جاتے ہیں؟“عفت نے سوال کیا۔
”زرافے کی نسل اب دنیا میں تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب یہ صرف افریقہ اور صحاریٰ میں پایا جاتا ہے۔“
”ماموں جان، زرافے کی کھال کتنی خوبصورت ہوتی ہے۔“ شاہ رخ نے کہا۔
”ہاں بیٹے، اللہ نے اس جانور کو خوب صورت کھال دی ہے۔ اس پر مختلف رنگوں اور شکلوں کے دھبے ہوتے ہیں۔ کچھ زرافوں کی جلد کا رنگ کالا ہونا ہے اور اس پر ہلکے بھورے رنگ کی لکیریں ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے زرافے کے پورے جسم پر دھبے نظر آتے ہیں۔ کچھ زرافوں کے جسم پر ستاروں جیسے نشانات ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے زرافے کی جلد بھورے رنگ کی ہوتی ہے، اس پر سفید، نا رنجی اور ہلکے پیلے رنگ کے نشانات ہوتے ہیں۔ ایک اور اہم بات ہے، جس طرح ہر انسان کے ہاتھ کی لکیریں اور انگلیوں کے نشانات مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح ہر زرافے کی کھال پر دھبوں کی ترتیب مختلف ہوتی ہے۔ یہ سب اللہ کی قدرت ہے۔“ماموں جان نے تفصیل سے بتایا۔
”زرافے کے سینگ تو نہیں ہوتے،ہیں نا ماموں جان؟“ ماہ رخ نے سوال کیا۔
”یہ کس نے کہہ دیا کہ زرافے کے سینگ نہیں ہوتے۔ زرافہ نر ہو یا مادہ، اس کے دو سے چار تک چھوٹے چھوٹے سینگ ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زرافے کے سینگوں پر بھی کھال چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔“
”زرافے کا وزن تو بہت ہوتا ہوگا؟“ عفت نے پوچھا۔
”ہاں، اتنا بڑا جانور ہے وزنی تو ہو گا، زرافے کا وزن آٹھ سو کلوگرام ہوتا ہے، کچھ زرافوں کا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔“
اتنا لمبا اور وزنی جانور زیادہ تیز نہ دوڑ سکتا ہوگا۔؟“ شاہ رخ نے کہا۔
”ایسا نہیں ہے۔ جب زرافہ دوڑتا ہے تو وہ اپنے لمبے تڑنگے جسم اور لمبی گردن کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ بہت ہلکی رفتار سے دوڑ رہا ہے، حالانکہ زرافہ تقر یباً پچپن کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔“
”زرافہ کھاتا کیا ہے؟“ عفت نے سوال کیا۔
”درختوں کے پتے، پھول، پھل، چھوٹی شاخیں۔ زرافے کو اللہ نے چونکہ اونچا قد دیا ہے، اس لیے یہ بلند درختوں کی سب سے اوپر والی ٹہنیوں کی نرم پتیاں بھی آسانی سے کھڑے کھڑے کھا لیتا ہے، پھر اللہ نے اس کو زبان بھی بڑی انوکھی دی ہے۔ آپ کو معلوم ہے، زرافے کی زبان کتنی لمبی ہوتی ہے؟“ ماموں جان نے پوچھا۔
”معلوم نہیں۔“ ماہ رخ نے کہا۔
”زرافہ اپنی زبان جب منہ سے باہر نکالتا ہے تو وہ کوئی ڈیڑھ فٹ یعنی پینتالیس سینٹی میٹر تک باہر نکل آتی ہے۔ اس لمبی زبان کی وجہ سے زرافے کو بہت اونچائی پرلگی پتیاں اور نرم کونپلیں کھانے میں آسانی ہوتی ہے۔“ ماموں جان نے بتایا۔
”زرافے کی عمر کتنی ہوتی ہے؟“عفت نے پوچھا۔
”عام طور پر پچیس سال۔۔۔ بعض زرافے، اٹھائیس سال تک بھی زندہ رہتے ہیں۔ اگر اسے چڑیا گھر میں رکھا جائے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھاجائے تو چھتیس سال تک بھی زندہ رہ سکتا ہے۔“
”زرافہ اتنا اونچا جانور ہے، اسے تو زمین پر لیٹ کر سونے میں بہت مشکل پیش آتی ہو گی؟“ شاہ رخ نے پوچھا۔
”لیٹ کر؟“ ماموں جان مسکرانے لگے۔ ”بیٹے، زرافہ لیٹ کر نہیں سوتا، کھڑے کھڑے اپنی نیند پوری کر لیتا ہے!“ ماموں جان نے یہ کہہ کر گھڑی پر نظر ڈالی اور چونک کر بولے:
”او ہو، خاصا وقت ہو گیا، داستانِ زرافہ سناتے ہوئے مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ مجھے صرافہ بازار میں اپنے ایک دوست سے ملنا ہے؟“
”ماموں جان، ہمارے شہر میں بھی زرافہ بازار ہے؟ کہاں ہے؟“ عفت نے حیرت سے پوچھا۔
”زرافہ بازار نہیں بیٹے، صرافہ بازار، یعنی جہاں سونے اور سونے کے زیورات کا کاروبار ہوتا ہے۔ ویسے صرافہ، عربی زبان میں اس جگہ کو بھی کہتے ہیں، جہاں روپے پیسے کا لین دین ہوتا ہے۔ اچھا بچو، اب مجھے اجازت، اللہ حافظ، السلام علیکم۔“
”اللہ حافظ، ماموں جان، بے حد شکریہ، السلام علیکم۔“