skip to Main Content

بندر

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”ہاں بھئی فرخ، کہاں گئے تھے؟“سلمان صاحب نے اپنے تین سالہ بھانجے فرخ سے پو چھا۔
”تلیا دھل!“ (چڑیا گھر) فرخ نے اپنی توتلی زبان میں فوراً جواب دیا۔ گھر کے سب لوگ ہنس پڑے۔ فرخ کی امی نے پیار سے پوچھا:
”بیٹے، وہاں پر کون سا جانور سب سے اچھا لگا؟“
”بندل!“ (بندر) فرخ نے اپنی پسند کا اظہار بھی فوراً کر دیا۔ سب لوگ پھر ہنسے۔
فرخ اپنی امی، بڑے بھائی شاہ رخ اور بڑی بہن ماہ رخ کے ساتھ سیالکوٹ سے کراچی آیا ہوا تھا، جہاں اس کے ماموں سلمان صاحب رہتے تھے۔ آج سلمان صاحب سب بچوں کو لے کر چڑیا گھر گئے تھے، جہاں سے یہ سب ابھی واپس آئے تھے۔ فرخ کی بڑی بہن ماہ رخ آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی اور شاہ رخ فرسٹ ائیر میں تھا۔ ماہ رخ نے سلمان صاحب سے پوچھا:
”ماموں، یہاں تو چڑیا گھر میں تین چار قسم کے بندر تھے، دنیا میں کتنی قسموں کے بندر پائے جاتے ہیں؟“
”بیٹی، بندروں کی تو سیکڑوں قسمیں ہیں۔ اگر آپ کو بندروں کے متعلق جاننے سے دلچسپی ہے تو رات کے کھانے کے بعد میرے کمرے میں آ جائیے گا میں آپ کو بہت سی دلچسپ باتیں بتاؤں گا۔“ سلمان صاحب حیوانیات (زولوجی) کے پروفیسر تھے۔
رات کے کھانے کے بعد گھر کے سب لوگ چھت پر جا کر کھلی ہوا میں گپ شپ کرنے لگے۔ ماہ رخ اصرار کر کے ماموں جان کو بھی چھت پر لے گئی اور بولی:
”ہاں، ماموں جان، اب بتائیے بندر کے بارے میں!“
”لوسنو۔ بندر بڑا ذہین جانور ہے، تمام جانوروں میں بندر ہی ایسا جانور ہے جو اپنے جسم کی بناوٹ اور عادتوں میں انسان سے ملتا جلتا ہے۔ اللہ نے اس کے ہاتھ پاؤں، انسانوں کے ہاتھ پاؤں کی طرح بنائے ہیں۔ بندر ہاتھوں سے چیزوں کو پکڑ سکتا ہے لیکن ان ہی ہاتھوں سے وہ چلنے پھرنے کا کام بھی لیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بندر اپنے پیروں کی لمبی انگلیوں کی مدد سے بھی چیزوں کو پکڑ سکتا ہے۔“
واہ!“ ماہ رخ بولی۔
”ہاں! اور سنو۔ کچھ بندروں کی بہت لمبی دم ہوتی ہے، کچھ کی بہت چھوٹی اور کچھ بندر اللہ نے ایسے بھی بنائے ہیں جن کی دم ہی نہیں ہوتی!“
”ہائے اللہ! کیسے لگتے ہوں گے دم کٹے بندر!“
”وہ دم کے بغیر بھی خوش رہتے ہیں! ایک اور دلچسپ بات سنو، جس طرح ہم انسانوں کی ہتھیلیوں اور پیروں کے تلووں پر مخصوص لکیریں ہوتی ہیں، جن سے کسی بھی انسان کو شناخت کیا جا سکتا ہے، اسی طرح بندر کی بھی ہتھیلیوں اور تلووں پر مخصوص لکیریں ہوتی ہیں اور انگلیوں کے نشان بھی ہر بندر کے الگ ہوتے ہیں جن سے ہر بندر کو شناخت کیا جا سکتا ہے۔“
”یعنی ماموں جان، کسی بندر کا شناختی کارڈ بنا کر دستخط کی جگہ بندر کے انگوٹھے کا نشان لگوایا جا سکتا ہے۔“ ماہ رخ مسکرا کر بولی۔
”بالکل! اچھا تم بندروں کی قسموں کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ بندروں کی بنیادی طور پر ایک سو سے زیادہ قسمیں ہیں، پھر ان کی سینکڑوں ذیلی قسمیں ہیں، ویسے، سائنس دانوں نے بندروں کو جغرافیائی طور پر دو بڑی قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ پرانی دنیا کے بندر اور نئی دنیا کے بندر۔ پرانی دنیا کے بندروں کے نتھنے تنگ اور ایک دوسرے کے قریب قریب ہوتے ہیں۔ ان کی بھی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو پتے اور پھل وغیرہ کھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو گوشت کھاتے ہیں۔“
”ارے! بندر گوشت بھی کھاتے ہیں؟“ ماہ رخ حیران ہوگئی۔
”ہاں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ گوشت کھانے والے بندر زیادہ تر زمین پر رہتے ہیں ان میں ببون، مینڈرل اور میگا بے وغیرہ شامل ہیں۔ پتے اور پھل کھانے والے بندر زیادہ تر درختوں پر رہتے ہیں۔“
”اور نئی دنیا کے بندر؟“
”یہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔ امریکہ کونئی دنیا کہا گیا تھا نا۔ ان بندروں کے نتھنے بڑے اور ایک دوسرے سے دور ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر بندروں کی دم مضبوط ہوتی ہے۔ یہ اپنی دُم کسی شاخ کے گرد لپیٹ کر صرف دم کے سہارے لٹک سکتے ہیں۔ اس قسم کے تمام بندر درختوں پر رہتے ہیں۔ ان میں بھی دو طرح کے بندر ملتے ہیں۔ کچھ بڑے چھوٹے ہوتے ہیں جو مارمومیٹ اور ٹیمرین کہلاتے ہیں۔ بڑے بندروں میں باؤلر، اسپائڈر، کیپوچن اور گلہری بندر شامل ہیں۔“
”مامون جان، آپ کو بندروں کے متعلق کتنی زیادہ معلومات ہیں۔“ماہ رخ رشک سے بولی۔
”بس بیٹا، کتابیں پڑھتے رہنے سے معلومات بڑھتی رہتی ہیں۔ اب تو انٹرنیٹ پر بہت معلومات مل جاتی ہیں۔ اچھا اور کچھ دلچسپ باتیں سنو۔ بہت سے بندروں کی دیکھنے کی صلاحیت انسانوں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے، البتہ سونگھنے کی صلاحیت اتنی اچھی نہیں ہوتی۔ بندروں کو چھپ جانے کا فن بھی آتا ہے، دراصل بندر بہت ذہین ہوتے ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ بندر کا دماغ اور اعصابی نظام زندگی بھر بڑھتا رہتا ہے۔“
”اب آخر میں ایک بات اور سن لو جو بے حد اہم ہے۔“
”وہ کیا ماموں جان؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”قرآن مجید میں ایک قوم بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ وہی قوم ہے جو آج یہود کہلاتی ہے۔ کسی زمانے میں اس قوم پر اللہ نے بہت نعمتیں نازل کیں لیکن جب یہ قوم نافرمانی کرنے لگی تو اس کو بار بار خبردار کیا گیا، اس نے نافرمانی جاری رکھی تو اس پر عذاب آئے۔ سورۃ الاعراف میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہدایت کی تھی کہ سبت یعنی ہفتہ کے روز دنیا کا کوئی کام نہ کیا جائے۔ گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے اور جانوروں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے۔ اللہ نے اس دن کو پوری بنی اسرائیل اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے مقدس قرار دیا تھا، لیکن پھر بنی اسرائیل نے دھیرے دھیرے اس ہدایت کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ بنی اسرائیل مچھلیاں پکڑا کرتے تھے۔ اللہ نے ان کو آزمائش میں ڈالا کہ مچھلیاں ہفتے کے روز تو ابھر کر سطح سمندر پر آتی تھیں اور باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ بنی اسرائیل نے ہفتے کو مچھلیاں پکڑنا شروع کر دیں۔ اس پر اللہ نے احکام الٰہی کے خلاف چلنے والوں پر عذاب نازل کیا اور صرف ان لوگوں کو عذاب نہ دیا جو برائی سے روکتے تھے مگر جب نافرمان لوگ سرکشی کے ساتھ وہی کام کرتے رہے تب اللہ نے ان کو سزا دی اور انھیں بندر بنادیا۔“
”اف ان کی شکلیں اور جسم بندر کی طرح ہو گئے ہوں گے۔“ماہ رخ نے جھر جھری لے کر کہا۔
”ہاں۔ جو اللہ کی نافرمانی کرے، اللہ اسے سزا دیتا ہے۔ اب چلو، سب لوگ نیچے جا چکے ہیں۔“
وہ دونوں بھی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top